’’بیوٹی پارلر جانے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟ بازار گھومنے اور پیسے خرچ کرنے کا یہ ایک اچھا بہانہ ہے۔‘‘

مونیکا کماری کہتی ہیں کہ بیوٹی پارلر جانے پر ان کے سسرال والے ان کے اوپر شک کرتے ہیں۔ چار رکنی یہ فیملی مشرقی بہار کے ایک چھوٹے سے شہر، جموئی سے تقریباً تین کلومیٹر دور کھیرما گاؤں میں رہتی ہے۔ ان تبصروں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، ۲۵ سالہ مونیکا جب بھی ضرورت پیش آتی ہے اپنے ابرو کے بال بنوانے، اوپری ہونٹوں کے بال ہٹوانے اور چہرے کی مالش (فیشیل مساج) کروانے بیوٹی پارلر پہنچ جاتی ہیں۔ ان کے شوہر، جو پنچایت آفس میں کام کرتے ہیں، انہیں بھی پرانی نسل کی سوچ سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بلکہ کبھی کبھی وہ خود ہی مونیکا کو پارلر تک چھوڑ آتے ہیں۔

مونیکا ہی نہیں، بلکہ جموئی شہر اور جموئی ضلع کے آس پاس کے قصبوں اور گاؤوں کی نوجوان لڑکیاں اور عورتیں بھی خوبصورتی سے متعلق ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے قریبی پارلر جاتی ہیں۔

پچھلے تقریباً ۱۵ سالوں کے دوران جموئی میں تیزی سے بڑھتے بیوٹی بزنس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پرمیلا شرما کہتی ہیں، ’’میں نے جب یہ کام شروع کیا تھا تب یہاں پر صرف ۱۰ پارلر تھے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔‘‘

پرمیلا، جموئی شہر کے مین روڈ پر واقع ’وواہ لیڈیز بیوٹی پارلر‘ کی مالکن ہیں۔ اس شہر کی آبادی ۸۷۳۵۷ ہے، اور یہاں کے زیادہ تر لوگ زراعت اور اس سے جڑے دیگر شعبوں میں کام کرتے ہیں۔

PHOTO • Riya Behl
There is a notice pinned outside stating ‘only for women’
PHOTO • Riya Behl

بائیں: پرمیلا شرما، جموئی شہر میں واقع ’وواہ لیڈیز بیوٹی پارلر‘ کی مالکن ہیں اور خود ہی اسے چلاتی ہیں۔ دائیں: باہر نوٹس لگا ہوا ہے ’صرف عورتوں کے لیے‘

ایک طرف سائیکل کی دکان، دوسری طرف حجام اور ٹیلر کی دکان، اور ان کے بیچ موجود اس بیوٹی پارلر میں بیوٹی (خوبصورتی) سے متعلق ہر قسم کی خدمات فراہم کی جاتی ہیں – جیسے کہ ہیئر کٹ، تھریڈنگ، مہندی، ویکسنگ، فیشیل اور میک اپ۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور واقع علی گنج بلاک کے لکشمی پور اور اسلام نگر گاؤوں کے بھی گاہک یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔

پرمیلا بتاتی ہیں کہ انگیکا، میتھلی اور مگہی جیسی زبانیں جاننے کی وجہ سے گاہکوں کو ان کی دکان پر کافی اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔

بہار کے اس علاقے میں بیوٹی پارلر چلانے کا مطلب ہے پدرانہ سماج سے مسلسل ٹکراؤ۔ پرمیلا کہتی ہیں، ’’شادی سے پہلے [یہاں کی] لڑکیوں کو اپنے والدین کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنی پڑتی ہے، اور شادی کے بعد اپنے شوہر کی مرضی کے مطابق۔‘‘ اسی لیے ان کے پارلر میں مردوں کا آنا سخت منع ہے اور باہر ایک بورڈ بھی لگا ہوا ہے، جس پر صاف لفظوں میں لکھا ہے ’صرف عورتوں کے لیے‘۔ اندر صرف عورتیں موجود ہوتی ہیں، جس سے انہیں اپنے تحفظ کا بھرپور احساس ہوتا ہے۔ بچوں کے بارے میں اور کھانے پکانے کے مختلف طریقوں پر بات ہوتی ہے، شادی بیاہ سے متعلق بحث و مباحثہ ہوتاہے اور میاں بیوی کے جھگڑوں پر گفتگو ہوتی ہے۔ پرمیلا کہتی ہیں، ’’عورتیں گھر پر اپنے من کی بات کسی سے شیئر نہیں کر سکتیں، لیکن یہاں پر وہ سب کچھ شیئر کرتی ہیں۔‘‘

اسی خوبی اور جذبے کی وجہ سے گاہک بھی ان کے وفادار بنے رہتے ہیں۔ اس جان پہچان کی جگہ کے بارے میں بتاتے ہوئے پریہ کماری کہتی ہیں، ’’جموئی میں جب بھی ہمیں پارلر جانے کی ضرورت پیش آتی ہے، تو ہم اسی جگہ لوٹ کر آتے ہیں۔‘‘ پارلر کی مالکن کے ذریعے ہنسی مذاق یا ہلکی ڈانٹ ڈپٹ وہاں کے ماحول کی اپنائیت کو بڑھا دیتی ہے۔ جموئی بلاک کے کھیرما گاؤں کی رہنے والی ۲۲ سالہ پریہ کماری کہتی ہیں، ’’انہیں ہماری زندگی کے بارے میں سب کچھ معلوم ہے، اسی لیے وہ ہم سے ہنسی مذاق کرتی ہیں۔‘‘

Khushboo Singh lives in Jamui town and visits the parlour for a range of beauty services.
PHOTO • Riya Behl
Pramila in her parlour with a customer
PHOTO • Riya Behl

بائیں: خوشبو سنگھ، جموئی شہر میں ہی رہتی ہیں اور مختلف قسم کی بیوٹی سروسز کے لیے اس پارلر میں آتی ہیں۔ دائیں: اپنے پارلر میں ایک گاہک کے ساتھ پرمیلا

پرمیلا کا پارلر مہاراج گنج مین روڈ کے ایک مصروف کمرشیل کمپلیکس کی نچلی منزل پر ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی دکان ہے، جس میں کوئی کھڑکی نہیں ہے؛ انہیں ہر مہینے اس کا ۳۵۰۰ روپے کرایہ دینا پڑتا ہے۔ اندر کی تین دیواروں پر بڑے بڑے آئینے ایک لائن سے لگے ہوئے ہیں۔ آئینوں کے اوپر شیشے والی الماریوں کے خانوں میں گولک (پگی بینک)، نرم کپڑوں سے بنے ٹیڈی بیئر، سینٹری پیڈ کے پیکٹ اور مختلف قسم کے کاسمیٹک پروڈکٹس بڑی تعداد میں رکھے ہوئے ہیں۔ چھت سے پلاسٹک کے پھول لٹک رہے ہیں؛ ہلکے بادامی اور نارنجی رنگ کی دیواروں پر ان کے کامیابی کے ساتھ مکمل کیے گئے بیوٹی کورسز والے سرٹیفکیٹ فریم میں لگے ہوئے ہیں۔

تبھی سامنے کے دروازے پر ٹنگا ہوا زرد (پیلے) رنگ کا پردہ اٹھتا ہے اور ایک خاتون گاہک اندر داخل ہوتی ہے۔ اچھے  کپڑوں میں ملبوس یہ ۳۰ سالہ عورت رات کا کھانا کھانے کہیں باہر جا رہی ہے اور چاہتی ہے کہ اس کے اوپری ہونٹ کے بال ہٹا دیے جائیں اور ابرو کے بالوں کو تراش کر ٹھیک کر دیا جائے۔ حالانکہ اب پارلر کو بند کرنے کا وقت ہو چکا ہے، لیکن بیوٹی سے جڑے اس بزنس میں کام کا کوئی خاص وقت متعین نہیں کیا جا سکتا ورنہ گاہک آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ وہ عورت جب وہاں بیٹھ جاتی ہے، تو پرمیلا اس سے موقع کے بارے میں پوچھتی ہیں جہاں اسے جانا ہے اور پھر دونوں میں دوستانہ بات چیت ہونے لگتی ہے۔ بعد میں وہ ہمیں بتاتی ہیں، ’’ہم تھوڑا ہنسی مذاق کریں گے کہ اسکن (جلد) میں اندر سے نکھار (چمک) آئے۔‘‘

اس بزنس میں غیر یقینی صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پرمیلا کہتی ہیں، ’’ایک دن میں کبھی کبھی ہمارے پاس ۲۵ عورتیں اپنے ابروؤں کو درست کرانے آ جاتی ہیں۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے جب پانچ گاہک بھی نہ آئیں۔‘‘ جس دن انہیں کسی دلہن کا میک اپ کرنے کا بلاوا آتا ہے، اس دن ان کی کمائی ۵۰۰۰ روپے یا اس سے زیادہ ہو جاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’پہلے ہمارے پاس دلہنوں کا میک اپ کرانے کے لیے بہت سے گاہک آتے تھے، لیکن اب یہ کام زیادہ تر عورتیں اپنے فون پر [ویڈیو دیکھ کر] خود ہی کر لیتی ہیں۔‘‘ اپنی سروسز کو زیادہ دلکش بنانے کے لیے، انہوں نے کچھ آفر دے رکھے ہیں: ایک ساتھ ابرو درست کرانے اور اوپری ہونٹ کے بال ہٹوانے کے ۳۰ روپے۔

عمر رسیدہ خواتین کو یہاں تک لانا ابھی تک چیلنج بنا ہوا ہے۔ پریہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنی ماں جیسی بوڑھی نسل کی خواتین کو یہاں آتے کبھی نہیں دیکھا ہے۔ ’’میری ماں نے نہ تو کبھی اپنے ابرو ٹھیک کرائے ہیں اور نہ ہی کبھی بال کٹوایا ہے۔ انہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم لوگ اپنے بازؤوں کے نیچے (بغل کے بالوں میں) ویکس کیوں کرواتے ہیں اور کہتی ہیں، ’میں قدرتی طور پر ایسی ہی ہوں اور بھگوان نے مجھے ایسا ہی بنایا ہے، اس لیے میں اس میں کوئی تبدیلی کیوں کراؤں؟‘۔‘‘

The parlour is centrally located in a busy commercial complex in Jamui town.
PHOTO • Riya Behl
Pramila threading a customer's eyebrows
PHOTO • Riya Behl

بائیں: یہ پارلر جموئی شہر کے ایک مصروف کمرشیل کمپلیکس کے درمیان میں واقع ہے۔ دائیں: پرمیلا ایک گاہک کے ابروؤں میں تھریڈنگ کر رہی ہیں

شام کے ۵ بج رہے ہیں؛ ایک ماں اپنی دو نوجوان بیٹیوں کے ساتھ اندر داخل ہوتی ہے۔ ان کا نام تبسم ملک ہے جو پرمیلا کے بغل میں بیٹھ جاتی ہیں، جب کہ ان کی بیٹیاں نقاب اتارنے کے بعد حجام والی کرسیاں سنبھال لیتی ہیں۔ سامنے نارنجی رنگ کی ایک میز ہے جس پر قینچی، کنگھی، ویکس ہیٹر، وزٹنگ کارڈ کے دو ڈبے، ابرو کے بال درست کرنے والے دھاگوں کے گچھے، پاؤڈر کی بوتلیں اور مختلف قسم کے لوشن رکھے ہوئے ہیں۔

پرمیلا ان سے پوچھتی ہیں، ’’آپ کی تو تین لڑکیاں تھیں؟ ایک کی شادی ہو گئی کیا؟‘‘ ان کی اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے گاہکوں کی نجی زندگی کے بارے میں کتنا کچھ جانتی ہیں۔

تبسم ان کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتی ہیں، ’’وہ ابھی پڑھ رہی ہے۔ اسکول کی پڑھائی ختم کر لے گی، تو ہم اس کے بارے میں سوچیں گے۔‘‘

صوفے پر بیٹھی ہوئی پرمیلا اپنا سر ہلاتی ہیں۔ تبسم کے ساتھ بات کرتے ہوئے، وہ اپنے یہاں ٹریننگ لے رہی دو لڑکیوں، ٹونی اور رانی کو بھی غور سے دیکھ رہی ہیں، جو تبسم کی دونوں بیٹیوں کے بال کاٹنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ یہ دونوں ٹرینی لڑکیاں ۱۲ سال کی جیسمن کے ارد گرد گھوم رہی ہیں، جو چاہتی ہے کہ اس کے بال ’یو‘ کٹ میں کاٹے جائیں، جس کے لیے اسے ۸۰ روپے ادا کرنے ہوں گے۔ پرمیلا تیزی سے ٹونی کو واضح ہدایت دیتے ہوئے کہتی ہیں، ’’جب تک یو-شیپ مکمل نہ ہو جائے، بالوں کے اوپر سے قینچی مت ہٹانا۔‘‘ ٹونی، ہاں کہتے ہوئے اپنا سر ہلاتی ہیں۔

Pramila also trains young girls like Tuni Singh (yellow kurta) who is learning as she cuts 12-year-old Jasmine’s hair.
PHOTO • Riya Behl
The cut hair will be sold by weight to a wig manufacturer from Kolkata
PHOTO • Riya Behl

بائیں: پرمیلا، ٹونی سنگھ (زرد رنگ کے کرتے میں) جیسی نوجوان لڑکیوں کو بھی سکھاتی ہیں، جیسے کہ وہ یہاں پر ۱۲ سال کی جیسمن کے بال کو کاٹنا سکھا رہی ہیں۔ دائیں: کاٹے گئے بال کولکاتا کے ایک مینوفیکچرر کو وِگ بنانے کے لیے فروخت کر دیے جائیں گے

ٹریننگ حاصل کر رہی لڑکیوں نے ایک کے بال کاٹ دیے ہیں، جب کہ دوسرے کے بال پرمیلا کو کاٹنے ہیں۔ وہ اپنی نوجوان معاون کے ہاتھوں سے دھات کی بنی ہوئی ایک وزنی قینچی لیتی ہیں اور بالوں کو تراشنا شروع کرتی ہیں، پھر اس کے سامنے ہی اسے اسٹائل سے کاٹ دیتی ہیں۔

پندرہ منٹ کے اندر ہیئرکٹ مکمل ہو جاتا ہے اور رانی لمبے جوڑے (بال) کو اٹھانے کے لیے جھکتی ہیں۔ وہ احتیاط سے ان کٹے ہوئے بالوں کو ایک ربڑ بینڈ سے باندھ دیتی ہیں۔ بعد میں ان بالوں کو وزن کرکے کولکاتا کے ایک مینوفیکچرر کو وِگ بنانے کے لیے فروخت کر دیا جائے گا؛ یہاں سے کولکاتا کا آدھے دن کا سفر ہے۔

پارلر سے ماں بیٹیوں کے باہر نکل جانے کے بعد پرمیلا کہتی ہیں، ’’اب ان سے میری ملاقات اگلے سال ہوگی۔ یہ سال میں صرف ایک بار، عید سے پہلے بال کٹوانے آتی ہیں۔‘‘ اپنے گاہکوں کے بارے میں پوری جانکاری رکھنا، ان کے ذائقوں کو یاد رکھنا اور ان سے بات چیت کرتے رہنا، یہی پرمیلا کی سب سے بڑی خوبی ہے۔

لیکن اس کاروبار میں اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ وہ روزانہ صبح ۴ بجے سو کر اٹھتی ہیں، گھر کے سارے کام نمٹاتی ہیں اور اپنے بچوں – پریہ اور پریانشو – کو اسکول بھیجتی ہیں۔ گھر سے روانہ ہونے سے پہلے، پرمیلا کو تقریباً ۱۰ لیٹر پانی بھر کر اپنے ساتھ پارلر لے جانا پڑتا ہے، کیوں کہ جس شاپنگ کمپلیکس میں یہ پارلر ہے وہاں پانی نہیں آتا ہے۔ وہ پوچھتی ہیں، ’’پانی کے بغیر آپ پارلر کیسے چلا سکتے ہیں؟‘‘

Pramila brings around 10 litres of water with her from home as there is no running water in the shopping complex where the parlour is located.
PHOTO • Riya Behl
Tunni and Pramila relaxing while waiting for their next customer
PHOTO • Riya Behl

بائیں: پرمیلا کو اپنے گھر سے تقریباً ۱۰ لیٹر پانی لانا پڑتا ہے کیوں کہ جس شاپنگ کمپلیکس میں ان کا پارلر ہے وہاں پر پانی نہیں آتا۔ وہ پوچھتی ہیں، ’پانی کے بغیر آپ پارلر کیسے چلا سکتے ہیں؟‘ دائیں: ٹونی اور پرمیلا اپنی اگلی گاہک کے انتظار میں آرام سے بیٹھی ہوئی ہیں

وواہ لیڈیز بیوٹی پارلر صبح ۱۰ بجے کھلتا ہے اور ۱۱ گھنٹے کے بعد بند ہوتا ہے۔ چھٹی صرف اسی دن رہتی ہے جب پرمیلا بیمار ہوں یا ان کے گھر پر کوئی مہمان آ جائے۔ روزانہ صبح کو وہ ۱۰ بجے سے پہلے اپنے شوہر کے ساتھ گھر سے نکلتی ہیں۔ وہ اپنی موٹر سائیکل سے انہیں پارلر تک چھوڑنے کے بعد اپنی دکان کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں، جو وہاں سے تقریباً ایک کلومیٹر دور ہے۔ پرمیلا فخر سے کہتی ہیں، ’’میرے شوہر ایک آرٹسٹ ہیں۔ وہ سائن بورڈ اور پلوں پر پینٹ کرتے ہیں، گرینائٹ تراشتے ہیں، ڈی جے ٹیمپو اور شادی بارات کے اسٹیج وغیرہ ڈیزائن کرتے ہیں۔‘‘

جس دن پرمیلا کو پارلر میں دیر ہو جاتی ہے، اس دن راجیش اپنی دکان کے باہر ان کا انتظار کرتے ہیں اور دوستوں کے ساتھ بات چیت کرکے وقت گزارتے ہیں۔

پرمیلا کہتی ہیں، ’’اس بزنس میں کوئی سنڈے (یعنی چھٹی کا دن) نہیں ہے۔ جب پڑوسی میرے گھر اپوائنٹمنٹ کے لیے آتے ہیں، تو میں ان سے بھی پیسے وصول کرتی ہوں!‘‘ جو گاہک مول بھاؤ کرتے ہیں یا پیسے دینے سے انکار کر دیتے ہیں، ان سے وہ سختی سے پیش آتی ہیں۔ ’’اگر کسی گاہک نے گستاخی کی، تو ہم اسے اس کی اوقات بتانا جانتے ہیں۔‘‘

وواہ لیڈیز بیوٹی پارلر کی مالکن پرمیلا کی پرورش مغربی بنگال کے کوئلہ والے شہر دُرگاپور میں ہوئی ہے، جہاں ان کے والد ایسٹرن کول فیلڈ لمیٹڈ میں ایک فورمین تھے۔ ان کی ماں آٹھ رکنی فیملی کو سنبھالتی تھیں۔ پرمیلا اور ان کے پانچ بھائی بہن (تین بھائی اور دو بہنیں) ہر سال جموئی میں واقع اپنے نانہال گھومنے جاتے تھے۔

سال ۲۰۰۰ میں ۱۲ویں کلاس کی پڑھائی مکمل کر لینے کے بعد ہی پرمیلا کی راجیش کمار سے شادی ہو گئی اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ جموئی آ گئیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ شادی کے بعد سات سالوں تک بس ایسا چلتا رہا کہ ان کے شوہر کام پر جاتے اور بچے اسکول چلے جاتے تھے۔ گھر میں کافی دنوں تک خالی بیٹھنے کے بعد، آخرکار انہوں نے اپنے شوہر سے کہا کہ وہ باہر جا کر کام کرنا چاہتی ہیں۔ بیوٹی پارلر کھولنے کا خیال ان کے ذہن میں اسی وقت آیا۔ تسلی کی بات یہ تھی کہ ان کے شوہر کا رویہ کافی معاون رہا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میرے گاہک جب آتے ہیں اور میں ان کے ساتھ بات چیت اور ہنسی مذاق کرتی ہوں، تو میرے سبھی تناؤ دور ہو جاتے ہیں۔‘‘

Pramila posing for the camera.
PHOTO • Riya Behl
Pramila's husband Rajesh paints signboards and designs backdrops for weddings and other functions
PHOTO • Riya Behl

بائیں: کیمرے کے لیے پوز دیتی ہوئیں پرمیلا۔ دائیں: پرمیلا کے شوہر راجیش سائن بورڈ پینٹ کرتے ہیں اور شادی بیاہ اور دیگر پروگراموں کے لیے پنڈال اور اسٹیج ڈیزائن کرتے ہیں

سال ۲۰۰۷ میں جب پرمیلا نے بیوٹی ٹریننگ لینے کی خواہش ظاہر کی، تو جموئی میں کئی کورس دستیاب تھے۔ پرمیلا کو ان میں سے دو کورس اپنے لیے بہتر لگے۔ ان کی فیملی نے دونوں کی فیس ادا کی۔ پہلا کورس پارلر کا تھا، جو چھ مہینے کا تھا اور اس کی فیس ۶۰۰۰ روپے تھی، اور دوسرا کورس فریش لُک کا تھا، جس کی فیس ۲۰۰۰ روپے تھی۔

پرمیلا کو اس کاروبار میں آئے اب ۱۵ سال ہو چکے ہیں اور وہ پورے بہار میں الگ الگ بیوٹی پروڈکٹس کے ذریعے منعقد ٹریننگ ورکشاپ میں پابندی سے شامل ہوتی رہتی ہیں۔ اس کے نتیجہ میں، جیسا کہ وہ بتاتی ہیں، ’’میں نے ۵۰ سے بھی زیادہ عورتوں کو ٹریننگ دی ہے، جن میں سے کئی عورتوں نے اپنا خود کا بیوٹی پارلر کھول لیا ہے۔ ان میں سے کچھ تو آس پاس کے گاؤوں سے ہیں۔‘‘

جب ہم انٹرویو ختم کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں، تب پرمیلا شرما اپنے ہونٹوں پر لال لپسٹک لگاتی ہیں۔ وہ کوہل کا کریان اٹھاتی ہیںاور اپنی آنکھوں کو مزید گہرا رنگ دینے کے بعد دوبارہ اپنے سندوری لال رنگ کے صوفے پر بیٹھ جاتی ہیں۔

وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، ’’میں خوبصورت تو نہیں، لیکن آپ چاہیں تو میری تصویر کھینچ سکتی ہیں۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Riya Behl

Riya Behl is a journalist and photographer with the People’s Archive of Rural India (PARI). As Content Editor at PARI Education, she works with students to document the lives of people from marginalised communities.

Other stories by Riya Behl
Devashree Somani

Devashree Somani is an independent journalist, in the current cohort of the India Fellow program.

Other stories by Devashree Somani
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. A journalist and teacher, she also heads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum, and with young people to document the issues of our times.

Other stories by Priti David
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez