بیاسی (۸۲) سال کی عمر میں عارفہ سب کچھ دیکھ چکی ہیں۔ ان کے آدھار کارڈ پر درج ہے کہ وہ یکم جنوری، ۱۹۳۸ کو پیدا ہوئی تھیں۔ عارفہ کو نہیں معلوم کہ آیا یہ صحیح ہے یا نہیں، لیکن انہیں اتنا ضرور یاد ہے کہ ۱۶ سال کی عمر میں وہ ۲۰ سالہ رضوان خان کی دوسری بیوی بن کر ہریانہ کے نوح ضلع کے بیواں گاؤں آئی تھیں۔ ’’میری ماں نے رضوان کے ساتھ میری شادی تب کر دی تھی، جب میری بڑی بہن [رضوان کی پہلی بیوی] اور ان کے چھ بچوں کی موت تقسیم کے دوران ایک بھگدڑ میں کچل جانے کی وجہ سے ہو گئی تھی،‘‘ عارفہ (بدلا ہوا نام) یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں۔
انہیں تھوڑا تھوڑا یہ بھی یاد ہے جب مہاتما گاندھی میوات کے ایک گاؤں میں آئے تھے اور میو مسلمانوں سے کہا تھا کہ وہ پاکستان نہ جائیں۔ ہریانہ کے میو مسلمان ہر سال ۱۹ دسمبر کو نوح کے گھاسیڑا گاؤں میں گاندھی جی کی اُس آمد کی یاد میں میوات دیوس مناتے ہیں (سال ۲۰۰۶ تک نوح کو میوات کہا جاتا تھا)۔
عارفہ کو وہ منظر آج بھی یاد ہے جب ماں نے ان کو زمین پر بیٹھاتے ہوئے سمجھایا تھا کہ انہیں رضوان سے کیوں شادی کر لینی چاہیے۔ ’’اس کے پاس تو کچھ بھی نہیں بچا، میری ماں نے مجھ سے کہا تھا۔ میری ماں نے مجھے اسے دے دیا پھر،‘‘ عارفہ کہتی ہیں، یہ بتاتے ہوئے کہ کیسے بیواں ان کا گھر بن گیا، جو کہ ان کے گاؤں، ریٹھوڑا سے تقریباً ۱۵ کلومیٹر دور ہے، دونوں ہی گاؤں اس ضلع کا حصہ ہیں جو کہ ترقی کے حساب سے ملک کے سب سے غریب ضلعوں میں شمار ہوتا ہے۔
قومی راجدھانی سے تقریباً ۸۰ کلومیٹر دور، فیروز پور جھرکہ بلاک کا بیواں گاؤں، ہریانہ اور راجستھان کی سرحد پر اراولی پہاڑیوں کے دامن میں بسا ہوا ہے۔ دہلی سے نوح کو جانے والی سڑک جنوبی ہریانہ کے گروگرام سے ہوکر گزرتی ہے، جو کہ ہندوستان میں تیسری سب سے زیادہ فی کس آمدنی کے ساتھ ایک مالی اور صنعتی مرکز ہے، لیکن یہیں پر ملک کا سب سے پس ماندہ ۴۴واں ضلع بھی ہے۔ یہاں کے ہرے بھرے کھیت، خشک پہاڑیاں، کمزور بنیادی ڈھانچے اور پانی کی کمی عارفہ جیسے بہت سے لوگوں کی زندگی کا حصہ ہیں۔
مسلمانوں کی میو برادری کے زیادہ تر لوگ ہریانہ کے اسی علاقے میں اور پڑوسی ریاست، راجستھان کے کچھ حصوں میں رہتے ہیں۔ نوح ضلع میں مسلمانوں کی آبادی ۷۹ء۲ فیصد ہے ( مردم شماری ۲۰۱۱ )۔
۱۹۷۰ کے عشرے میں، جب عارفہ کے شوہر رضوان نے بیواں سے پیدل دوری پر ریت، پتھر اور سلیکا کی کانوں میں کام کرنا شروع کیا تھا، تب عارفہ کی دنیا پہاڑیوں کے گرد گھومتی تھی، اور ان کا بڑا کام پانی لانا ہوتا تھا۔ بائیس سال پہلے جب رضوان کا انتقال ہو گیا، تو عارفہ اپنا اور اپنے آٹھ بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے کھیتوں میں مزدوری کرنے لگیں، اور تب انہیں دن بھر کی مزدوری صرف ۱۰ سے ۲۰ روپے ملتی تھی، جیسا کہ وہ بتاتی ہیں۔ ’’ہمارے لوگ کہتے ہیں کہ جتنے بچے پیدا کر سکتے ہو کرو، اللہ ان کا انتظام کرے گا،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔
ان کی چار لڑکیوں کی شادی ہو چکی ہے، جو الگ الگ گاؤوں میں رہتی ہیں۔ ان کے چار بیٹے اپنی اپنی فیملی کے ساتھ آس پاس ہی رہتے ہیں؛ ان میں سے تین کسان ہیں، جب کہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتا ہے۔ عارفہ اپنے ایک کمرے کے گھر میں اکیلے رہنا پسند کرتی ہیں۔ ان کے سب سے بڑے بیٹے کے ۱۲ بچے ہیں۔ عارفہ بتاتی ہیں کہ جس طرح انہوں نے کبھی مانع حمل کا استعمال نہیں کیا، ویسے ہی ان کی بہوئیں بھی اس کا استعمال نہیں کرتی ہیں۔ ’’تقریباً ۱۲ بچوں کے بعد یہ خود ہی رک جاتا ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ ’’ہمارے مذہب میں مانع حمل کا استعمال کرنا جرم سمجھا جاتا ہے۔‘‘
رضوان کی موت ویسے تو بڑھاپے میں ہوئی تھی، لیکن میوات ضلع کی زیادہ تر عورتوں کے شوہر تپ دق (ٹی بی) کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ ٹی بی کی وجہ سے بیواں میں بھی ۹۵۷ لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ انہی میں سے ایک بہار کے شوہر دانش (بدلا ہوا نام) بھی تھے۔ بیواں کے جس گھر میں وہ گزشتہ ۴۰ سال سے رہ رہی تھیں، وہاں انہوں نے ۲۰۱۴ سے ہی ٹی بی کی وجہ سے اپنے شوہر کی صحت گرتے ہوئے دیکھی تھی۔ ’’ان کے سینے میں درد رہتا تھا اور اکثر کھانسی کرتے وقت خون بھی نکلتا تھا،‘‘ وہ یاد کرتی ہیں۔ بہار، جن کی عمر اس وقت تقریباً ۶۰ سال ہے، اور ان کی دو بہنیں، جو بغل کے مکان میں رہتی ہیں، سب کے شوہروں کی موت اسی سال ٹی بی کی وجہ سے ہو گئی تھی۔ ’’لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا اس لیے ہوا کیوں کہ ہماری تقدیر میں یہی لکھا تھا۔ لیکن ہم اس کے لیے پہاڑیوں کو ذمہ دار مانتے ہیں۔ ان پہاڑیوں نے ہمیں برباد کر دیا ہے۔‘‘
(سال ۲۰۰۲ میں، سپریم کورٹ نے فرید آباد اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی کے بعد ہریانہ میں کانکنی سے متعلق سرگرمیوں پر روک لگا دی تھی۔ سپریم کورٹ کا پابندی لگانے کا حکم نامہ صرف ماحولیاتی تباہی سے متعلق ہے۔ اس میں ٹی بی کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔ صرف دو چار مثالیں اور چند رپورٹ دونوں کو جوڑتی ہیں۔)
یہاں سے سات کلومیٹر دور، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر نوح کا پرائمری ہیلتھ سینٹر (پی ایچ سی)، جو کہ بیواں سے سب سے قریب ہے، وہاں کے اسٹاف ممبر پون کمار ہمیں ۲۰۱۹ میں ٹی بی کی وجہ سے ۴۵ سالہ واعظ کی موت کا ریکارڈ دکھاتے ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق، بیواں کے سات دیگر مرد بھی ٹی بی کے شکار ہیں۔ ’’اور بھی ہو سکتے تھے، کیوں کہ بہت سے لوگ یہاں کی پی ایچ سی میں نہیں آتے ہیں،‘‘ کمار بتاتے ہیں۔
واعظ کی شادی ۴۰ سالہ فائزہ سے ہوئی تھی (دونوں کے نام بدل دیے گئے ہیں)۔ ’’نوگانواں میں کوئی کام دستیاب نہیں تھا،‘‘ وہ ہمیں راجستھان کے بھرت پور ضلع میں واقع اپنے گاؤں کے بارے میں بتاتی ہیں۔ ’’میرے شوہر کو جب کانوں میں دستیاب کام کے بارے میں پتہ چلا، تو وہ بیواں آ گئے۔ میں ایک سال بعد ان کے پاس آئی، اور ہم دونوں نے یہاں اپنا ایک گھر بنایا۔‘‘ فائزہ نے ۱۲ بچوں کو جنم دیا۔ چار کی موت وقت سے پہلے پیدائش کی وجہ سے ہو گئی تھی۔ ’’ایک ٹھیک سے بیٹھنا بھی نہیں سیکھ پاتا تھا کہ دوسرا بچہ ہو جاتا تھا،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔
وہ اور عارفہ اب انہیں ۱۸۰۰ روپے ماہانہ ملنے والے پنشن پر گزارہ کر رہے ہیں۔ کام انہیں بمشکل ہی مل پاتا ہے۔ ’’اگر ہم کام کے بارے میں پوچھتے ہیں، تو ہم سے کہا جاتا ہے کہ ہم بہت کمزور ہیں۔ وہ کہیں گے کہ یہ ۴۰ کلو کا ہے، کیسے اٹھائے گی یہ؟،‘‘ ۶۶ سال کی بیوہ، ہادیہ (بدلا ہوا نام) بتاتی ہیں، اس طعنے کو دوہراتے ہوئے جو انہیں اکثر سننے کو ملتے ہیں۔ اس لیے پنشن کا ہر ایک روپیہ بچایا جاتا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی طبی ضروریات کے لیے بھی نوح کے پی ایچ سی تک جانے میں آٹورکشہ کا ۱۰ روپیہ کرایہ دینا پڑتا ہے، لیکن یہ لوگ پیدل ہی آتے جاتے ہیں اور اس طرح اپنا ۱۰ روپیہ بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’’ہم ان تمام بزرگ عورتوں کو جمع کر لیتے ہیں جو ڈاکٹر کے پاس جانا چاہتی ہیں۔ پھر ہم سبھی ایک ساتھ وہاں جاتے ہیں۔ ہم راستے میں کئی بار بیٹھتے ہیں تاکہ آرام کرنے کے بعد آگے کا سفر جاری رکھ سکیں۔ اس طرح سے پورا دن چلا جاتا ہے،‘‘ ہادیہ بتاتی ہیں۔
بچپن میں ہادیہ کبھی اسکول نہیں گئیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ سونی پت، ہریانہ کے کھیتوں نے انہیں سب کچھ سکھا دیا، جہاں ان کی ماں مزدوری کرتی تھیں۔ ان کی شادی ۱۵ سال کی عمر میں فاہد سے ہوئی تھی۔ فاہد نے جب اراولی کی پہاڑیوں کے کانوں میں کام کرنا شروع کیا، تو ہادیہ کی ساس نے انہیں کھیتوں سے گھاس پھوس نکالنے کے لیے ایک کھُرپا تھما دیا۔
سال ۲۰۰۵ میں جب ٹی بی کی وجہ سے فاہد کی موت ہو گئی، تو ہادیہ کو کھیتوں پر مزدوری کرنے، قرض لینے اور پھر اسے چکانے پر مجبور ہونا پڑا۔ ’’میں دن میں کھیتوں پر مزدوری کیا کرتی، اور رات میں بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ فقیرنی جیسی حالت ہو گئی تھی،‘‘ وہ آگے بتاتی ہیں۔
’’میں نے شادی کے پہلے سال میں ہی ایک بیٹی کو جنم دیا۔ بقیہ کی پیدائش ہر دوسرے یا تیسرے سال میں ہوئی۔ پہلے کا شُدّھ [اصلی] زمانہ تھا،‘‘ چار بیٹوں اور چار بیٹیوں کی ماں، ہادیہ کہتی ہیں، اپنے زمانے کے تولیدی مسائل پر خاموشی اور تولیدی مداخلت کے بارے میں بیداری کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے۔
نوح کے کمیونٹی ہیلتھ سینٹر (سی ایچ سی) کے سینئر میڈیکل آفیسر، گووند شرن کو بھی وہ زمانہ یاد ہے۔ تیس سال پہلے، جب انہوں نے سی ایچ سی میں کام کرنا شروع کیا تھا، تو لوگ خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں کچھ بھی بات کرنے سے ہچکچاتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ ’’پہلے اگر ہم خاندانی منصوبہ بندی کی بات کرتے، تو لوگ ناراض ہو جایا کرتے تھے۔ میو برادری میں اب، کاپر-ٹی استعمال کرنے کا فیصلہ اکثر و بیشتر میاں بیوی کے ذریعے لیا جاتا ہے۔ لیکن وہ ابھی بھی اسے گھر کے بزرگوں سے چھپاتے ہیں۔ اکثر عورتیں ہم سے درخواست کرتی ہیں کہ ہم ان کی ساس کو اس کے بارے میں نہ بتائیں،‘‘ شرن کہتے ہیں۔
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-۴ (۲۰۱۵-۱۶) کے مطابق، نوح ضلع (دیہات) میں ۱۵-۴۹ سال کی عمر کی حالیہ شادی شدہ عورتوں میں صرف ۱۳ء۵ فیصد عورتیں ہی خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق کسی طریقے کا استعمال کرتی ہیں۔ نوح ضلع کی کل شرحِ افزائش ریاست ہریانہ کے ۲ء۱ کے مقابلے ۴ء۹ ہے (مردم شماری ۲۰۱۱)، جو کہ بہت زیادہ ہے۔ نوح ضلع کے دیہی علاقوں میں ۱۵-۴۹ سال کی صرف ۳۳ء۶ فیصد عورتیں ہی خواندہ ہیں، ۲۰-۲۴ سال کی عمر کی تقریباً ۴۰ فیصد عورتوں کی شادی ۱۸ سال سے کم عمر میں ہی کر دی گئی، اور صرف ۳۶ء۷ فیصد عورتوں نے ہی بچوں کو کسی طبی مرکز میں جنم دیا۔
نوح ضلع کے دیہی علاقوں میں مشکل سے ۱ء۲ فیصد عورتیں کاپر-ٹی جیسے مانع حمل آلہ کا استعمال کرتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کاپر-ٹی کو جسم کے اندر باہری چیز تصور کیا جاتا ہے۔ ’’اور اس قسم کی کسی چیز کو کسی کے جسم کے اندر داخل کرنا مذہب کے خلاف ہے، جیسا کہ وہ اکثر کہیں گی،‘‘ نوح پی ایچ سی میں معاون نرس (اے این ایم)، سنیتا دیوی بتاتی ہیں۔
باوجود اس کے، جیسا کہ این ایف ایچ ایس- ۴ اشارہ کرتا ہے، خاندانی منصوبہ بندی کی غیر تکمیل شدہ ضرورت – یعنی، عورتیں مانع حمل کا تو استعمال نہیں کر رہی ہیں، لیکن وہ اگلی پیدائش کو (وقفہ کے ذریعے) ملتوی کرنا یا بچے پیدا کرنا روکنا (محدود کرنا) چاہتی ہیں – کافی زیادہ ہے، ۲۹ء۴ فیصد (دیہی علاقوں میں)۔
’’سماجی و اقتصادی اسباب کی بناپر، کیوں کہ نوح میں آبادی کے اعتبار سے مسلمانوں کی اکثریت ہے، خاندانی منصوبہ بندی کے تئیں لوگوں کا جھکاؤ بہت کم رہا ہے۔ اسی لیے غیر تکمیل شدہ ضرورت اس علاقے میں بہت زیادہ ہے۔ ثقافتی عناصر بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ ہم سے کہتی ہیں، بچے تو اللہ کی دین ہیں،‘‘ ڈاکٹر روچی، میڈیکل آفیسر، خاندانی بہبود، ہریانہ بتاتی ہیں۔ ’’بیوی تبھی لگاتار گولی کھائے گی، جب شوہر اس کی مدد کرے گا اور اسے باہر سے لاکر دے گا۔ کاپر-ٹی کو لیکر کچھ غلط فہمیاں ہیں۔ تاہم، انجیکشن کے ذریعے لگائے جانے والے مانع حمل انترا کے آ جانے سے حالات کچھ بہتر ہوئے ہیں۔ اس مخصوص طریقے کو لیکر مرد کوئی مداخلت نہیں کرتے ہیں۔ عورت اسپتال جا کر اس کی خوراک لے سکتی ہے۔
انترا، انجیکشن کے ذریعے لیا جانے والا ایک مانع حمل، کی ایک خوارک تین مہینے کے لیے حمل کو روک دیتی ہے اور اسے ہریانہ میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی ہے، یہ پہلی ریاست تھی جس نے سال ۲۰۱۷ میں انجیکشن والے مانع حمل کو اختیار کیا تھا۔ تب سے لے کر اب تک، اسے ۱۶ ہزار عورتیں استعمال کر چکی ہیں، جیسا کہ ایک نیوز رپورٹ میں کہا گیا ہے، جو کہ محکمہ کے ذریعے ۲۰۱۸-۱۹ میں طے کیے گئے ۱۸ ہزار کے ہدف کا ۹۲ء۳ فیصد ہے۔
انجیکشن والا مانع حمل جہاں مذہبی ممانعت سے بچنے میں مدد کرتا ہے، وہیں کئی دوسرے اسباب بھی ہیں جو خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق خدمات کو پہنچانے میں رکاوٹ بن رہے ہیں، خاص کر اقلیتی برادریوں میں۔ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ طبی نگہداشت فراہم کنندگان کا بھید بھاؤ والا رویہ اور طبی مراکز میں انتظار کرنے کا لمبا وقت بھی عورتوں کو سرگرمی کے ساتھ مانع حمل سے متعلق صلاح لینے سے روکتا ہے۔
سی ای ایچ اے ٹی (ممبئی میں واقع صحت اور متعلقہ تھیم کے بارے میں تفتیش کا مرکز) کے ذریعے سال ۲۰۱۳ میں ایک مطالعہ کرایا گیا یہ جاننے کے لیے کہ طبی مراکز میں مختلف برادریوں کی عورتوں کے بارے میں تصورات پر مبنی مذہبی بھید بھاؤ کی حقیقت کیا ہے؛ تو پتہ چلا کہ طبقہ کی بنیاد پر تمام عورتوں کے ساتھ تعصب برتا جاتا ہے؛ لیکن مسلم عورتوں کے ساتھ یہ تعصب اکثر و بیشتر خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں ان کی پسند کو لیکر ہوتا ہے، ان کی برادری کے بارے میں منفی تبصرے کیے جاتے ہیں اور زچگی والے کمرے میں انہیں نیچا دکھانے والا برتاؤ کیا جاتا ہے۔
سی ای ایچ اے ٹی کی رابطہ کار، سنگیتا ریگے کہتی ہیں، ’’مسئلہ یہ ہے کہ حکومت بھلے ہی مانع حمل کے لیے اپنی پسند کے مطابق متعدد طریقے فراہم کرنے کا دعویٰ کرتی ہو؛ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ صحت فراہم کنندگان اس قسم کے فیصلے عموماً تمام عورتوں کے لیے لیتے ہیں؛ مسلم سماج سے تعلق رکھنے والی عورتوں کو درپیش رکاوٹوں کو سمجھنے اور ان کے ساتھ مانع حمل سے متعلق اپنی پسند کے طریقے اپنانے کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے۔
نوح میں، خاندانی منصوبہ بندی کی اعلیٰ غیر تکمیل شدہ ضرورت کے باوجود، این ایف ایچ ایس- ۴ (۲۰۱۵-۱۶) نشاندہی کرتا ہے کہ ایسی صرف ۷ء۳ فیصد عورتیں جنہوں نے دیہی علاقوں میں کبھی بھی مانع حمل کا استعمال نہیں کیا تھا، ان کے پاس خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں بات کرنے کے لیے کوئی صحت کارکن شاید ہی کبھی گیا ہوگا۔
منظور شدہ سماجی صحت کارکن (آشا)، ۲۸ سالہ سُمن، جو بیواں میں گزشتہ ۱۰ سال سے کام کر رہی ہیں، بتاتی ہیں کہ وہ اکثر عورتوں پر ہی چھوڑ دیتی ہیں کہ وہ خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں اپنا ذہن بنائیں اور جب کسی نتیجہ پر پہنچ جائیں، تو اس کی اطلاع انہیں کر دیں۔ سمن کہتی ہیں کہ اس علاقے میں انتہائی کمزور بنیادی ڈھانچہ بھی طبی نگہداشت تک رسائی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس سے تمام عورتیں متاثر ہوتی ہیں، لیکن بڑی عمر کی عورتیں سب سے زیادہ۔
’’نوح کے پی ایچ سی تک جانے کے لیے ہمیں گھنٹوں تین پہیے والی گاڑی کا انتظار کرنا پڑتا ہے،‘‘ سمن کہتی ہیں۔ ’’صرف خاندانی منصوبہ بندی کی ہی بات نہیں ہے، صحت سے متعلق کسی بھی مسئلہ کے لیے سینٹر تک جانے کے لیے کسی کو تیار کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ پیدل چلنے میں وہ تھک جاتی ہیں۔ میں کچھ نہیں کر سکتی۔‘‘
یہاں پر کئی دہائیوں سے یہی معاملہ رہا ہے – پچھلے ۴۰ سالوں سے زیادہ عرصے سے، جب سے وہ اس گاؤں میں رہ رہی ہیں، یہاں کچھ بھی نہیں بدلا ہے، بہار کہتی ہیں۔ ان کے سات بچوں کی موت وقت سے پہلے پیدا ہوجانے کی وجہ سے ہوگئی۔ اس کے بعد جو چھ بچے پیدا ہوئے، وہ سبھی زندہ ہیں۔’’اُس زمانے میں یہاں پر کوئی اسپتال نہیں تھا،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’اور آج بھی ہمارے گاؤں میں کوئی طبی مرکز نہیں ہے۔‘‘
کور کا خاکہ: پرینکابورار نئے میڈیا کی ایک آرٹسٹ ہیں جو معنی اور اظہار کی نئی شکلوں کو تلاش کرنے کے لیے تکنیک کا تجربہ کر رہی ہیں۔ وہ سیکھنے اور کھیلنے کے لیے تجربات کو ڈیزائن کرتی ہیں، باہم مربوط میڈیا کے ساتھ ہاتھ آزماتی ہیں، اور روایتی قلم اور کاغذ کے ساتھ بھی آسانی محسوس کرتی ہیں۔
پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گرہوں کی حالت کا پتہ لگایا جا سکے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم zahra@ruralindiaonline.org کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی namita@ruralindiaonline.org کو بھیج دیں۔
مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز