مغربی بنگال کے پرولیا کا بھانگڑ ڈیہہ، ریاست کے زیادہ روایتی سنتال گاؤوں میں سے ایک ہے۔ کانکنی ابھی اس علاقے تک نہیں پہنچی ہے، جس کی وجہ سے گاؤوں والوں کو آس پاس کے کھیتوں، جنگلات اور تالابوں تک رسائی حاصل ہے، اور وہ اپنے کھانے کا زیادہ تر اناج خود ہی اُگاتے ہیں۔

دن کی شروعات ہو چکی ہے، حالانکہ صبح کے کہرے میں سرخ رنگ کا سورج باہر نکلنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ نوجوان عورتیں اپنی جھونپڑیوں کے دروازے کھول دیتی ہیں، الٹی ٹوکریوں کو اپنے پیروں سے اٹھا کر ان میں بند مرغیوں اور ان کے بچوں کو باہر نکالتی ہیں، جہاں انہوں نے رات گزاری تھی۔ نومبر کے آخری دن چل رہے ہیں، اور گھر کے کام کاج سے فارغ ہو چکی عورتیں اب کھیتوں کی طرف نکل پڑی ہیں، جہاں وہ فصل کاٹنے میں مردوں کی مدد کریں گی۔ دیگر عورتیں جلدی سے بکریوں کو اندرونی کمرے سے نکال کر جھونپڑی کے سامنے کھونٹے سے باندھ دیتی ہیں اور ان کے چھوٹے بچوں کو ماں کے آس پاس ہی اچھل کود کرنے کے لیے آزاد چھوڑ تی ہیں، اور بھیڑوں اور بھینسوں کو بھی ان کے باڑے سے باہر نکالتی ہیں۔ اگر فیملی میں کوئی دادی یا دادا ہے، تو وہ اِن مویشیوں کو چرانے کے لیے گھاس کے میدانوں کی طرف لے جاتے ہیں۔

سنتال کے کچھ گھروں کی پُتائی اور دیکھ ریکھ کا کام عورتیں ہی سنبھالتی ہیں

اس کے بعد یہ عورتیں جھاڑو لگانے کا کام شروع کر تی ہیں – مویشیوں کے باڑے، جھونپڑیوں، اندر اور باہر کے دالان، یہاں تک کہ گاؤں کے بیچ سے ہو کر گزرنے والے راستے کے ایک حصہ کو بھی صاف کرتی ہیں، اور سب کچھ جھاڑ پونچھ کر چمکا دیتی ہیں۔

عورتیں جھونپڑیوں کی دیکھ ریکھ اور ان کی پُتائی بھی کرتی ہیں، لیکن یہ کام اکتوبر میں بارش کا موسم ختم ہونے کے بعد کیا جاتا ہے۔ جھاڑو لگانے کے بعد، وہ اپنے ہاتھوں کو دھوتی ہیں اور برتن لے کر ٹیوب ویل سے پانی لانے چلی جاتی ہیں۔ اتفاق سے یہ ٹیوب ویل گاؤں کے بیچ میں ہی موجود ہے۔

PHOTO • Madhusree Mukerjee

عورتیں صبح کے وقت ٹیوب ویل پر جمع ہوتی ہیں، صرف پانی لینے کے لیے نہیں، بلکہ بات چیت کرنے اور کھیتوں سے لائی گئی تازہ سبزیوں کو دھونے کے لیے بھی

اس درمیان، بچے بھی سو کر اٹھ چکے ہیں اور کسی نہ کسی کام میں مصروف ہیں۔ گاؤں کے بیچ میں ایک مخصوص جھونپڑی کے اندر کچھ ڈھول ٹنگے ہوئے ٹنگے ہوئے ہیں، جن کا استعمال پڑوسی سنتال گاؤوں کو کسی عام خطرے سے آگاہ کرنے میں کیا جاتا ہے۔ اس جھونپڑی کے پاس سے گزرتا ہوا ایک بزرگ آدمی اِن لڑکیوں سے کہتا ہے کہ یہ کھلونے نہیں ہیں۔ لیکن چھلنی جیسے کھلونے سے انہیں بھوسی کی بجائے مٹی کو چھاننے کی اجازت ہے۔ بچوں کی شرارتیں مردوں یا عورتوں کو پریشان نہیں کرتیں اور نہ ہی انہیں غصہ آتا ہے، بھلے ہی بچوں کے کھیلنے سے ان کے کام میں رکاوٹ کیوں نہ پیدا ہو رہی ہو۔

دریں اثنا، بزرگ عورتوں (یہاں سونامونی مرمو اور ان کی ماں) نے دوپہر کا کھانا پکانا شروع کر دیا۔ چاول پک جانے کے بعد اس کے کاڑھے (اس کے ساتھ ابلے ہوئے پانی) کو احتیاط سے چھان کر ٹھنڈا ہونے کے لیے رکھ دیا جاتا ہے، جو بعد میں بھیڑ کو پلانے کے کام آئے گا۔

PHOTO • Madhusree Mukerjee
PHOTO • Madhusree Mukerjee

بائیں: ایک سنتال لڑکی روایتی ڈھول کو بجانے کی کوشش کر رہی ہے۔ دائیں: اور دوسری لڑکی چلھنی سے کھیل رہی ہے

PHOTO • Madhusree Mukerjee

سونامونی مُرمو اور ان کی ماں دوپہر کا کھانا پکا رہی ہیں

PHOTO • Madhusree Mukerjee

اوڈیشہ کے کیونجھار سے تعلق رکھنے والی سمترا مرڈی: ان کی ساس  کہتی ہیں، ’یہ چوبیسوں گھنٹے کام کرتی ہے‘

چاول، دال اور بھُنے ہوئے بیگن پر مشتمل دوپہر کا کھانا، بچوں کے اسکول سے لوٹنے کے بعد، دیر سے کھایا جاتا ہے۔ آج بچوں کو تحفہ کے طور پر انڈوں کی بھجیا بھی ملی ہے۔ کھانے کے بعد، عورتیں ٹیوب ویل پر چھوٹے برتنوں کو دھوتی ہیں۔ پلیٹوں سے جو بھی دانہ دھوتے وقت گر جاتا ہے، ان میں سے ہر ایک کو مرغیاں چُگ لیتی ہیں، اِس گاؤں میں کوئی بھی چیز برباد نہیں ہوتی۔ اس کے بعد یہ عورتیں بچوں کو سنبھالتی ہیں اور مشکل سے ملی فرصت کے وقت تھوڑا آرام کرتی ہیں۔

اوڈیشہ کے کیونجھار سے تعلق رکھنے والی سمترا مرڈی کو اپنے سسرال میں کام کاج سے بالکل بھی فرصت نہیں ملتی، یہی وجہ ہے کہ وہ ایک سال سے اپنے میکے نہیں جا سکی ہیں۔ اس کے نتیجہ میں، ان کے شوہر کا کہنا ہے کہ وہ چڑچڑی ہو چکی ہیں، لیکن ساس ان کے دُکھ کو سمجھتی ہیں اور کہتی ہیں، ’’وہ چوبیسوں گھنٹے کام کرتی ہے۔ اس سال چونکہ گھر میں کئی لوگ بیمار پڑ گئے تھے، اس لیے ہم اسے چھٹی نہیں دے سکے۔ پھر بھی، میں کہتی ہوں کہ اسے جلد ہی گھر جانا چاہیے۔‘‘ فیملی کی سب سے بڑی لڑکی، سونامونی کی شادی ہو چکی ہے، لیکن وہ اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ میکے آئی ہوئی ہے، تاکہ لمبے دماغی بخار سے افاقہ کے بعد اپنی صحت کو بحال کر سکے۔

سونامونی کو ادویاتی پودوں کی تھوڑی بہت جانکاری ہے، جو انہیں اپنی دادی سے ملی ہے۔ وہ دوپہر کے خالی وقت میں ان جڑی بوٹیوں کو پاس کے جنگل سے جمع کرتی ہیں، ساتھ ہی وہ ایسے بہت سے پودے بھی اکٹھا کرتی ہیں، جن کا استعمال ’بکھور‘ بنانے میں کیا جاتا ہے۔ سنتال لوگ اس کا استعمال موہوا شراب بنانے میں خمیر کے طور پر کرتے ہیں۔ مہوا کے درخت سے حاصل کیے گئے پھولوں سے بنائی جانے والی شراب میں ادویاتی عناصر پائے جاتے ہیں۔

PHOTO • Madhusree Mukerjee

سونامونی دوپہر کے وقت پاس کے جنگل سے جڑی بوٹیاں جمع کرتی ہیں

جلد ہی آگ دوبارہ جلائی جائے گی، جس پر رات کا کھانا پکے گا۔ مویشی اپنے گھروں میں لوٹ آئیں گے، کٹی ہوئی فصلوں سے نکالے گئے ڈنٹھل کو چبائیں گے، اور مرغیاں اپنے چوزوں کو پروں میں چھپا کر بیٹھ جائیں گی، اس انتظار میں کہ کوئی ان کے اوپر ٹوکری اوڑھا دے۔ بچے سو جائیں گے، پھر انہیں جگا کر کھانا کھلایا جائے گا اور بستر پر لے جا کر سُلا دیا جائے گا۔ سب سے آخر میں عورتیں سونے جائیں گی۔ انہیں اوڑھنے کے لیے سوت کی ہاتھ سے بنی رضائی ملے گی جو ٹھنڈ بھگانے کے لیے ناکافی ہے؛ ان رضائیوں کی سلائی دادیوں نے لمبی دوپہری میں کی تھی۔ انہیں اگلی صبح کو سب سے پہلے جاگنا بھی ہوگا۔

دیہی معیشت میں عورتوں کا رول کافی اہم ہے۔ روایتی طور پر سنتال عورت کی معاشی قدر کا اندازہ شادی کے وقت دلہن کے والدین کو ادا کی جانے والی قیمت سے ہوتا ہے۔ عورتوں کے رتبہ کو جانچنے کا آسان طریقہ مردوں کے مقابلے عورتوں کا تناسب ہے: ان معاشروں میں جہاں عورت کو کم تر مانا جاتا ہے، جیسا کہ عام ہندوستان میں ہوتا ہے، جہاں جنسی تناسب کم ہے۔ آدیواسیوں کے درمیان جنسی تناسب ہندوستان میں سب سے زیادہ ہے۔

PHOTO • Madhusree Mukerjee

دوپہر کے بعد، سونامونی کا بیٹا اور اس کی چچیری بہن ٹہلنے نکل جاتے ہیں۔ وہ گاؤں کے باہر نکل جاتے ہیں…

PHOTO • Madhusree Mukerjee
PHOTO • Madhusree Mukerjee

بائیں: …اور اس کھیت کے پاس پہنچ جاتے ہیں جہاں عورتوں اور مردوں نے ابھی ابھی اناج کاٹا ہے۔ دائیں: دوسری عورتیں سر پر اناج کا بوجھ…

تاہم، اس تناسب میں کمی آ رہی ہے، ساتھ ہی گھر میں عورتوں کی قدر بھی گھٹ رہی ہے، کیوں کہ زیادہ تر گاؤوں میں پہلے کھانے کا اناج کھیتوں پر ہی اُگا لیا جاتا تھا، لیکن اب کمائے ہوئے پیسوں سے یہی کھانا بازار سے خریدا جا رہا ہے۔ مالی معیشت میں عورتوں کی بہ نسبت مردوں کی کافی اہمیت اس لیے ہے، کیوں کہ وہ اپنے گھر سے دور جا کر بھی آسانی سے کام کر سکتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بیویوں کو اپنے شوہروں سے کھانے اور دواؤں کے لیے پیسے مانگنے پڑتے ہیں۔ ان کا نہ صرف آمدنی پر کم اختیار ہوتا ہے، بلکہ بازار کی قیمتوں پر بھی ان کا کوئی بس نہیں چلتا – حالانکہ وہ بچوں کو کھلانے اور ان کی دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داری نبھاتی ہیں۔ اس بے اختیاری کا اثر یہ ہو رہا ہے کہ جن آدیواسی گھرانوں نے مالی معیشت کو اپنا لیا ہے، وہ شادی کے وقت دلہن کی قیمت دینے کی بجائے اب جہیز لینا پسند کرتے ہیں، یہ ایک تباہ کن رسم ہے جو لڑکیوں کو اپنے والدین پر بوجھ بنا رہی ہیں اور اس کے نتیجہ میں جنسی تناسب بھی گھٹتا جا رہا ہے۔

PHOTO • Madhusree Mukerjee
PHOTO • Madhusree Mukerjee

بائیں: …اور لکڑی کے گٹھر اٹھائے وہاں سے گزرتی ہیں۔ دائیں: غروب آفتاب کے وقت، عورتیں مقامی تالاب میں اپنے برتن دھوتی ہیں۔ ان برتن سے گرے ہوئے دانوں کو بطخیں کھا جاتی ہیں۔ ان سے جو چھوٹ جاتا ہے، اس کو مچھلیاں اور کیکڑے کھا جاتے ہیں

PHOTO • Madhusree Mukerjee

مسکراتی ہوئی سونامونی، جو اپنی فیملی کی ایک قابل احترام رکن ہیں

تاہم، اس وقت بھانگڑ ڈیہہ کی عورتیں محفوظ، مضبوط اور قیمتی ہیں۔ یہ بات سونامونی کی موجودگی سے، ان کے بھائی بہنوں اور والدین کو ملنے والی خوشی سے ظاہر ہوتی ہے؛ وہ ان کے لیے بوجھ نہیں ہیں، بلکہ اپنی فیملی کی ایک قابل احترام رکن ہیں اور اپنی مرضی سے جب تک چاہیں یہاں رک سکتی ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Madhusree Mukerjee

Madhusree Mukerjee is a journalist and the author of 'Churchill's Secret War: The British Empire and the Ravaging of India during World War II' and 'The Land of Naked People: Encounters with Stone Age Islanders'. She is also a physicist and has served on the board of editors of 'Scientific American' magazine.

Other stories by Madhusree Mukerjee
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez