آدھی لکشمی (۷۲) کا گھر اونچائی پر ہے، جہاں تک ایک ڈھلواں سڑک جاتی ہے۔ پچھلے سال ایک پیر کی سرجری ہونے کے بعد، انھیں اپنے گھر تک چڑھائی کرکے جانے میں دقت ہوتی ہے۔ ایک کمرہ والے جس گھر میں وہ اپنی فیملی کے چھ دیگر ممبران کے ساتھ رہتی ہیں، وہ جنوبی بنگلورو کے سُدّاگُنٹے پالیا علاقہ میں، بھوانی نگر کی جھگیوں والی کالونی ہے۔

آدھی لکشمی اور ان کے شوہر، کُنّیہ رام (۸۳)، تقریباً ۳۰ سال قبل کام کی تلاش میں، تمل ناڈو کے مدورئی ضلع کے ایک گاؤں سے یہاں آئے تھے۔ یہاں آکر کُنّیہ کو بڑھئی کا کام مل گیا، جب کہ آدھی لکشمی اپنے دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کی پرورش میں لگ گئیں۔

’’چونکہ میں بوڑھی ہوں، تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ مجھے کھانے کی ضرورت پیش نہیں آتی؟‘‘ وہ پوچھتی ہیں۔ وہ اور ان کے شوہر یہ سوال پچھلے چھ مہینوں میں بدقسمتی سے متعدد بار دوہرا چکے ہیں، جب جب انھیں ان کا راشن – ہرماہ فی کس سات کلو مفت چاول –  دینے سے منع کیا گیا۔ سبسڈی والا نمک، چینی، ناریل تیل اور صابن جو انھیں چاول کے ساتھ ساتھ ملتا تھا، جس کے لیے انھیں ۱۵۰ روپے ادا کرنے پڑتے تھے، وہ بھی اب بند ہو چکا ہے۔

بزرگ جوڑے کو ان کا راشن دینے سے کیوں منع کر دیا گیا؟ اس لیے منع کر دیا گیا، کیوں کہ اپنے گھر سے تقریباً دو کلومیٹر دور، پی ڈی ایس (پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم) کی جس دکان پر یہ اکثر جاتے ہیں، وہاں ان دونوں کی انگلیوں کے نشان کی تصدیق نہیں ہو پا رہی تھی۔ جس چھوٹی مشین سے تصدیق کا یہ کام ہوتا ہے، وہ بنگلورو کی ان راشن دکانوں میں نصب کیا گیا ہے – پورے شہر میں ایسی تقریباً ۱۸۰۰ دکانیں ہیں۔

An elderly man sitting on the floor with a young girl standing behind him
PHOTO • Vishaka George
An elderly man and woman standing outside houses
PHOTO • Vishaka George

انگلیوں کے نشان میل نہ کھانے کی وجہ سے کُنّیہ رام اور آدھی لکشمی کو چھ مہینے سے ان کا سبسڈی والا راشن نہیں ملا ہے

اس شہر میں اور پورے ہندوستان بھر میں، آدھار کی تفصیلات کو راشن کارڈوں سے جوڑ دیا گیا ہے، اور لوگ جب بھی اپنا ماہانہ راشن لانے کے لیے جاتے ہیں، تو انھیں شناخت کے ثبوت کے طور پر اپنی انگلیوں کے نشان دینے پڑتے ہیں۔ کرناٹک میں خطِ افلاس سے نیچے (بی پی ایل) والے راشن کارڈوں کو آدھار سے جوڑنا کب لازمی کیا گیا، اسے لے کر الگ الگ رپورٹیں ہیں، حالانکہ ایسا کرنے کی آخری تاریخ جون ۲۰۱۷ محسوس ہوتی ہے۔ اس سے ریاست کے تقریباً ۸ ملین (حتمی تعداد کو لے کر اختلاف ہے) بی پی ایل کارڈ ہولڈرس پر اثر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کرناٹک کے وزیر خوراک و شہری رسد، یو ٹی قادر نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ جن راشن کارڈوں کو آدھار سے نہیں جوڑا گیا، انھیں ’بوگس‘ مانا جائے گا۔

تاہم، سال ۲۰۰۹ میں جب آدھار شناختی نظام کو شروع کیا گیا، تو اس کا مقصد تھا ایک ایسا ’’اختیاری‘‘ پروگرام جسے پی ڈی ایس کو ٹھیک طرح سے چلانے میں مدد ملے گی۔ لیکن، بعد میں ایل پی جی کنکشن اور اسکالرشپ جیسی متعدد سرکاری اسکیموں کو حاصل کرنے کے لیے آدھار کو ان کے ساتھ جوڑنا لازمی کر دیا گیا۔ آدھار آئی ڈی نمبر کو دیگر متعدد خدمات سے بھی جوڑا جا رہا ہے، جس میں بینک کھاتے اور یہاں تک کہ پرائیویٹ آپریٹروں کے ذریعہ مہیا کردہ موبائل فون کنکشن بھی شامل ہیں۔ اس قسم کے نظام میں موجود کمیوں، اور دھوکہ دہی کا امکان اور ملک کی حکومت کے ذریعہ بڑے پیمانے پر ہندوستانی شہریوں پر نظر رکھنا وغیرہ ایسے پہلو ہیں، جن کو لے کر تنقیدوں میں اضافہ ہونے لگا ہے، اور سپریم کورٹ آف انڈیا اس وقت آدھار کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی متعدد عرضیوں پر سماعت کر رہا ہے۔

دریں اثنا، کُنّیہ رام اور آدھی لکشمی سال ۲۰۱۶ کے شروع میں ہی آدھار کارڈ حاصل کرلینے کے باوجود نقصان میں ہیں۔ ’’ہمیں دوبارہ جاکر اپنا اندراج کرانے (آدھار سنٹر پر فنگر پرنٹنگ کے عمل کو دوہرانے) کے لیے کہا گیا، کیوں کہ ہم بوڑھے ہو چکے ہیں اور ہماری انگلیوں کے نشان (راشن کی دکان میں نصب مشین سے) ملتے ہوئے نہیں ہیں،‘‘ کُنّیہ رام کہتے ہیں۔

لیکن ایک دوسرا مسئلہ بھی ہے: ’’اندراج کرانے کے لیے آپ کو اپنی انگلیوں کے نشان کو استعمال کرنا پڑتا ہے۔ یہی نشان، سرکاری سہولیات حاصل کرتے وقت اپنی شناخت کو ثابت کرنے کے لیے آپ کا پاس وَرڈ بن جاتا ہے۔ تاہم، ٹکنالوجی اس بات کا پتہ نہیں لگا پاتی کہ ہاتھ سے کام کرنے والے مزدوروں کی انگلیوں کے نشان ان کے کام کی نوعیت کی وجہ سے گھِس گئے ہیں، یا پھر بڑھاپے کی وجہ سے انگلیوں کے نشان بدلنے لگتے ہیں،‘‘ وِدوشی مردا سمجھاتی ہیں، جو حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیم، آرٹیکل ۱۹ کے ساتھ بطور قانونی محقق جڑی ہوئی ہیں، اور اس سے پہلے بنگلورو میں دی سنٹر فار انٹرنیٹ اینڈ سوسائٹی کے ساتھ کام کر چکی ہیں۔ ’’آدھار سسٹم انہی لوگوں کے ساتھ خامیوں سے پُر ٹکنالوجی کا استعمال کر رہا ہے، جن کی حفاظت کا وہ دعویٰ کر رہا ہے۔‘‘

An old woman's hands
PHOTO • Vishaka George
An old man's hands
PHOTO • Vishaka George

داغدار ہتھیلیاں، جیسا کہ آدھی لکشمی اور کنیہ رام کی ہیں، انگلیوں کے نشان پر اثر ڈال رہی ہیں؛ ’اس ٹیکنو کریٹک سسٹم کو یہ نہیں معلوم کہ خامی کو کیسے درست کیا جائے‘، ایک کارکن کا کہنا ہے

آدھی لکشمی اور کنیہ رام اپنے سب سے بڑے بیٹے کے ساتھ رہتے ہیں، جو کہ ایک کنسٹرکشن ورکر ہیں، جن کی ایک بیوی اور تین بچے ہیں (ان کا ایک چھوٹا بیٹا ہے جو بڑھئی ہے اور الگ رہتا ہے)۔

’’یہ ہمارے لیے شرم کی بات ہے کہ ہمیں اب بھی اپنے بیٹے پر منحصر رہنا پڑ رہا ہے۔ اس پر خود ہی اپنے تین بچوں کو پالنے اور انھیں پڑھانے کی ذمہ داری ہے۔ انھیں اپنے حصہ کا راشن آخر ہمارے ساتھ کیوں بانٹنا پڑ رہا ہے؟‘‘ آدھی لکشمی بیچارگی سے سوال کرتی ہیں۔

ان کو ہر ماہ بڑھاپے کا پنشن جو ۵۰۰ روپے ملتا ہے، وہ ان کے علاج و معالجہ میں خرچ ہو جاتا ہے۔ آدھی لکشمی کا حال ہی میں موتیا بند کا آپریشن ہوا ہے اور حادثہ کی وجہ سے ان کا جو پیر ٹوٹا تھا، وہ بھی پوری طرح ٹھیک نہیں ہوا ہے۔ کنیہ رام امراضِ قلب میں مبتلا ہیں، گھٹنے کمزور ہو چکے ہیں، اور انھیں اکثر چکر آتا ہے۔

راشن کی جس دکاندار سے میں نے بات کی، انھوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نہایت بوڑھے لوگوں کے لیے بی پی ایل کارڈ ہی کافی ہونا چاہیے۔ تاہم، فیملی کا کوئی ایک رکن یہاں آکر اپنی انگلیوں کے نشان کی تصدیق کر دے۔ اگر شوہر اور بیوی، دونوں کے ہی بایو میٹرکس میل نہ کھائیں، تب کیا ہوتا ہے؟

’’اگر یہ مشین کی جانچ میں فیل ہو گئے، تو میں انھیں راشن جاری نہیں کر سکتی، بھلے ہی میں انھیں لمبے عرصے سے کیوں نہ جان رہی ہوں،‘‘ دکاندار نے کہا۔ ’’ایسی حالت میں انھیں دوبارہ اپنا اندراج کرانا ہوگا اور ان کی انگلیوں کے نشان مشین سے ملتے ہوئے ہونے چاہئیں۔ وہ سرکاری دفاتر ضرور جائیں، جیسے محکمہ خوراک و رسد، بنگلور ڈیولپمنٹ اتھارٹی یا اندراج کے دیگر مراکز پر جائیں اور اپنا دوبارہ اندراج کرائیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ انگلیوں کے نشان دوسری بار بھی فیل ہو جائیں، مثال کے طور پر یہ لا علاج ہو جائے، تب کیا کیا جائے گا۔ ظاہر ہے، انگلیاں تو بدلیں گی نہیں۔

A young boy and girl holding their Aadhaar cards
PHOTO • Vishaka George

کاٹن پیٹ بازار کے کشور اور کیرتھن کو بھی انہی تکنیکی خامیوں کے سبب راشن دینے سے منع کر دیا گیا ہے

آدھی لکشمی کو اپنے گھر تک جانے کے لیے تقریباً ۱۰ فٹ کی چڑھائی چھڑنے میں بھی دقت ہوتی ہے۔ پھر ریاست ایسے شہریوں سے کیسے توقع کرتی ہے کہ وہ اپنی شناخت کی تصدیق کے لیے شہر کے چکر لگاتے پھریں؟

’’آدھار نمبر والے لاکھوں ہندوستانی – جن میں بزرگ شہری، بچے، معذور افراد اور جو جسمانی محنت کرتے ہیں، سبھی شامل ہیں – ان سب کو اسی تلخ حقیقت کے ساتھ زندگی گزارنی پڑ رہی ہے کہ ان کے بایومیٹرکس کی پہچان مشینوں سے نہیں ہو پا رہی ہے۔ اس ٹیکنوکریٹک سسٹم کو یہ نہیں معلوم کہ اس خامی کو کیسے درست کیا جائے۔ اس لیے متاثرین کو اپنی شناخت ثابت کرنے کے لیے مختلف دفاتر کے چکر لگانے پڑ رہے ہیں،‘‘ شِتج عرس کہتے ہیں، جو غذا کے حق کے کارکن اور نیشنل لاء کالج بنگلورو میں پروفیسر ہیں۔

آدھی لکشمی کے گھر سے مشکل سے ۲۰۰ میٹر کی دوری پر، وجے لکشمی رہتی ہیں، جو کبھی کنسٹرکشن ورکر کا کام کرتی تھیں اور اب بڑھاپے میں سبزیاں بیچتی ہیں، انھیں بھی ایک سال سے راشن نہیں ملا ہے: ورم والی بایومیٹرک جانچ کی دوسری مثال۔ ’’میں دو بار اس مسئلہ کو حل کرانے کی کوشش کر چکی ہوں، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ وجے لکشمی روزانہ سبزی بیچ کر جو ۱۵۰ روپے کماتی ہیں، اسی سے ان کا گزر بسر چل رہا ہے۔

آدھار کی تکنیکی خامیوں کی قیمت صرف بزرگوں اور دستی مزدوروں کو ہی نہیں چکانی پڑ رہی ہے۔ بچوں کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔

کاٹن پیٹ بازار، مغربی بنگلورو کی گنجان جھگیوں میں واقع اپنے گھر میں بھائی بہن، کشور (۱۴) اور کیرتھن (۱۳)، کو بھی ان کے بایومیٹرک ڈیٹا کے میل نہ کھانے کی وجہ سے دو سالوں سے ان کا راشن نہیں ملا ہے۔ اگر کسی بچہ کا اندراج بچپن میں ہو جاتا ہے، تو ۱۵ سال کی عمر کو پہنچنے پر اسے یہ عمل دوہرانا پڑتا ہے۔ لیکن، اگر بیچ میں بایومیٹرکس میل نہ کھائے، تب کیا ہوگا؟ جی ہاں، آپ کو راشن نہیں ملے گا۔ ان کے والدین میونسپل کارپوریشن میں صفائی ملازم ہیں، جن کی مشترکہ تنخواہ ماہانہ ۱۲۰۰۰ روپے ہے۔

کشور، جو کہ ایک ذہین طالب علم ہے، نے دو سال پہلے ایک پرائیویٹ انگلش میڈیم اسکول میں داخلہ لیا تھا، لیکن بڑھتے ہوئے اخراجات اور راشن نہ ملنے کی وجہ سے اس کے والدین کو اسے وہاں سے نکال کر ایک سرکاری اسکول میں ڈالنا پڑا۔ اب وہ اپنے آس پاس کے علاقے میں دودھ پہنچا کر فیملی کی آمدنی میں ہاتھ بٹاتا ہے۔ وہ صبح کو ۴ بجے سوکر اٹھتا ہے اور ۶ بجے صبح کی سپلائی پہنچانے گھر سے نکل پڑتا ہے۔ اس کے بعد ۹ بجے بھاگتا ہوا اسکول پہنچتا ہے۔ شام کو ۴ بجے جب اسکول کی چھٹی ہوتی ہے، تو وہ شام کی دودھ کی سپلائی کے کام میں لگ جاتا ہے۔ دن بھر کے کام سے اسے رات میں ۸ بجے چھٹی ملتی ہے۔

ہوم ورک کب کرتا ہے؟ ’’میں اس کا زیادہ سے زیادہ کام اسکول میں ہی پورا کرنے کی کوشش کرتا ہوں،‘‘ کشور بتاتا ہے۔ وہ روزانہ جو آٹھ گھنٹے کام کرتا ہے، اس سے اس کی کمائی ۳۵۰۰ روپے ہوتی ہے، جسے وہ پورا کا پورا اپنے والدین کو دے دیتا ہے۔ اس میں اپنی آمدنی جوڑ کر، وہ فیملی کے لیے اناج کا انتظام کر سکتے ہیں۔ وہ اکثر، اپنے پڑوسیوں سے ۱۵ روپے فی کلوگرام کے حساب سے چاول خریدتے ہیں۔ لیکن اگر دونوں بچوں کو بھی ان کے راشن مل جاتے، تو سات کلو چاول ہر ایک کو مفت میں مل سکتا تھا۔

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ راشن کی اسی دکان پر سالوں سے جا رہے ہیں، کیوں کہ بقول ریشما، جو کھانے کے حق کی مہم سے جڑی ایک کارکن ہیں، ’’ڈیلر ہو سکتا ہے آپ کو پہچانتا ہو، لیکن مشین نہیں پہچانتی۔‘‘

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Vishaka George

Vishaka George is a Bengaluru-based Senior Reporter at the People’s Archive of Rural India and PARI’s Social Media Editor. She is also a member of the PARI Education team which works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Vishaka George
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez