تانو بائی کے ہنر میں بھول چوک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ان کے ذریعے بہت محنت سے کی گئی ہاتھ کی باریک سلائی میں ایک معمولی گڑبڑی کو ٹھیک کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے – پوری کام کو نئے سرے سے دوبارہ کرنا۔ اس کا مطلب ہے کہ تقریباً ۹۷ ہزار ۸۰۰ ٹانکوں کو کھول کر ان کی دوبارہ سلائی کرنا۔

تقریباً ۷۴ سال کی بزرگ تانو بائی اپنی کاریگری کی باریکیوں کو سمجھانے کے ارادے سے کہتی ہیں، ’’اگر آپ ایک بھی غلطی کرتے ہیں، تو وہ واکل میں چبھنے لگے گی۔‘‘ اس کے باوجود انہیں ایسی کسی عورت کی یاد نہیں آتی، جسے کبھی بھی واکل کی سلائیوں کو اُدھیڑنا پڑا ہو۔ وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ ایکدا شکلن کی چوک ہوت ناہی [ایک بار آپ نے یہ ہنر سیکھ لیا، تو آپ سے چوک نہیں ہوتی]۔‘‘

انہوں نے اس ہنر کی باریکیوں کو کبھی بھی روایتی طریقے سے نہیں سیکھا، بلکہ پیٹ کی ضرورتوں نے انہیں سوئی اور دھاگہ اٹھانے کے لیے مجبور کر دیا۔ ساٹھ کی دہائی کی اپنی پرانی یادوں کو کھنگالتی ہوئی وہ کہتی ہیں، ’’ پوٹانے شِکولن ملا [غریبی اور محرومی نے مجھے یہ کام سکھا دیا]۔‘‘ تب وہ ۱۵ سال کی ایک شادی شدہ خاتون تھیں۔

تانو بائی عرف آجی (جیسا کہ لوگ انہیں احترام سے بلاتے ہیں) کہتی ہیں، ’’جب میرے ہاتھوں میں قلم اور پینسل ہونی چاہیے تھی، اُس عمر میں میں نے سوئی اور کھرپی سنبھال لی تھی۔ لیکن اگر میں اسکول گئی ہوتی، تو آپ کو لگتا ہے میں یہ ہنر سیکھ پاتی؟‘‘

PHOTO • Sanket Jain

تانو بائی گوولکر، جنہیں پیار سے سب آجی (دادی) بلاتے ہیں، ایک واکل پر کام کر رہی ہیں۔ رضائی کے ہر ایک ٹانکہ کے لیے بازوؤں کی چست رفتار کی ضرورت پڑتی ہے

PHOTO • Sanket Jain

ٹھیگل، یعنی ایک ساڑی سے کاٹ کر نکالے گئے چھوٹے ٹکڑے کو ٹانکنے کے لیے بہت باریکی سے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تانو بائی ایک ایک کرکے سب سے اوپری پرت پر انہیں ٹانکتی ہیں، اور ایک رنگین، یکساں پیٹرن بناتی ہیں۔ ’ایک منٹ کی غلطی واکل کی عمر اور معیار کو متاثر کر سکتی ہے‘

وہ اور ان کے آنجہانی شوہر، دھانا جی مراٹھا برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور گزر بسر کے لیے زرعی مزدوری پر منحصر تھے۔ جاڑے کے دنوں میں خود کو گرم رکھنے کے لیے رضائیاں خریدنے کی سہولت تو دور کی بات تھی، اپنے لیے دو وقت کی ضرورتوں کو پورا کر پانا بھی ان کے لیے ایک مشکل کام تھا۔ وہ پرانے دنوں کو یاد کرنے لگتی ہیں، ’’ہم اُس وقت رضائیاں خریدنے کی بات خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے۔ اس لیے، اُس زمانے میں عورتیں اپنی پرانی ساڑیوں کو سی کر اپنے لیے رضائیاں بنایا کرتی تھیں۔‘‘ لہٰذا، دن بھر کھیتوں میں سخت محنت کرنے کے بعد تانو بائی کی شامیں اپنے ادھورے واکل کو پورا کرنے میں گزرتی تھیں۔

وہ کہتی ہیں، ’’ شیتات کھرپن گھیئون بھانگل لینن برن، پن ہا دھندہ نکو [دن بھر کھیتوں میں کھرپی چلانا، اس کے مقابلے آسان کام تھا]۔‘‘ وجہ بالکل صاف تھی: تن تنہا واکل میں اتنی باریکی سے سوئی کا کام کرنا ہوتا تھا کہ اسے پورا ہونے میں تقریباً ۱۲۰ دن یا ۶۰۰ گھنٹے کا وقت لگتا تھا۔ ان کی پیٹھ درد سے پھٹنے لگتی اور آنکھوں میں جلن ہونے لگتی تھی۔ ایسے میں یہ فطری بات تھی کہ تانو بائی کو سوئیوں کی بہ نسبت کھرپی (ہنسیا) سے کام کرنا زیادہ آسان کام لگتا تھا۔

حیرت کی بات نہیں کہ مہاراشٹر کے کولہاپور ضلع کے ۴۹۶۳ لوگوں کی آبادی (۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق) والے گاؤں جانبھلی میں وہ اکیلی کاریگر ہیں، جو واکل بنانے کا کام ابھی بھی کرتی ہیں۔

*****

واکل بنانے کے طریقہ کے پہلے مرحلہ میں ساڑیوں کو بہت صفائی کے ساتھ ایک دوسرے پر جمایا جاتا ہے۔ اس عمل کو مقامی مراٹھی میں ’لیوا‘ کہتے ہیں۔ واکل میں کتنی ساڑیاں لگیں گی، یہ کاریگروں کی خواہش پر منحصر ہے۔ عام طور پر عورتیں ساڑیوں کی تعداد اپنی فرصت کے گھنٹوں کے مطابق طے کرتی ہیں۔ تانو بائی اپنے سب سے نئے واکل میں نو (۹) سوتی یا نئوواری (نو گز لمبی) ساڑیاں استعمال کرتی ہیں۔

سب سے پہلے وہ ایک ساڑی کو دو برابر ٹکڑوں میں کاٹ لیتی ہیں اور انہیں زمین پر بچھا دیتی ہیں۔ پھر ان کے اوپر دوسری ساڑیوں کو اچھی طرح تہہ کرکے بچھاتی ہیں۔ اسی طرح سے کل آٹھ ساڑیوں کی تہوں کو ٹھیک سے جما کر بچھایا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان تہوں کی سلائی موٹے اور کچے ٹانکوں سے کی جاتی ہے۔ یہ عارضی ٹانکے ہوتے ہیں، جو سبھی نو ساڑیوں کی تہوں کو ایک ساتھ جمائے رکھتے ہیں۔ ایسا کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ کوئی بھی تہہ ٹانکے سے چھوٹ نہ جائے۔ وہ تفصیل سے سمجھاتی ہیں، ’’پھر جیسے جیسے آپ واکل پر مہین ٹانکے چلاتے جاتے ہیں، ویسے ویسے کچے ٹانکوں کو ہٹا دیا جاتا ہے۔‘‘

PHOTO • Sanket Jain
PHOTO • Sanket Jain

بائیں: آجی نے پرانی ساڑیوں کو کاٹتے وقت، جن سے وہ واکل بناتی ہیں، ناپنے والے ٹیپ کا استعمال کبھی نہیں کیا۔ وہ موٹے طور پر اپنے ہاتھوں سے کپڑے کی لمبائی ناپتی ہیں۔ دائیں: ایک ساڑی کو قینچی سے آدھا کاٹ دیا جاتا ہے اور پھر تانو بائی کاٹے ہوئے کپڑے کی نو پرتوں کو ایک دوسرے کے اوپر جماتی ہیں، جسے لیوا کہتے ہیں

PHOTO • Sanket Jain

آجی کے پوتے کی بیوی، اشونی برنجے (بائیں) واکل بنانے میں ان کی مدد کر رہی ہیں

اس کے بعد آجی دو چار مزید ساڑیوں کو نسبتاً چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹتی ہیں، جنہیں ’ٹھیگل‘ کہا جاتا ہے۔ ان ٹکڑوں کو وہ سب سے اوپری تہہ پر یکساں اور مختلف رنگوں کے ڈیزائنوں میں سلتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اس کے لیے کسی قسم کی پلاننگ یا نشان لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کوئی بھی ایک ٹھیگل اٹھا لیجئے اور بس سلنا شروع کر دیجئے۔‘‘

ان کے ذریعے کی گئی مہین سلائی پانچ ملی میٹر سے بڑی نہیں ہوتی ہے، جو واکل کے درمیان سے شروع ہو کر اس کے کناروں کی طرف بڑھتی جاتی ہے۔ سلائیاں بڑھنے کے ساتھ ساتھ واکل موٹا اور بھاری ہوتا جاتا ہے۔ ہتھیلیوں اور سلائیوں کی مدد سے واکل میں ایک کھنچاؤ پیدا کیا جاتا ہے، تاکہ وہ نفیس اور صحیح سائز کی بن سکے۔ موٹے طور پر ایک واکل بنانے میں متعدد سوئیوں کے ساتھ ساتھ وہ سفید سوتی دھاگوں کے تقریباً ۳۰ اٹیرن (ریل)، جس کی کل لمبائی ۱۵۰ میٹر (تقریباً ۴۹۲ فٹ) ہوتی ہے، کا استعمال کرتی ہیں۔ وہ دھاگوں کا ایک اٹیرن ۱۰ روپے میں خریدتی ہیں، جو جانبھلی سے ۱۲ کلومیٹر دور ایچلکرنجی قصبہ میں ملتا ہے۔ وہ تھوڑے شکایتی لہجے میں کہتی ہیں، ’’پہلے ایک واکل کی سلائی کرنے میں صرف ۱۰ روپے کے دھاگے لگتے تھے، آج اس کی قیمت بڑھ کر ۳۰۰ روپے ہو گئی ہے۔‘‘

واکل کی آخری سلائی پوری کرنے سے پہلے آجی اس کے ٹھیک بیچوں بیچ یا پوٹ (پیٹ) میں بڑے پیار سے بھاکری کا ایک ٹکڑا ڈال دیتی ہیں۔ وہ واکل سے ملنے والی گرمی کی قرضدار ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ تیالا پن پوٹ آہے کی رے بالا [واکل کا بھی ایک پیٹ، بچہ ہوتا ہے]۔‘‘

سلائی کے بعد جب واکل پورا تیار ہو جاتا ہے، تب اس کے چاروں کونوں پر خوبصورتی کے لیے چار کپڑے کے تکونے لگا دیے جاتے ہیں۔ یہ تکونے ان واکلوں کی مخصوص پہچان ہیں۔ ان کا دوسرا فائدہ یہ بھی ہے کہ ان تکونوں کو پکڑ کر وزنی واکلوں کو اٹھانے میں سہولت ہوتی ہے۔ آخر میں، ۹ ساڑیوں، ۲۱۶ ٹھیگل، اور ۹۷ ہزار ۸۰۰ ٹانکوں کی وجہ سے ایک واکل کا وزن ۷ کلو سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔

PHOTO • Sanket Jain
PHOTO • Sanket Jain

تانو بائی کے ذریعے رضائی بنانے کے لیے تقریباً ۳۰ اٹیرن (۱۵۰ میٹر) سفید سوتی دھاگے اور کئی سوئیوں کا استعمال کیا جاتا ہے

PHOTO • Sanket Jain
PHOTO • Sanket Jain

بائیں: وہ کناروں کی طرف باریک ٹانکے لگانا شروع کرتی ہیں، جس سے واکل کی مضبوطی کو یقینی بنایا جا سکے۔ دائیں: کام ختم کرنے سے پہلے، آجی رضائی کے بیچ میں بھاکری کا ایک ٹکڑا رکھ دیتی ہیں، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ واکل سے ملنے والی گرمی کی قرضدار ہیں

آجی اپنے نئے بنائے واکل کو فخر کے ساتھ دکھاتے ہوئے کہتی ہیں، ’’اس واکل کو بنانے میں چار مہینے لگ گئے۔‘‘ اسے یقیناً ۸ء۶ بائی ۵ء۶ کے سائز کی کاریگری کا شاندار نمونہ کہا جائے گا۔ وہ اپنے کام کرنے کی متعینہ جگہ پر بیٹھی ہیں، جو ان کے بڑے بیٹے پربھاکر کے پختہ مکان کے باہر کا برآمدہ ہے۔ انہوں نے سالوں کی محنت سے اس جگہ کو رجنی گندھا اور کولیئس جیسے پودوں سے سجایا ہے۔ وہ زمین جسے آجی نے سالوں سال گوبر سے لیپ کر چِکنا بنایا ہے، ان ہزاروں گھنٹوں کی گواہ ہے، جنہیں انہوں نے یہاں بیٹھ کر کپڑوں کی بے شمار تہوں کو ایک دوسرے کے اوپر جماتے ہوئے گزارے ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ’’ایک واکل کو دھونے کے لیے کم از کم چار لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بہت وزنی ہے۔‘‘ ان کے مطابق، واکلوں کو سال میں تین موقعوں پر دھونا ضروری ہے – دسہرے میں، نویاچی پونم (سنکرانت تہوار کے بعد جو پہلا چاند نکلتا ہے) کے دن، اور گاؤں کے سالانہ میلے کے موقع پر۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں نہیں جانتی کہ ان تین دنوں کو کیوں منتخب کیا گیا ہے، لیکن یہی روایت ہے۔‘‘

اپنی پوری زندگی میں تانو بائی نے تیس سے بھی زیادہ واکل بنائے ہیں اور اس باریک اور محنت بھرے ہنر کو اپنی زندگی کے ۱۸ ہزار سے بھی زیادہ گھنٹے وقف کیے ہیں۔ اور، یہ سب انہوں نے جزوقتی کام کے طور پر کیا ہے۔ اپنی زندگی کے تقریباً ساٹھ سال انہوں نے کل وقتی زرعی مزدور کے طور پر بسر کیے ہیں، اور اوسطاً ۱۰ گھنٹے روزانہ کھیتوں میں جی توڑ محنت کی ہے۔

ان کی بیٹی، سندھو برنجے کہتی ہیں، ’’اتنا زیادہ محنت کرنے کے بعد بھی وہ ابھی تھکی نہیں ہیں۔ جب بھی ان کے پاس خالی وقت ہوتا ہے، وہ واکل بنانے میں مصروف ہو جاتی ہیں۔‘‘ سندھو نے یہ ہنر کبھی نہیں سیکھا۔ ان کی بڑی بہو، لتا بھی سندھو کی بات سے متفق ہیں، ’’ہم میں سے کوئی بھی اپنی پوری زندگی لگانے کے بعد بھی ان کی برابری نہیں کر سکتا ہے۔‘‘

PHOTO • Sanket Jain

تانو بائی کہتی ہیں کہ وہ نیند میں بھی سوئی میں دھاگے پرو سکتی ہیں

PHOTO • Sanket Jain
PHOTO • Sanket Jain

بائیں: سوئی سے سلائی کے پیچیدہ کام سے ان کے بازوؤں اور کندھوں میں تناؤ بنا رہتا ہے۔ ’میرے ہاتھ اسٹیل کی طرح ہو گئے ہیں، اس لیے سوئی اب مجھے پریشان نہیں کرتی ہے۔‘ دائیں: یکساں دوری پر ان کے ذریعے کی گئی مہین سلائی پانچ ملی میٹر سے بڑی نہیں ہوتی ہے۔ ان سے تمام پرتیں ایک ساتھ بنی رہتی ہیں، اور ہر ٹانکہ کے ساتھ واکل موٹا اور بھاری ہوتا جاتا ہے

سندھو کی بہو اشونی برنجے، جو ۲۳ سال کی ہیں، نے سلائی کی ٹریننگ لی ہوئی ہے۔ انہیں واکل بنانے کا ہنر معلوم ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’لیکن میں مشین کے استعمال سے واکل بناتی ہوں۔ روایتی طریقے سے اسے بنانا بہت تحمل کا کام ہے اور اس میں بہت وقت بھی لگتا ہے۔‘‘ حالانکہ، وہ یہ نہیں کہتیں کہ جسمانی طور سے بھی یہ بے حد تھکانے والا کام ہے، جس کی وجہ سے پیٹھ اور آنکھوں میں درد ہوتا ہے اور انگلیوں میں ورم پڑ جاتا ہے۔

بہرحال، تانو بائی کے لیے یہ مشکلیں بہت معنی نہیں رکھتی ہیں۔ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں، ’’میرے ہاتھوں کو اب عادت پڑ چکی ہے۔ یہ ہاتھ فولاد کی طرح سخت ہو چکے ہیں، لہذا سوئیوں سے مجھے اب ڈر نہیں لگتا ہے۔‘‘ جس وقت وہ بات چیت کرتی ہوئی اپنا کام روک دیتی ہیں، اس وقت سوئی کو اپنے بالوں کے گچھے میں بڑے احتیاط سے کھونس لیتی ہیں۔ وہ مسکراتی ہوئی کہتی ہیں، ’’یہ سوئی کو رکھنے کی سب سے محفوظ جگہ ہے۔‘‘

یہ پوچھنے پر کہ نوجوان نسل کی لڑکیاں اور عورتیں اس ہنر کو سیکھنے میں دلچسپی کیوں نہیں لیتیں، وہ تھوڑا تلخی بھرا جواب دیتی ہیں، ’’ چندھیا فاڈایلا کون یینار؟ کتی پگار دینار؟ [یہاں ساڑیاں پھاڑنے کے لیے بھلا کون آئے گا؟ اور، اس کام کے بدلے ان کو کتنے پیسے ملیں گے؟]‘‘

وہ سمجھاتے ہوئے کہتی ہیں کہ نئی عمر کے لوگ بازاروں سے مشین سے بنائی گئی اور نسبتاً سستی رضائیاں خریدنا پسند کرتے ہیں۔ تانو بائی کہتی ہیں، ’’بدقسمتی سے چنندہ عورتیں ہی ہاتھوں سے واکل بنانے کی کاریگری جانتی ہیں۔ اس ہنر کے تئیں ابھی بھی جن کے من میں رغبت ہے، وہ عورتیں انہیں مشینوں سے سل لیتی ہیں۔ اس طریقے نے ان معنوں کو ہی بدل دیا ہے، جن کی وجہ سے واکل بنائے جاتے تھے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ دوسری چیزیں بھی بدل جاتی ہیں۔‘‘ ان کے مطابق، عورتیں اب پرانی ساڑی کی بجائے نئی ساڑیوں کے واکل بنانا پسند کرتی ہیں۔

PHOTO • Sanket Jain
PHOTO • Sanket Jain

بائیں: تانو بائی ٹھیگل کو سلائی کے لیے تہہ کرکے رکھنے سے پہلے اپنے ہاتھ سے ناپتی ہیں۔ دائیں: انہوں نے اپنی زندگی میں ۳۰ واکل بنائے ہیں، اور ۱۸ ہزار سے زیادہ گھنٹے اس ہنر کو وقف کیے ہیں

زندگی بھر لاکھوں کی تعداد میں ہاتھ سے باریک اور انوکھے ٹانکے لگانے کے بعد انہیں اب اپنے پڑوس کے درزی، نائک (آجی کو ان کا پہلا نام یاد نہیں آتا) کا دوستانہ مشورہ نہیں ماننے کا افسوس ہوتا ہے۔ وہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’وہ مجھے اکثر سلائی سیکھنے کے لیے کہتے رہتے تھے۔ اگر میں نے سلائی کا کام سیکھ لیا ہوتا، تو آج میری زندگی الگ ہی ہوتی۔‘‘ اس افسوس کے بعد بھی ایسا نہیں ہے کہ بہت محنت لگنے کی وجہ سے وہ اس ہنر سے تھوڑا بھی کم پیار کرتی ہیں۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ تانو بائی نے اپنی پوری زندگی میں ایک بھی واکل نہیں بیچا ہے۔ ’’ کشالا رے می ویکو واکل، بالا [میں اسے کیوں بیچوں بیٹے؟ آخر اس کے بدلے تم مجھے اس کی کیا قیمت دوگے؟]‘‘

*****

حالانکہ، واکل بنانے کے لیے کوئی طے موسم نہیں ہوتا ہے، لیکن بہت حد تک یہ زراعت کے دور پر منحصر ہے۔ عورتیں عموماً اُس موسم میں سلائی کڑھائی کرنا پسند کرتی ہیں، جب کھیتوں میں کام کم ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے ابتدائی فروری سے لے کر جون تک کا وقت زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ تانو بائی بتاتی ہیں، ’’ منالا یے اِل تیہوا کرایچن [ہم انہیں تبھی بناتے ہیں جب ہماری طبیعت ہوتی ہے]۔‘‘

انہیں یاد ہے کہ ۱۹۶۰ کی دہائی تک کولہا پور کے گڈہینگلج تعلقہ میں ان کے پرانے گاؤں میں واکل گھر گھر میں بنا کرتے تھے۔ مہاراشٹر کے دوسرے حصوں میں اسے گودھڑی کہا جاتا ہے۔ ’’پہلے عورتیں اپنی پڑوسنوں کو واکل میں ٹانکے لگانے میں مدد کرنے کے لیے مدعو کیا کرتی تھیں اور انہیں دن بھر کی سلائی کرنے کے عوض میں تین آنے (اُس زمانے میں رائج کرنسی کی ایک اکائی) ادا کرتی تھیں۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ اگر چار عورتیں لگاتار کام کرتی تھیں، تب بھی ایک رضائی پوری ہونے میں دو مہینے لگ جاتے تھے۔

PHOTO • Sanket Jain

واکل میں آخری دور میں ٹانکے سلنا سب سے مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ تب تک وہ کافی بھاری ہو چکا ہوتا ہے

وہ بتاتی ہیں کہ اُن دنوں ساڑیاں مہنگی ہوا کرتی تھیں۔ ایک سوتی ساڑی ۸ روپے میں ملتی تھی، اور اگر وہ اچھی قسم کی ہوتی تھی، تو اس کی قیمت ۱۶ روپے تک ہو سکتی تھی۔ اگر مسور کی دال سے موازنہ کیا جائے، تو اس وقت وہ ۱۲ آنے میں ایک کلو ملتی تھی، اور آجی خود بھی دن بھر کھیت میں خون پسینہ جلانے کے بعد روزانہ صرف ۶ آنے کما پاتی تھیں۔ ایک روپیہ میں تب ۱۶ آنے ہوتے تھے۔

’’ہم سال میں صرف دو ساڑیاں اور چار جمپر [بلاؤز] خریدتے تھے۔‘‘ اس لحاظ سے دیکھیں تو ایک واکل بنانے کے لیے خاصا انتظار کرنا ہوتا تھا۔ تانو بائی کو اس بات کا فخر ہے کہ ان کے بنائے ہر واکل کم از کم ۳۰ سال ٹکتے تھے۔ ظاہر سی بات تھی کہ سالوں سال اس ہنر کو نکھارنے اور کڑی مشق کے بعد ہی یہ مہارت حاصل ہو پاتی تھی۔

سال ۷۳-۱۹۷۲ کے زبردست قحط سے تقریباً دو کروڑ لوگ [مہاراشٹر کی ۵۷ فیصد دیہی آبادی] بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ اس قحط نے نوکُد کے گوولکروں کو وہاں سے ۹۰ کلومیٹر دور، کولہا پور کے شیرول تعلقہ میں واقع جانبھلی گاؤں میں بسنے کے لیے مجبور کر دیا تھا۔ اس سانحہ کو یاد کرتے ہوئے ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، ’’یہ قحط اتنا خوفناک تھا کہ آج اسے کوئی یاد بھی نہیں کرنا چاہتا ہے۔ ہم کئی کئی رات بھوکے پیٹ سونے کے لیے مجبور تھے۔‘‘

وہ بتاتی ہیں، ’’نوکد کے ایک آدمی کو جانبھلی میں کوئی کام مل گیا تھا۔ اس خبر کو سن کر بغیر کچھ سوچے سمجھے تقریباً پورا گاؤں ہی نوکد سے جانبھلی منتقل ہو گیا۔‘‘ جانبھلی جانے سے پہلے ان کے آنجہانی شوہر، دھاناجی سڑک بنانے اور پتھر توڑنے والے ایک مزدور کے طور پر کام کرتے تھے۔ مزدوری کے سلسلے میں وہ نوکد سے ۱۶۰ کلومیٹر دور گوا تک گھوم آئے تھے۔

جانبھلی میں آجی اُن ۴۰ مزدوروں میں ایک تھیں، جنہیں سرکار کی قحط سے راحت کی اسکیم کے تحت ایک سڑک کی تعمیر کے کام کے لیے رکھا گیا تھا۔ انہیں اچھی طرح یاد ہے، ’’ہمیں ۱۲ گھنٹے کام کرنے کے عوض مزدوری کے طور پر صرف ڈیڑھ روپے ملتے تھے۔‘‘ اسی وقت گاؤں کے ایک شہ زور اور پیسے والے کسان نے ان مزدوروں کو اپنے ۱۶ ایکڑ کے فارم میں ۳ روپے یومیہ مزدوری کی شرح سے کام کرنے کی پیشکش کی۔ تب سے تانو بائی نے ایک زرعی مزدور کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا، اور مونگ پھلی، جوار، گیہوں، چاول کے ساتھ ساتھ چیکو، آم، انگور، انار، اور شریفہ جیسے پھل اُگانے لگیں۔

PHOTO • Sanket Jain
PHOTO • Sanket Jain

بائیں: اس دھاگے کو کاٹنے کے ساتھ ہی آجی کا بنایا واکل تیار ہے۔ دائیں: دائیں کندھے کی دو سرجری ہونے اور لگاتار درد بنے رہنے کے بعد بھی، انہوں نے رضائی بنانا بند نہیں کیا ہے

تقریباً ۳۰ سے بھی زیادہ سالوں کی کڑی محنت کے بعد ۲۰۰۰ کی دہائی کی شروعات میں جب انہوں نے کھیت پر کام کرنا بند کر دیا، اُس وقت اجرت میں اضافہ کے بعد بھی ۱۰ گھنٹے کام کرنے کے بدلے انہیں روزانہ صرف ۱۶۰ روپے کی معمولی مزدوری ملتی تھی۔ اپنی کڑی محنت اور غریبی کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’ کونداچا دھونڈا کھالا پن مُلانا کدھی مگا ٹھیولو ناہی [ہم نے اپنے کھانے میں اناج کا چوکر تک کھایا، لیکن اپنے بچوں کو کوئی تکلیف نہیں ہونے دی]۔‘‘ آخرکار ان کی جدوجہد اور قربانی ضائع نہیں ہوئی۔ آج ان کے بڑے بیٹے پربھاکر پاس کے قصبہ، جے سنگھ پور میں ایک کھاد کی دکان چلاتے ہیں، اور چھوٹے بیٹے باپوسو، جانبھلی کے ایک بینک میں نوکری کرتے ہیں۔

کھیتوں میں مزدوری کرنے کا کام چھوڑنے کے بعد تانو بائی جلد ہی بیگاری محسوس کرنے لگیں اور انہوں نے دوبارہ یہ کام شروع کر دیا۔ تین سال پہلے گھر میں ہی گر جانے کی وجہ سے انہیں کافی چوٹ آئی اور ان کو مجبوراً اپنا کام چھوڑ دینا پڑا۔ وہ کہتی ہیں، ’’دائیں کندھے کے دو آپریشن اور چھ مہینے تک اسپتال میں بھرتی رہنے کے بعد بھی میرا درد پوری طرح سے ٹھیک نہیں ہو پایا ہے۔‘‘ بہرحال، یہ درد انہیں اپنے پوتے، سمپت برنجے کے لیے نیا واکل بنانے سے نہیں روک پایا۔

کندھے کی چبھن والے درد کے باوجود، تانو بائی کی سلائی کا سلسلہ روزانہ صبح ۸ بجے شروع ہو جاتا ہے، اور شام کو ۶ بجے تک چلتا رہتا ہے۔ درمیان میں وہ صرف کھلے میں سوکھنے کے لیے پھیلائی گئی مکئی کو کھانے کی نیت سے آئے بندروں کو بھگانے کے لیے ہی اٹھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’بندروں کو مکئی کھانے سے روکنا مجھے اچھا نہیں لگتا، لیکن میرے پوتے رودر کو مکئی بے حد پسند ہے۔‘‘ وہ اپنی دونوں بہوؤں کی بھی شکر گزار ہیں، کیوں کہ ان دونوں نے آجی کے شوق کو پورا کرنے میں ان کا ہمیشہ مکمل تعاون کیا۔ ’’ان دونوں کی وجہ سے ہی میں گھریلو ذمہ داریوں سے پوری طرح آزاد ہوں۔‘‘

تقریباً ۷۴ سال کی عمر میں بھی تانو بائی اپنی سوئی سے سب کو حیران کر رہی ہیں۔ آج تک انہوں نے ایک بھی غلط ٹانکہ نہیں لگایا ہے۔ ان کی باریک نظر اور انگلیوں کا جادو آج بھی قائم ہے۔ وہ نرم روی سے کہتی ہیں، ’’ تیات کائے وسرنار؟ تیات کائے وِدیا آہے؟ [اس کام میں ایسا کیا ہے جسے یاد رکھنے میں دقت اٹھانی پڑے؟ یہ کوئی خاص دماغ کا کام تو ہے نہیں؟]‘‘

دوسروں کے لیے تانو بائی کے پاس بس یہی ایک مشورہ ہے: ’’چاہے کچھ ہو جائے، نیہمی پرمانِک رہوا [زندگی کو پوری ایماندی سے جیو]۔‘‘ جس طرح سے واکل کی کئی تہوں کو باریک سلائی ایک ساتھ چپکائے رکھتی ہے، انہوں نے بھی اپنی پوری زندگی فیملی کو آپس میں باندھے رکھنے میں گزار دی۔ ’’ پورن آیوشیہ می شیوت گیلے [میں نے اپنی پوری زندگی صرف سلائی کرنے میں گزار دی]۔‘‘

PHOTO • Sanket Jain

تانو بائی نے ہر روز تقریباً ۱۲ گھنٹے کام کرتے ہوئے دو مہینے میں یہ رضائی سِل دی

PHOTO • Sanket Jain

۹ ساڑیاں، ۲۱۶ ٹھیگل، اور ۹۷ ہزار ۸۰۰ ٹانکوں سے مل کر بنی ۸ء۶ بائی ۵ء۶ فٹ کے اس خوبصورت واکل کا وزن ۷ کلو سے زیادہ ہے

یہ اسٹوری سنکیت جین کے ذریعے دیہی کاریگروں پر لکھی جا رہی ایک سیریز کا حصہ ہے، اور اسے مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن کا تعاون حاصل ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Reporter : Sanket Jain

Sanket Jain is a journalist based in Kolhapur, Maharashtra. He is a 2022 PARI Senior Fellow and a 2019 PARI Fellow.

Other stories by Sanket Jain
Editor : Sangeeta Menon

Sangeeta Menon is a Mumbai-based writer, editor and communications consultant.

Other stories by Sangeeta Menon
Photo Editor : Binaifer Bharucha

Binaifer Bharucha is a freelance photographer based in Mumbai, and Photo Editor at the People's Archive of Rural India.

Other stories by Binaifer Bharucha
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez