’’انسان اب نہ جھگڑے سے مرے گا نہ رگڑے سے
مرے گا تو بھوک اور پیاس سے‘‘
تو، یہ صرف سائنس ہی نہیں ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔ ہندوستان کی مقدس کتابوں نے صدیوں قبل اس جانب اشارہ کر دیا تھا، دہلی کے ۷۵ سالہ کسان شِو شنکر دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ وہ ۱۶ویں صدی کی ایسی ہی ایک کتاب رام چرت مانس ( ویڈیو دیکھیں ) سے ماخوذ سطروں کی تشریح پیش کر رہے ہیں۔ شنکر شاید اس مقدس کتاب کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں کیوں کہ تلسی داس کی اس منظوم تخلیق میں ان سطروں کا پتہ لگانا آپ کے لیے مشکل ہو سکتا ہے۔ لیکن یمنا ندی کے سیلابی علاقے میں اس کسان کے الفاظ ہمارے اپنے دور کے بالکل موافق ہیں۔
شنکر، ان کی فیملی اور کئی دیگر کاشت کار درجہ حرارت، موسم اور ماحولیات میں ہونے والی کئی تبدیلیوں کے بارے میں پوری تفصیل سے بتا رہے ہیں، جو کسی بھی دوسرے شہری علاقے کے مقابلے اس سب سے بڑے سیلابی علاقے کو متاثر کر رہی ہیں۔ مجموعی طور سے ۱۳۷۶ کلومیٹر لمبی یمنا ندی کا صرف ۲۲ کلومیٹر حصہ ہی قومی راجدھانی خطہ سے ہوکر گزرتا ہے، اور اس کا ۹۷ مربع کلومیٹر کا سیلابی علاقہ دہلی کے کل رقبہ کا بمشکل ۶ء۵ فیصد حصہ ہے۔ لیکن اس چھوٹے سے محسوس ہونے والے حصہ کا بھی ماحولیات کو متوازن رکھنے، اور ساتھ ہی راجدھانی کے لیے درجہ حرارت کو مستحکم بنائے رکھنے والے قدرتی نظام کو برقرار رکھنے میں بڑا ہاتھ ہے۔
یہاں کے کسان فی الحال ہو رہی تبدیلی کو خود اپنے محاورے میں بیان کرتے ہیں۔ ۲۵ سال پہلے تک یہاں کے لوگ ستمبر سے ہی ہلکے کمبل کا استعمال کرنا شروع کر دیتے تھے، شِو شنکر کے بیٹے وجیندر سنگھ کہتے ہیں۔ ’’اب، سردی دسمبر تک شروع نہیں ہوتی ہے۔ پہلے مارچ میں ہولی کو سب سے گرم دن کے طور پر نشان زد کیا جاتا تھا۔ اب یہ سردیوں میں تہوار منانے جیسا ہے،‘‘ ۳۵ سالہ وجیندر کہتے ہیں۔
شنکر کی فیملی کے زندگی کے تجربات یہاں کے دیگر کسانوں کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ الگ الگ اندازوں کے مطابق، دہلی میں یمنا – گنگا کی سب سے لمبی معاون ندی اور پھیلاؤ کے علاقے کے معاملے میں (گھاگھرا کے بعد) دوسری سب سے بڑی ندی – کے کنارے ۵۰۰۰ سے ۷۰۰۰ کسان رہتے ہیں۔ یہاں کے کاشت کار ۲۴ ہزار ایکڑ رقبہ میں کھیتی کرتے ہیں، جو کہ کچھ دہائی پہلے کے مقابلے بہت کم ہو چکا ہے، وہ بتاتے ہیں۔ یہ ایک بڑے شہر کے کسان ہیں، کسی دور دراز دیہی علاقے کے نہیں۔ وہ تشویش میں زندگی بسر کرتے ہیں کیوں کہ ’ترقی‘ ہر وقت ان کے وجود پر خطرے کی طرح منڈلاتی رہتی ہے۔ نیشنل گرین ٹربیونل (این جی ٹی) سیلابی علاقے میں بڑے پیمانے پر غیر قانونی تعمیرات کی مخالفت کرنے والی عرضیوں سے بھرا پڑا ہے۔ اور صرف کاشت کار ہی فکرمند نہیں ہیں۔
’’اگر سیلابی علاقے میں کنکریٹ بچھانے کا کام جاری رہے گا، جیسا کہ ہو رہا ہے، تو دہلی کے باشندوں کو شہر چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑے گا، کیوں کہ گرمی اور سردی دونوں میں درجہ حرارت عروج پر پہنچنے کے ساتھ ساتھ ناقابل برداشت ہو جائے گا،‘‘ انڈین فاریسٹ سروِس کے ریٹائرڈ افسر، منوج مشرا کہتے ہیں۔ مشرا یمنا جیے ابھیان (وائی جے اے) کے سرپرست ہیں جسے ۲۰۰۷ میں قائم کیا گیا تھا۔ وائی جے اے دہلی کی سات بڑی ماحولیاتی تنظیموں اور متعلقہ شہریوں کو ایک ساتھ لایا، اور ندی اور اس کے حیاتیاتی نظام کو بچانے کا کام کرتا ہے۔ ’’شہر اب ایسا بنتا جا رہا ہے کہ یہاں پر زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا اور بڑی تعداد میں نقل مکانی کا گواہ بنے گا۔ اگر یہ اپنی ہوا کے معیار کو ٹھیک نہیں کرتا ہے، تو (یہاں تک کہ) سفارت خانے بھی یہاں سے باہر چلے جائیں گے۔‘‘
*****
واپس سیلابی علاقے میں، گزشتہ چند دہائیوں میں ہونے والی بے ترتیب بارش نے کسانوں اور ماہی گیروں کو یکساں طور پر پریشان کیا ہے۔
یمنا ندی پر منحصر رہنے والی کمیونٹی آج بھی ہر سال بارش کا خیر مقدم کرتی ہے۔ ماہی گیر ایسا اس لیے کرتے ہیں، کیوں کہ اضافی پانی ندی کو صاف کر دیتا ہے جس سے مچھلیوں کو اپنی تعداد بڑھانے میں مدد ملتی ہے، اور کسانوں کے لیے یہ بارش تازہ زرخیز مٹی کی پرت لاتی ہے۔ ’’زمین نئی بن جاتی ہے، زمین پلٹ جاتی ہے،‘‘ شنکر کہتے ہیں۔ ’’سال ۲۰۰۰ تک، ایسا تقریباً ہر سال ہوتا تھا۔ اب بارش کم ہوتی ہے۔ پہلے مانسون جون میں ہی شروع ہو جاتا تھا۔ اس بار جون اور جولائی میں سوکھا تھا۔ بارش دیر سے ہوئی، جس کی وجہ سے ہماری فصلیں متاثر ہوئیں۔‘‘
’’بارش جب کم ہوتی ہے، تو مٹی میں نمک [القلی کے مشمولات] کی مقدار بڑھنے لگتی ہے،‘‘ شنکر نے ہمیں اپنے کھیت دکھاتے وقت کہا تھا۔ دہلی کی سیلابی مٹی ندی کے ذریعے سیلابی علاقے میں جمع کیے جانے کے نتیجہ میں ہے۔ یہ مٹی طویل عرصے تک گنّے، چاول، گیہوں، کئی دیگر فصلوں اور سبزیوں کو اُگانے میں معاون بنی رہی۔ دہلی گزٹ کے مطابق، گنّے کی تین قسمیں – لالری، میراتی، سوراٹھا – ۱۹ویں صدی کے آخر تک شہر کا امتیاز تھیں۔
’’زمین نئی بن جاتی ہے، زمین پلٹ جاتی ہے [مانسون کی بارش سے زمین تروتازہ ہو جاتی ہے]،‘‘ شنکر کہتے ہیں۔
گنّے کا استعمال کولہو سے گُڑ بنانے میں کیا جاتا تھا۔ ایک دہائی پہلے تک، تازہ گنّے کا رس بیچنے والے چھوٹی عارضی دکانیں اور ٹھیلے دہلی کی سڑکوں پر ہر کونے میں نظر آ جاتے تھے۔ ’’پھر سرکاروں نے ہمیں گنّے کا جوس بیچنے سے روک دیا، اس لیے اس کی کھیتی بھی بند ہو گئی،‘‘ شنکر بتاتے ہیں۔ گنے کا جوس بیچنے والوں – اور انہیں چیلنج کرنے والے عدالتی معاملوں پر ۱۹۹۰ کی دہائی سے باقاعدہ پابندی لگا دی گئی ہے۔ ’’ہر کوئی جانتا ہے کہ گنّے کا رس بیماری سے لڑنے میں کام آتا ہے۔ یہ ہمارے [جسمانی] نظام کو ٹھنڈا کرکے گرمی کو شکست دیتا ہے،‘‘ وہ دعویٰ کرتے ہیں۔ ’’سافٹ ڈرِنک بنانے والی کمپنیوں نے ہمارے اوپر پابندی لگا دی ہے۔ ان کے لوگوں نے وزیروں کے ساتھ ساز باز کی اور ہمیں اس کے کاروبار سے باہر کر دیا گیا۔‘‘
اور کبھی کبھی، سیاسی-انتظامی فیصلوں کے ساتھ ساتھ موسم کی مار بھی قہر برپا کرتی ہے۔ اس سال یمنا کی باڑھ نے – جب ہریانہ نے اگست میں ہتھنی کنڈ بیراج سے پانی چھوڑا، اور تبھی دہلی میں بارش بھی ہونے لگی – کئی فصلوں کو برباد کر دیا۔ وجیندر ہمیں سکڑی ہوئی مرچ، سوکھے ہوئے بینگن اور کمزور مولی کے پودے دکھاتے ہیں جو بیلا اسٹیٹ (جو راج گھاٹ اور شانتی وَن کی قومی یادگاروں کے ٹھیک پیچے واقع ہے) میں ان کے پانچ بیگھہ (ایک ایکڑ) کے زمین کے ٹکڑے میں اس موسم میں نہیں بڑھیں گے۔
راجدھانی کے اس شہر میں طویل عرصے سے نیم خشک آب و ہوا تھی۔ سال ۱۹۱۱ میں انگریزوں کی راجدھانی بننے سے پہلے یہ پنجاب کی زرعی ریاست کا جنوب مشرقی ڈویژن تھا، اور مغرب میں راجستھان کے ریگستان، شمال کی جانب ہمالیہ کے پہاڑوں اور مشرق میں گنگا کے میدانوں سے گھرا ہوا ہے۔ (سبھی علاقے آج ماحولیاتی تبدیلی کا سامنا کر رہے ہیں)۔ اس کا مطلب تھا ٹھنڈی سردیاں اور چلچلاتی گرمیاں، جس میں مانسون ۳ سے ۴ مہینے تک راحت دیتا تھا۔
اب یہ مزید بے ترتیب ہو گیا ہے۔ ہندوستانی محکمہ موسمیات کے مطابق، اس سال جون-اگست میں دہلی میں بارش کی ۳۸ فیصد کمی درج کی گئی، جب عام طور پر ۶۴۸ء۹ ملی میٹر کے مقابلے ۴۰۴ء۱ ملی میٹر بارش ہوئی۔ سیدھے لفظوں میں کہیں تو، دہلی نے پانچ سالوں میں سب سے خراب مانسون دیکھا۔
مانسون کی فطرت بدل رہی ہے اور بارش کم ہو رہی ہے، ساؤتھ ایشیا نیٹ ورک آن ڈیمس، ریورس اینڈ پیوپل کے کوآرڈی نیٹر، ہمانشو ٹھکر کہتے ہیں۔ ’’بارش کے دنوں کی تعداد گھٹ رہی ہے، حالانکہ بارش کی مقدار شاید کم نہ ہو۔ بارش کے دنوں میں اس کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔ دہلی بدل رہی ہے اور اس کا اثر یمنا اور اس کے سیلابی علاقے پر پڑے گا۔ نقل مکانی، سڑک پر گاڑیوں کی تعداد اور فضائی آلودگی – تمام میں اضافہ ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے اس کے ارد گرد کے یوپی اور پنجاب کے علاقوں میں بھی تبدیلی ہونے لگی ہے۔ [ایک چھوٹے سے علاقے کی] معمولی آب و ہوا مقامی آب و ہوا پر اثر ڈال رہی ہے۔‘‘
*****
’جمنا پار کے مٹر لے لو‘ – سبزی بیچنے والوں کی اونچی آوازیں جو کسی زمانے میں دہلی کی گلیوں میں ہمیشہ سنائی دیتی تھیں، ۱۹۸۰ کی دہائی میں کہیں گم ہو گئیں۔ ( انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچرل ہیریٹیج کے ذریعے شائع) نریٹوز آف دی انوائرمینٹ آف دہلی [دہلی کی ماحولیات کی کہانیاں] نامی کتاب میں، پرانے لوگ یاد کرتے ہیں کہ شہر میں ملنے والے تربوز ’لکھنوی خربوزے‘ کی طرح ہوتے تھے۔ ندی کی ریتیلی مٹی پر اُگائے گئے پھل کا رسیلا پن بھی اس وقت کی ہوا پر منحصر ہوتا تھا۔ پہلے کے تربوز سادے ہرے اور بھاری ہوتے تھے (جو زیادہ میٹھا ہونے کا اشارہ ہے) اور موسم میں صرف ایک بار دکھائی دیتے تھے۔ زراعت کے طور طریقوں میں تبدیلی سے نئے قسم کے بیج سامنے آئے۔ خربوزے اب چھوٹے اور دھاری دار ہوتے ہیں – نئے بیج زیادہ پیداوار دیتے ہیں، لیکن اب ان کا سائز چھوٹا ہو گیا ہے۔
تازہ سنگھاڑا، جس کے انبار دو دہائی پہلے بیچنے والوں کے ہر گھر میں نظر آ جاتے تھے، اب غائب ہو چکے ہیں۔ یہ نجف گڑھ جھیل کے آس پاس اُگائے جاتے تھے۔ آج نجف گڑھ اور دہلی گیٹ کے نالوں کی یمنا کی آلودگی میں ۶۳ فیصد حصہ داری ہے، جیسا کہ نیشنل گرین ٹربیونل (این جی ٹی) کی ویب سائٹ کا دعویٰ ہے۔ ’’سنگھاڑا چھوٹے آبی ذخائر میں اُگایا جاتا ہے،‘‘ دہلی کے کسانوں کی کثیر جہتی کوآپریٹو سوسائٹی کے جنرل سکریٹری، ۸۰ سالہ بلجیت سنگھ کہتے ہیں۔ ’’لوگوں نے دہلی میں اس کی کھیتی کرنا بند کر دیا کیوں کہ اسے پانی کی مناسب مقدار – اور کافی صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ راجدھانی کا یہ شہر آج تیزی سے دونوں ہی – پانی اور صبر – کھوتا جا رہا ہے۔
بلجیت سنگھ کہتے ہیں کہ کسان بھی اپنی زمینوں سے جلدی پیداوار چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ ایسی فصلوں کا انتخاب کر رہے ہیں جنہیں تیار ہونے میں ۲-۳ مہینے لگتے ہیں اور جنہیں سال میں ۳-۴ بار اُگایا جا سکتا ہے جیسے بھنڈی، پھلیاں، بینگن، مولی، پھول گوبھی۔ ’’دو دہائی قبل مولی کے بیج کی نئی قسمیں تیار کی گئی تھیں،‘‘ وجیندر بتاتے ہیں۔ ’’سائنس نے پیداوار بڑھانے میں مدد کی ہے،‘‘ شنکر کہتے ہیں۔ ’’پہلے ہمیں [فی ایکڑ] ۴۴۵-۵۰ کوئنٹل مولی مل جایا کرتی تھی؛ اب ہم اس سے چار گنا زیادہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اور ہم اسے سال میں تین بار اُگا سکتے ہیں۔
دریں اثنا، دہلی میں کنکریٹ سے ہونے والا ترقیاتی کام تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، سیلابی علاقے میں بھی اس میں کوئی کمی نہیں ہے۔ دہلی کے اقتصادی سروے ۲۰۱۸-۱۹ کے مطابق، سال ۲۰۰۰ اور ۲۰۱۸ کے درمیان ہر سال فصلی علاقے میں تقریباً ۲ فیصد کی گراوٹ آئی۔ فی الحال، شہر کی آبادی کا ۲ء۵ فیصد اور اس کے کل رقبہ کا تقریباً ۲۵ فیصد (۱۹۹۱ کے ۵۰ فیصد سے زیادہ سے نیچے) دیہی علاقہ ہے۔ دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) نے راجدھانی کے ماسٹر پلان ۲۰۲۱ میں مکمل شہرکاری کا منصوبہ تیار کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے اندازہ کے مطابق، دہلی میں ہونے والی تیز رفتار شہر کاری – خاص طور سے، تیز رفتار تعمیراتی سرگرمی، قانونی اور غیر قانونی – کا مطلب ہے کہ سال ۲۰۳۰ تک یہ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر بن سکتا ہے۔ یہ راجدھانی، جس کی آبادی اس وقت ۲۰ ملین ہے، تب تک ٹوکیو (ابھی ۳۷ ملین) سے آگے نکل جائے گی۔ نیتی آیوگ کا کہنا ہے کہ اگلے سال تک یہ اُن ۲۱ ہندوستانی شہروں میں سے ایک ہوگا، جہاں کا زیر زمین پانی ختم ہو چکا ہوگا۔
’’کنکریٹ کے کام کا مطلب ہے اور بھی زمین کو پختہ بنانا، پانی کا کم رسنا، کم ہریالی... پختہ زمین گرمی کو جذب کرتی ہے اور خارج کرتی ہے،‘‘ منوج مشرا کہتے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کے ماحولیاتی اور گلوبل وارمنگ پر ایک انٹریکٹو آلہ کے مطابق، سال ۱۹۶۰ میں – جب شنکر ۱۶ سال کے تھے – دہلی میں ۳۲ سیلسیس درجہ حرارت والے اوسطاً ۱۷۸ دن ہوا کرتے تھے۔ اب ۲۰۱۹ میں، زیادہ گرم دنوں کی تعداد ۲۰۵ تک پہنچ گئی ہے۔ اس صدی کے آخر تک، ہندوستان کی راجدھانی کا یہ شہر ہر سال ۳۲ سیلسیس گرمی والے چھ مہینے سے کم سے لے کر آٹھ مہینے سے زیادہ تک کا تجربہ کر سکتا ہے۔ اس میں انسانی سرگرمی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
مشرا بتاتے ہیں کہ جنوب مغربی دہلی کے پالم اور اس کے مشرق میں واقع سیلابی علاقے کے درمیان درجہ حرارت میں تقریباً ۴ ڈگری سیلسیس کا فرق ہے۔ ’’اگر پالم میں یہ ۴۵ سیلسیس ہے، تو سیلابی علاقے میں تقریباً ۴۰-۴۱ ڈگری سیلسیس ہو سکتا ہے۔‘‘ بڑے شہروں کے اندر، وہ کہتے ہیں، ’’یہ سیلابی علاقے ایک تحفہ ہیں۔‘‘
*****
چونکہ یمنا میں تقریباً ۸۰ فیصد آلودگی راجدھانی سے آتی ہے، جیسا کہ این جی ٹی کا ماننا ہے، ایسے میں یہ [ندی] اگر دہلی کو ’چھوڑ‘ دیتی تب کیا ہوتا – جو کہ زہریلے رشتے سے متاثرہ فریق کے لیے ایک منطقی قدم ہوتا۔ ’’دہلی کا وجود یمنا کی وجہ سے ہے، نہ کہ اس کا اُلٹا،‘‘ مشرا کہتے ہیں۔ ’’دہلی میں ۶۰ فیصد سے زیادہ پینے کا پانی ندی کے اوپری حصے سے تقسیم ہوکر اس کے ساتھ ساتھ چلنے والی نہر میں بہنے والے پانی سے آتا ہے۔ مانسون ندی کو بچاتا ہے۔ پہلی موج یا پہلا سیلاب ندی سے آلودگی کو دور لے جاتا ہے، دوسرا اور تیسرا سیلاب شہر کے زیر زمین پانی کو دوبارہ بھرنے کا کام کرتا ہے۔ یہ کام ندی کے ذریعے ۵-۱۰ سال کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، کوئی دوسری ایجنسی اس کام کو نہیں کر سکتی ہے۔ ہم نے جب ۲۰۰۸، ۲۰۱۰ اور ۲۰۱۳ میں سیلاب جیسی حالت دیکھی تھی، تو اگلے پانچ سالوں کے لیے پانی دوبارہ بھر دیا گیا تھا۔ اکثر دہلی والے اس کی تعریف نہیں کرتے ہیں۔‘‘
صحت مند سیلابی علاقے کلید ہیں – وہ پانی کو پھیلنے اور دھیما ہونے کے لیے جگہ فراہم کرتے ہیں۔ وہ سیلاب کے دوران اضافی پانی جمع کرتے ہیں، اسے دھیرے دھیرے زیر زمین ذخائر میں جمع کرتے ہیں۔ یہ آخرکار ندی کو دوبارہ بھرنے میں مدد کرتا ہے۔ دہلی نے ۱۹۷۸ میں اپنے آخری خطرناک سیلاب سے تباہی دیکھی تھی جب یمنا اپنی باقاعدہ حفاظتی سطح سے چھ فٹ اونچی ہو گئی تھی، جس کی وجہ سے سینکڑوں لوگ مارے گئے، لاکھوں متاثر ہوئے، کافی کچھ بے گھر ہو ئے تھے – فصلوں اور دیگر آبی ذخائر کو جو نقصان ہوا اس کا ذکر ہی کیا کرنا۔ اس نے پچھلی بار خطرے کے اس نشان کو ۲۰۱۳ میں پار کیا تھا۔ ’یمنا ندی پروجیکٹ: نئی دہلی کی شہری ایکو لوجی‘ (ورجینیا یونیورسٹی کی قیادت میں) کے مطابق، سیلابی علاقے پر دھیمی رفتار سے غیر قانونی قبضہ کے سنگین نتائج سامنے آنے والے ہیں۔ ’’کنارے کے باندھ ۱۰۰ سال کے دوران آنے والے سیلاب سے ٹوٹ جائیں گے، جس سے سیلابی علاقے کے نچلے خطوں میں بنے ڈھانچے ڈھے جائیں گے اور مشرقی دہلی پانی سے بھر جائے گا۔‘‘
کسان سیلابی علاقے میں تعمیراتی کاموں کو آگے بڑھانے کے خلاف ہوشیار کر رہے ہیں۔ ’’یہ آبی سطح کو خطرناک طور پر متاثر کرے گا،‘‘ شو شنکر کہتے ہیں۔ ’’ہر عمارت میں، وہ پارکنگ کے لیے تہہ خانے بنائیں گے۔ لکڑی حاصل کرنے کے لیے وہ پسندیدہ درخت لگائیں گے۔ اگر وہ پھیل کے درخت لگائیں گے – آم، امرود، انار، پپیتا – تو یہ کم از کم لوگوں کو کھانے اور کمانے میں مدد کریں گے۔ اور پرندوں اور جانوروں کو بھی کھانے کے لیے ملے گا۔‘‘
سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۱۹۹۳ سے لے کر اب تک، یمنا کی صفائی پر ۳۱۰۰ کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کیے جا چکے ہیں۔ پھر بھی، ’’یمنا آج صاف کیوں نہیں ہے؟‘‘ بلجیت سنگھ طعنہ مارتے ہیں۔
دہلی میں یہ سب ایک ساتھ ہو رہا ہے – غلط طریقے سے: شہر میں دستیاب ہر ایک انچ پر بغیر سوچے سمجھے کنکریٹ کا کام: یمنا کے سیلابی علاقے پر بے قابو تعمیراتی کام، اور اس کا غلط استعمال: زہریلی آلودگیوں سے اتنی اچھی ندی کا دم گھٹنا؛ زمین کا استعمال اور نئے بیج، طور طریقے اور ٹکنالوجیوں میں بھاری تبدیلی کا بڑے پیمانے پر اثر جسے شاید انہیں استعمال کرنے والے دیکھ نہ پائیں؛ قدرت کے درجہ حرارت کو مستحکم بنائے رکھنے کے نظام کی تباہی؛ بے ترتیب مانسون، آبی آلودگی کی غیر معمولی سطح۔ یہ ایک مہلک آمیزش ہے۔
شنکر اور ان کے ساتھی کسان اس کے کچھ اجزاء کو پہچانتے ہیں۔
’’آپ کتنی سڑکیں بنائیں گے؟‘‘ وہ پوچھتے ہیں۔ ’’آپ جتنا کنکریٹ بچھائیں گے، زمین اتنی ہی گرمی جذب کرے گی۔ قدرت کے پہاڑ – وہ بھی بارش کے دوران زمین کو ترو تازہ ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔ انسانوں نے کنکریٹ سے جن پہاڑوں کی تعمیر کی ہے، وہ زمین کو سانس لینے یا ترو تازہ ہونے یا بارش حاصل کرنے اور اس کا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ اگر پانی نہیں ہوگا، تو آپ غذائی اجناس کیسے اُگائیں گے؟‘‘
موسمیاتی تبدیلی پر پاری کی ملک گیر رپورٹنگ، عام لوگوں کی آوازوں اور زندگی کے تجربہ کے توسط سے اس واقعہ کو ریکارڈ کرنے کے لیے یو این ڈی پی سے امداد شدہ پہل کا ایک حصہ ہے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم zahra@ruralindiaonline.org کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی namita@ruralindiaonline.org کو بھیج دیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمر قمر تبریز)