’’انہوں نے کہا کہ ہمارا بچہ ماں کی پیٹ میں ہی مر چکا ہے۔ ہم موت سے ڈر گئے تھے۔ پھر انہوں نے ہم سے چلے جانے کو کہا کہ جہاں چاہو وہاں جاؤ۔ تب میں نے اپنی بہو کو شہر کے ایک پرائیویٹ ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا فیصلہ کیا،‘‘ سُکھیا دیوی یاد کرتی ہیں کہ بہار کے ویشالی ضلع ہیڈکوارٹر کے پرائمری ہیلتھ سینٹر (پی ایچ سی) میں ان کے اور ان کی بہو، کُسُم کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا گیا تھا۔
۶۲ سالہ زرعی مزدور اپنی ایک دن کی پوتی، جو زندہ اور صحیح سلامت ہے، کو ٹیکہ لگوانے کے لیے اپنی بانہوں میں پکڑے، ایک دن صبح کو ۱۰ بجے کے قریب پی ایچ سی کی لائن میں کھڑی انتظار کر رہی ہیں۔
سُکھیا کی ۲۸ سالہ بہو کو جب دردِ زہ شروع ہوا، تو وہ اسے ویشالی کے پی ایچ سی لے گئیں۔ یہیں پر ایک ملازم نے انہیں بتایا کہ بچہ مر چکا ہے۔ پوری طرح ڈری ہوئی، وہ اور کُسُم ایک آٹو رکشہ سے، تقریباً ۱۵ کلومیٹر دور واقع اپنے گاؤں (جس کا نام نہیں بتانے کے لیے انہوں نے ہم سے درخواست کی تھی) لوٹ آئیں۔ ’’ہم اپنے گھر واپس گئے اور خاتون ڈاکٹر [خواتین کے امراض کی ماہر] کے پاس جانے کے لیے ایک پرائیویٹ گاڑی، بولیرو، کرایے پر لی۔ میں نے کرایے کی پوچھ گچھ کرنے کے بارے میں بھی نہیں سوچا۔ میں ڈلیوری (زچگی) کو لیکر بہت بے چین تھی۔ اپنے پڑوسیوں کی مدد سے، میں نے اپنی بہو کو گاڑی میں بیٹھایا۔ اس کے بعد ہم کلینک کی طرف نکل پڑے،‘‘ سُکھیا بتاتی ہیں۔
وہ جب ڈاکٹر کی طرف جانے والے راستے پر ہی تھیں کہ وہ بچہ، جو ’ماں کے پیٹ میں مر چکا تھا‘ کار میں زندہ ہو جاتا ہے۔
’’وہ اُسی گاڑی میں پیدا ہوئی تھی،‘‘ سُکھیا بتاتی ہیں۔ اس کی پیدائش بہت آسانی سے ہوگئی، وہ کہتی ہیں۔ ان کے پاس پہلے سے ہی ایک ساڑی تھی جسے انہوں نے چادر کے طور پر استعمال کیا، مقامی دوا کی دکان کے مالک (جو ان کے ساتھ تھا) نے گاڑی میں کچھ پانی رکھ دیا تھا۔ ’’لیکن ان سب میں کافی وقت لگ گیا...‘‘ سُکھیا کہتی ہیں۔
اور اس میں پیسے بھی لگے۔ نسبتاً کم دوری کے باوجود، گاڑی کے مالک نے فیملی سے سفر کے لیے ۳ ہزار روپے – اور کسی سے گاڑی کو صاف کرانے کے لیے الگ سے ایک ہزار روپے لیے۔
لیکن درحقیقت پی ایچ سی میں کیا ہوا تھا؟ ہمیں اپنے ذاتی سفر سے پتا چلا کہ اُس سینٹر میں نہ تو الٹرا ساؤنڈ مشین اور نہ ہی کوئی دیگر مشین کام کر رہی تھی۔ پھر، کس بنیاد پر، انہیں یہ بتایا گیا تھا کہ حمل میں ہی بچہ کی موت ہو چکی ہے؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایسا قصداً کہا گیا تھا۔
سُکھیا بتاتی ہیں، ’’جب ہم اسپتال [پی ایچ سی] پہنچے، تو کافی رات ہو چکی تھی۔ وہ اسے زچگی کے کمرے میں لے گئے اور پانچ منٹ کے اندر، ان میں سے ایک نے لوٹ کر مجھے بتایا کہ حالت بہت نازک ہے۔ بہتر ہوگا کہ ہم کسی پرائیویٹ اسپتال میں جائیں، اس نے کہا۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ دائی تھی، جس نے باہر آکر کہا کہ بچہ پیٹ کے اندر مر چکا ہے۔ ہم اپنی مقامی آشا کارکن کے ساتھ نہیں آئے تھے کیوں کہ رات کے ۱۱ بج رہے تھے۔ اس لیے میں اپنے گھر لوٹ آئی اور اپنے پڑوسیوں کی مدد سے ایک بولیرو کرایے پر لیا۔ گاڑی گاؤں کے ہی کسی آدمی کی تھی، اس لیے ہم اسے ۱۵ منٹ کے اندر حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ ورنہ بھگوان جانے کیا ہوا ہوتا۔‘‘
سُکھیا نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ گاڑی کرایے پر لینے (اور اس کی صفائی) کے لیے ۴ ہزار روپے خرچ کریں گی۔ ’’گاڑی ملتے ہی، ہم نے ڈاکٹر کے پاس ہمارے ساتھ جانے کے لیے دوا کی ایک دکان کے مالک کو لیا، جو ہمارے گاؤں کے پاس ہی رہتا ہے۔ انہوں نے کُسُم کو ’ایک بوتل‘ [ایک انجیکشن اور ڈرِپ] دیا اور میری بہو نے وہیں کے وہیں [گاڑی میں] بچی کو جنم دے دیا۔ پھر ہم سبھی گھر واپس چلے آئے۔‘‘ تب تک آدھی رات سے زیادہ وقت ہو چکا تھا۔
میں اگلے ہی دن سُکھیا سے پی ایچ سی میں ملی۔ وہ بچی کو ٹیکہ لگوانے اور اس کا برتھ سرٹیفکیٹ لینے کے لیے وہاں آئی تھیں۔ ’’ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر انہیں پیسے نہیں ملے، تو وہ کاغذ نہیں بنائیں گے،‘‘ انہوں نے کہا۔
اصل میں، پی ایچ سی کے ملازم پچھلے دن حمل میں مردہ قرار دی گئی بچی کا برتھ سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے لیے پیسے مانگ رہے تھے۔
’وہ اسے زچگی کے کمرے میں لے گئے اور پانچ منٹ کے اندر، ان میں سے ایک نے لوٹ کر مجھے بتایا کہ حالت بہت نازک ہے۔ بہتر ہوگا کہ ہم کسی پرائیویٹ اسپتال میں جائیں، اس نے کہا۔‘
’’ہر کوئی پیسے مانگتا ہے۔ ان کے دماغ میں جو بھی رقم آ جائے۔ میں نے کاغذ [برتھ سرٹیفکیٹ] بنوانے کے لیے ایک آدمی کو ۱۰۰ روپے، پھر دوسرے کو ۳۰۰ روپے دیے۔ اس کے بعد مجھے ایک اور خاتون کو ۳۵۰ روپے دینے پڑے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’اس سے پہلے، یہ سسٹر (بہن)، جس نے لال ساڑی پہن رکھی ہے،‘‘ وہ پاس میں کھڑی ایک معاون نرس دائی (اے این ایم) کی طرف اشارہ کرتی ہیں، ’’اس نے ۵۰۰ روپے مانگے اور کہا کہ اگر میں نے پیسے نہیں دیے، تو مجھے کاغذ نہیں ملے گا۔‘‘ سُکھیا کو آخرکار دوسروں کو پیسے دینے پڑے۔
’’دیکھئے، میں ان کاغذات کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی۔ میرے تین بچے ہیں، لیکن میں نے ان میں سے کسی کے لیے بھی نہیں بنوایا ہے۔ لیکن آج کل وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ یہ ضروری ہے،‘‘ سُکھیا کہتی ہیں۔
’’میرے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ سب سے بڑا اس بچی کا والد ہے۔ میرے چھوٹے بیٹے کی بھی شادی طے ہو چکی ہے اور میری بیٹی ان میں سب سے چھوٹی ہے۔ وہ غیر شادی شدہ ہے اور میرے ساتھ رہتی ہے۔ جب وہ سبھی چھوٹے بچے تھے، تبھی ان کے والد [زرعی مزدور] کا انتقال ہو گیا تھا۔‘‘ سُکھیا نیچے جھکتی ہیں، اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں کی طرف لے جاتے ہوئے مجھے دکھاتی ہیں کہ جب ان کے شوہر کا انتقال ہوا تھا تب بچے کتنے چھوٹے تھے۔
’’میں نے اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے اور ان کی پرورش کرنے کے لیے کئی سال تک دوسروں کے کھیتوں پر کام کیا،‘‘ سُکھیا کہتی ہیں۔ اب ان کے بیٹے گھر پر پیسے بھیجتے ہیں، اور وہ دو پوتے/پوتی (ابھی پیدا ہوئی بچی سمیت)، ان کی ماں کُسُم، جو ایک خاتون خانہ ہے، اور خود اپنی بیٹی کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔
’’میرے دونوں لڑکے ’کمپنی‘ میں کام کرتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں، پرائیویٹ ٹھیکہ داروں کے لیے۔ ’’چھوٹا (لڑکا) ممبئی میں رہتا ہے اور بجلی کے بورڈ بناتا ہے۔ اور اس بچی کا والد [۳۴ سالہ] پنجاب میں عمارت کے اندرونی حصہ کے لیے پلاسٹر آف پیرس بنانے والے کاریگر کے طور پر کام کرتا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران میرے دونوں بیٹے گھر نہیں آ سکے،‘‘ سُکھیا کی آواز بھاری ہو گئی۔ وہ تھوڑے وقفہ کے لیے رک جاتی ہیں۔
’’میں نے اپنے بڑے بیٹے کی شادی پانچ سال پہلے کر دی تھی۔ یہ ان کا دوسرا بچہ ہے۔ میرا بڑا پوتا ساڑھے تین سال کا ہے،‘‘ وہ کُسُم کے پہلے بچے، پربھات کے بارے میں بتاتی ہیں، جو اسی پی ایچ سی میں پیدا ہوا تھا۔ سُکھیا پی ایچ سی کے احاطہ میں کھڑی تھیں، جب کہ کُسُم زچگی کے بعد کی دیکھ بھال کے کمرے میں لیٹی تھیں۔ کُسُم کے بائیں جانب ایک سفید دیوار ہے – جو کنارے پر لوگوں کے ذریعہ پان کھاکر تھوکنے کی وجہ سے آدھی لال ہو چکی ہے۔ وارڈ میں فوٹوگرافی کرنے پر پوری طرح پابندی ہے۔ کُسُم کے ننگے بستر کے دائیں جانب ایک الٹرا ساؤنڈ مشین ہے جو اَب مکڑیوں کا گھر ہے۔ ’’پچھلے ہفتہ اس نے کام کرنا بند کر دیا تھا اور صفائی ملازمین نے اسے صاف بھی نہیں کیا،‘‘ ڈیوٹی پر موجود اے این ایم کہتی ہے۔
دورانِ حمل اپنے آخری مہینہ میں، پی ایچ سی کے ملازمین کی صلاح پر کُسُم الٹرا ساؤنڈ کرانے کے لیے ایک پرائیویٹ اسپتال گئی تھیں۔ لیکن ’’بعد میں جب ہم زچگی کے لیے یہاں آئے، تو انہوں نے ہمیں بھگا دیا، جس سے ہمیں کافی پریشانی ہوئی،‘‘ سُکھیا کہتی ہیں۔ ہماری گفتگو کے دوران کُسُم، جو کافی ڈری ہوئی تھیں اور درد کی دوا لے رہی تھیں، کسی بھی حالت میں ہم سے بات کرنے کو تیار نہیں ہوئیں۔
سُکھیا، جو فائلیریا سے متاثر ہیں (ان کا ایک پیر دوسرے کے سائز سے تقریباً دو گنا ہے)، کہتی ہیں: ’’یہ ہمیشہ ایسا ہی رہتا ہے۔ دیر تک کھڑا رہنا میرے لیے ایک چنوتی ہے۔ میں زیادہ چل نہیں سکتی۔ درد تبھی جاتا ہے، جب میں کوئی دوا لیتی ہوں۔ لیکن مجھے سب کچھ انہی پیروں کے ساتھ کرنا ہے۔ اب جب کہ میں یہاں ہوں، مجھے اپنے لیے بھی کچھ دوا لینی چاہیے۔ میری دوائیں ختم ہو رہی ہیں۔‘‘
اپنی پوتی کو گود میں لیے، وہ لنگڑاتے ہوئے پی ایچ سی کے دوا وِترن کیندر (دواؤں کی تقسیم کے مرکز) کی طرف جاتی ہیں۔
کور کا خاکہ: پرینکا بورار نئے میڈیا کی ایک آرٹسٹ ہیں جو معنی اور اظہار کی نئی شکلوں کو تلاش کرنے کے لیے تکنیک کا تجربہ کر رہی ہیں۔ وہ سیکھنے اور کھیلنے کے لیے تجربات کو ڈیزائن کرتی ہیں، باہم مربوط میڈیا کے ساتھ ہاتھ آزماتی ہیں، اور روایتی قلم اور کاغذ کے ساتھ بھی آسانی محسوس کرتی ہیں۔
پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتا لگایا جا سکے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم zahra@ruralindiaonline.org کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی namita@ruralindiaonline.org کو بھیج دیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز