’’اس دنیا میں غریبی جیسا کوئی غم نہیں ہے،‘‘ مہتر رام ٹنڈن، ۱۶ویں صدی کے شاعر- سادھو تلسی داس کا قول نقل کرتے ہیں۔ چھتیس گڑھ کے رائے گڑھ کے چُریلا گاؤں کے رہنے والے مہتر رام ’رام نامی‘ ہیں۔ رام نامی بنیادی طور سے چمار ذات کی ایک جماعت ہے، جس نے ذات کے نظام کو چھوڑ کر بھگوان رام پر مرکوز بھکتی کی ایک شکل کو اپنا لیا۔

’’ہمارا لقب ’رام‘ ہے، لیکن ہم اس کے علاوہ کوئی دوسرا لقب بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ ہمارے درمیان آپ کو شرما، بنرجی، سنگھ اور پٹیل وغیرہ مل جائیں گے،‘‘ بلاس پور ضلع کے چاپورہ گاؤں کے چندو رام بتاتے ہیں۔ ’’چمار ہونے کے علاوہ، ہم سریشٹھی، بیشیہ اور بانِک بھی ہیں۔ ہم ان میں سے ہر ایک ہیں۔‘‘

اس مسلک کو ماننے والے عام طور سے رائے گڑھ، جانج گیر چامپا، بلاس پور اور دیگر ضلعوں میں مہاندی کے کنارے بسے گاؤوں میں رہتے ہیں؛ کچھ لوگ اڈیشہ اور مہاراشٹر کے سرحدی گاؤوں میں رہتے ہیں۔ (یہاں پر پیش کی گئی ان تصویروں کو میں نے اپریل ۲۰۱۵ سے اگست ۲۰۱۷ تک ان علاقوں کے متعدد دوروں کے دوران کھینچیں)۔

سرکاری ریکارڈوں میں ’رام نامی‘ کی درجہ بندی بطور ہندو کی گئی، اس لیے یہ پتہ لگا پانا بہت مشکل ہے کہ ان کی حقیقی تعداد کتنی ہے، لیکن بزرگوں کا ماننا ہے کہ اب ۲۰ ہزار سے زیادہ رام نامی نہیں ہیں۔ اس میں مرد و خواتین دونوں ہی شامل ہیں، کیوں کہ بقول ان کے، دسمبر-جنوری میں ہونے والے سالانہ بھجن میلہ میں عام طور سے اتنے ہی لوگ شامل ہوتے ہیں۔

رام نامی بنیادی طور سے ان فرقوں کے لوگ تھے، جنہیں ہندوؤں کے درمیان ذات اور پیشہ کی سب سے نچلی سیڑھی پر رکھا گیا تھا۔ منووا کی ہوائی یونیورسٹی میں مذہبیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر، رام داس لیمب اپنی کتاب ’رَیپٹ اِن دی نیم: دی رام نامیز، رام نام، اینڈ اَن ٹچ ایبل ریلیجن اِن سنٹرل انڈیا‘ (۲۰۱۲؛ سیریز ایڈیٹر: وینڈی ڈونیئر) میں لکھتے ہیں کہ ۱۸۲۰ کے عشرے میں چماروں (بعد میں درج فہرست ذات) کا ایک گروپ، جو رام نامی بن چکا تھا، نے اپنی ذات سے وابستہ جانوروں کی لاشوں کو دفنانے اور کھال اور چمڑے کے کام کو چھوڑ کر کھیتی، برتن سازی اور بڑھئی گیری کا کام شروع کر دیا۔

لیمب لکھتے ہیں کہ رام نامی مسلک حالانکہ ایک صدی سے زیادہ پرانا نہیں ہے، لیکن یہ لوگ ۱۵ویں صدی کے شاعروسادھو کبیر کی بھکتی تحریک کو ہی آگے بڑھا رہے ہیں، جو ’نام پر مرکوز‘ عبادت کا ایک طریقہ ہے جس میں کوئی بھی شامل ہو سکتا ہے، بھلے ہی وہ کسی بھی سماجی طبقہ یا ذات سے تعلق رکھتا/رکھتی ہو۔

ایسا مانا جاتا ہے کہ پرشو رام وہ پہلے چمار تھے، جنہوں نے اپنی پیشانی پر ’رام‘ کا ٹیٹو چاروں طرف بنوایا تھا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ۱۸۷۰ کے عشرہ میں چارپورہ گاؤں میں پیدا ہوئے تھے، حالانکہ اس کا کوئی تحریری ریکارڈ موجود نہیں ہے، بلکہ یہ بات بزرگ رام نامیوں کے درمیان زبانی طور پر چلی آ رہی ہے۔ ’’ہمیں یہ پیغام بھگوان سے نہیں، بلکہ ایک آدمی سے ملا، ایک عام آدمی سے،‘‘ اپنے روایتی لیڈر کے بارے میں بتاتے ہوئے، رائے پور ضلع کے ارجنی گاؤں کے رہنے والے سادھو رام کہتے ہیں۔

رام نامی درج فہرست ذات کے جن گروہوں کے درمیان رہتے ہیں، ان سے الگ کرنے والی چیز ہے ان کی ظاہری شکل۔ بہت سے لوگ اپنے پورے جسم پر ’رام‘ لفظ کا ٹیٹو بنوا لیتے ہیں (گونڈی زبان میں اس روایت کو کہتے ہیں انکِت کرنا )، کچھ لوگ ’رام‘ پرنٹ کیا ہوا شال اوڑھتے ہیں اور سر پر مور پنکھ سے بنا ہوا تاج پہنتے ہیں۔ ’’ہمارے اوپر رام ہر جگہ لکھا ہوا ہے،‘‘ رائے گڑھ ضلع کے پنڈری پانی گاؤں کے پیتامبر رام کہتے ہیں۔ ’’لہٰذا، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہم رامائن ہیں۔‘‘ ان لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ ان کے جسموں پر بنے ہوئے ٹیٹو بھگوان کے ذریعہ چھوڑے گئے نشان ہیں۔

رام نامیوں نے مجھے بتایا کہ انھوں نے ایک ایسی جماعت بنانے کی کوشش کی ہے، جو ذات، طبقہ اور جنسی امتیاز سے پاک ہو۔ پرشو رام نے کوئی وارث مقرر نہیں کیا تھا، لہٰذا اس مسلک کا بندوبست مرد و خواتین پر مبنی ایک منتخب کور کمیٹی کرتی ہے۔

جن لوگوں نے اپنے پورے جسم پر ٹیٹو بنوا رکھا ہے، انھیں پورن نَکھ شِکھ کہتے ہیں، یہ لوگ اب عمر کے ۷۰ویں سال میں چل رہے ہیں۔ ان کے بچے، جنہوں نے ۱۹۷۰ کے وسط میں تعلیم حاصل کرنا شروع کر دیا تھا، اب شہروں میں نوکری کرتے ہیں۔ وہ اس ڈر سے اپنے جسموں پر ٹیٹو نہیں بنوانا چاہتے کہ لوگ ان کا مذاق اڑائیں گے، انھیں ’پچھڑا‘ کہیں گے اور اس کی وجہ سے انھیں کام نہیں ملے گا۔

Man standing outside prayer hall
PHOTO • Joydip Mitra

رائے گڑھ ضلع کے چُریلا گاؤں کے مہتر رام ٹنڈن پہلے ایک کسیرا (تانبے کا برتن بنانے والے) تھے، لیکن اب ان کا زیادہ تر وقت اپنے چھوٹے پوتے کو کھلانے میں گزرتا ہے۔ یہاں، وہ اُڈکاکن گاؤں میں بنے بھجن گھر کے باہر کھڑے ہیں۔ اندر، بھگوان کی مورتی کی جگہ تلسی داس کی تصنیف کردہ رام چرت مانس رکھی ہوئی ہے

Woman with 'Ram' tattooes on her face
PHOTO • Joydip Mitra

چاپورہ گاؤں کے پریہ رام، رام نامی سماج کی کور کونسل کے ایک رکن ہیں؛ بقول ان کے، کونسل کے کاموں میں شامل ہے مفلسوں کی دیکھ بھال، سرکاری امداد حاصل کرنے کی کوشش اور اسکول قائم کرنا۔ پیسوں کا انتظام عطیوں اور سرکاری امداد سے ہوتا ہے

Man sitting in a room with a book in his lap
PHOTO • Joydip Mitra

کوڈاوا گاؤں کے ۹۰ سالہ بزرگ، پنڈت رام داس اسکول کبھی نہیں گئے، لیکن وہ بتاتے ہیں کہ وہ چار زبانوں میں لکھ سکتے ہیں۔ انھوں نے رام نامیوں کی مقدس کتاب، تلسی داس کی رام چرت مانس کے ان حصوں کو دوبارہ لکھا، جہاں جہاں طبقہ اور جنسی نابرابری کا ذکر ہے

Man standing in his house
PHOTO • Joydip Mitra

جانج گیر چامپا ضلع کے کھپڑا ڈیہہ گاؤں کے تیرتھ رام نے کالج کی تعلیم حاصل کی ہے، اور وہ کئی سالوں تک سماج کی کونسل کے سنچالک یا ڈائرکٹر رہ چکے ہیں

People gathered at the Bhajan mela paying their respects to the Ramcharitmanas
PHOTO • Joydip Mitra

رام نامی ہر سال فصل کی کٹائی کے موسم کے اخیر میں، دسمبر۔جنوری میں تین روزہ بھجن میلہ میں جمع ہوتے ہیں، جو رائے پور ضلع کے سرسیوا گاؤں میں لگتا ہے۔ وہ اَجیو استمبھ (ایک سفید ستون جس پر ’رام‘ لکھا ہوتا ہے) کھڑا کرتے ہیں، دن بھر رام چرت مانس اونچی آواز میں پڑھتے ہیں، اور لوگ کتاب کے تئیں اپنی عقیدت کا اظہار کرنے اس کے پاس آتے ہیں

Man with tattooes on his face
PHOTO • Joydip Mitra

اودھ رام کے اکلوتے بیٹے کو جب اسکول ٹیچر کی نوکری مل گئی، تو انھوں نے رائے گڑھ ضلع کے چُریلا گاؤں میں واقع اپنے گھر کو ایک غیر رسمی اسکول میں تبدیل کر دیا اور اس کارخانہ میں رہنا شروع کر دیا جہاں پہلے وہ لوہار کا کام کیا کرتے تھے

Woman looking through her head dress
PHOTO • Joydip Mitra

مُکتی رام، جو بِلائی گڑھ گاؤں کے قریب واقع ایک چھوٹے سے گاؤں، نو رانا میں رہتی ہیں، اپنے گھر میں بیوگی کی زندگی گزار رہی ہیں، ان کا بیٹا ایک کسان ہے

Old man covering his face with a shawl that has Ram's name printed all over it
PHOTO • Joydip Mitra

رائے گڑھ ضلع کے ارجُنی گاؤں کے رہنے والے سادھو رام کی آنکھوں کی بینائی چھ سال کی عمر میں ہی چلی گئی تھی۔ وہ ایک پورن نکھ شکھ ہیں، یعنی وہ رام نامی جو اپنے پورے جسم پر رام کا ٹیٹو بنوا لیتا ہے، اور بتاتے ہیں کہ سماج نے پوری زندگی ان کی دیکھ بھال کی ہے

Old tattooed woman sitting in her mud house
PHOTO • Joydip Mitra

بھٹ گاؤں-چامپا روڈ پر واقع گوربا گاؤں کی ۹۰ سالہ پُنیا بائی رام، سب سے بزرگ پورن نکھ شِکھ ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر، جن کی موت ۲۰ سال قبل ہو گئی، نے ان کے جسم پر ’رام‘ ۱۰۰۰ بار لکھ دیا تھا

Women singing chaupai (quatrain verses) from the Ramcharitmanas
PHOTO • Joydip Mitra

رام چرت مانس سے چوپائی (چار مصرعوں پر مبنی شعر) گاتے وقت عورتیں قیادت کرتی ہیں، جسے مرد دوہراتے ہیں

Men using ghunghru which is a clutch of bells used to keep rhythm while the Ramnamis sing chaupai (quatrain verses) from the Ramcharitmanas
PHOTO • Joydip Mitra

رام نامیوں کے ذریعہ گھنگھرو کا استعمال رام چرت مانس سے چوپائی گاتے وقت لَے بنائے رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے

Ramnamis stand out because of their attire – they wear a peacock-feather mukut (head-dress) and an odhani (shawl with ‘Ram’ printed on it)
PHOTO • Joydip Mitra

رام نامیوں کو اپنی پوشاک کی وجہ سے کھڑے رہنا پڑتا ہے – وہ مور پنکھ کا ایک مُکُٹ (تاج) اور شال (رومال) اوڑھتے ہیں جس پر ’رام‘ لکھا ہوتا ہے

A man, with the name of Ram tattooed all over his body, holding a child.
PHOTO • Joydip Mitra

بزرگ رام نامیوں کے پورے جسم پر تو ’رام‘ لفظ کا ٹیٹو لکھا ہوا ہے، لیکن نوجوان نسل اب اپنے جسموں پر ایسا نہیں لکھواتی

A woman standing in a doorway
PHOTO • Joydip Mitra

جانج گیر-چامپا ضلع کے کھاپڑ ڈیہہ گاؤں میں تیرتھ رام کی بھابھی (نام نہیں معلوم)، اس مسلک کی دیگر خواتین کی ہی طرح تیز گفتار ہیں؛ اجتماعی گانوں کے وقت عورتیں قیادت کرتی ہیں، جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سماج میں انھیں برابری کا درجہ ملا ہوا ہے

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Joydip Mitra

Joydip Mitra is a freelance photographer based in Kolkata, who documents people, fairs and festivals across India. His work has been published in various magazines, including ‘Jetwings’, ‘Outlook Traveller’, and ‘India Today Travel Plus’.

Other stories by Joydip Mitra
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez