ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی ۱۳۰ویں جینتی کے موقع پر، ہم پونہ کے نندگاؤں کی شاہو کامبلے کے گیتوں کا یہ مجموعہ لے کر آئے ہیں جو سماجی انصاف اور برابری سے متعلق امبیڈکر کی جدوجہد کی کہانی بیان کرتا ہے

گھر کو سجاتے دیکھا، پوچھا میرے پڑوسی نے، یہ مجھے بتاؤ، کیوں ہے خاص آج کا دن
میں اسے بتاتی، میرے بھیم آئے اور ساتھ میں رما بھی، اس لیے ہے خاص آج کا دن

اس نظم (او وی) میں، شاہو کامبلے اُس لمحہ میں ہونے والی خوشی کو بیان کرتی ہیں جب ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اور رما بائی کسی کے گھر جاتے ہیں۔ ڈاکٹر امبیڈکر کی ۱۳۰ویں جینتی کے موقع پر، ’چکّی کے گانوں کے پروجیکٹ‘ کی اس قسط میں ان کے گیت، بابا صاحب کے تئیں محبت و احترام کا اظہار کرتے ہیں، جنہوں نے ذات پر مبنی ہندو معاشرے میں صدیوں سے ستائے گئے لوگوں کے بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد کی۔

شاہو بائی، پونہ ضلع کے نندگاؤں میں رہتی تھیں۔ ۱۹۹۰ کی دہائی کے درمیانی سالوں میں، انہوں نے ’چکّی کے گانوں کے پروجیکٹ‘ (گرائنڈ مل سانگس پروجیکٹ) کی کور ٹیم کے لیے تقریباً ۴۰۰ گیت ریکارڈ کیے تھے۔ لیکن، جب ستمبر ۲۰۱۷ میں پاری جی ایس پی کی ٹیم ملشی تعلقہ میں ان سے ملنے پہنچی، تو ہمیں یہ افسوسناک خبر ملی کہ شاہو بائی کی ایک سال پہلے بچہ دانی کے کینسر کی وجہ سے موت ہو گئی تھی۔

وہ ایک کسان تھیں، اور انہوں نے دایہ کے طور پر بھی کام کیا تھا۔ ان کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ شاہو بائی روایتی طور پر پڑھی لکھی تو نہیں تھیں، لیکن عقیدہ کے لحاظ سے دلت بودھ تھیں اور ڈاکٹر امبیڈکر کے دکھائے راستے پر بطور نیو بدھسٹ چل رہی تھیں۔ نندگاؤں کی رہنے والی ان کی دوست اور نند کُسُم سوناونے کہتی ہیں، ’’گانوں کو بہترین دھنوں میں پرونے کی بہترین صلاحیت تھی شاہو بائی کے پاس۔‘‘ کسم نے بھی ’چکی کے گانوں کے پروجیکٹ‘ کے لیے گیت گائے ہیں۔

جن ڈاکٹر بھیم راؤ رام جی امبیڈکر کو ان کے ماننے والے ’بابا صاحب‘ کہتے ہیں، انہیں اپنے اسکول میں ذات پر مبنی تفریق کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انہیں دوسرے طلباء سے دور، کلاس روم کے دروازے کے باہر فرش پر بیٹھنے کے لیے کہا جاتا تھا اور پانی پینے کے برتن کو چھونے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی تھی؛ صرف بڑی ذات کے طالب علم ہی ان برتنوں سے پانی پی سکتے تھے۔

۱۴ اپریل، ۱۸۹۱ کو اندور کے قریب موجود شہر مہو میں پیدا ہوئے ڈاکٹر امبیڈکر اپنے ماں باپ، رام جی اور بھیما بائی سکپال کی ۱۴ویں اولاد تھے۔ والد رام جی انگریزوں کی ہندوستانی فوج میں کام کرتے تھے۔ یہ فیملی بنیادی طور پر مہاراشٹر کے کونکن علاقے کے رتنا گیری ضلع کے امبڈوے گاؤں کی تھی، جہاں بھیم کو پڑھنے کے لیے اسکول بھیجا گیا تھا۔ وہاں کے ٹیچر کرشنا جی امبیڈکر اس لڑکے کے تیز دماغ سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنے شاگرد کو خود کا لقب دے دیا، یعنی امبیڈکر۔

Kusum Sonawane (with Shahu Kamble's photo), says that the late Shahubai had a talent for setting songs to melodious tunes
PHOTO • Namita Waikar

کسم سوناونے (شاہو کامبلے کی تصویر کے ساتھ) کہتی ہیں کہ ’شاہو بائی کے پاس گانوں کو دھنوں میں پرونے کی بہترین صلاحیت تھی‘

بھیم راؤ نے ممبئی کے ایلفنسٹن ہائی اسکول سے میٹرک کی پڑھائی کی اور پھر بامبے یونیورسٹی کے ایلفنسٹن کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔ سال ۱۹۱۳ میں، وہ امریکہ چلے گئے، جہاں انہوں نے نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی سے اقتصادیات میں ایم اے کیا۔ وہ اپنا مقالہ جمع کرنے کے لیے بعد میں دوبارہ یونیورسٹی لوٹے اور سال ۱۹۲۷ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ درمیان کے سالوں میں، انہوں نے انگلینڈ کا سفر کیا۔ یہاں انہوں نے ایک ساتھ، لندن اسکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس میں ڈاکٹریٹ حاصل کرنے کے لیے تھیسس پر کام کیا اور ’گریس اِن‘ سے قانون کی پڑھائی کی۔

ان کی تعلیم اور تجربات نے انہیں ایک سیاسی لیڈر بننے میں مدد تو کی ہی، وہیں دوسری طرف ہندوستانی آئین کے بنیادی معمار کا رول نبھانے کے لیے بھی تیار کیا۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے ذات کے نام پر ستائے گئے لوگوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے کئی محاذ پر قیادت کی۔ ان کی قیادت والے سب سے مشہور احتجاجی مظاہروں میں سے ایک میں انہوں نے ۲۰ مارچ، ۱۹۲۷ کو مہاراشٹر کے مہاڑ ضلع میں عوامی تالاب چودار سے پانی پی کر مبینہ اچھوتوں کے لیے لگی پابندی کو توڑ دیا تھا۔

شاہو بائی کے گائے ۱۳ اشعار (او وی) میں سے پہلے آٹھ اشعار میں وہ ڈاکٹر امبیڈکر کی عوامی شخصیت اور زندگی کی مدح سرائی کرتی ہیں۔ گلوکارہ، بھیم راؤ کی اس سماجی حیثیت کی تعریف کرتی ہیں اور وہ منظر گاتی ہیں جس میں بابا صاحب ایک کار میں آتے ہیں اور اس میں گریل والا بونٹ ہوتا ہے۔ وہ اپنی حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ امبیڈکر اپنے ماں باپ کے گھر پیدا ہوئے ’ہیرا‘ تھے۔ شاہو بابا صاحب کو راجا کی شبیہ والا بتاتی ہیں، جب وہ ۹ کروڑ دلتوں کی قیادت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس کے لیے، وہ ان کے چھاتے پر لگے گُچھے کے نشان کا استعمال کرتی ہیں۔

حالانکہ، بابا صاحب اب اس دنیا میں نہیں ہیں، لیکن گلوکارہ کہتی ہیں، ’’’یہ مت کہو کہ بھیم مر چکے ہیں‘، کیوں کہ انہوں نے ہمیں نیلے جھنڈے کا نشان دیا ہے۔‘‘ اس جھنڈے کو، جس کے بیچ میں اشوک چکر بنا ہوا ہے، ڈاکٹر امبیڈکر نے آل انڈیا شیڈول کاسٹ فیڈریشن کے لیے منتخب کیا تھا۔ یہ ایک سیاسی پارٹی تھی، جسے انہیں سال ۱۹۴۲ میں قائم کیا تھا۔ دلتوں کے لیے یہ جھنڈا سیاسی اور سماجی طاقت اور اتحاد کی علامت ہے۔

گلوکارہ آگے گاتی ہیں کہ جس وقت گاندھی جیل میں ہیں، بھیم راؤ سوٹ، موزے اور جوتے پہن کر، اپنے ہاتھ میں ڈھیر ساری کتابیں لیے آتے ہیں اور عدالت میں ۹ کروڑ دلتوں کے لیے لڑتے ہیں۔

The walls of Kusum Sonawane's home in Nandgaon shows the family's reverence for Babasaheb Ambedkar
PHOTO • Namita Waikar

نندگاؤں میں کسم سوناونے کے گھر کی دیواریں، بابا صاحب امبیڈکر کے تئیں ان کی فیملی کے پیار کو دکھاتی ہیں

یہ گیت شاید پونہ پیکٹ کے آس پاس کے واقعات سے متاثر ہے، جو سال ۱۹۳۲ میں ڈاکٹر امبیڈکر اور گاندھی کے درمیان ہوا تھا۔ یہ انگریزوں کے اس اعلان کے بعد ہوا تھا، جب انہوں نے ’ڈپریسڈ کلاس‘ (درج فہرست ذات) کے لیے مرکز اور صوبائی اسمبلیوں میں جداگانہ انتخاب کا اعلان کیا تھا۔ گاندھی اس وقت پونہ کی یروڈا جیل میں تھے اور جداگانہ انتخاب کے خیال کے مخالف تھے۔ انہیں ڈر تھا کہ اس سے ہندو سماج تقسیم ہو جائے گا۔ وہ اس کی مخالفت میں بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے۔ لیکن امبیڈکر نے استحصال زدہ لوگوں کے حقوق کی لڑائی نہیں چھوڑی۔ دونوں لیڈر آخرکار مشترکہ انتخاب کے لیے مان گئے، لیکن صوبائی اسمبلیوں میں دلتوں کے لیے انتخابی سیٹیں محفوظ ہو گئیں۔

ساتویں شعر (او وی) میں شاہو گاتی ہیں کہ بھیم راؤ جب بھی آتے ہیں، انہیں رہنے کے لیے کمرہ مل جاتا ہے۔ وہ ایک برہمن لڑکی (دوسری بیوی، ڈاکٹر سویتا امبیڈکر کا حوالہ، جو پیدائشی برہمن تھیں) کے قریب آ گئے ہیں۔ وہ آگے کہتی ہیں، وہ شیشوں والی کار میں آتے ہیں جس سے بڑی ذات کی لڑکیاں متاثر ہوتی ہیں۔ ایسی معلومات فخر اور دلکشی پیدا کرتی ہیں، کیوں کہ مہار ذات، جس میں ڈاکٹر امبیڈکر کی پیدائش ہوئی تھی، کے لوگوں کو ذات پر مبنی سماج میں کوئی انسان ہی نہیں سمجھتا تھا۔ لیکن سماج کے ایک طبقہ نے بابا صاحب کی حصولیابیوں کے لیے ان کی ہمیشہ تعریف کی، جو مہار ذات کے لوگوں کے لیے فخر کی بات ہے۔

ڈاکٹر امبیڈکر نے جس طرح کی عوامی مقبولیت حاصل کی، اس کا مطلب تھا کہ دلتوں کے اس لیڈر نے ذات کی ایسی رکاوٹوں کو پار کر لیا جسے پار کرنے کے لیے صدیوں سے دلت جدوجہد کر رہے تھے۔ یہ لڑائی آج، ۲۱ویں صدی میں بھی جاری ہے۔

نویں گیت میں اس منظر کا ذکر ہے، جب گلوکارہ بابا صاحب اور رما بائی (ڈاکٹر امبیڈکر کی پہلی بیوی) کا مہمان کے طور پر استقبال کرنے کے لیے اپنے گھر کی صفائی اور آرائش کر رہی ہیں۔ آخری چار اشعار میں گلوکارہ، گوتم بدھ کے تئیں اپنا عقیدہ ظاہر کرتی ہیں، جن کی فراہم کردہ تعلیمات کو ڈاکٹر امبیڈکر نے اپنایا تھا۔ گلوکارہ جب صبح کو گھر کا دروازہ کھولتی ہیں، تو وہ بدھ کو دروازے کی دہلیز پر پاتی ہیں۔ وہ اپنے بیٹے سے کہتی ہیں کہ سونے اور چاندی سے بنی مورتیوں کی پوجا کرنے کی بجائے، بدھ کی تعلیمات پر عمل کرنا بہتر ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’دہاڑی پر نکلنے سے پہلے، صبح بدھ کو یاد کرو۔‘‘

شاہو کامبلے کی آواز میں گائے ۱۳ بہترین اشعار سنیں

असे आले भीमराव भीमराव, यांच्या मोटारीला तारा
कशी आईबापांच्या पोटी, कसा जलमला हिरा

अशी ना आला भीमराव भीमराव, यांच्या छतरीला झुबा
नवकोटी जनता साठी, सरहद्दीला राहीला उभा

अशी मेला भीमराव भीमराव, नका ना म्हणू भीम मेला
नवकोटी जनताला, निळ्या झेंड्यायाची खुण देऊयनी गेला


अशी आला भीमराव भीमराव, यांच्या पुस्तकाच्या घड्या
नवकोटी जनतासाठी, कशा गांधीला त्या आल्या बेड्या

अशी आला भीमराव भीमराव, यांच्या पायामंदी बूट
नवकोटी जनतासाठी, कोरटाला गेला नीट

अशी आला भीमराव भीमराव, याच्या पाया मंदी मोजा
आपल्या ना जनतासाठी, गांधीला आली सजा

आला भीमराव भीमराव, याला राहायाला खोली
कशी बाभनाची मुली, यानी सोयरिक केली

अशी आला भीमराव भीमराव, याच्या मोटारीला भिंग
अशी बाभणाच्या मुली, पाहुनी गं झाल्या दंग

अशी सडसारवण सारवण, शेजी ना म्हणती आज काही
पाव्हणी गं मला आली, आंबेडकर अन् रमाबाई

बाई सडसारवण सारवण, सारवीते लांब लांब
करीते ना तुला आरती, बुध्ददेवा जरा थांब

अशी सकाळच्या पारी, उघडीते दारकडी
अशी माझ्या अंगणात, गौतम बुध्दायाची जोडी

अशी बाई कायीच करावा, चांदी सोन्याच्या देवाला
सांगते रे माझ्या बाळा, लाग बुध्दाच्या सेवेला

अशी सकाळच्या पारी, नाव बुध्दायाच घ्यावा
सांगते रे माझ्या बाळा, मग चितल्या कामा जावा

ایسی کار میں آتے بھیم، گریل لگی ہے بونٹ پر
آہ! پیدا ہوا ایک ہیرا، ماں باپ کی چوکھٹ پر

دیکھو آئے اپنے بھیم راؤ، گچھے لگے چھاتے کے ساتھ
نو کروڑ لوگوں کی خاطر، آگے کھڑے تانتے کے ساتھ

بھیم راؤ اب نہیں رہے، پر مت بولو کہ ’’نہیں رہے‘‘
نو کروڑ کو دیا نیلا جھنڈا، کون کہے گا نہیں رہے

دیکھو آئے بھیم راؤ، ہاتھوں میں کتاب کا ڈھیر لیے
گاندھی ہیں جیل میں، پر بابا آئے، نو کروڑ دلتوں کے لیے

ایسے آئے بھیم بابا، پاؤں میں پہنے جوتے کو
نو کروڑ لوگوں کی خاطر، سیدھے گئے عدالت کو

ایسے آئے بھیم راؤ، پیروں میں پہنا موزہ
اپنے لوگوں کی خاطر؛ گاندھی نے اٹھائی سزا

بھیم راؤ ہیں آئے، رکنے کو ہے ایک کمرہ
برہمن لڑکی کے قریب، ان کا دل ہے ذرا ٹھہرا

ایسے آئے بھیم راؤ، ان کی کار میں لگا شیشہ ہے
برہمن کی لڑکیاں فریفتہ ہیں، بابا کو ایسے دیکھا ہے

گھر کو سجاتے دیکھا، پوچھا میرے پڑوسی نے، یہ مجھے بتاؤ، کیوں ہے خاص آج کا دن
میں اسے بتاتی، میرے بھیم آئے اور ساتھ میں رما بھی، اس لیے ہے خاص آج کا دن

دیکھو سہیلی، گائے کا گوبر لیپا میں نے، چھڑکا تھوڑا پانی ہے
بھگوان بدھ، تھوڑا رک جاؤ، آرتی کی تھالی لے کر آنی ہے

میں نے کھولا دروازہ، صبح صبح اور تڑکے
میں نے دیکھا بدھ دیو کو، اپنے آنگن میں کھڑکے

دیکھو سہیلی، میں کیا جانوں، چاندی اور سونے کے بتوں کا کیا کرنا
سن میری، میرے پیارے بیٹے، شروع کرو کہ کام ہے تیرا بدھ کے راستے چلنا

صبح صبح اٹھ کر، زباں پر بدھ کا نام ہے لانا
سن میری، میرے پیارے بیٹے، اس کے بعد ہی کام پر جانا

پرفارمر/فنکار: شاہو کامبلے

گاؤں: نندگاؤں

تعلقہ: مُلشی

ضلع: پونہ

ذات: نیو بدھسٹ

عمر: ۷۰ (اگست، ۲۰۱۶ میں بچہ دانی کے کینسر سے موت)

اولاد: دو بیٹیاں اور دو بیٹے

پیشہ: کسان اور دایہ

تاریخ: سبھی گیت اور بقیہ معلومات ۵ اکتوبر، ۱۹۹۹ کو ریکارڈ کی گئی تھیں۔ تصویریں ۱۱ ستمبر، ۲۰۱۷ کو کھینچی گئیں

پوسٹر: سنچیتا ماجی

’چکی کے گانے‘ کے پروجیکٹ کے بارے میں پڑھیں ، جسے ہیما رائیرکر اور گی پائٹواں نے شروع کیا تھا۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Namita Waikar
namita.waikar@gmail.com

Namita Waikar is a writer, translator and Managing Editor at the People's Archive of Rural India. She is the author of the novel 'The Long March', published in 2018.

Other stories by Namita Waikar
PARI GSP Team

PARI Grindmill Songs Project Team: Asha Ogale (translation); Bernard Bel (digitisation, database design, development and maintenance); Jitendra Maid (transcription, translation assistance); Namita Waikar (project lead and curation); Rajani Khaladkar (data entry).

Other stories by PARI GSP Team
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez