وِٹھّل چوہان گزشتہ دو مہینوں سے فون کا انتظار کر رہے ہیں۔ ۲۸ فروری کو وہ عثمان آباد کے کلمب تعلقہ کے نیفیڈ سنٹر گئے تھے اپنے نو کوئنٹل تور کو رجسٹر کرانے، تاکہ حکومت اس کے بعد ان سے یہ خرید سکے۔ لیکن اہلکاروں نے ایک نوٹ بک میں صرف ان کا نام اور فون نمبر لکھا اور ان سے کہا، ’’آپ کے پاس فون آئے گا۔‘‘

’’میں نے ہر دوسرے دن ان کو فون کیا اور ۱۸ فروری سے اب تک سنٹر کے ۵۔۴ چکر لگا چکا ہوں،‘‘ مئی کے شروع میں ایک گرم صبح کو سنٹر میں ایک اہلکار کی میز کے دوسری طرف بیٹھے ہوئے، وہ کہتے ہیں۔ وِٹھل کے پاس پنگاؤں میں نو ایکڑ کا ایک کھیت ہے، اور وہ ایک بار پھر ۲۵ کلومیٹر طے کرکے کلمب پہنچے ہیں صرف یہ پوچھنے کے لیے کہ کیا ان کا تور (ارہر کی دال) خریدی جائے گی۔ ان کے جیسے دوسرے کسان بھی ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں۔ ’’وہ بار بار کہتے رہے کہ گودام بھر چکا ہے یا پھر بورے نہیں بچے ہیں۔ اب ڈیڈ لائن ختم ہو چکی ہے اور میرے پاس رجسٹریشن کا کوئی ثبوت بھی نہیں ہے۔‘‘

پچھلے سال تور کی بمپر پیداوار کی وجہ سے، مہاراشٹر حکومت نے دسمبر ۲۰۱۶ کے وسط کے آس پاس متعدد ضلعوں اور تعلقوں میں نیشنل ایگریکلچرل کوآپریٹو مارکیٹنگ فیڈریشن آف انڈیا (نیفیڈ) کے مراکز اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کھولے کہ جو تاجر کسانوں سے ان کی پیداوار خریدتے ہیں، دال کی بمپر پیداوار کی وجہ سے انھیں کم پیسے دے کر لوٹ نہ لیں۔

Farmers gathered outside NAFED centre in Kalamb

کسان کلمب میں نیفیڈ سنٹر کے باہر انتظار کر رہے ہیں: اس امید میں کہ حکومت ان سے تور کا ایک ایک دانہ خریدنے کے اپنے وعدہ کو پورا کرے گی

لیکن نیفیڈ سنٹرس بالکل بھی تیار نہیں تھے۔ کلمب سنٹر کا اہلکار اس سے انکار نہیں کرتا ہے۔ وہ کلمب کے ایگریکلچر پروڈیوس مارکیٹ کمیٹی کے سکریٹری، ایس سی چوہان سے بات کرنے میں مصروف ہے۔ ’’ہم ایک رپورٹ تیار کر رہے ہیں اور اسے حکومت کو بھیجنے والے ہیں،‘‘ چوہان کہتے ہیں۔ ’’کئی کسان ڈیڈلائن سے پہلے ہی اپنی تور دال یہاں لے کر آئے تھے، لیکن ہم بعض پریشانیوں کی وجہ سے اسے قبول نہیں کر سکے۔ حکومت اس کا جواب دے گی اور پھر ہم اسی کے مطابق کام کریں گے۔‘‘

نیفیڈ سنٹرس کی ڈیڈلائن تین بار بڑھائی گئی ۔ پہلے ۱۵ مارچ ہوئی، پھر ۳۱ مارچ اور اخیر میں ۲۲ اپریل، کابینہ وزیر (کوآپریٹوز، ٹیکسٹائلس اور مارکیٹنگ) سبھاش دیش مکھ کے اس وعدہ کے بعد کہ ریاستی حکومت تور کا ہر ایک دانہ خریدے گی۔ یہ ان کسانوں کے لیے راحت کی بات تھی، جنہوں نے اپنے گھروں میں دال جمع کر رکھی تھی اور رجسٹریشن کرانے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔

لیکن ۲۲ اپریل کے بعد، مہاراشٹر حکومت نے کسانوں سے تور خریدنے سے منع کر دیا، اور کہا کہ ڈیڈلائن اب مزید آگے نہیں بڑھائی جائے گی۔ صرف سرکاری طور پر رجسٹرڈ اسی تور کو حکومت کے ذریعے قبول کیا جائے، جسے کسانوں نے ۲۲ اپریل سے پہلے سنٹرس کے باہر لاکر رکھ دیا تھا۔

وِٹھّل چوہان کا اسٹاک اس لسٹ میں نہیں تھا، حالانکہ دوسرے کئی کسانوں کی طرح وہ بھی اپنی تور دال سنٹر سے باہر ڈیڈلائن سے پہلے لے کر آئے تھے۔ لیکن اہلکار کے ذریعے صرف رسمی طور پر نوٹ کرنے کے علاوہ، وٹھل کے پاس ہاتھ میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ سنٹر پر وقت پر آئے تھے۔ ’’میں ان پر بھروسہ کیسے کروں؟‘‘ وہ بے چینی کے عالم میں پوچھتے ہیں۔ ’’جس صفحہ پر میرا نام لکھا ہے اگر وہ اسے پھاڑ دیں، تب کیا ہوگا؟ مجھے اپنی فصل کو کاٹنے میں مہینوں لگے۔ یہ اسٹاک ۴۵ ہزار روپے کا ہے، لیکن یہ میرے گھر پر پڑا ہوا ہے۔ اگر انھوں نے اسے نہیں خریدا، تو مجھے اسے اونے پونے دام پر بیچنا ہوگا (۱۰۰۰ روپے فی کوئنٹل کی کم قیمت پر بھی)۔ مانسون شروع ہوتے ہی تور کی دال خراب بھی ہو سکتی ہے۔‘‘

ویڈیو دیکھیں: ’۔۔۔ اگر انھوں نے رجسٹر کو کہیں غائب کر دیا یا کوئی صفحہ پھاڑ دیا، تب کیا ہوگا؟’ نیفیڈ میں اپنا نام رجسٹر کرانے کے بعد وٹھل چوہان فکرمندی جتاتے ہیں

کئی برسوں کے بعد، مراٹھواڑہ کے کسانوں نے پچھلے سال گنے کی بجائے تور لگائی تھی، جو کہ ایک روایتی غذائی فصل ہے۔ انھوں نے گنا چھوڑ کر تور اس لیے لگائی، کیوں کہ ۲۰۱۶ میں پچھلے سال کے مقابلے قحط زیادہ شدید تھا۔ اور ان کی پیداوار بمپر ہوئی، ۲۰ لاکھ میٹرک ٹن (پوری ریاست میں)، جب کہ ۲۰۱۵ میں یہ پیداوار ۴ اعشاریہ ۴ لاکھ میٹرک ٹن ہوئی تھی، سبھاش دیش مکھ بتاتے ہیں۔

گنے کی جگہ قابل استقامت غذائی فصل لگاتے رہنے سے پانی کے ذخیرہ میں مدد مل سکتی تھی۔ تاہم، حکومت جس طرح سے اس فصل کے ساتھ برتاؤ کر رہی ہے، اس سے لگتا ہے کہ کم از کم ایک سال کے بازار میں تور کی طرف کوئی دھیان نہیں دے گا۔

سال ۱۵۔۲۰۱۴ میں مہاراشٹر میں تور کی ہول سیل بازاری قیمت ۱۰ ہزار روپے فی کوئنٹل تھی، جو اچھی فصل ہونے کی امید میں گھٹ گئی۔ حکومت کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اگر اس نے نیفیڈ سنٹرس نہیں بنائے ہوتے اور کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی، جو ریاست کے ذریعے کسانوں کی مدد کے لیے طے کی جاتی ہے) ۵۰۵۰ روپے مقرر نہیں کی ہوتی، تو فصل کی بمپر پیداوار کی وجہ سے بازار میں اس کی قیمت نیچے گر کر ۳ ہزار روپے فی کوئنٹل پر پہنچ جاتی۔

لیکن، حیرانی کی بات یہ ہے کہ پیداوار کی مقدار کے بارے میں واضح طور پر معلوم ہوجانے کے بعد بھی، ہندوستانی حکومت نے ۱۰۱۱۴ روپے فی کوئنٹل کی قیمت پر ۵۷ لاکھ ٹن تور دال دوسرے ملکوں سے درآمد کی، جیسا کہ وہ ہر سال الگ الگ مقدار میں کرتی ہے۔

تاہم، ریاست نے ایک جی آر (حکومتی قرارداد) میں کہا کہ اس نے نیفیڈ نے مہاراشٹر کے کسانوں کی پیداوار میں سے جس ۲۵ فیصد خریدنے کو کہا تھا، اس نے اس سے بھی زیادہ خریدا ہے۔ دیش مکھ کہتے ہیں کہ اپریل تک چار لاکھ میٹرک ٹن تور پہلے ہی خریدی جا چکی ہے، اس کے علاوہ ایک لاکھ میٹرک ٹن کا رجسٹریشن خریدنے کے لیے کیا جا چکا ہے۔ ’’ہم نے صحیح طریق کار اپناتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ کسانوں کو ان کا حق ملے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

لیکن، ۲۰ لاکھ میٹرک ٹن کی سرکاری پیداواری مقدار معتدل ہے۔ تور کو اکثر اندرونی فصل کے طور پر بویا جاتا ہے، گنے یا دوسری فصلوں کی بیچ والی قطار میں۔ اسے بہت زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی، فصل کو تقریباً چار مہینوں میں کاٹ لیا جاتا ہے اور اسے بونس تصور کیا جاتا ہے۔ اسی لیے بہت سے کسان اپنے زمینی کاغذات پر صرف بڑی فصل کا ہی ذکر کرتے ہیں۔ تور کتنے ہیکٹیئر میں لگائی گئی ہے، اس بات کا اندازہ حکومت ان کسانوں کی پیداوار کا حساب لگاکر کرتی ہے جنہوں نے تور کا ذکر اپنے کاغذات پر کیا ہے۔ رپورٹوں میں کہا جا رہا ہے کہ اس سال جتنے کا رجسٹریشن ہوا ہے، کم از کم اس سے تین گنا زیادہ تور کسانوں کے پاس اب بھی پڑی ہوئی ہے۔

ویڈیو دیکھیں: میگناتھ شیلکے کہتے ہیں کہ انھیں جتنی بھی قیمت ملے گی، وہ جلد ہی اس قیمت پر اپنی تور بیچنے کو مجبور ہوں گے

عثمان آباد کے دھنورا گاؤں کے کسان، ۵۸ سالہ میگناتھ شیلکے کئی بار نیفیڈ سنٹر کا چکر لگانے کے باوجود اپنی چھ کوئنٹل تور رجسٹر کروانے میں ناکام رہے۔ ’’ایک بار انھوں نے مجھے یہ کہہ کر واپس لوٹا دیا کہ ان کے پاس وزن کرنے والی مشین نہیں ہے، پھر انھوں نے کہا کہ اگر میں اپنا اسٹاک یہاں چھوڑ کر جاتا ہوں تو وہ چوری ہو سکتا ہے جس کے لیے سنٹر ذمہ دار نہیں ہوگا،‘‘ وہ بتاتے ہیں، اور چھ بوری تور دال کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ان کے گھر کے ایک چھوٹے سے کمرے میں پڑی ہوئی ہے۔ ’’یہ سنٹر تقریباً ایک مہینہ تک بند رہا۔ یہ کبھی لگاتار کھلا نہیں رہا۔‘‘

شیلکے اپنے آٹھ ایکڑ کھیت پر تور کے علاوہ سویابین اور کپاس اُگاتے ہیں۔ انھیں جتنی بار واپس لوٹایا گیا، وہ نیفیڈ سنٹر سے ۱۰ کلومیٹر دور اپنے گھر تک چھ کوئنٹل لاد کر لانا پڑا۔ ’’میں نے (ٹیمپو سے) صرف آنے جانے میں سینکڑوں روپے خرچ کر دیے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’حکومت نے تور کا ہر ایک دانہ خریدنے کا وعدہ کیا تھا۔ اگر حکومت نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا، تو یہ ہمارے لیے بھاری نقصان ہوگا، کیوں کہ ہمیں خریف موسم کے لیے تیاری کرنے میں پیسے لگانے ہیں۔‘‘

Vitthal Chavan at the NAFED centre in Kalamb

پنگاؤں کے کسان، وٹھل چوہان: نیفیڈ سنٹر سے فون کا اب بھی انتظار کر رہے ہیں

دریں اثنا، وٹھل نے امید چھوڑ دی ہے اور دوپہر میں پنگاؤں واپس لوٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ’’اگر بوائی کا موسم ناکام رہتا ہے، تو ہم مرتے ہیں۔ اگر یہ پوری طرح کامیاب رہا، تب بھی ہم مرتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ قرض میں پہلے سے ہی ڈوبے ہوئے اور بوائی کا موسم سر پر ہے، تور کے بحران کا وقت مہاراشٹر کے کسانوں کے لیے خاص طور سے مشکل بھرا رہا ہے۔

اور تقریباً آدھا دن نیفیڈ سنٹر پر گزارنے کے بعد، وٹھل کو اب بھی نہیں معلوم کہ ان کی تور کو لیا جائے گا یا نہیں۔ واپس جاتے وقت وہ ایک بار پھر پوچھتے کہ اگلی بار انھیں کب آنا ہے۔ ’’آپ کو فون کیا جائے گا،‘‘ وہ انھیں بتاتے ہیں۔

پوسٹ اسکرپٹ: اس اسٹوری کی اشاعت کے وقت، حکومت مہاراشٹر نے ڈیڈ لائن ۳۱ مئی تک بڑھا دی ہے۔ لیکن اس سے کسانوں کی وہ پریشانی ختم نہیں ہوتی جس سے انھیں پہلے گزرنا پڑا، نہ ہی اس سے ان کے مسئلہ کا کوئی حتمی حل نکلتا ہے۔

وٹھل چوہان بتاتے ہیں کہ کلمب کا نیفیڈ سنٹر اب بند ہے اور ان کی تور نہیں لی جا رہی ہے۔ چوہان نے جب دوبارہ اس اہلکار کو فون کیا، تو انھیں کوئی صحیح جواب نہیں ملا۔

تصویریں: پارتھ ایم این

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez