نارائن گائکواڑ کے ٹوٹے ہوئے ہاتھ میں لگی پٹی انہیں پریشان کر رہی تھی۔ انہوں نے اسے اتار دیا، اپنی ٹوپی کو ٹھیک کیا اور اپنی نیلی ڈائری اور قلم تلاش کرنے لگے۔ وہ جلدی میں تھے۔
’’ ماجھا ناو نارائن گائکواڑ۔ می کولہاپورتن آلوئے۔ تمہی کُٹھون آلے؟ [میرا نام نارائن گائکواڑ ہے۔ میں کولہاپور سے آیا ہوں۔ آپ کہاں سے آئے ہیں؟]،‘‘ کولہاپور کے جمبھالی گاؤں کے ۷۳ سالہ کسان نے پوچھا۔
انہوں نے احمد نگر ضلع کے آدیواسی کاشتکاروں کے ایک گروپ کے سامنے اپنا سوال رکھا، جو جنوبی ممبئی کے آزاد میدان میں دھوپ سے بچنے کے لیے ایک ٹینٹ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ سبھی مہاراشٹر کے ۲۱ ضلعوں کے اُن کسانوں میں شامل تھے، جو نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ۲۴-۲۶ جنوری کو جمع ہوئے تھے۔ نارائن اپنے زخمی ہاتھوں کے ساتھ تقریباً ۴۰۰ کلومیٹر کا سفر کرکے، شیرول تعلقہ کے اپنے گاؤں سے آئے تھے، جہاں پر ان کے پاس تین ایکڑ زمین ہے۔
اپنا تعارف کرانے کے بعد، نارائن نے ان مسائل کے بارے میں بات کرنی شروع کی، جن کا سامنا وہ اور دیگر لوگ اپنے گاؤں میں کرتے ہیں۔ ’’میں ایک کسان ہوں، اس لیے میں ان مسائل کو سمجھ سکتا ہوں،‘‘ انہوں نے مجھے بتایا، جب ۲۵ جنوری کو ہماری ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ اپنے ٹوٹے ہوئے دائیں ہاتھ سے مراٹھی میں نوٹس بنا رہے تھے۔ حرکت کرنے سے انہیں درد ہو رہا تھا، لیکن انہوں نے کہا، ’’کسانوں اور زرعی مزدوروں کی جدوجہد کو سمجھنا ضروری ہے، اس لیے میں ان کے مسائل کو سنتا ہوں۔‘‘
بعد میں، انہوں نے مجھے بتایا کہ آزاد میدان میں انہوں نے ۱۰ ضلعوں کے ۲۰ سے زیادہ کسانوں سے بات کی تھی۔
نارائن کا ہاتھ جنوری کے پہلے ہفتہ میں زخمی ہو گیا تھا، جب اپنے کھیت پر کام کرتے وقت ناریل کی ایک شاخ ان کے اوپر گر گئی تھی۔ وہ گنّے اور جوار کی کھیتی کرتے ہیں۔ وہ کیمیاوی کھادوں کا استعمال کیے بغیر سبزیاں بھی اگاتے ہیں۔ انہوں نے پہلے تو اپنے زخم کو نظرانداز کیا، لیکن جب ایک ہفتہ کے بعد بھی درد کم نہیں ہوا، تو وہ جمبھالی کے ایک پرائیویٹ ڈاکٹر کے پاس گئے۔ ’’ڈاکٹر نے اس کی جانچ کی اور کہا کہ موچ آ گئی ہے۔ انہوں نے مجھ سے پٹّی باندھنے کے لیے کہا،‘‘ انہوں نے بتایا۔
درد پھر بھی کم نہیں ہوا، لہٰذا نارائن سات دنوں کے بعد تقریباً ۱۲ کلومیٹر دور، شیرول کے ابتدائی طبی مرکز (پی ایچ سی) گئے۔ وہاں، انہوں نے ایکس رے کروایا۔ ’’ڈاکٹر نے مجھ سے کہا، ’آپ کیسے آدمی ہیں؟ ایک ہفتہ سے زیادہ وقت سے آپ کا ہاتھ ٹوٹا ہوا ہے اور آپ لاپرواہ ہوکر گھوم رہے ہیں،‘‘ نارائن نے مجھے بتایا۔ پی ایچ سی میں پلاسٹر کا انتظام نہیں ہے، اس لیے ڈاکٹر نے انہیں شیرول سے ۱۵ کلومیٹر دور، سانگلی کے سول اسپتال میں ریفر کر دیا، جہاں اسی دن شام کو نارائن کے بازو پر پلاسٹر چڑھایا گیا۔
جب وہ ۲۴ جنوری کو آزاد میدان کے لیے گھر سے نکل رہے تھے، تو ان کی فیملی نے انہیں روکنے کی کوشش کی۔ لیکن ان کے حوصلہ میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ ’’میں نے ان سے کہا، اگر آپ مجھے روکتے ہیں، تو میں نہ صرف ممبئی جاؤں گا، بلکہ وہاں سے کبھی واپس نہیں لوٹوں گا۔‘‘ انہوں نے اپنے بازو کو سہارا دینے کے لیے اس کے ساتھ گلے میں پٹی لگاکر سفر کیا۔
ان کی بیوی، ۶۶ سالہ کُسُم، جو ان کے ساتھ زمین پر کھیتی کرتی ہیں، نے نارائن کے سفر کے لیے ۱۳ بھاکھری اور لال چٹنی (لال مرچ سے بنی) اور اس کے ساتھ چینی اور گھی بھی پیک کر دیا تھا۔ وہ جانتی تھیں کہ وہ اس میں سے آدھا بھی نہیں کھائیں گے۔ ’’وہ ہمیشہ احتجاجیوں کو کھانا تقسیم کرتے ہیں،‘‘ انہوں نے مجھے بتایا جب میں نے ممبئی کے احتجاج کے بعد جمبھالی کا دورہ کیا تھا۔ دو دنوں میں، انہوں نے صرف دو بھاکھری کھائی اور بقیہ چار آدیواسی خواتین کسانوں میں تقسیم کر دیں۔ ’’ہم بورژوا نہیں ہیں۔ کسان دور دراز کے گاؤوں سے چل کر آئے ہیں، اور میں کم از کم کھانا دیکر ان کی مدد کر سکتا ہوں،‘‘ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکس وادی) سے وابستہ آل انڈیا کسان سبھا کے رکن، نارائن نے کہا۔
ممبئی میں ۲۴ سے ۲۶ جنوری تک کے دھرنے کا انعقاد سمیُکت شیتکری کامگار مورچہ نے کیا تھا، تاکہ مہاراشٹر کے کسان دہلی کی سرحدوں پر ۲۶ نومبر سے احتجاج کر رہے لاکھوں کسانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر سکیں۔
کسان جن قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ ہیں۔ انہیں سب سے پہلے ۵ جون، ۲۰۲۰ کو آرڈیننس کی شکل میں پاس کیا گیا تھا، پھر ۱۴ ستمبر کو پارلیمنٹ میں زرعی بل کے طور پر پیش کیا گیا اور اسی ماہ کی ۲۰ تاریخ کو موجودہ حکومت کے ذریعہ جلد بازی میں قانون میں بدل دیا گیا۔
کسان ان قوانین کو اپنے معاش کے لیے تباہ کن
سمجھ رہے ہیں کیوں کہ یہ قوانین بڑے کارپوریٹ کو کسانوں اور زراعت پر زیادہ اختیار
فراہم کرتے ہیں۔ نئے قوانین کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی)، زرعی پیداوار کی
مارکیٹنگ کمیٹیوں (اے پی ایم سی)، ریاست کے ذریعہ خرید وغیرہ سمیت، کاشتکاروں کی
مدد کرنے والی بنیادی شکلوں کو بھی کمزور کرتے ہیں۔ ان قوانین کی اس لیے
بھی تنقید کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ ہر ہندوستانی کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ
ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۳۲ کو کمزور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے
قانونی چارہ جوئی کے حق
کو ناکارہ
کرتے ہیں۔
آزاد میدان میں، یہ پہلی بار نہیں تھا کہ نارائن دیگر کسانوں کی تشویشوں کو سمجھنے کے لیے ان کے ساتھ بیٹھے ہوں۔ ’’میں ساتھی احتجاجیوں کی زندگی کے بارے میں تفصیل سے جاننے کے لیے ہمیشہ ان سے بات کرتا ہوں،‘‘ انہوں نے کہا۔ ان برسوں میں، انہوں نے ہندوستان بھر میں احتجاجی مظاہروں اور اجلاس میں سینکڑوں کسانوں سے ملاقات کی ہے، جن میں سے کئی ان کے دوست بن گئے ہیں۔ وہ مہاراشٹر کے ممبئی، ناگپور، بیڈ اور اورنگ آباد کے علاوہ دہلی، بہار کے سمستی پور، تلنگانہ کے کھمّم اور تمل ناڈو کے کنیا کماری کے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کر چکے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ستمبر ۲۰۲۰ میں نئے (زرعی) قوانین پاس ہونے کے بعد، انہوں نے کولہاپور ضلع میں ۱۰ احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی۔ گزشتہ چار مہینوں میں، نارائن نے کولہاپور کے مختلف گاؤوں کے کسانوں سے بات کی، جیسے کہ جمبھالی، نندنی، ہرولی، ارجن واڑ، دھرن گُٹّی، شِردھون اور تکواڑے۔ ’’میں نے سینکڑوں کسانوں سے بات کی ہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی ان قوانین کے حق میں نہیں ہے۔ ان قوانین کو بنانے کی آخر ضرورت ہی کیا تھی؟‘‘ انہوں نے غصے سے پوچھا۔
۸ دسمبر، ۲۰۲۰ کو جب کسانوں اور زرعی مزدوروں نے پورے ہندوستان میں ایک دن کا بند رکھا، تب وہ شیرول تعلقہ کے کروندواڑ شہر میں تھے۔ ’’ہمیں ریلی نکالنے سے منع کر دیا گیا تھا، لیکن شہر کے لوگوں نے کسانوں کا تعاون کیا اور انہیں حمایت دی۔ ورنہ آپ نے کبھی بھی کروندواڑ کی دکانوں کو بند نہیں دیکھا ہوگا – کبھی نہیں،‘‘ انہوں نے کہا۔
آس پاس کے گاؤوں کے کسانوں سے ملنے اور احتجاجی مظاہرہ میں شامل ہونے کے لیے، نارائن صبح ۴ بجے اٹھتے اور ۱۰ بجے تک اپنا کام پورا کر لینے کے بعد اپنی موٹر سائیکل سے گاؤوں کی طرف نکل جاتے تھے۔ وہ شام کو ۵ بجے لوٹ آتے اور اپنی فصلوں کو چُگنے کی کوشش کر رہے پرندوں کو بھگاتے تھے، انہوں نے بتایا۔
۲۰ دسمبر کو، وہ جمبھالی سے تقریباً ۵۰۰ کلومیٹر دور، ناسک گئے تاکہ وہاں مہاراشٹر کے مختلف حصوں سے آئے ۲ ہزار کسانوں کی اُس مضبوط ٹکڑی میں شامل ہو سکیں، جو اگلے دن گاڑیوں کے جتھے (قافلہ) سے دہلی کی طرف روانہ ہونے والی تھی۔ نارائن ان کے ساتھ مدھیہ پردیش کی سرحد تک گئے اور وہاں سے اُن کسانوں کے ساتھ واپس لوٹ آئے، جو اتنی ٹھنڈ برداشت نہیں کر سکتے تھے یا جنہیں اپنے کھیتوں پر لوٹنا تھا۔ ’’دہلی میں بیٹھے کسان حوصلے کا باعث ہیں۔ انہوں نے پورے ملک کو متحد کر دیا ہے۔ میں دہلی جانا چاہتا تھا، لیکن سردی اور پیٹھ میں تیز درد کی وجہ سے نہیں جا سکا،‘‘ انہوں نے کہا۔
نارائن دوسرے طریقوں سے بھی احتجاج کرتے رہے ہیں۔ ستمبر سے اکتوبر ۲۰۲۰ کے درمیان، انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو کسانوں کی تشویشوں کو نمایاں کرتے ہوئے ۲۵۰ پوسٹ کارڈ لکھے۔ انہوں نے تین ’’کالے قوانین‘‘ کو ردّ کرنے، سوامی ناتھن کمیشن کی رپورٹ کی سفارش کے مطابق ایم ایس پی لاگو کرنے، اور بجلی کی ترمیم کا قانون، ۲۰۲۰ کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ ایم ایس پی کے لیے کمیشن کی سفارشوں کو نافذ کرنے میں مرکزی حکومت کی ناکامی کے بعد وہ محتاط ہیں۔ ’’۲۰۱۵ میں، بی جے پی کی حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ سوامی ناتھن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ایم ایس پی کو نافذ کرنا ممکن نہیں ہے۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ان قوانین سے ایم ایس پی ختم نہیں ہوگا۔ ہم ان پر کیسے بھروسہ کر سکتے ہیں؟‘‘
ان کے بعد، ان کے تعلقہ کے مختلف گاؤوں کے کئی کسانوں نے وزیر اعظم کو پوسٹ کارڈ لکھنا شروع کیا، انہوں نے مجھے بتایا۔ ’’لوگ کہتے ہیں کہ کسان ان قوانین کو سمجھ نہیں رہے ہیں۔ ہم کھیتوں میں روزانہ کام کرتے ہیں، ہم کیسے نہیں سمجھیں گے؟‘‘ انہوں نے حیرانی سے پوچھا۔
نارائن نئے قوانین اور ان کے اثرات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے کارکنوں اور قانونی ماہرین کے ساتھ بات چیت بھی کرتے رہے ہیں۔ ’’یہ قوانین سبھی کے لیے خطرناک ہیں۔ تنازع ہونے پر، ہم اب عدالتوں میں بھی نہیں جا سکتے،‘‘ انہوں نے کہا۔
ان کا ماننا ہے کہ غیر کسانوں کو بھی ان قوانین کے بارے میں بیدار کیا جانا چاہیے۔ ’’ وِچار پربودھن کیلا پاہیجے پورن دیشت [پورے ملک کو بیدار کرنا چاہیے]۔‘‘
۲۵ جنوری کو، جب کسانوں نے آزاد میدان سے جنوبی ممبئی میں واقع مہاراشٹر کے گورنر کی رہائش گاہ کی طرف مارچ کرنا شروع کیا، تو نارائن کولہاپور ضلع کے کسانوں کے سامانوں کی رکھوالی کرنے کے لیے وہیں رک گئے تھے۔
اپنی نوٹ بک میں، انہوں نے کسانوں کی تشویشوں کی فہرست تیار کی تھی: ’زمین کا مالکانہ حق، فصل بیمہ، کم از کم امدادی قیمت اور اے پی ایم سی منڈیاں‘۔ ’’زرعی قوانین پہلے اے پی ایم سی کو برباد کریں گے، پھر ہندوستانی کسانوں کو مار ڈالیں گے۔ یہ تینوں قوانین ہم سبھی کو کارپوریٹوں کے لیے کام کرنے والا مزدور بنا دیں گے،‘‘ انہوں نے مجھ سے کہا۔
مترجم: محمد قمر تبریز