سریکا کولم پردیسم بتاتے ہیں کہ اس بار دیوالی کے لیے انہوں نے تقریباً ۱۰-۱۲ ہزار دیے بنائے ہیں۔ ۹۲ سالہ بزرگ نے اس ہفتے منائے جا رہے دیوالی کے تہوار سے ایک مہینہ پہلے ہی اپنا کام شروع کر دیا تھا۔ وہ صبح ۷ بجے ایک کپ چائے پی کر دیے بنانا شروع کرتے اور دیر شام تک کام کرتے رہتے تھے، اور درمیان میں صرف ایک دو بار ہی بریک لیتے تھے۔

پردیسم نے کچھ ہفتے پہلے، یعنی اکتوبر کے شروع میں چھوٹے اسٹینڈ والے دیے بنانے کی کوشش کی۔ وہ کہتے ہیں، ’’انہیں بنانا تھوڑا مشکل ہے۔ اس کے لیے آپ کو اسٹینڈ کی موٹائی کو بالکل صحیح رکھنا پڑے گا۔‘‘ یہ اسٹینڈ پیالے کی شکل والے چراغ سے تیل کو باہر گرنے سے روکتا ہے، اور اس میں جلنے والی بتّی (کپڑے یا روئی کے ٹکڑے) کو بھی باہر نہیں نکلنے دیتا۔ عام دیے کو بنانے میں انہیں صرف دو منٹ لگتے ہیں، جب کہ اسٹینڈ والے دیے کو بنانے میں پانچ منٹ۔ وہیں، عام دیے کی قیمت جہاں ۳ روپے ہے، وہیں اسٹینڈ والے دیے کو پردیسم ایک روپیہ بڑھا کر، ۴ روپے میں بیچتے ہیں تاکہ گاہک انہیں چھوڑ کر نہ چلے جائیں۔

اس ہنر کے تئیں جوش و لگن کی وجہ سے ہی پردیسم، وشاکھاپٹنم کی کُمّاری ویڈھی میں واقع اپنے گھر پر آٹھ دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے مٹی کے دیے بنا رہے ہیں۔ اس دوران انہوں نے لاکھوں دیے یا دیپم بنائے ہیں، جن سے لوگوں نے دیوالی پر اپنے گھروں کو چراغاں کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’بغیر شکل والی مٹی، صرف ہمارے ہاتھوں، توانائی اور ایک پہیے کی مدد سے خوبصورت دیے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ ایک کلا [ہنر] ہے۔‘‘ نوے سال سے زیادہ کے ہو چکے پردیسم کو اب تھوڑا کم سنائی دیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ باہر نہیں نکلتے اور زیادہ تر اپنی فیملی کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔

کُمّاری ویڈھی ایک تنگ گلی ہے، جو وشاکھاپٹنم شہر میں اَکّیّاپلیم کے بھیڑ بھاڑ والے بازار کے قریب واقع ہے۔ اس گلی میں رہنے والے زیادہ تر لوگ کُمّارا ہیں – جو روایتی طور پر مٹی کے برتن اور مورتیاں بنانے والے کمہاروں کی ایک برادری ہے۔ پردیسم کے دادا، کام کی تلاش میں کئی سال پہلے وشاکھاپٹنم ضلع کے پدمنابھن منڈل کے پوٹنورو گاؤں سے ہجرت کرکے اس شہر میں آ گئے تھے۔ وہ اپنے بچپن کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُس زمانے میں کمہاروں کی اس گلی میں رہنے والے سبھی ۳۰ کُمّار کنبے دیے، گملے، گولک، مٹی کے مرتبان (جار)، کپ اور مورتیاں سمیت کئی قسم کے مٹی کے برتن بناتے تھے۔

لیکن آج، وشاکھاپٹنم میں کمہاروں کی اس واحد بستی میں پردیسم آخری کاریگر بچے ہیں، جو ابھی بھی مٹی کے دیے بناتے ہیں۔ دیگر کمہار کنبوں نے مورتیاں یا مٹی کے دوسرے سامان بنانا شروع کر دیا ہے، یا پھر اس پیشہ کو پوری طرح سے ترک کر دیا ہے۔ ایک دہائی پہلے، پردیسم نے بھی تہواروں کے لیے مورتیاں بنائی تھیں لیکن دھیرے دھیرے انہوں نے مورتیاں بنانا بند کر دیا: مورتی بنانا جسمانی طور پر زیادہ مشکل کام ہے اور پردیسم بتاتے ہیں کہ اس کے لیے وہ کئی گھنٹے تک زمین پر لگاتار نہیں بیٹھ سکتے۔

Paradesam is the only diya maker on Kummari Veedhi (potters' street) in Visakhapatnam He starts after Vinayak Chaturthi and his diyas are ready by Diwali
PHOTO • Amrutha Kosuru
Paradesam is the only diya maker on Kummari Veedhi (potters' street) in Visakhapatnam He starts after Vinayak Chaturthi and his diyas are ready by Diwali
PHOTO • Amrutha Kosuru

بائیں: وشاکھاپٹنم کی کُمّاری ویڈھی (کمہاروں کی گلی) میں پردیسم دیے بنانے والے واحد کاریگر بچے ہیں۔ وہ ونائک چترتھی کے بعد اپنا کام شروع کرتے ہیں اور دیوالی آنے تک اپنے دیے بنا کر تیار کر لیتے ہیں

Paradesam made a 1,000 flowerpots (in the foreground) on order and was paid Rs. 3 for each. These are used to make a firecracker by the same name.
PHOTO • Amrutha Kosuru
Different kinds of pots are piled up outside his home in Kummari Veedhi (potters' street)
PHOTO • Amrutha Kosuru

بائیں: پردیسم نے آرڈر ملنے کے بعد ۱۰۰۰ گملے یا گلدان (پس منظر میں) بنائے، جن میں سے ہر ایک کے لیے انہیں ۳ روپے ملے۔ ان گملوں کا استعمال اسی نام کے پٹاخے بنانے میں کیا جاتا ہے۔ دائیں: کُمّاری ویڈھی میں ان کے گھر کے باہر مختلف قسم کے مٹی کے برتن رکھے ہوئے ہیں

پردیسم اب ونائک (گنیش) چترتھی کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، تاکہ وہ دیوالی کے لیے دیے بنانے کی شروعات کر سکیں۔ اپنے گھر کے پاس والی گلی میں ایک عارضی جھونپڑی کے اندر کام کرتے ہوئے، وہ بتاتے ہیں، ’’میں نہیں جانتا کہ دیے بنانے میں مجھے اتنی خوشی کیوں ملتی ہے۔ لیکن میں اسے بناتا ہوں۔ شاید مٹی کی خوشبو مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔‘‘ یہ کمرہ مٹی کے دیے، ٹوٹے ہوئے برتن، مورتیوں اور پانی جمع کرنے والے ڈرم سے بھرا ہوا ہے۔

پردیسم نے، دیوالی کے دوران گھروں کو چراغاں کیے جانے والے دیے بنانا بچپن میں اپنے والد سے سیکھا تھا۔ وہ عام دیے اور سجاوٹی دیے کے ساتھ ساتھ گملے، گولک اور ونائک چترتھی کے لیے گنیش کی مورتیاں تو بناتے ہی تھے، ساتھ ہی ’گلدان‘ بھی بناتے تھے – یعنی مٹی کا وہ چھوٹا سا برتن جسے پٹاخہ صنعت کے ذریعے اسی نام کے پٹاخے بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سال انہیں ایسے ۱۰۰۰ گلدان بنانے کے آرڈر ملے ہیں، جس کے لیے انہیں فی گلدان ۳ روپے ادا کیے گئے ہیں۔

پردیسم ایک ماہر کاریگر ہیں اور آج بھی، دیوالی کے تہوار تک ایک دن میں تقریباً ۵۰۰ دیے اور گلدان بنا سکتے ہیں۔ ان کا اندازہ ہے کہ ان کے ذریعے بنائے گئے تین آئٹم میں سے تقریباً ایک آئٹم خراب ہو جاتا ہے – لکڑی سے جلنے والی بھٹی میں انہیں پکانے کے دوران یا صاف کرتے وقت ٹوٹ جاتا ہے یا اس میں دراڑ پڑ جاتی ہے۔ اس کے لیے کمہار، آج کل ملنے والی مٹی کے ناقص معیار کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

مصروف سیزن کے دوران پردیسم کے بیٹے، شری نواس راؤ اور بہو، ستیہ وتی ان کی مدد کرتے ہیں۔ تہواروں کے سیزن میں، یعنی جولائی سے اکتوبر کے درمیان پوری فیملی ایک ساتھ مل کر تقریباً ۷۵ ہزار روپے کما لیتی ہے۔ سال کے باقی دنوں میں، کمہاروں کی اس گلی میں بہت کم خریدار آتے ہیں اور فروخت بھی نہیں کے برابر ہوتی ہے۔ ان کے بیٹے شری نواس ایک اسکول میں کام کرتے ہیں جہاں سے انہیں ہر مہینے ۱۰ ہزار روپے ملتے ہیں، اسی پیسے سے پوری فیملی کا خرچ چلتا ہے۔

پچھلے سال دیوالی کے موقع پر کووڈ کی وجہ سے بہت کم کاروبار ہوا، اور یہ لوگ صرف ۳-۴ ہزار دیے ہی بیچ پائے، جب کہ اس دوران ان کا ایک بھی گلدان فروخت نہیں ہو پایا۔ دیوالی سے ایک ہفتہ پہلے، ’پاری‘ سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’ہاتھ سے بنے ہوئے عام دیے اب کوئی نہیں پسند کرتا۔‘‘ حالانکہ انہیں اس کی مانگ بڑھنے کی اب بھی امید ہے۔ چھوٹی صنعتی اکائیوں میں سانچوں (ڈائی) سے بنے ہوئے مختلف قسم کے پیٹرن والے دیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’انہیں [خریداروں کو] اب مشین سے بنے ہوئے ڈیزائن والے دیے زیادہ پسند ہیں۔‘‘ کُمّاری ویڈھی کے کئی سابق کمہار کنبے ۳-۴ روپے پیس کے حساب سے یہ دیے خریدتے ہیں اور ڈیزائن کے مطابق انہیں ۵-۱۰ روپے میں بیچتے ہیں۔

مقابلہ آرائی کے باوجود، پردیسم ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’عام دیے بنانے میں میری دلچسپی اس لیے ہے کیوں کہ میری پوتی انہیں بہت پسند کرتی ہے۔‘‘

The kiln in Kummara Veedhi is used by many potter families.
PHOTO • Amrutha Kosuru
Machine-made diyas washed and kept to dry outside a house in the same locality
PHOTO • Amrutha Kosuru

بائیں: کُمّاری ویڈھی کی اس بھٹی کو کئی کمہار کنبے استعمال کرتے ہیں۔ دائیں: اسی علاقے میں مشین سے بنے ہوئے دیے دھونے کے بعد خشک ہونے کے لیے ایک گھر کے باہر رکھے ہوئے ہیں

On a rainy day, Paradesam moves to a makeshift room behind his home and continues spinning out diyas
PHOTO • Amrutha Kosuru

بارش کے دن، پردیسم اپنے گھر کے پیچھے بنے ہوئے ایک عارضی کمرے میں چلے جاتے ہیں اور دیے بنانا جاری رکھتے ہیں

کماری ویڈھی کے کچھ کنبے، جو اب بھی یہ کام کر رہے ہیں، ہر سال ونائک چترتھی سے کچھ مہینے پہلے ایک ڈیلر سے مٹی خریدتے ہیں۔ یہ لوگ ساتھ مل کر ایک ٹرک مٹی خریدتے ہیں، جس میں تقریباً پانچ ٹن مٹی آتی ہے۔ وہ ۱۵ ہزار روپے میں مٹی خریدتے ہیں اور آندھرا پردیش کے وزیا نگرم کے ایک مخصوص مقام سے اسے گھر تک لانے کے لیے ٹرک کا ۱۰ ہزار روپے کرایہ ادا کرتے ہیں۔ یہ ایک خاص قسم کی جنکا مٹی ہے – جس میں قدرتی طور پر چمک پائی جاتی ہے جو کہ مختلف قسم کے سامان اور مورتیاں بنانے کے لیے ضروری ہے۔

پردیسم کی فیملی اس میں سے تقریباً ایک ٹن یا ۱۰۰۰ کلو اپنے لیے لیتی ہے۔ دیوالی سے ایک ہفتہ قبل، اس میں سے کچھ مٹی کو اب بھی ان کے گھر کے باہر بورے میں رکھا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ گہرے سرخ رنگ کی یہ مٹی گلٹی دار (گانٹھ والی) ہے، جسے پانی میں ملاتے ہی گھلنا شروع کر دینا چاہیے تاکہ وہ ٹھیک سے گوندھی جا سکے۔ پانی میں بھگونے کے بعد اسے پیر سے گوندھا جائے گا؛ پردیسم کہتے ہیں کہ یہ کافی سخت ہوتی ہے اور اس میں چھوٹے پتھر بھی ہوتے ہیں جس سے ان کے پیر چھل جاتے ہیں۔

مٹی جب صحیح شکل اختیار کر لیتی ہے، تو استاد کاریگر خشک مٹی کا نشان لگا ہوا لکڑی کا ایک بھاری پہیہ ایک کونے سے اٹھا کر لاتے ہیں اور اسے ایک اسٹینڈ پر رکھ دیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ پینٹ کے ایک خالی ڈبے پر کپڑا رکھ کر اس پہیے کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔

کُمّاری ویڈھی کے دیگر کمہاروں کی طرح پردیسم کا پہیہ بھی ہاتھ سے گھمایا جانے والا پہیہ ہے۔ انہوں نے بجلی سے چلنے والے پہیے کے بارے میں سن تو رکھا ہے لیکن اسے کنٹرول کرنا نہیں جانتے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہر کنڈا [برتن] اور دیپم [چراغ یا دیا] کے حساب سے رفتار الگ الگ ہونی چاہیے۔‘‘

مٹھی بھر گیلی مٹی کو پہیہ کے بیچ میں رکھتے ہوئے، ان کے ہاتھ آہستگی سے لیکن مضبوطی سے کام کرنے لگتے ہیں۔ وہ مٹی کے اندر اپنی انگلیوں کو گھماتے ہوئے اسے دھیرے دھیرے دیے کی شکل دیتے ہیں۔ تقریباً ایک میٹر چوڑا پہیہ جیسے ہی گھومنا شروع ہوتا ہے مٹی کی خوشبو ہوا میں چاروں طرف پھیلنے لگتی ہے۔ پہیے کی رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے وہ لکڑی کے ایک بڑے ڈنڈے سے اسے وقفہ وقفہ سے گھماتے رہتے ہیں۔ پردیسم کہتے ہیں، ’’میں اب بوڑھا ہو رہا ہوں۔ اس لیے ہمیشہ ایک جیسی طاقت کا استعمال نہیں کر سکتا۔‘‘ دیا جب اپنی شکل اختیار کر لیتا ہے اور مضبوط ہو جاتا ہے، تو وہ ایک دھاگے سے کاٹ کر اسے گھومتے ہوئے پہیے سے الگ کر دیتے ہیں۔

پہیے سے الگ کرنے کے بعد وہ ان دیوں اور گلدانوں کو احتیاط سے لکڑی کے ایک مستطیل تختے پر ترتیب سے ایک قطار میں رکھ دیتے ہیں۔ مٹی کے بنے ہوئے ان سامانوں کو ۳-۴ دنوں تک سایے میں سُکھانا ضروری ہے۔ سوکھنے کے بعد انہیں اگلے دو دنوں تک بھٹی میں رکھ کر پکایا جاتا ہے۔ یہ بھٹی جولائی سے اکتوبر کے درمیان (ونائک چترتھی، دشہرہ اور دیوالی کے لیے) ہر ۲-۳ ہفتے میں ایک بار جلائی جاتی ہے۔ سال کے بقیہ دنوں میں اسے مشکل سے مہینہ میں ایک بار جلایا جاتا ہے۔

Left: The wooden potters' wheel is heavy for the 92-year-old potter to spin, so he uses a long wooden stick (right) to turn the wheel and maintain momentum
PHOTO • Amrutha Kosuru
Left: The wooden potters' wheel is heavy for the 92-year-old potter to spin, so he uses a long wooden stick (right) to turn the wheel and maintain momentum
PHOTO • Amrutha Kosuru

بائیں: ۹۲ سال کے اس بزرگ کے لیے لکڑی کا یہ بھاری پہیہ گھمانا کافی مشکل ہے، اس لیے وہ اسے گھمانے اور اس کی رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے ایک لمبا ڈنڈا (دائیں) استعمال کرتے ہیں

Paradesam is not alone – a few kittens area always around him, darting in and out of the wheel.
PHOTO • Amrutha Kosuru
His neighbour and friend, Uppari Gauri Shankar in his house.
PHOTO • Amrutha Kosuru

بائیں: پردیسم اکیلے نہیں ہیں – بلیوں کے کچھ بچے ہمیشہ ان کے ارد گرد موجود رہتے ہیں، جو پہیے کے ساتھ کھیلتے رہتے ہیں۔ دائیں: ان کے پڑوسی اور دوست، اُپّرا گوری شنکر ان کے گھر آئے ہوئے ہیں

ہندوستان کے مشرقی ساحل پر ہونے والی آخری مانسون کی بارش انہیں دیوالی کی اس تیاری سے روک نہیں پاتی۔ بارش کے وقت پردیسم اپنے گھر کے پیچھے بنی ایک تنگ جگہ پر چلے جاتے ہیں جو کہ صرف پلاسٹک کی ایک چادر سے ڈھکی ہوئی ہے اور اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ بلی کے کچھ بچے ان کے آس پاس موجود ہیں، جو پہیے کے اندر باہر ہوتے ہوئے اور مٹی کے کچھ برتنوں اور بیکار پڑے کچھ گھریلو سامانوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔

پردیسم کی بیوی، پیڈی تھلی کی طبیعت خراب ہے، اسی لیے وہ اپنے بستر کے قریب ہی رہتی ہیں۔ ان کے چار بچے تھے – دو بیٹیاں اور دو بیٹے، جن میں سے ایک کی موت کم عمری میں ہی ہو گئی تھی۔

پردیسم کہتے ہیں، ’’یہ افسوس کی بات ہے کہ دیا بنانے والا میں اکیلا بچا ہوں۔ زندگی بھر میں یہی سوچتا رہا کہ کم از کم میرا بیٹا مٹی کے برتن بنانا جاری رکھے گا۔ میں نے اپنے بیٹے کو پہیہ گھمانا بھی سکھایا تھا۔ لیکن گنیش کی مورتیاں اور دیے بنانے سے زیادہ کمائی نہیں ہو پاتی ہے اس لیے وہ ایک پرائیویٹ اسکول میں چپراسی کا کام کرتا ہے۔‘‘ پردیسم کے ہاتھ سے بنائے ہوئے دیے ۲۰ روپے درجن کے حساب سے فروخت ہوتے ہیں، لیکن اگر کوئی مول بھاؤ کرنے لگے، تو وہ ان کی قیمت کم کرکے ۱۰ روپے کر دیتے ہیں، جس سے چند روپیوں کا منافع بھی ختم ہو جاتا ہے۔

اُپّرا گوری شنکر کہتے ہیں، ’’کوئی بھی اس بات کو نہیں سمجھتا ہے کہ عام دیے بنانے میں کتنی محنت لگتی ہے۔‘‘ ۶۵ سالہ گوری شنکر، کماری ویڈھی میں پردیسم کے گھر سے دو چار گھر آگے رہتے ہیں اور زندگی بھر ایک دوسرے کے پڑوسی رہے ہیں۔ گوری شنکر اب نہ تو پہیے گھما پاتے ہیں اور نہ ہی زمین پر بیٹھ پاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میری پیٹھ میں درد ہونے لگتا ہے اور میں کھڑا نہیں ہو پاتا ہوں۔‘‘

گوری شنکر بتاتے ہیں کہ کچھ سال پہلے ان کی فیملی دیوالی سے ایک مہینہ پہلے، ہاتھ سے دیے بنانا شروع کر دیتی تھی۔ وہ اب دیے نہیں بناتے ہیں کیوں کہ ان کا کہنا ہے کہ ہاتھ سے بنے ہوئے دیوں کی قیمت  اتنی کم ہے کہ مٹی کی لاگت بھی نہیں نکل پاتی۔ اس لیے، گوری شنکر کی فیملی نے اس بار مشین سے بنے ہوئے تقریباً ۲۵ ہزار دیے خریدے ہیں اور انہیں امید ہے کہ اسے بیچنے سے کچھ منافع ضرور ہوگا۔

لیکن وہ پیر سے مٹی گوندھنے میں اپنے دوست پردیسم کی پوری مدد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’دیے بنانے کا یہ پہلا قدم ہے۔ کمہار کے پہیے کو برقرار رکھنے کی ان کی خواہش میں یہی [گوندھنا] میرا واحد تعاون ہے۔ پردیسم اب بوڑھے ہو چکے ہیں۔ ہر سال یہی محسوس ہوتا ہے کہ دیے بنانے کا یہ شاید ان کا آخری سال ہو۔‘‘

اس اسٹوری کو رنگ دے کی طرف سے ملنے والی فیلوشپ گرانٹ کا تعاون حاصل ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Amrutha Kosuru

Amrutha Kosuru is a 2022 PARI Fellow. She is a graduate of the Asian College of Journalism and lives in Visakhapatnam.

Other stories by Amrutha Kosuru
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. A journalist and teacher, she also heads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum, and with young people to document the issues of our times.

Other stories by Priti David
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez