’’احتجاج کرنے والے جب سڑکوں پر رکاوٹ کھڑی کرتے ہیں یا اسے نقصان پہنچاتے ہیں، تو انہیں مجرم کہا جاتا ہے۔ یہی کام اگر حکومتیں کریں تب کیا؟ کیا وہ بھی (مجرم) نہیں ہیں جو وہ ہمیں کہتے ہیں؟‘‘ پنجاب کے موگا ضلع کے میہنا گاؤں کے ۷۰ سالہ کسان، ہریندر سنگھ لاکھا سوال کرتے ہیں۔

لاکھا پنجاب سے آ رہے کسانوں کو دہلی میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے اہلکاروں کے ذریعہ سڑکوں پر کھودے گئے ۱۰ فٹ کے گڑھے کا ذکر کر رہے ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے پنجاب کے ایک لاکھ سے زیادہ کسانوں کو، اتر پردیش اور ہریانہ کے کسانوں کے ساتھ اپنے ملک کی راجدھانی میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے پولس اور دیگر سکیورٹی دستوں کے ساتھ لڑائی لڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔

تین دنوں کے ٹکراؤ کے بعد دہلی پولس تو نرم پڑ گئی ہے، لیکن ہریانہ سرکار اب بھی احتجاجیوں کو ریاست کی سرحدیں پار کرنے سے روک رہی ہے۔ اور حالانکہ انہیں عوامی طور پر راجدھانی میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی ہے، لیکن زمینی سطح پر مرکزی حکومت نے اسے آسان بنانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ ’اجازت‘ کے باوجود، سڑکوں پر گڑھے، کانٹے دار تار، بیریکیڈ – سب کچھ ویسے ہی بنے ہوئے ہیں۔ اور آنسو گیس کے گولے اور پانی کی بوچھار نے نقصان کا ایک تلخ نشان چھوڑا ہے۔

کسان، مرکزی حکومت کے ذریعہ اس سال ستمبر میں پاس کیے گئے تین نئے زرعی قوانین کی مخالفت میں متحد ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زرعی پیداوار بازار کمیٹیوں (اے پی ایم سی) سے متعلق یہ قانون منڈیوں کے نظام کو برباد کر دے گا جو ان کے لیے مناسب طریقے سے کام کر رہا تھا۔ یہ ایم ایس پی (کم از کم امدادی قیمت) کے عمل کو تباہ کر دے گا اور بڑے زرعی سلسلوں اور کارپوریٹ کو قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی اجازت دے گا۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ اور دیگر دو قوانین نہ صرف ایم ایس پی کو لازمی بنانے میں ناکام ہیں، بلکہ ان میں سوامی ناتھن (کسانوں کے لیے قومی کمیشن) کی رپورٹوں کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔ کسانوں نے بتایا ہے کہ ان قوانین میں سے دوسرا، زرعی (خودمختاری اور تحفظ) قیمتوں کی یقیندہانی اور زرعی قرار قانون، ۲۰۲۰ ، جو ٹھیکوں سے متعلق ہے، پرائیویٹ تاجروں اور بڑے کارپوریٹس کا حامی ہے۔ اور ترمیم شدہ ضروری اشیاء کا قانون بھی کارپوریٹس کو فروغ دیتا ہے، جس سے کسانوں کی مول تول کی طاقت کم کرتے ہوئے ذخیرہ اندوزی اور جمع خوری کی اجازت ملتی ہے۔

احتجاج کرنے والوں کا مطالبہ ہے کہ ان تینوں قوانین کو ردّ کیا جائے۔

November 27: 'I have seen barbed wires', says 72-year-old Baldev Singh (not in the photo), from Punjab's Kot Budha village, near the border with Pakistan. 'Never did it occur to me that I would have to face them one day. That too for trying to enter the capital of my country'
PHOTO • Q. Naqvi
November 27: 'I have seen barbed wires', says 72-year-old Baldev Singh (not in the photo), from Punjab's Kot Budha village, near the border with Pakistan. 'Never did it occur to me that I would have to face them one day. That too for trying to enter the capital of my country'
PHOTO • Q. Naqvi

۲۷ نومبر: ’میں نے کانٹے دار تاروں کو دیکھا ہے‘، پاکستان کی سرحد کے قریب واقع پنجاب کے کوٹ بُڈھا گاؤں کے ۷۲ سالہ بلدیو سنگھ (جو تصویر میں نہیں ہیں) کہتے ہیں۔ ’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے ایک دن ان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ بھی اپنے ملک کی راجدھانی میں داخل ہونے کی کوشش میں‘

’’یہ [اے پی ایم سی سے متعلق قانون] موت کا وارنٹ ہے،‘‘ ہریانہ کے کرنال ضلع کے بہولا گاؤں کے رہنے والے سرجیت مان کہتے ہیں، جہاں وہ تقریباً ڈھائی ایکڑ میں گیہوں اور چاول کی کھیتی کرتے ہیں۔ ’’اگر ہماری فصلیں برباد ہوتی ہیں (جب میں احتجاجی مظاہرہ میں ہوں)، تو ایک بار ایسا ہونے دیں۔ لیکن ہماری اگلی نسلوں کا نقصان نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

کسان اُن پرائیویٹ اداروں کے بارے میں فکرمند ہیں جو – ان قوانین سے بااختیار ہوکر – ملک کی زراعت کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ ’’ہم اڈانیوں اور امبانیوں کو پنجاب میں نہیں آنے دیں گے،‘‘ پنجاب کے ترن تارن ضلع کے کوٹ بُڈھا گاؤں کے ۷۲ سالہ بلدیو سنگھ کہتے ہیں۔ انہوں نے یہاں آنے کے لیے ۵۰۰ سے زیادہ کلومیٹر کا سفر کیا ہے اور راستے میں کئی بیریکیڈ پار کیے ہیں۔ سنگھ نے زندگی بھر اپنی فیملی کے ۱۲ ایکڑ کھیت پر غذائی فصلیں اُگائی ہیں، انہیں اس وقت وہیں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن، وہ کہتے ہیں، ’’اپنی زندگی کے آخری سالوں میں، میں غیر یقینی کے ان بادلوں کے نیچے، سڑکوں پر ہوں۔‘‘

کوٹ بڈھا ہند- پاک سرحد سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ’’میں نے کانٹے دار تاروں کو دیکھا ہے،‘‘ سنگھ کہتے ہیں۔ ’’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے ایک دن ان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ بھی اپنے ملک کی راجدھانی میں داخل ہونے کی کوشش میں۔‘‘

’’یہ مرکز کے ساتھ سیدھی لڑائی ہے،‘‘ ہریانہ کے سونی پت ضلع کے خانپور کلاں گاؤں کے ۶۸ سالہ کسان، بھیم سنگھ کہتے ہیں، جو ڈیڑھ ایکڑ زمین پر کھیتی کرتے ہیں۔ وہ آگے کہتے ہیں کہ یا تو سرکار زرعی قوانین کو واپس لے یا وہ اور ان کے بھائی کسان دوسروں کے لیے اناج اُگانا بند کر دیں گے۔

وہ سر چھوٹو رام کو یاد کرتے ہیں، جنہوں نے انگریزوں کے خلاف کسانوں کی لڑائی لڑی تھی۔ ’’انگریز ایک کوئنٹل [اناج] کے ۲۵-۵۰ پیسے ادا کر رہے تھے اور سر تقریباً ۱۰ روپے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کسان نوآبادیاتی طاقتوں کے سامنے جھکنے کے بجائے اپنی فصل جلا دیں گے،‘‘ بھیم بتاتے ہیں۔ ’’اگر مودی سرکار نہیں سنتی ہے، تو ہمیں واقعی میں ویسا ہی کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘

November 27: 'When protestors block a road or damage it, they are branded as criminals. What if governments do the same? Are they not what they call us?' asks 70-year-old Harinder Singh Lakha (not in these photos) from Punjab's Mehna village
PHOTO • Q. Naqvi
November 27: 'When protestors block a road or damage it, they are branded as criminals. What if governments do the same? Are they not what they call us?' asks 70-year-old Harinder Singh Lakha (not in these photos) from Punjab's Mehna village
PHOTO • Q. Naqvi

۲۷ نومبر: ’احتجاج کرنے والے جب سڑکوں پر رکاوٹ ڈالتے ہیں یا اسے نقصان پہنچاتے ہیں، تو انہیں مجرم کہا جاتا ہے۔ یہی کام اگر سرکاریں کریں تب کیا؟ کیا وہ بھی (مجرم) نہیں ہیں جو وہ ہمیں کہتے ہیں؟‘ پنجاب کے میہنا گاؤں کے ۷۰ سالہ کسان، ہریندر سنگھ لاکھا سوال کرتے ہیں (جو ان تصویروں میں نہیں ہیں)

وزیر اعظم نے اکتوبر ۲۰۱۸ میں روہتک میں سر چھوٹو رام کے ایک مجسمہ کی نقاب کشائی کی تھی، اور کہا تھا کہ ہندوستان نے ان کی وراثت اور پیغام کو صرف ایک ریاست تک محدود کرکے خود کو محروم کیا ہے۔ لیکن اب بھیم سنگھ کہتے ہیں، ’’ان کی سرکار ان قوانین کو لاکر ہمارے سر کی بے عزتی کر رہی ہے۔‘‘

’’میں اپنے ملک کو بھوکے مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا،‘‘ پنجاب کے موگا ضلع کے میہنا گاؤں میں پانچ ایکڑ زمین پر کھیتی کرنے والے ۷۰ سالہ کسان، ہریندر سنگھ کہتے ہیں۔ ’’[نئے قوانین کے نتیجہ میں] اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہوگی کہ سرکار کسانوں کی پیداوار خریدے گی اور عوامی تقسیم کا پورا نظام سوالوں کے گھیرے میں آ جائے گا۔‘‘

کیا کارپوریٹ غریبوں کو کھانا نہیں دیں گے؟ میں سوال کرتا ہوں۔ ’’غریبوں کو کھانا دیں گے؟ کارپوریٹ غریبوں کو کھا رہے ہیں،‘‘ وہ جواب دیتے ہیں۔ ’’اگر وہ ایسا نہیں کر رہے ہوتے، تو ہم آپ کے اس سوال کا جواب دے سکتے تھے۔‘‘

کسان کئی مہینوں سے احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اہلکاروں کے ساتھ مختلف سطحوں پر ان کی بات چیت کسی نتیجے پر نہیں پہنچی۔ ’’وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ اب ہماری بات چیت وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ہوگی،‘‘ کرنال کے بہولا گاؤں کے سرجیت مان کہتے ہیں۔

’’پہلے، ہم [جب پارلیمنٹ کا اجلاس چل رہا تھا] میٹنگ کے لیے دہلی آئے تھے۔ انہوں نے ہماری بے عزتی کی۔ اب ہم دوبارہ آ رہے ہیں۔ اس بار وہ ہمیں مار رہے ہیں،‘‘ کوٹ بُڈھا گاؤں کے بلدیو سنگھ نے کہا۔ ’’پہلے زخم دیا، اب نمک چھڑک رہے ہیں۔‘‘

’’سرکار ملک سے بھوک مری کو ختم کرنے کی بات کر رہی ہے، جب کہ اس کی وجہ سے ہماری آنکھوں سے آنسو نکل رہے ہیں،‘‘ بلدیو سنگھ اور ہریندر سنگھ کہتے ہیں۔

November 28: 'The police personnel [at the protests] are our children. They too understand that the government is harming the farmers. It is pitting them against us. If they are getting salaries for lathi-charging us, they have our bodies. We will feed them either way'
PHOTO • Q. Naqvi
November 28: 'The police personnel [at the protests] are our children. They too understand that the government is harming the farmers. It is pitting them against us. If they are getting salaries for lathi-charging us, they have our bodies. We will feed them either way'
PHOTO • Q. Naqvi

۲۸ نومبر: ’پولس اہلکار [احتجاجی مظاہروں کی جگہ پر] ہمارے بچے ہیں۔ وہ بھی سمجھتے ہیں کہ سرکار کسانوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ وہ انہیں ہمارے خلاف کھڑا کر رہی ہے۔ اگر انہیں ہم پر لاٹھی چارج کرنے کے لیے تنخواہ مل رہی ہے، تو ہمارے جسم ان کے لیے حاضر ہیں۔ ہم انہیں کسی بھی طرح سے کھلائیں گے‘

’’چاہے وہ کانگریس ہو، بھارتیہ جنتا پارٹی یا مقامی اکالی دل، تمام سیاسی پارٹیاں پنجاب کو لوٹنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی ہیں۔ عام آدمی پارٹی بھی انہی کے راستے پر چل پڑی ہے،‘‘ پنجاب کے موگا میں ۱۲ ایکڑ زمین پر کھیتی کرنے والے کسان، ۶۲ سالہ جوگ راج سنگھ کہتے ہیں۔

کسان قومی میڈیا سے بھی ناراض ہیں۔ ’’وہ ہمیں منفی طریقے سے دکھا رہے ہیں۔ صحافی ہم سے تفصیل سے بات نہیں کر رہے ہیں،‘‘ جوگ راج سنگھ کہتے ہیں۔ ’’وہ متاثرین سے بات کیے بغیر اس مسئلہ کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ انہیں سچ دکھانا چاہیے تھا۔ موت کا وارنٹ جو سرکار نے ہمارے لیے تیار کیا ہے۔ انہیں یہ دکھانا چاہیے تھا کہ اگر سرکاری ہماری زمینیں چھیننا چاہتی ہے، تو چھین لے۔ لیکن پہلے وہ ہمیں ٹکڑوں میں کاٹ دے۔‘‘

بہت سی آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں:

’’ٹھیکہ پر مبنی کھیتی میں اضافہ ہوگا۔ حالانکہ وہ شروع میں کھیتی میں اونچی قیمتیں دیں گے، یہ مفت جیو سِم کارڈ اسکیم کے طور پر کام کرے گا۔ آہستہ آہستہ، وہ ہماری زمین کے مالک بن جائیں گے۔

’’ٹھیکہ کے ذریعہ، وہ ہماری زمین پر بنیادی وسائل کو بڑھا سکتے ہیں اور اس کے لیے انہیں قرض مل سکتا ہے۔ اگر فصل اچھی نہیں ہوئی، یا ٹھیکہ کی خلاف ورزی ہوئی، تو وہ بھاگ جائیں گے۔ اور ہمیں قرض ادا کرنا ہوگا۔ اگر ادائیگی کرنے میں ہم ناکام رہے، تو ہماری زمین چلی جائے گی۔‘‘

’’پولس اہلکار [احتجاجی مظاہرہ کے مقام پر] ہمارے بچے ہیں۔ وہ بھی سمجھتے ہیں کہ سرکار کسانوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ وہ انہیں ہمارے خلاف کھڑا کر رہی ہے۔ اگر انہیں ہم پر لاٹھی چارج کرنے کے لیے تنخواہ مل رہی ہے، تو ہمارے جسم ان کے لیے حاضر ہیں۔ ہم انہیں کسی بھی طرح سے کھلائیں گے۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Amir Malik

Amir Malik is an independent journalist, and a 2022 PARI Fellow.

Other stories by Amir Malik
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez