’’پندرہ، سولہ، اٹھارہ…‘‘ کھنڈو مانے، اٹھّیا کی پیٹھ پر ٹنگی بوری میں کچی اینٹیں گنتی کرکے رکھ رہے ہیں۔ اور پھر وہ گدھے سے کہتے ہیں: ’’چل…پھرّ…پھرّ…‘‘ اٹھیّا اور بوجھ لادے دو دوسرے گدھے وہاں سے ۵۰ میٹر دور بھٹّی کی طرف بڑھنے لگتے ہیں، جہاں ان اینٹوں کو آگ میں پکانے کے لیے اتارا جاتا ہے۔

کھنڈو کہتے ہیں، ’’بس ایک گھنٹے اور؛ اس کے بعد ہم آرام کریں گے۔‘‘ لیکن ابھی تو صبح کے ۹ ہی بجے ہیں! ہمارے چہرے کی حیرانی کو دیکھ کر وہ بتاتے ہیں: ’’ہم نے رات کو ایک بجے سے کام شروع کیا تھا۔ تب بالکل اندھیرا تھا۔ ہماری شفٹ صبح ۱۰ بجے ختم ہو جاتی ہے۔ رات بھر ہے اسنچ چالو آہے [ہم پوری رات کام کرتے رہے ہیں]۔‘‘

کھنڈو کی ٹکڑی کے چار گدھے بھٹی سے لوٹ آئے ہیں۔ ان کی پیٹھ کی بوریاں خالی ہو چکی ہیں۔ وہ دوبارہ اپنی گنتی شروع کرتے ہیں: ’’چودہ، سولہ، اٹھارہ…‘‘

پھر وہ اچانک آواز لگاتے ہیں، ’’رکو…‘‘ وہ اپنی ٹکڑی کے ایک گدھے کو ہندی میں حکم دیتے ہیں۔ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’ہمارے مقامی گدھے مراٹھی سمجھتے ہیں، لیکن یہ نہیں سمجھتا۔ یہ راجستھان سے آیا ہے۔ ہمیں اسے ہندی میں آرڈر دینا ہوتا ہے۔‘‘ پھر وہ اس بات کا نمونہ دکھانے لگتے ہیں: رکو۔ گدھا وہیں ٹھٹھک کر رک جاتا ہے۔ چلو۔ وہ چلنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔

اپنے چوپائے دوستوں کے تئیں کھنڈو کی محبت اس کے لیے فخر کی بات ہے۔ ’’لمبو اور پندھریہ گھاس چرنے گئے ہیں، اور میرا سب سے پیارا بلیٹ بھی۔ وہ لمبی اور خوبصورت ہونے کے ساتھ ہی بہت پھرتیلی بھی ہے!‘‘

PHOTO • Ritayan Mukherjee

کھنڈو مانے، سانگلی شہر کے باہری علاقے میں واقع سانگلی واڑی کے جوتیبا مندر احاطے کے پاس ایک اینٹ بھٹے پر اٹھّیا کی پیٹ پر اینٹیں لادتے ہیں

PHOTO • Ritayan Mukherjee
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: کرناٹک کے بیلگام ضلع کے اتھنی تعلقہ کے جوتیبا مندر کے پاس واقع بھٹے پر ولاس کُڈچی اور روی کڈچی گنّے کے بھوسے کا بوجھ اٹھا رہے ہیں، جس کا استعمال اینٹیں بنانے میں کیا جائے گا۔ دائیں: اینٹوں کا بوجھ لے کر ایک چکّر لگانے کے بعد مزید اینٹیں لینے کے لیے لوٹ رہے گدھے

ہم ان سے سانگلی واڑی کے پاس کے ایک اینٹ بھٹے پر ملے تھے جو مہاراشٹر کے سانگلی شہر کے باہری علاقے میں آباد ہے۔ اس علاقے میں جوتیبا مندر کے ارد گرد کئی اینٹ بھٹے ہیں۔ تقریباً ۲۵ کی گنتی تو خود ہم نے کی۔

اینٹ بنانے میں کام آنے والے گنّے کے بھوسوں سے بھری بوریوں کی میٹھی خوشبو بھٹی سے اٹھنے والے دھوئیں کے ساتھ مل کر صبح کی ہوا میں گھل گئی ہے۔ ہر ایک بھٹے پر ہمیں مرد، عورتیں، بچے اور گدھے رات دن کام کرنے میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔ کچھ مزدور مٹی ملا رہے ہیں، جب کہ کچھ دیگر اس مٹی کو اینٹ کے سانچے میں ڈال رہے ہیں۔ کچھ مزدور ان اینٹوں کو ڈھونے میں مصروف ہیں، جب کہ دوسرے انہیں اتار کر قطاروں میں رکھ رہے ہیں۔

گدھوں کا آنا جانا جاری ہے۔ وہ دو…یا چار…یا چھ کی جوڑیوں میں اپنا کام نمٹا رہے ہیں…

کھنڈو بتاتے ہیں، ’’ہم گزشتہ کئی نسلوں سے گدھے پالنے کا کام کرتے ہیں۔ میرے ماں باپ نے یہی کام کیا، میرے دادا دادی نے بھی یہی کام کیا، اور اب میں بھی یہی کر رہا ہوں۔‘‘ سانگلی شہر سے تقریباً ۱۵۰ کلومیٹر دور، سولاپور کے پنڈھر پور بلاک کے اصلی باشندہ کھنڈو، ان کی فیملی اور ان کے گدھے سانگلی کے اپنے گاؤں ویلاپور سے ہر سال نومبر-دسمبر سے لے کر اپریل-مئی کے درمیان اینٹ بنانے کے سیزن میں یہاں چلے آتے ہیں۔

وہیں ہمیں کھنڈو کی بیوی مادھوری بھی نظر آئیں، جو گدھوں کے ذریعے لائی گئی کچی اینٹوں کو اتارنے اور قطاروں میں رکھنے کے کام میں مصروف ہیں۔ ان کی دونوں بیٹیاں – ۹ سال کی شراونی اور ۱۳ سال کی شردھا – ان گدھوں کو ان کی منزلوں کے درمیان لانے و لے جانے کا کام کر رہی ہیں۔ لڑکیوں کا ۵-۴ سالہ بھائی اپنے والد کے پاس بیٹھا چائے بسکٹ کھا رہا ہے۔

PHOTO • Ritayan Mukherjee
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: مادھوری مانے اتاری گئی اینٹوں کی ایک جوڑی ایک مزدور کی طرف پھینکتی ہیں، جو انہیں ایک قطار میں رکھ دیتا ہے۔ دائیں: مادھوری اور ان کے بچے اینٹ بھٹے پر بنے بے حد تنگ گھر میں۔ اس عارضی جھونپڑی کی چھت کے لیے اسبستوس شیٹ لگائی گئی ہے، اور دیواریں ڈھیلے ڈھالے طریقے سے رکھی اینٹوں سے بنائی گئی ہیں۔ یہاں بیت الخلاء کی سہولت نہیں ہے اور نہ ہی دن میں بجلی آتی ہے

مادھوری ایک بار میں دو اینٹیں اتارتی ہوئی بتاتی ہیں، ’’شراونی اور شردھا سانگلی کے ایک رہائشی اسکول میں پڑھتی تھیں، لیکن ہمیں ان کی پڑھائی روک دینی پڑی تاکہ وہ ہماری مدد کر سکیں۔ ہم نے ایک میاں بیوی کو کام میں ہماری مدد کرنے کے لیے مزدوری پر رکھا تھا۔ انہوں نے ہم سے ۸۰ ہزار روپے ایڈوانس میں لے لیے اور فرار ہوگئے۔ اب ہمیں ہی اگلے دو مہینوں میں سارا کام پورا کرنا ہے۔‘‘ اتنا کہنے کے بعد وہ تیزی سے اپنے کام پر لوٹ جاتی ہیں۔

ہر اینٹ جو مادھوری اتار رہی ہیں، وزن میں کم از کم دو کلو کی ہے۔ وہ ان اینٹوں کو ایک دوسرے مزدور کی طرف اچھالتی ہیں، جو قطاروں میں رکھی اینٹوں کے اونچے ڈھیر پر کھڑا ہے۔

’’دس…بارہ…چودہ…‘‘ وہ جھک کر اینٹوں کو لپکتے ہوئے گن رہا ہے، اور انہیں تیزی سے ترتیب وار قطاروں میں رکھتا جا رہا ہے۔ ان کچی اینٹوں کو بھٹی میں پکایا جانا ہے۔

*****

ہر روز ٹھیک آدھی رات کے بعد سے صبح کے دس بجے تک کھنڈو، مادھوری اور ان کے بچے ساتھ مل کر تقریباً ۱۵ ہزار اینٹوں کو لادتے اور اتارتے ہیں۔ اس کام میں ان کے ۱۳ گدھوں کی ٹکڑی ان کی مدد کرتی ہے، جو تقریباً ہر روز ۲۳۰۰ کلو کے برابر اینٹیں اٹھاتے ہیں۔ اپنے ساتھ چلنے والے مزدوروں کے ساتھ ایک دن میں یہ جانور کل ۱۲ کلومیٹر کی دوری طے کرتے ہیں۔

کھنڈو کی فیملی بھٹی تک پہنچائی گئی ہر ۱۰۰۰ اینٹوں کے بدلے ۲۰۰ روپے کماتی ہے۔ اسے اینٹ بھٹہ مالک کے ذریعے چھ مہینے تک کام کرنے کے لیے ادا کی گئی پیشگی رقم میں ہی جوڑ دیا جاتا ہے۔ پچھلے سیزن میں، کھنڈو اور مادھوری کو پیشگی رقم کے طور پر ۲ لاکھ ۶۰ ہزار روپے ملے تھے – ہر ایک گدھے کے حساب سے ۲۰ ہزار روپے۔

PHOTO • Ritayan Mukherjee

مادھوری اور ان کے شوہر کھنڈو (زرد ٹی شرٹ میں) اپنے گدھوں کے ذریعے ڈھوئی گئی اینٹوں کو اتارتے ہیں اور انہیں قطار میں رکھنے والے مزدوروں کو پکڑاتے ہیں

سانگلی سے ۷۵ کلومیٹر دور واقع کولہاپور ضلع کے بھامب وڈے میں دو اینٹ بھٹوں کے مالک وکاس کُنبھار، جو تقریباً ۲۵ سال کے ہیں، کہتے ہیں، ’’ہم عام طور پر ہر جانور کے حساب سے ۲۰ ہزار روپے گنتے ہیں۔ چرواہوں کو دی جانے والی رقم پیشگی طور پر ادا کر دی جاتی ہے۔ جتنے زیادہ گدھے، اتنی ہی زیادہ پیشگی رقم۔‘‘

پورا سودا چھ مہینے کی مدت میں اٹھائی گئی اینٹوں کے محنتانہ سے تمام قسم کی پیشگی رقم اور قرض کے پیسوں کو گھٹا کر نکلنے والے پیسے کی بنیاد پر طے ہوتا ہے۔ وکاس کہتے ہیں، ’’ہم ان کے ذریعے کل پیداوار، کھانے پینے کے لیے دیے گئے ہفتہ واری خرچے (فی فیملی ۲۰۰ سے ۲۵۰ روپے)، اور دوسرے اخراجات کے عوض میں ادائیگی کرتے ہیں۔‘‘ وہ تفصیل سے بتاتے ہیں کہ اگر کوئی مزدور کل پیشگی رقم کے برابر کام نہیں کر پاتا ہے، تو بقایا پیسہ اس پر قرض رہتا ہے، جسے اسے اگلے سال چکانا ہوتا ہے۔ کھنڈو اور مادھوری جیسے کچھ مزدور پیشگی رقم کا ایک حصہ کرایے پر مدد کرنے والے مزدوروں کو چکانے کے لیے محفوظ رکھتے ہیں۔

*****

اس علاقے میں سرگرم مویشیوں کی فلاحی تنظیم ’اینیمل راحت‘ کے ایک کارکن بتاتے ہیں، ’’سانگلی ضلع میں پلوس اور مہیسال کے درمیان تقریباً ۴۵۰ اینٹ بھٹے ہیں، کو کرشنا ندی کے کنارے بنے ہوئے ہیں۔‘‘ سانگلی واڈی ۸۵-۸۰ لمبے ندی کے اس ساحل کے تقریباً بالکل درمیان میں پڑتا ہے۔ ان کے ساتھ کام کرنے والا ایک آدمی بتاتا ہے، ’’بھٹوں پر ۴۰۰۰ سے بھی زیادہ گدھے کام کرتے ہیں۔‘‘ وہ دونوں باقاعدگی سے گدھوں کی صحت کی جانچ کرنے آتے رہتے ہیں۔ ان کی تنظیم ناگہانی صورتحال کے لیے ایک ایمبولنس سروس بھی چلاتی ہے اور سنگین طور سے بیمار جانوروں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔

جس وقت کام کی شفٹ بدلتی ہے، ہم بہت سے گدھوں کو جوتیبا مندر کے قریب ندی کی طرف بھاگتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ان کی دیکھ بھال کرنے والے نوجوان عمر کے لڑکے موٹر سائیکل اور سائیکلوں پر سوار ہو کر ان کو گھاس چرانے لے جاتے ہیں۔ اسی وقت زیادہ تر گدھے علاقے کی کچرے والی جگہوں پر لید کرتے ہیں۔ شام تک ان کی دیکھ بھال کرنے والے انہیں لے کر لوٹ جاتے ہیں۔ حالانکہ، کھنڈو، مادھوری اور گدھے رکھنے والے کئی دوسرے مزدور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اپنے مویشیوں کے چارے کا انتظام وہ خود کرتے ہیں، لیکن ہمیں ان کا چارہ کہیں نظر نہیں آیا۔

PHOTO • Ritayan Mukherjee
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: گدھوں کے ایک گروپ کو ان کا چرواہا چرانے کے لیے لے جا رہا ہے، جو اپنی موٹر سائیکل پر جانوروں کے پیچھے چل رہا ہے۔ دائیں: چرواہوں کو مویشیوں کے علاج سے متعلق مدد فراہم کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کا ایک کارکن، جگو مانے کے ایک گدھے کو انجیکشن لگا رہا ہے

جنا بائی مانے (۴۵ سال) بتاتی ہیں، ’’ہم دو گُنٹھا (تقریباً آدھا ایکڑ) کھیتی کی زمین کو ہر سال اپنے مویشیوں کو گھاس اور کڈبا (جوار کے سوکھے ہوئے پوال) کھلانے کے لیے کرایے پر لیتے ہیں۔ ہر چھ مہینے کے لیے ۲۰۰۰ روپے کرایے کے طور پر چکانے پڑتے ہیں۔ لیکن، ہماری زندگی اُن پر ہی منحصر ہے۔ اگر ان کو کھانا نہیں ملے گا، تو ہم ٹھیک سے کیسے کھا سکیں گے؟‘‘

ٹن کی چھت والے اپنے گھر میں بیٹھ کر ہم سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اپنا دوپہر کا کھانا ختم کیا۔ گھر کی دیواریں ایک دوسرے پر ایسے ہی ترتیب وار رکھی ہوئی اینٹوں سے بنی ہیں، اور کمرے کے فرش کو تازہ گوبر سے لیپا گیا ہے۔ وہ ہم سے پلاسٹک کی چٹائی پر بیٹھنے کی درخواست کرتی ہیں۔ جنا بائی کہتی ہیں، ’’ہم پھلٹن (ضلع ستارا) سے آتے ہیں، لیکن میرے گدھوں کے لیے وہاں پر کوئی کام نہیں ہے۔ اس لیے، گزشتہ ۱۲-۱۰ سالوں سے ہم سانگلی میں کام کرتے آ رہے ہیں۔ جتھے تیانا کام، تتھے آمہی (جہاں کام ملتا ہے، ہم وہاں جاتے ہیں)۔‘‘ ان کی سات رکنی فیملی سانگلی میں ہی رہتی ہے، جب کہ کھنڈو اور ان کی فیملی صرف اینٹ بنانے کے سیزن میں ہی وہاں آتے ہیں۔

جنا بائی اور ان کی فیملی نے ابھی حال ہی میں سانگلی شہر کے باہری علاقے میں ڈھائی گُنٹھا (تقریباً صفر اعشاریہ ۶ ایکڑ) زمین خریدی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہر موسم میں آنے والے سیلاب میرے مویشیوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ اس لیے ہم نے پہاڑیوں کے پاس کی زمین خریدی ہے۔ ہم وہاں ایک ایسا گھر بنائیں گے جس کی نچلی منزل گدھوں کے رہنے کے لیے ہوگی اور پہلی منزل پر ہماری فیملی رہے گی۔‘‘ ان کا پوتا ان کی گود میں آ بیٹھتا ہے۔ وہ کافی خوش نظر آ رہے ہیں۔ وہ بکریاں بھی پالتی ہیں؛ ہم ان کے ممیانے کی آواز سنتے ہیں۔ وہ شاید اپنے چارے کا انتظار کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میری بہن نے مجھے تحفے میں ایک بکری دی تھی۔ میرے پاس اب کل جمع ۱۰ بکریاں ہو گئی ہیں۔‘‘ جنا بائی کی آواز میں ایک خوشی جھلک رہی ہے۔

وہ شکایتی لہجے میں بولتی ہیں، ’’گدھوں کو پالنا اب روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ کبھی ہمارے پاس ۴۰ گدھے ہوا کرتے تھے۔ ایک گجرات سے آیا گدھا دل کا دورہ پڑنے سے مر گیا، اور ہم اسے بچا نہیں پائے۔‘‘ اب ان کے پاس ۲۸ گدھے بچے ہیں۔ سانگلی سے ایک ڈاکٹر چھ مہینے میں ایک یا دو بار ان کی جانچ کرنے کے لیے آتے ہیں۔ لیکن گزشتہ تین مہینوں میں ہی فیملی کو اپنے چار گدھوں کی جانیں گنوانی پڑیں۔ تین گدھے گھاس چرتے وقت کوئی زہریلی چیز کھانے سے مرے، اور ایک حادثہ میں مارا گیا۔ جنا بائی بتاتی ہیں، ’’ہمارے والد کی نسل کے لوگ آیورویدک علاج جانتے تھے، لیکن ہم نہیں جانتے ہیں۔ اب ہم عموماً ایک دکان میں جاتے ہیں اور دواؤں کی بوتلیں خرید لاتے ہیں۔‘‘

PHOTO • Ritayan Mukherjee
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: جنا بائی مانے اور ان کی فیملی کے پاس سانگلی میں ۲۸ گدھے ہیں۔ ’اب گدھوں کو پالنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘ دائیں: ان کے بیٹے سومناتھ مانے دن کا کام شروع کرنے سے پہلے گدھوں کی خیر خبر لیتے ہیں

*****

مہاراشٹر میں کئی گروپ گدھوں کو پالنے کا کام کرتے ہیں۔ ان میں کیکاڈی، بیلدار، کنبھار، اور وڈار برادریاں قابل ذکر ہیں۔ کیکاڈی برادری جس سے کھنڈو، مادھوری اور جنا بائی کا تعلق ہے، خانہ بدوش آدیواسی تھے جنہیں انگریزوں نے ’مجرم‘ قرار دے دیا تھا۔ سال ۱۹۵۲ میں کرمنل ٹرائبس ایکٹ کے خاتمہ کے ساتھ ہی انہیں بھی ’مجرموں‘ کی فہرست سے باہر کر دیا گیا۔ لیکن ابھی بھی وہ سماج میں شک کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ روایتی طور پر کیکاڈی برادری کے لوگ ٹوکریاں اور جھاڑو بناتے تھے۔ ودربھ علاقے کے آٹھ ضلعوں کو چھوڑ کر مہاراشٹر کے زیادہ تر حصے میں کیکاڈی برادری کو آج بھی ’وِمُکت جاتی‘ کے طور پر درج فہرست کیا گیا ہے۔ ودربھ میں اسے درج فہرست ذات کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔

مویشیوں کے طور پر گدھا پالنے والی کیکاڈی برادری کے زیادہ تر لوگ اپنے مویشی پونہ ضلع کے جیجوری یا احمد نگر ضلع کے مڈھی سے خریدتے ہیں۔ کچھ لوگ گجرات اور راجستھان کے گدھا بازار بھی جاتے ہیں۔ جنا بائی کہتی ہیں، ’’ایک جوڑی گدھے ۶۰ ہزار سے ۱۲ ہزار روپے میں ملتے ہیں۔ وہ آگے بتاتی ہیں کہ ’’ویسے گدھے جن کے ابھی دانت نہ نکلے ہوں، زیادہ مہنگے ملتے ہیں،‘‘ کیوں کہ دانتوں سے ان کی عمر کا پتہ چلتا ہے۔ گدھے کے پہلے جوڑی دانت ان کی پیدائش کے کچھ ہفتے بعد ہی نظر آنے لگتے ہیں، لیکن بعد میں دانت گر جاتے ہیں اور نوعمری میں اُگ آئے دانت نئے دانتوں کی جگہ لے لیتے ہیں، جو مستقل ہوتے ہیں۔ تب گدھے تقریباً پانچ سال کے ہو چکے ہوتے ہیں۔

بہرحال، گزشتہ دہائی سے ہندوستانی گدھوں کی تعداد میں تیزی سے کمی آئی ہے، اور یہ بات تشویش ناک ہے۔ سال ۲۰۱۲ سے لے کر ۲۰۱۹ کے درمیان ان کی تعداد میں ۶۱ اعشاریہ ۲ فیصد کمی درج کی گئی ہے۔ مویشیوں کی گنتی کے مطابق، سال ۲۰۱۲ میں ۳ لاکھ ۲۰ ہزار کے مقابلے ۲۰۱۹ میں وہ گھٹ کر صرف ایک لاکھ ۲۰ ہزار ہی رہ گئے ہیں۔ مہاراشٹر، جو گدھوں کی تعداد کے معاملے میں دوسرے مقام پر ہے، وہاں ۲۰۱۹ کی گنتی کے مطابق گدھوں کی کل تعداد ۱۷ ہزار ۵۷۲ درج کی گئی، جو ۲۰۱۲ کے مقابلے ۴۰ فیصد کم تھی۔

تیزی سے آئی اس گراوٹ نے جانوروں کی فلاح سے متعلق تشکیل کردہ ایک رضاکار تنظیم ’بروک انڈیا‘ نے صحافی شرت کے ورما کو ایک تفتیشی مطالعہ کرنے کے لیے آمادہ کیا۔ ان کے مطالعہ نے اس کمی کے لیے مختلف اسباب کو ذمہ دار بتایا۔ مثال کے طور پر مویشیوں کے استعمال میں آئی کمی، انہیں پالنے والی برادریوں کے ذریعے اپنے پیشہ کو تبدیل کرنا، نقل و حمل کے جدید نظام کا عروج، چراگاہوں کے لیے سکڑتی ہوئی زمینیں، مویشیوں کو غیر قانونی طریقے سے ذبح کرنا، اور مویشیوں کی چوری۔

PHOTO • Ritayan Mukherjee
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: ایک چرواہا اپنے گدھے کو پیار سے تھپتھپا رہا ہے۔ دائیں: میراج قصبہ کے لکشمی مندر علاقے میں واقع ایک بھٹے پر اینٹ اتارتا ایک مزدور

سانگلی کے ’بروک انڈیا‘ کے پروگرام رابطہ کار، ڈاکٹر سجیت پوار کہتے ہیں، ’’جنوبی ریاستوں میں، خاص کر آندھرا پردیش کے گنٹور علاقے میں گدھوں کے گوشت کی کافی مانگ ہے۔‘‘ ورما کی تحقیق میں ایسے متعدد تبصرے ہیں جو آندھرا پردیش کے متعدد ضلعوں میں گوشت کے لیے گدھوں کو اندھا دھند ذبح کرنے کے بارے میں بتاتی ہیں۔ سستا ہونے کے علاوہ، ایسا مانا جاتا ہے کہ گدھے کے گوشت میں ادویاتی خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں اور یہ مردانہ طاقت کو بڑھاتا بھی ہے۔

پوار الگ سے یہ بات جوڑتے ہیں کہ گدھوں کے چمڑے کی اسمگلنگ کرکے انہیں چین بھیجا جاتا ہے۔ ایک روایتی چینی دوا ’ایجیاؤ‘ میں استعمال ہونے والا یہ اہم جزو ہے، اور اسی لیے اس کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ ’بروک انڈیا‘ کے ذریعے جاری کی گئی رپورٹ میں گدھوں کو غیر قانونی طریقے سے ذبح کرنے اور گدھوں کی چوری میں گہرا تعلق بتایا گیا ہے۔ رپورٹ اس نتیجہ پر بھی پہنچتی ہے کہ گدھوں کے چمڑے کی غیر قانونی تجارت میں اضافہ کی بنیادی وجہ چین میں اس کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ انہی تمام وجوہات سے یہ مویشی ہندوستان میں تیزی سے ختم ہونے کے دہانے پر پہنچ رہے ہیں۔

*****

چھ سال پہلے بابا صاحب ببن مانے (۴۵ سال) کے سبھی ۱۰ گدھے چوری ہو گئے تھے۔ ’’اس کے بعد ہی میں نے اینٹ بھٹوں پر مزدوری کرنے کا کام شروع کر دیا۔ اب پہلے کے مقابلے میری آمدنی بہت کم ہو گئی ہے۔‘‘ گدھوں کے مالک ہر ۱۰۰۰ اینٹوں کو لادنے اتارنے کے عوض روزانہ ۲۰۰ روپے کماتے ہیں، جب کہ ڈھلائی کرنے والے مزدور صرف ۱۸۰ روپے ہی کما پاتے ہیں۔ گدھا مالکوں کو ۲۰ روپے زیادہ اس لیے دیے جاتے ہیں، تاکہ وہ مویشیوں کو چارہ کھلا سکیں۔ یہ بات ہمیں مادھوری نے بتائی تھی۔ ہم بابا صاحب سے ایک بھٹہ پر ملے، جو سانگلی واڑی سے تقریباً ۱۲ کلومیٹر دور میراج قصبے کے لکشمی مندر علاقے کے پاس واقع تھا۔ چوری کی ایک واردات کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’ایک بار مہیسال پھاٹا میں ایک تاجر کے ۲۰ گدھے چوری ہو گئے۔‘‘ یہ واقعہ اس بھٹے سے صرف ۱۰ کلومیٹر دور پیش آیا تھا۔ ’’مجھے لگتا ہے انہوں نے گدھوں کو نشے کی کوئی دوا کھلا دی تھی اور کسی بڑی سواری میں اٹھا کر بھاگ گئے تھے۔‘‘ دو سال پہلے جنا بائی کے گدھوں میں سے سات کی چوری اُس وقت ہو گئی، جب وہ چرنے کے لیے کھیتوں میں گئے تھے۔

سانگلی، سولاپور، بیڈ اور مہاراشٹر کے دوسرے ضلعوں میں گدھوں کی چوری کی وارداتیں تیزی سے بڑھی ہیں۔ اس سے مہاراشٹر کے مویشی پروروں کی مالی مشکلوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بابا صاحب اور جنا بائی ویسے ہی مویشی پرور ہیں جن کی کمائی گدھوں کی تعداد پر منحصر ہے۔ میراج میں اینٹ بھٹے پر کام کرنے والے جگو مانے کہتے ہیں، ’’چوروں نے میرے جھنڈ سے پانچ گدھوں کو چُرا لیا۔‘‘ اس سے انہیں تقریباً ۲ لاکھ روپے کا نقصان ہوا تھا۔ وہ پوچھتے ہیں، ’’میں اس نقصان کی تلافی کیسے کروں گا؟‘‘

PHOTO • Ritayan Mukherjee
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: بابو وٹھل جادھو (پیلی شرٹ میں) میراج میں ایک بھٹہ پر اینٹوں کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے آرام کر رہے ہیں۔ دائیں: کیکاڈی برادری کا ایک ۱۳ سالہ لڑکا رمیش مانے، گھاس اور سوکھے ڈنٹھلوں سے بھرے ایک کھیت میں اپنے گدھوں کو چرتے ہوئے دیکھ رہا ہے

حالانکہ، پوار کو یہ لگتا ہے کہ شاید مویشی پرور بھی اپنی حالت کے تئیں تھوڑے لاپرواہ ہیں۔ وہ اپنے گدھے کی ٹولیوں کو دن بھر کے لیے باہر کھلا چھوڑ دیتے ہیں اور ان پر کوئی نگرانی نہیں رکھتا۔ ’’ان کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں ہوتا ہے۔ وہ صرف بھٹہ پر کام کرنے کے وقت اپنے گدھوں کو واپس لاتے ہیں۔ زیادہ تر کوتاہی اسی دوران ہوتی ہے جب چور اس لاپروائی کو بھانپ لیتے ہیں۔‘‘

بابا صاحب سے گفتگو کے دوران ہماری نظر بابو وٹھل جادھو پر پڑتی ہے، جو اپنے چار گدھوں پر سے اینٹیں اتار رہے ہیں۔ بابو أ۶۰ سال) بھی کیکاڈی برادری سے آتے ہیں اور گزشتہ ۲۵ سالوں سے اینٹ بھٹے پر کام کر رہے ہیں۔ بنیادی طور پر سولاپور ضلع کے موہول بلاک کے پاٹکل سے تعلق رکھنے والے بابو، سال میں چھ مہینے کے لیے میراج چلے جاتے ہیں۔ وہ تھکے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور آرام کرنے کے لیے بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ صبح کے تقریباً ۹ بجے کا وقت ہے۔ وہ بابا صاحب اور دو خواتین مزدوروں سے ہنسی مذاق کرنے لگتے ہیں۔ اب بابو کی شفٹ ختم ہونے کا وقت ہو چکا ہے اور ان کی بیوی کی شفٹ شروع ہونے والی ہے۔ ان کے پاس چھ گدھے ہیں، اور وہ سب تھکے ہوئے اور کمزور نظر آ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان سے جم کر کام لیا جا چکا ہے۔ دو گدھوں کے پیر زخمی بھی ہیں۔ انہیں ابھی کچھ گھنٹے اور کام کرنا ہے، تب ان کی شفٹ ختم ہوگی۔

انہیں مہینہ میں صرف بغیر چاند والی رات کو ایک دن کی چھٹی ملتی ہے۔ اس لیے، ہر کوئی بہت نچڑ چکا ہے اور تھک چکا ہوتا ہے۔ جوتیبا مندر میں آئی مادھوری بتاتی ہیں، ’’اگر ہم چھٹی لیں گے، تو اینٹوں کو بھٹوں پر پکانے کون لے جائے گا؟ اگر ہم سوکھی ہوئی اینٹوں کو نہیں ڈھوئیں گے تو نئی اینٹوں کو کہاں رکھیں گے، کیوں کہ اس کے لیے بھٹے میں مناسب جگہ نہیں ہے۔ اسی وجہ سے، ہمارے لیے چھٹی لینا ممکن نہیں ہے۔ ہمیں چھ مہینے میں صرف ایک بار بغیر چاند والی رات کے دن چھٹی ملتی ہے۔‘‘ بغیر چاند والی رات کے دن بھٹے میں اس لیے چھٹی رہتی ہے، کیوں کہ اسے نا مبارک دن مانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، مزدوروں اور گدھوں کو ہندو تہواروں کے موقع پر صرف تین دن چھٹیاں ملتی ہیں: شیو راتری، شمگا (بقیہ ہندوستان میں ہولی)، اور روایتی نیا سال، جسے گڈھی پاڑوا کے نام سے منایا جاتا ہے۔

دوپہر کے وقت تک زیادہ تر مزدور بھٹے کے قریب بنے اپنے عارضی کام چلاؤ گھروں میں لوٹ آتے ہیں۔ شراونی اور شردھا پاس کے ایک نل پر کپڑے دھونے گئی ہیں۔ کھنڈو مانے اپنے گدھوں کو چرانے نکل گئے ہیں۔ مادھوری اب گھر والوں کے لیے کھانا بنائیں گی۔ وہ کھانے کے بعد سخت گرمی کے باوجود تھوڑی دیر تک سوئیں گی۔ آج کے لیے بھٹہ بند ہو چکا ہے۔ مادھوری بتاتی ہیں، ’’ہماری ٹھیک ٹھاک آمدنی ہو جاتی ہے اور کھانے کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ لیکن ہم بالکل بھی سو نہیں پاتے ہیں۔‘‘

رتائن مکھرجی پورے ملک میں گھوم گھوم کر خانہ بدوش چرواہا برادریوں پر مرکوز رپورٹنگ کرتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں ’سنٹر فار پیسٹورلزم‘ سے ایک آزاد سفری گرانٹ حاصل ہوئی ہے۔ ’سنٹر فار پیسٹورلزم نے اس رپورتاژ کے مواد پر کوئی ادارتی کنٹرول نہیں رکھا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Photographs : Ritayan Mukherjee

Ritayan Mukherjee is a Kolkata-based photographer and a PARI Senior Fellow. He is working on a long-term project that documents the lives of pastoral and nomadic communities in India.

Other stories by Ritayan Mukherjee
Text : Medha Kale
mimedha@gmail.com

Medha Kale is based in Pune and has worked in the field of women and health. She is the Translations Editor, Marathi, at the People’s Archive of Rural India.

Other stories by Medha Kale
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez