’’اُس دن دوپہر کو مجھے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ میں اور میرا بچہ زندہ بچ پائیں گے۔ میرے رحم میں پانی کی تھیلی پھٹ گئی تھی۔ نہ تو کوئی اسپتال نظر آ رہا تھا اور نہ ہی آس پاس کوئی ہیلتھ ورکر موجود تھا۔ میں درد زہ میں مبتلا تھی اور جیپ سے شملہ کے ایک اسپتال کی طرف جا رہی تھی۔ میرے اندر انتظار کرنے کی طاقت نہیں بچی تھی۔ میں نے بچے کو وہیں جنم دے دیا – بولیرو کے اندر ہی۔‘‘ اس واقعہ کے چھ مہینے بعد، جب اِس رپورٹر نے اپریل ۲۰۲۲ میں انورادھا مہتو (بدلا ہوا نام) سے ملاقات کی تو وہ اپنے نوزائیدہ بچے کو گود میں لیے بیٹھی تھیں، اور پورے واقعہ کو تفصیل سے بیان کرنے لگیں جو انہیں آج بھی اچھی طرح یاد ہے۔
’’دن کے تقریباً تین بج رہے تھے۔ جیسے ہی میرے رحم میں پانی کی تھیلی پھٹی، میرے شوہر نے آشا دیدی کو اس کی اطلاع دی۔ وہ اگلے ۱۵ یا ۲۰ منٹ کے اندر ہی میرے پاس پہنچ گئیں۔ مجھے یاد ہے کہ آتے ہی انہوں نے ایمبولینس کو کال کرنا شروع کیا۔ اُس دن بارش ہو رہی تھی۔ ایمبولینس والوں نے کہا کہ وہ ۱۰ منٹ میں نکل رہے ہیں، لیکن ہمارے گھر تک پہنچنے میں انہیں عام دنوں کے مقابلے ایک گھنٹہ زیادہ وقت لگا،‘‘ تقریباً ۳۰ سال کی ہو چکیں انورادھا بتاتی ہیں کہ بارش کے دنوں میں یہاں کی سڑکیں کس قدر خطرناک ہو جاتی ہیں۔
وہ ہماچل پردیش کے کوٹی گاؤں میں، ایک پہاڑی علاقے میں ٹن سے بنی عارضی جھونپڑی میں اپنے تین بچوں اور شوہر (جو ایک مہاجر مزدور ہیں) کے ساتھ رہتی ہیں۔ یہ لوگ بنیادی طور سے بہار کے بھاگلپور ضلع کے گوپال پور گاؤں کے رہنے والے ہیں۔
انورادھا، سال ۲۰۲۰ میں شملہ ضلع کے مشوبرا بلاک میں واقع کوٹی میں اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے آ گئی تھیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہمیں مالی مسائل کی وجہ سے [بہار کے] اپنے گاؤں سے یہاں آنا پڑا۔ دو جگہوں پر کرایہ دینا مشکل تھا۔‘‘ ان کے ۳۸ سالہ شوہر، رام مہتو (بدلا ہوا نام) تعمیراتی مقام پر راج مستری کا کام کرتے ہیں اور جہاں کہیں بھی انہیں یہ کام ملتا ہے انہیں وہاں وہاں جانا پڑتا ہے۔ فی الحال، وہ اپنی ٹن کی جھونپڑی کے ٹھیک سامنے ہی یہ کام کر رہے ہیں۔
عام دنوں میں بھی، ان کے گھر تک ایمبولینس کا پہنچنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ اور اگر یہ ایمبولینس تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر شملہ کے کملا نہرو اسپتال سے آتی تو اسے کوٹی پہنچنے میں ڈیڑھ سے دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ لیکن برسات اور برفباری کے دنوں میں اس سے بھی دو گنا وقت لگتا ہے۔
انورادھا کے گھر سے تقریباً سات کلومیٹر دور ایک کمیونٹی ہیلتھ سنٹر (سی ایچ سی) ہے، جس کے بارے میں اس علاقے کی ایک آشا کارکن (منظور شدہ سماجی صحت کارکن)، رینا دیوی کا کہنا ہے کہ یہ آس پاس کے گاؤوں اور بستیوں کے تقریباً ۵ ہزار لوگوں کو طبی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ لیکن اس سی ایچ سی میں کوئی نہیں آتا کیوں کہ یہاں کوئی سہولت نہیں ہے – ۲۴ گھنٹے ایمبولینس جیسی ضروری خدمات بھی یہاں دستیاب نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم جب ۱۰۸ نمبر پر ڈائل کرتے ہیں، تو گاڑی ایک بار کال کرنے پر آسانی سے نہیں آتی ہے۔ یہاں ایمبولینس منگوانا بہت مشکل کام ہے۔ ہماری مدد کرنے کی بجائے، وہ لوگ ہم سے کسی اور گاڑی کا انتظام کر لینے کے لیے کہتے ہیں۔‘‘
اصولی طور پر دیکھا جائے تو سی ایچ سی میں ایک ماہر امراض نسواں اور ۱۰ نرسوں کی ٹیم والے عملہ کے ساتھ ساتھ ایمرجنسی کی حالت میں آپریشن کے ذریعے زچگی (سیزیرین سیکشن) جیسی ضروری اور دیگر طبی سہولیات دستیاب ہونی چاہئیں۔ تمام ایمرجنسی سروسز کے چوبیسوں گھنٹے دستیاب ہونے کی توقع کی جاتی ہے۔ لیکن، کوٹی کا یہ سی ایچ سی شام کو چھ بجے ہی بند ہو جاتا ہے، اور جس وقت یہ کھلا ہوتا ہے اس وقت بھی یہاں کوئی ماہر امراض نسواں موجود نہیں ہوتا۔
گاؤں کے ایک دکاندار، ہریش جوشی بتاتے ہیں، ’’اسٹاف کے لوگوں نے لیبر روم (جہاں بچوں کی پیدائش ہوتی ہے) کو باورچی خانہ میں تبدیل کر دیا ہے کیوں کہ یہ کام نہیں کر رہا ہے۔ میری بہن کو بھی ان تمام مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور آخر میں انہوں نے ایک دایہ کی نگرانی میں بچے کو گھر پر ہی جنم دیا۔ یہ تین سال پہلے کی بات ہے، لیکن آج بھی حالات نہیں بدلے ہیں۔ سی ایچ سی کھلا ہو یا بند ہو، اس طرح کے معاملوں میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘
رینا بتاتی ہیں کہ گاؤں میں رہنے والی دایہ انورادھا کے لیے کسی بھی طرح مددگار ثابت نہیں ہوئی۔ آشا کارکن، ریتا کہتی ہیں، ’’وہ دوسری ذات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے گھروں میں جانا پسند نہیں کرتی۔ اسی لیے ہم نے شروع میں ہی اسپتال جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔‘‘ انورادھا نے جس دن بچے کو جنم دیا، اس دن رینا ان کے ساتھ ہی تھیں۔
انورادھا بتاتی ہیں، ’’تقریباً ۲۰ منٹ تک انتظار کرنے کے بعد، جب میرا درد (زہ) ناقابل برداشت ہو گیا، تو آشا دیدی نے میرے شوہر سے بات کی اور کرایے کی ایک گاڑی سے مجھے شملہ لے جانے کا فیصلہ کیا۔ گاڑی والے نے ایک طرف کا کرایہ ۴۰۰۰ روپے مانگا۔ لیکن یہاں سے روانہ ہونے کے ۱۰ منٹ بعد، میں نے بولیرو کی پچھلی سیٹ پر ہی بچے کو جنم دے دیا۔‘‘ انورادھا کی فیملی اُس دن وہیں سے واپس لوٹ آئی تھی، پھر بھی انہیں گاڑی والے کو شملہ تک کا کرایہ دینا پڑا۔
رینا بتاتی ہیں، ’’مشکل سے تین کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد ہی بچے کی پیدائش ہو گئی تھی۔ میں نے اپنے ساتھ کچھ صاف کپڑے، پانی کی بوتلیں اور غیر استعمال شدہ بلیڈ رکھ لیے تھے۔ اس کے لیے بھگوان کا شکر ادا کرتی ہوں۔ میں نے بچے کی نال پہلے کبھی نہیں کاٹی تھی۔ لیکن دوسروں کو کاٹتے ہوئے ضرور دیکھا تھا۔ لہٰذا، اس بار (انورادھا کے لیے) مجھے یہ کام خود ہی کرنا پڑا۔‘‘
انورادھا اِس معاملے میں خوش قسمت نکلیں کہ اُس رات ان کی جان بچ گئی۔
عالمی سطح پر ویسے تو زچگی کے دوران ہونے والی اموات کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے، لیکن عالمی صحت کے ادارہ (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، حمل اور بچے کی پیدائش سے جڑی پیچیدگیوں کے سبب آج بھی ہر روز ۸۰۰ سے زیادہ خواتین کی موت واقع ہو رہی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر اموات، کم اور اوسط آمدنی والے ممالک میں ہوتی ہیں۔ سال ۲۰۱۷ میں، عالمی سطح پر زچگی کے دوران ہونے والی کل اموات میں سے ۱۲ فیصد ہندوستان میں ہوئی تھیں۔
سال ۱۹-۲۰۱۷ میں ہندوستان میں زچگی کے دوران ہونے والی اموات کی تعداد (ایم ایم آر) – یعنی زندہ پیدا ہونے والے ہر ایک لاکھ بچوں پر زچہ یا ماں کی اموات کی تعداد – ۱۰۳ تھی۔ اقوام متحدہ نے پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کے تحت سال ۲۰۳۰ تک عالمی ایم ایم آر کی شرح کو گھٹا کر ۷۰ یا اس سے بھی کم کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ ہندوستان اس ہدف کو حاصل کرنے سے ابھی کوسوں دور ہے۔ یہ تناسب صحت اور سماجی و اقتصادی ترقی کا ایک اہم اشارہ ہے؛ زیادہ تعداد وسائل میں تفاوت کو ظاہر کرتی ہے۔
ہماچل پردیش میں زچگی کے دوران ہونے والی اموات کا ڈیٹا آسانی سے دستیاب نہیں ہے۔ حالانکہ نیتی آیوگ کے ایس ڈی جی انڈیا انڈیکس ۲۱-۲۰۲۰ میں تمل ناڈو کے ساتھ ہماچل پردیش کو بھی اس معاملے میں دوسرے مقام پر دکھایا گیا ہے، لیکن اس قسم کی اعلیٰ درجہ بندی میں اس بات کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے کہ دور افتادہ، پہاڑی علاقوں میں غریبی کی زندگی بسر کرنے والی دیہی خواتین کو صحت سے متعلق کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انورادھا جیسی عورتوں کو غذائیت، زچگی کے دوران بہتر صحت، زچگی کے بعد مناسب دیکھ بھال اور ہیلتھ انفراسٹرکچر جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انورادھا کے شوہر، رام مہتو ایک پرائیویٹ کمپنی میں کنسٹرکشن لیبر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ انورادھا کا کہنا ہے کہ کام کے مہینوں میں، وہ ’’ہر مہینے تقریباً ۱۲ ہزار روپے کماتے ہیں، جس میں سے ۲۰۰۰ روپے گھر کے کرایہ کے طور پر کاٹ لیے جاتے ہیں۔‘‘ وہ مجھے اپنے گھر کے اندر بلاتے ہوئے کہتی ہیں، ’’اندر کی ہر چیز ہماری ہے۔‘‘
اور ۸ بائی ۱۰ فٹ کے ٹن والے ان کے کمرے میں وہ چیزیں ہیں کیا – لکڑی کا ایک بیڈ، کپڑوں اور برتوں سے بھرا ہوا ایک المونیم کا ٹرنک (بڑا بکس) جو بستر کے کام آتا ہے، اور کچھ نہیں۔ انہی دونوں چیزوں سے ان کا کمرہ بھر گیا ہے۔ انورادھا کہتی ہیں، ’’ہمارے پاس بچت کا کوئی پیسہ نہیں ہے۔ اگر کوئی بیمار پڑا یا کوئی اور ایمرجنسی آ گئی، تو ہمیں اپنے ضروری اخراجات جیسے کھانا، دوا اور بچوں کے لیے دودھ میں کٹوتی کرنی پڑے گی، اور قرض لینا ہوگا۔‘‘
حمل کی وجہ سے ۲۰۲۱ میں ان کی مالی حالت مزید خستہ ہو گئی تھی، خاص کر اس وقت جب ملک میں کووڈ۔۱۹ وبائی مرض بڑی تیزی سے پھیلنے لگا تھا۔ رام کے پاس کوئی کام نہیں تھا۔ اجرت کے نام پر انہیں ۴۰۰۰ روپے ملے تھے۔ اس حالت میں بھی انہیں مکان کا کرایہ دینا پڑا تھا، جس کے بعد ان کے پاس خرچ کرنے کے لیے صرف ۲۰۰۰ روپے ہی بچے تھے۔ آشا دیدی نے انورادھا کو آئرن اور فولک ایسڈ کی گولیاں لا کر دیں، لیکن اسپتال دور ہونے اور زیادہ پیسے خرچ ہونے کی وجہ سے ان کے لیے باقاعدگی سے چیک اپ کرانا ناممکن تھا۔
رینا کہتی ہیں، ’’اگر سی ایچ سی اچھی طرح کام کر رہا ہوتا، تو انورادھا کی ڈیلیوری آسانی سے ہو جاتی اور انہیں ٹیکسی پر ۴۰۰۰ روپے خرچ نہیں کرنے پڑتے۔ سی ایچ سی میں الگ سے ایک لیبر روم بنا ہوا ہے، لیکن یہ کام نہیں کرتا۔‘‘
شملہ ضلع کی چیف میڈیکل آفیسر، سُریکھا چوپڑہ کہتی ہیں، ’’ہم اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کوٹی کے سی ایچ سی میں [بچے کی] ڈیلیوری کی سہولیات دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے عورتوں کو کس قسم کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔ بچے کی پیدائش کے وقت درکار ماہر امراض نسواں، نرس یا صفائی ملازمین وہاں پر بالکل بھی نہیں ہیں۔ ملک بھر کے تمام ضلعوں اور ریاستوں کی یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کوٹی جیسے دیہی علاقوں میں کوئی بھی ڈاکٹر ڈیوٹی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔‘‘
حالانکہ ریاست میں سی ایچ سی کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے – سال ۲۰۰۵ میں ان کی تعداد ۶۶ تھی جو ۲۰۲۰ میں بڑھ کر ۸۵ ہو گئی۔ اسی طرح ڈاکٹروں کی تعداد بھی بڑھی ہے – سال ۲۰۰۵ میں ریاست کے اندر کل ۳۵۵۰ ڈاکٹر تھے جن کی تعداد ۲۰۲۰ میں بڑھ کر ۴۹۵۷ کر دی گئی۔ ان سب کے باوجود، دیہی صحت کی شماریات ۲۰-۲۰۱۹ کے مطابق، ہماچل پردیش کے دیہی علاقوں میں ماہر امراض نسواں کی ۹۴ فیصد کمی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو، ۸۵ ماہر امراض نسواں کی جگہ صرف ۵ کو تعینات کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے حاملہ عورتوں کو بے انتہا جسمانی، جذباتی اور مالی تناؤ سے گزرنا پڑتا ہے۔
شیلا چوہان (۳۵)، انورادھا کے گھر سے تقریباً چھ کلومیٹر دور رہتی ہیں۔ انہیں بھی جنوری ۲۰۲۰ میں اپنی بچی کو جنم دینے کے لیے شملہ کے ایک پرائیویٹ اسپتال تک کا سفر کرنا پڑا تھا۔ شیلا نے پاری کو بتایا، ’’بچی کی پیدائش کو اتنے مہینے گزر گئے، مگر میں اب بھی قرضدار ہوں۔‘‘
وہ اور ان شوہر گوپال چوہان (۴۰) نے اپنے پڑوسیوں سے ۲۰ ہزار روپے قرض لیے تھے۔ گوپال کوٹی گاؤں میں ہی بڑھئی (کارپینٹر) کا کام کرتے ہیں۔ دو سال کے بعد، ان کے اوپر ۵۰۰۰ روپے کا قرض ابھی بھی بقایا ہے۔
شملہ کے اسپتال میں ایک دن کے لیے کمرے کا کرایہ ۵۰۰۰ روپے تھا، اس لیے شیلا وہاں پر ایک رات سے زیادہ نہیں رک سکیں۔ اگلے دن انہوں نے شملہ سے ۲۰۰۰ روپے میں ایک ٹیکسی کرایہ پر لی اور اپنے شوہر اور نوزائیدہ بچے کے ساتھ کوٹی کے لیے روانہ ہو گئیں۔ لیکن ٹیکسی نے انہیں گھر تک نہیں چھوڑا، بلکہ اس سے پہلے ہی ایک جگہ پر اتار دیا۔ گلیاں برف سے بھری ہوئی تھیں، اس لیے اُس نے آگے جانے سے انکار کر دیا۔ شیلا کہتی ہیں، ’’اس رات کے بارے میں سوچ کر آج بھی میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بہت زیادہ برفباری ہو رہی تھی۔ میں نے ایک دن پہلے ہی ایک بچہ کو جنم دیا تھا، پھر بھی مجھے گھٹنے بھر برف میں چلنا پڑ رہا تھا۔‘‘
گوپال کہتے ہیں، ’’اگر یہ سی ایچ سی ٹھیک سے کام کر رہا ہوتا، تو ہمیں شملہ بھاگنے اور اتنا پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، نہ ہی میری بیوی کو بچے کی پیدائش کے ایک دن کے اندر ہی اتنی برف میں چلنا پڑتا۔‘‘
اگر حفظان صحت کا یہ ادارہ کام کر رہا ہوتا، جیسا کہ اسے کرنا چاہیے تھا، تو شیلا اور انورادھا دونوں کو ہی ’جننی شِشو سُرکشا کاریہ کرم‘ کے تحت بالکل مفت اور بلا نقد طبی خدمات موصول ہوئی ہوتیں۔ اس سرکاری اسکیم کے تحت وہ عوامی صحت کے اداروں (یعنی سرکاروں اسپتالوں) میں سیزیرین سیکسشن سمیت مفت ڈیلیوری کی حقدار تھیں۔ انہیں دوا دارو، تشخیص و علاج، کھانا اور ضرورت پڑنے پر خون کے ساتھ ساتھ آنے جانے کے لیے گاڑی بھی ملی ہوتی – وہ بھی بغیر کوئی پیسہ خرچ کیے ہوئے۔ لیکن یہ اسکیم زمین پر نہیں دکھائی دیتی، سب کچھ صرف کاغذ پر ہے۔
گوپال کہتے ہیں، ’’اُس دن ہم اپنی دو دن کی بیٹی کو لے کر بہت ڈرے ہوئے تھے۔ ٹھنڈ کی وجہ سے اس کی موت ہو سکتی تھی۔‘‘
پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتہ لگایا جا سکے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم zahra@ruralindiaonline.org کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی namita@ruralindiaonline.org کو بھیج دیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز