کوسی ندی نیپال سے بہہ کر بہار آتی ہے۔ یہ ایک پرآشوب ندی ہے، جو لگاتار اپنے بہاؤ کا رخ بدلتی رہتی ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران اسے زبردستی اپنے ارد گرد بنے باندھوں کے درمیان بہنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ حالانکہ، ندیوں کو دیواروں کے اندر محدود نہیں کیا جاسکتا، لیکن ریاستی حکومت کی ضد ہے کہ وہ کئی کلومیٹر لمبی مٹی کی دیوار بنائے گی۔ ندی میں جب پانی کی سطح اونچی ہوتی ہے، تو لوگ کئی جگہوں سے کنارے کے باندھ کو توڑ دیتے ہیں، تاکہ اس کا پانی بہہ کر نکل جائے، بجائے اس کے کہ انھیں ڈبو دے۔ اور سال در سال، حکومت کنارے پر بنائے گئے مٹی کے ان باندھوں کی مرمت دوبارہ کر دیتی ہے۔ اس کی وجہ سے ہمیشہ ٹکراؤ ہوتا ہے۔

ندی کے کنارے باندھ بنانے کا مقصد تو اس کے آس پاس رہنے والے لوگوں کی زندگی کو بچانا ہے، لیکن یہ اکثر ٹوٹ جاتا ہے۔ سال ۱۹۸۴ میں کوسی ندی کا باندھ سب سے بری طرح ٹوٹا تھا؛ تب یہ گاؤوں کے گاؤوں بہا کر لے گئی، بہت سے لوگ ڈوب گئے اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو ئے۔ سال ۱۹۸۷ کے سیلاب کے دوران بھی ندی کے باندھ بہت سی جگہوں سے ٹوٹے اور تباہی پھیلی۔

یہاں کے لوگ سیلاب کے بارے میں اکثر و بیشتر بات کرتے رہتے ہیں، کیوں کہ پرانے اور نئے بنے باندھوں کے درمیان ٹوٹنے کا سلسلہ مزید خطرناک ہو چکا ہے۔

یہاں پر جو فلم دکھائی جا رہی ہے اس کی شوٹنگ اگست ۲۰۱۵ میں کی گئی تھی۔ اسے سیانٹونی پال چودھری کے ۲۰۱۵ کے پاری فیلوشپ کے تحت فلمایا گیا تھا۔

کیمرہ اور ایڈیٹنگ : سمبت دت چودھری، ایک خود کار سنیماٹوگرافر اور ایڈیٹر۔ وہ گزشتہ دو برسوں سے کھیتی باڑی، صحت عامہ اور تعلیم سے متعلق اسٹوریز پر کام کرتے رہے ہیں۔

Sayantoni Palchoudhuri

Sayantoni Palchoudhuri is an independent photographer and PARI Fellow, 2015. Her work focuses on documenting a broad range of development, health and environment issues across India.

Other stories by Sayantoni Palchoudhuri
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez