’’اس ندی کو میں نے اپنی زندگی میں کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا،‘‘ ۵۵ سالہ سکوبائی واگھ کہتی ہیں۔ اُس دن، ۴ اگست کو، ان کا ۲۰ سالہ بیٹا منوج اور وہ صبح تقریباً ۱۰ بجے گھر پر تھے۔ ’’باہر بہت بارش ہو رہی تھ،‘‘ وہ یاد کرتی ہیں۔ ’’اچانک پانی کی ایک تیز لہر ہماری جھونپڑی میں گھُسی۔ کچھ دیر کے لیے ہم گردن بھر پانی میں تھے، ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ہوئے۔ کچھ ہی وقت میں، میں نے جو کچھ بھی احتیاط سے رکھا تھا، محنت سے کمائے گئے پیسے سے جوڑ کر – وہ سب پانی نے ہم سے چھین لیا۔‘‘

تقریباً ۲۰ منٹ کی دہشت کے بعد، سکوبائی اور منوج قریب کے اونچے میدان تک پہنچنے میں کامیاب رہے، جہاں سے انہوں نے تباہی کو دیکھا۔ اس صبح، ویترنا ندی کے پانی نے مہاراشٹر کے پالگھر ضلع کے واڈا تعلقہ کے گاتیس خورد گاؤں میں ان کی جھونپڑی سمیت دیگر ۲۴ جھونپڑیوں کو تباہ کر دیا۔ پانی کئی گھنٹے بعد، شام میں کم ہونا شروع ہوا۔

’’یہ میری دنیا [گھریلو دنیا] ہے،‘‘ سکوبائی کہتی ہیں، ندی کے کنارے اپنی ٹوٹی ہوئی جھونپڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے۔ کیچڑ بھری زمین پر ٹوٹی ہوئی ٹائلیں ایک دوسرے کے اوپر رکھی ہیں، بانس کی چھت اور دیواروں کی باقیات، اور پھٹا ہوا ترپال پڑا ہے۔ سڑتے ہوئے چاول کی تیز بدبو، کئی دنوں تک کیچڑ میں پڑی رہنے والی پیاز اور آلو ایک بادل کی طرح وہاں لٹک رہے ہیں۔ ’’میں اس بدبو کو برداشت نہیں کر سکتی، میں بیمار محسوس کرتی ہوں،‘‘ سکوبائی کہتی ہیں۔

PHOTO • Rishikesh Wagh
PHOTO • Jyoti Shinoli

منوج واگھ اپنے ٹوٹے گھر کے ملبے کے درمیان کھڑی ہیں۔ دائیں: ان کے والد پرشورام فیملی کے چاول کے ساتھ، جو بارش سے خراب ہو گئے تھے

سیلاب کے دس دنوں بعد، ۱۳ اگست کو ان کے شوہر، ۵۸ سالہ پرشورام المونیم کے برتن میں مجھے کچھ چاول دکھاتے ہیں۔ ’’یہ ایک مہینے کے لیے میری فیملی کا راشن تھا۔ ہمارے ووٹنگ کارڈ، آدھار کارڈ، راشن کارڈ، برتن، کپڑے – سبھی کچھ جا چکے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’صرف یہ تین گودھڑی بچ گئی۔‘‘ ہاتھ سے سلی یہ چادریں اب خستہ حالت میں رسی پر سوکھ رہی ہیں۔

’’ہم ندی کے پاس رہتے ہیں، اور ہر سال مانسون کے دوران پانی کی سطح بڑھ جاتی ہے،‘‘ پرشورام کہتے ہیں۔ ’’یہ ہمارے دروازے تک پہنچ جاتا ہے، لیکن کبھی اندر نہیں آتا اور کچھ گھنٹوں میں ہی کم ہونے لگتا ہے۔ صرف ایک بار، ۲۰۰۵ میں، پانی ہماری جھونپڑیوں میں داخل ہو گیا، لیکن تب یہ صرف گھُٹنے تک تھا اور اس نے ہماری جھونپڑیوں کو برباد نہیں کیا۔ اس سال یہ بہت برا تھا۔‘‘

پرشورام اور سکوبائی کاتکری آدیواسی ہیں – مہاراشٹر میں خاص طور سے کمزور قبائلی گروپ کے طور پر درج فہرست کمیونٹی – اور ۱۵۰ روپے یومیہ اُجرت پر زرعی مزدوری کے طور پر کام کرتے ہیں۔ جب ان کی جھونپڑی گر گئی، تو وہ اسی گاؤں میں ندی کے دوسری طرف سکوبائی کے بھائی کے گھر چلے گئے۔ گاتیس خورد ویترنا ندی کے ذریعے دو حصوں میں منقسم ہے، اور شمالی ساحل پر کنکریٹ کے زیادہ تر گھر سیلاب سے متاثر نہیں ہوئے تھے۔ یہ ۸۸۱ لوگوں کی آبادی والا گاؤں ہے (۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق)، جن میں سے ۲۲۷ درج فہرست قبیلہ کے ہیں۔

PHOTO • Jyoti Shinoli
PHOTO • Jyoti Shinoli

کویتا بھوئیر نے سیلاب سے بچائے گئے کچھ برتنوں کے ساتھ اپنی رسوئی کو پھر سے منظم کیا۔ دائیں: وہ اب ختم ہوتے راشن کو لیکر فکرمند ہیں

’’ہمارے پاس زمین نہیں ہے۔ ہم جو بھی کماتے ہیں وہ زرعی مزدوری سے آتا ہے،‘‘ ۳۵ سالہ کویتا بھوئیر کہتی ہیں، جن کی جھونپڑی پاس میں ہی ہے۔ ’’جون جولائی میں ہم نے تقریباً ۲۰ ہزار روپے کمائے تھے۔ [وہ اور ان کے شوہر کیشو میں سے ہر ایک نے ۲۰۰ روپے، ۵۰ دنوں تک]۔ بوائی کے بعد ہم اتنا نہیں کما پاتے ہیں۔ میں نے ۱۰ ہزار روپے دال کے ایک ڈبّے میں بحفاظت رکھے تھے۔ مشکل وقت میں استعمال کرنے کے لیے یہ ہماری بچت تھی۔ اب کچھ بھی نہیں ہے...‘‘

کیشو کے ساتھ کویتا اپنے بھائی کے گاؤں (ندی کے دوسری طرف) گئی ہوئی تھیں، تاکہ ان کے ایک ایکڑ کھیت میں ان کی مدد کر سکیں۔ ’’ہمیں فون پر بتایا گیا کہ یہاں سیلاب آ گیا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’اگلے دن جب ہم آئے، تو گھاس اور مٹی سے بنی ایک دیوار ٹوٹ چکی تھی۔ ٹخنے تک کیچڑ تھا۔‘‘ بھوئیر فیملی نے اگلے دو دن بالٹیوں سے کیچڑ پھینکنے اور اپنے بچے ہوئے سامان کو پھر سے منظم کرنے میں گزارے۔ کپڑے سے بھار ایک تھیلا، پلاسٹک کے ڈبّے، ایک اسٹیل کا ڈبّہ، اسٹیل کی ۲-۳ پلیٹیں، بستر پر بچھانے والی کچھ چادریں – سبھی کیچڑ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ’’جو کچھ بھی بچا تھا ہم نے اسے دھویا اور اس کا استعمال کرنا شروع کیا۔ میرے بیٹے کی کتابیں اور کاپیاں بھیگ گئی تھیں، میں نے انہیں چُل [مٹی کے چولہے] پر خشک کیا،‘‘ کویتا کہتی ہیں، اپنے خالی باورچی اسٹینڈ کو دیکھ کر، اس میں رکھے بہت سارے برتن سیلاب کے پانی میں بہہ گئے۔

’’پنچایت کے لوگوں اور کچھ سماجی کارکنوں نے ہمیں تھوڑا راشن دیے۔ لیکن تعلقہ دفتر [واڈا کے تحصیل دار کے دفتر] سے ابھی تک پنچ نامہ [جانچ ریکارڈ] کے لیے کوئی نہیں آیا ہے اور ہمیں کوئی پیسہ بھی نہیں دیا گیا ہے،‘‘ کیشو کہتے ہیں۔ ’’ہمارے لوگ یہاں نسلوں سے رہ رہے ہیں،‘‘ کویتا کہتی ہیں۔ ’’سرکار کو ہمیں رہنے کے لیے ایک محفوظ جگہ دینی چاہیے۔ اگر ندی میں پھر سے سیلاب آ گیا تب کیا ہوگا؟‘‘

سیلاب کے ایک دن بعد، ۵ اگست کو گاتیس خورد گرام پنچایت نے پانچ کلو چاول، پانچ کلو گیہوں کا آٹا، دو کلو دال، دو کلو چینی، ۲۵۰ گرام چائے کا پاؤڈر، تیل کے آدھا آدھا کلو کے دو پیکٹ، نمک کا ایک پیکٹ، اور کچھ سرخ مرچ پاؤڈر اور ہلدی پاؤڈر گاتیس خورد کے ۲۵ سیلاب متاثرہ کنبوں میں تقسیم کیے۔ ’’دیے گئے سبھی راشن اب ختم ہونے والے ہیں،‘‘ کویتا کہتی ہیں۔

PHOTO • Jyoti Shinoli
PHOTO • Rishikesh Wagh

سیلاب کے بعد ویترنا ندی گاتیس خورد گاؤں میں پہلے کی طرح بہہ رہی ہے۔ دائیں: وہی ندی سیلاب کے دن – ۴ اگست کو

۴-۵ اگست کو ہونے والی بھاری بارش نے واڈا تعلقہ کے ۵۷ گاؤوں کو متاثر کیا، تحصیل دار دنیش کُرہاڈے نے مجھے بتایا۔ وہ کہتے ہیں کہ سب سے بری طرح متاثر گاؤوں میں، گاتیس خورد، بورانڈے، کارنجے، نانے اور گورہے – یہ سبھی ویترنا ندی کے کنارے ہیں۔ ۱ سے ۷ اگست تک، پالگھر میں ۷۲۹ء۵ ملی میٹر بارش ہوئی – ہفتہ کے دوران یہاں کی عام بارش ۲۰۴ ملی میٹر ہے۔

۴ اگست کو، گاتیس خورد سے تقریباً سات کلومیٹر دور، ۱۲۶ کنبوں اور ۴۹۹ لوگوں (مردم شماری ۲۰۱۱) کا گاؤں، بورانڈے پوری طرح سے ڈوب گیا تھا۔ صرف چھت اور بجلی کے ستون دکھائی دے رہے تھے۔ یہاں کنکریٹ کے ہر ایک گھر کی دیواروں پر اب پانی کی سطح کا نشان ہے، جب کہ پھوس کی چھت والے کچے مکان ڈھہ گئے۔

’’صبح کے ۶ بج رہے تھے۔ ہم سو رہے تھے، تبھی میں نے اپنی بیڈ شیٹ پر کچھ پانی محسوس کیا۔ میں اُٹھا اور دیکھا کہ گھر کے اندر پانی گھُس آیا ہے۔ میں نے جلدی سے اپنے بچوں اور بیوی کو جگایا اور اپنی جان بچانے کے لیے بھاگے۔ تبھی ایک بڑی لہر گھر میں گھُسی۔ وہ سب کچھ بہا لے گئی، ہم کچھ بھی نہیں بچا سکے،‘‘ ۴۵ سالہ انل راج کور کہتے ہیں۔ ’’ہر جگہ پانی ہی پانی تھا، ہر کوئی اپنے گھروں کے باہر تھا، کمر بھر پانی میں۔ ہر کوئی چیخ رہا تھا اور ہاہاکار مچی ہوئی تھی...‘‘

انل، ان کی ۳۲ سالہ بیوی پاروَتی، اور ان کے بچّے کئی دیگر لوگوں کے ساتھ پانی میں تقریباً آدھے گھنٹے تک چلے، تب جا کر گاؤں کے باہر ایک کھلے میدان میں پہنچے۔ وہاں کئی لوگ دو دنوں تک ایک ٹِن کے گودام میں مقیم رہے، جب تک کہ پانی کی سطح گھٹی نہیں۔ انل اور پاروَتی سال کے آٹھ مہینے ۱۵۰ روپے یومیہ اجرت پر زرعی مزدوری کے طور پر کام کرتے ہیں۔ جب کہ، تحصیل دار دنیش کُرہاڈے کہتے ہیں کہ گاؤں میں ۱۰۲ کنبوں کو کچھ مدد ملی ہے، لیکن ابھی تک انل کی فیملی ان میں شامل نہیں ہے۔

PHOTO • Jyoti Shinoli
PHOTO • Jyoti Shinoli

میوری ہلیم اور ان کا بھائی اپنے گھر کے سامنے کھڑے ہیں، جہاں ایک دیوار گر گئی تھی۔ دائیں: انل راج کور اپنے پھوس کے گھر کے کھنڈہر میں

’’بدقسمتی سے، بورانڈے میں ہر کوئی محفوظ تھا۔ ہم نے اس گودام میں دو دن گزارے۔ کچھ سماجی کارکنوں نے ہمیں کھانا اور پینے کے لیے پانی دیا۔ جب پانی کم ہونے لگا، تو ہم اپنے گھروں کو لوٹ آئے۔ ہر جگہ کیچڑ ہی کیچڑ تھا۔ ایک دیوار گر گئی ہے،‘‘ ۳۲ سالہ میوری ہلیم کہتی ہیں۔ وہ جون سے ستمبر تک زرعی مزدور کے طور پر کام کرتی ہیں، یومیہ ۱۵۰ روپے کماتی ہیں، اور پھر اپنی فیملی کے ساتھ اینٹ کے بھٹوں پر مزدوری کرنے کے لیے تقریباً ۷۰ کلومیٹر دور، ڈہانو تعلقہ چلی جاتی ہیں۔

’’۳ اور ۴ اگست کو، واڈا تعلقہ میں دو دنوں میں [کل] ۴۰۰ ملی میٹر بارش ہوئی۔ نتیجتاً، ویترنا ندی میں سیلاب آ گیا۔ ۴ اگست کو، اونچی لہر آئی، اور سمندر چونکہ ویترنا ندی سے اضافی پانی نہیں لے رہا تھا، اس لیے یہ ندی کے پاس کے گاؤوں میں داخل ہو گیا،‘’ تحصیل دار دنیش کُرہاڈے کہتے ہیں۔ ’’اُن دنوں میں تعلقہ میں انسانوں یا جانوروں کا زیاں نہیں ہوا۔ سبھی گؤوں کو ہمارے راحت دینے کا عمل جاری ہے۔‘‘

ویترنا ندی کا پانی اب خاموشی سے بہہ رہا ہے۔ لیکن سکوبائی کی تشویش ابھی خاموش نہیں ہوئی ہے، اور وہ پوچھتی ہیں: ’’اگر ندی کو دوبارہ غصہ آ گیا تو؟‘‘

PHOTO • Jyoti Shinoli

گاتیس خورد گاؤں کے کاتکری آدیواسی، جو سیلاب میں اپنا گھر اور سامان کھو بیٹھے

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Jyoti Shinoli is a Senior Reporter at the People’s Archive of Rural India; she has previously worked with news channels like ‘Mi Marathi’ and ‘Maharashtra1’.

Other stories by Jyoti Shinoli
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez