اگر ان کی بیوی اَرایی اُس شام پانچ منٹ بعد گھر پہنچتیں، تو سیتو آج زندہ نہیں ہوتے۔ ان کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے ہی یہ اپنے گلے میں پھانسی کا پھندا لگا چکے تھے۔

’’یہ بس ہونے ہی والا تھا،’’ کے لیکن بتاتے ہیں، جو ایک معمولی کسان ہیں – سیتو ان کا عرفی نام ہے – اپنے کیے پر پچتھاتے ہوئے، اور شکر مناتے ہوئے کہ یہ کوشش ناکام رہی۔ ارایی نے مدد کے لیے شور مچایا؛ پڑوسی بھاگتے ہوئے آئے اور جلدی سے سیتو کو نیچے اتارا۔ وہ لمحہ گزر چکا تھا۔

یہ 6 نومبر، 2016 کی تاریخ تھی۔ سیتو، جو اپنی عمر کے 50ویں سال میں ہیں، اس دوپہر کو اپنے ڈیڑھ ایکڑ والے کھیت پر گئے ہوئے تھے، یہ سوچتے ہوئے کہ دھان کی فصل کو کیسے بچایا جائے۔ تمل ناڈو کے تیروچرا پلّی ضلع کے تینور گاؤں میں اپنے کھیت کی خستہ حالت نے انھیں توڑ کر رکھ دیا۔ انھوں نے بوائی کے لیے جو بیج دوسری بار ڈالے تھے، وہ اُگے نہیں تھے۔

’’میں اُس شام گھر واپس لوٹا؛ میری بیوی اور بیٹے دوسرے کے کھیتوں پر کام کرنے گئے ہوئے تھے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’میں یہ سوچتا رہا کہ قرض کیسے چکاؤں گا، کام کیسے چلے گا۔‘‘ سیتو نے ضلع کوآپریٹو بینک اور ساہوکار سے تقریباً 1.5 لاکھ روپے بطور قرض لے رکھے ہیں، اس کے علاوہ ان پر دوسرے قرض بھی ہیں۔ ’’میں نے سوچا کہ اس فکرمندی کا علاج خودکشی ہے۔‘‘

سیتو کی خودکشی کی کوشش کے چند مہینے بعد، اخیر اپریل اور مئی 2017 کی ابتدا میں، تمل ناڈو کے اس علاقے – جو کبھی کاویری ندی کے ڈیلٹا کا زرخیز علاقہ تھا – کے کسانوں نے دہلی میں عجیب و غریب طریقے سے اجتحاج کیا، اپنے منھ میں چوہے پکڑے ہوئے، انسانی کھوپڑیاں دکھاکر، اور سڑکوں پر رینگتے ہوئے اور پلٹنیاں لگا کر۔ وہ قرض معافی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس علاقے کے کئی پریشان کسان خودکشی کر چکے ہیں، بعض دیگر کی موت صدمہ لگنے کے بعد دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے۔

جنوری 2017 میں، کسان کارکنوں، سماجی کارکنوں، طلبہ، ڈاکٹر اور دیگرافراد کی پیپلز یونین آف سول لبرٹیز ٹیم نے اس ڈیلٹا میں ناگہانی اموات اور خودکشیوں کے تقریباً 50 معاملوں کا مطالعہ کیا۔ مقامی کسانوں کے گروپ کا اندازہ ہے کہ جنوری سے جون 2017 کے درمیان دل کا دورہ پڑنے سے تقریباً 200 ناگہانی اموات ہوئی ہیں۔ اور قومی حقوق انسانی کمیشن نے 5 جنوری، 2017 کو ریاستی حکومت کو جو نوٹس جاری کیا، اس کے مطابق صرف ایک ماہ – دسمبر 2016 – میں اس علاقہ کے 106 کسانوں نے خود کشی کر لی ہے۔

یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ تمل ناڈو کے اوپر ایک عظیم بحران منڈلا رہا ہے۔ اپنے عروج پر پہنچ چکا پانی کا بحران، اس ڈیلٹا اور کاویری طاس کے جس جس گاؤں سے ہم گزرے وہاں کے کسان ہمیں بتاتے رہے، حالانکہ مشرقی تمل ناڈو کا یہ علاقہ قدرے خوشحال ہے، جہاں پر ندی سمندر سے ملتی ہے۔ ان کسانوں کی دلیل ہے کہ یہ بحران انسانوں کے ذریعے پیدا کیا گیا ہے، جو کہ قحط کے کسی اتفاقی سال سے بھی بدتر ہے۔

PHOTO • Jaideep Hardikar

تینور گاؤں کے کسان خطرناک قحط کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ بائیں سے: اِنبراج، سبرامنیم کمار، سیتو، اروکیا سامی اور بی موتھوراجا

ایک کھیت کے مالک اور سیتو کے دوست، سبرامنیم کمار نے ہمیں بتایا، ’’ہم نے ایسا قحط پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔‘‘ وہ اسی بات کو دوہرا رہے تھے، جو ہم اس پورے ڈیلٹا میں دوسرے کسانوں سے پہلے سے ہی سن رہے تھے۔

طاقتور کاویری ندی – جس کی چوڑائی تمل ناڈو کے میدانی علاقوں میں تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر ہے – اور اس کی چھوٹی اور بڑی تمام معاون ندیاں مئی 2017 میں تقریباً چھ مہینوں سے سوکھی پڑی تھیں۔ دیگر مہینوں میں بھی کئی جگہ بورویل زمین کے اندر کافی گہرائی میں کھودے گئے، لیکن پانی کا ٹیبل کھدائی سے زیادہ تیزی سے نیچے گھٹتا چلا جا رہا ہے۔ مستحکم روزگار تو چھوڑ دیجئے، کام بھی ملنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں واحد متبال بچتا ہے اس جگہ کو چھوڑ دینا – اور اس کے نتیجہ میں ہزاروں افراد کام کی تلاش میں شہروں اور قصبوں کی طرف کوچ کر رہے ہیں۔ یا پھر بہت سے لوگ کلہاڑی پکڑ کر ہزاروں کی تعداد میں دیہی روزگار گارنٹی پروگرام (منریگا) کے کام کی جگہوں پر ’100 دن کے کام‘ کرنے والی فوج میں شامل ہو رہے ہیں۔

تریچی کے زرخیز قصبہ سے صرف 25 کلومیٹر کی دوری پر، شری رنگم تعلقہ میں واقع سیتو کے گاؤں، تینور میں جب ہم پہنچے، تو وہ سبرامنیم اور چند دیگر کسانوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اور سبھی فکرمند تھے۔ وہ اس بات سے متفق تھے کہ وہ ایک بھیانک بحران کا سامنا کر رہے ہیں – یہ اس قحط سے بھی بڑا ہے جو ایک یا دو ناکام مانسون کے بعد پڑتا ہے۔

’’یہ حالت بدتر ہوتی جا رہی ہے،‘‘ اِنبراج کا کہنا ہے، جن کے پاس دو ایکڑ کھیت ہے، جس پر وہ دھان اُگاتے ہیں۔ ’’ہماری ندی سے پانی ختم ہو چکا ہے، زیر زمین پانی کی سطح بھی گھٹتی جا رہی ہے، اور بارش بھی نہیں ہو رہی ہے۔‘‘ وہ بھی ایک ایسے گاؤں میں جو کٹّلائی کے کنارے واقع ہے، یہ کاویری کی کئی معاون ندیوں میں سے ایک ہے۔

PHOTO • Jaideep Hardikar

اپنی دو ایکڑ زمین پر دھان کی کھیتی کرنے والے اِنبراج، کسی زمانے میں زرخیز رہے کاویری ڈیلٹا میں قحط کی وجہ سے تباہ ہو چکی زرعی اقتصادیات کی کہانی بیان کر رہے ہیں

انبراج بتاتے ہیں کہ وہ اور ان کے تین بھائی اپنے کھیت پر جلد ہی ایک بورویل کھودنے کا پلان بنا رہے ہیں۔ اس پر انھیں تقریباً ایک لاکھ روپے کا خرچ آئے گا، یا ہر ایک پر 25000 روپے پڑے گا۔ ’’پانی 500 فیٹ نیچے ہے، اس لیے ہوسکتا ہے کہ خرچ اس سے بھی زیادہ آئے۔‘‘ یہاں کے کسان بتاتے ہیں کہ اس علاقے میں پہلے پانی 150-100 فیٹ کی گہرائی پر مل جاتا تھا، لیکن بیس برسوں کے عرصے میں یہ تین گنا نیچے کھسک کر جا چکا ہے۔

اِنبراج کہتے ہیں کہ کھیتوں کو پانی چاہیے، ہمارے جانوروں کو بھی پانی چاہیے، لیکن ندی سے ہمارے پانی کو نکال کر تریچی اور پاس کے دیگر شہروں میں سپلائی کیا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’شاہراہ کے دونوں طرف ریئل اسٹیٹ میں اضافہ ہو رہا ہے اور شہر میں آنے والا ہر نیا مہمان مزید پانی کا مطالبہ کر رہا ہے۔‘‘

دریں اثنا، سیتو کے لیے کچھ بھی نہیں بدلا ہے، نومبر کی اس تاریخ سے جب ارایی گھر لوٹی تھیں اور انھیں چھت سے لٹکا ہوا پایا تھا، وقت پر مدد آگئی تھی جس سے ان کی جان بچ گئی۔ اگر کچھ بدلا ہے تو وہ یہ کہ اس دن کے بعد سے آنے والے مہینوں میں چیزیں خراب سے بدتر ہوتی چلی گئیں – اور ان کے جیسے گاؤں کے بے زمین اور چھوٹے کسانوں پر سب سے زیادہ مار پڑی ہے۔

پھر بھی، سیتو خوش قسمت ہیں کہ وہ زندہ ہیں۔ اس علاقے کے بہت سے لوگ تو زندہ بھی نہیں بچے۔

اس ڈیلٹا میں، سال 2016 میں بارش نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ سے ندیوں میں پانی نہیں آیا۔ پڑوسی ریاست، کرناٹک، جو خود قحط سے دوچار ہے، نے لگاتار دو برسوں تک اس ندی پر آگے بنے ہوئے باندھ سے پانی چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ اس کے نتیجہ میں دھان، گنّا اور باجرا جیسی فصلیں خراب ہو گئیں۔ پانی نہ ہونے کا مطلب ہے نہ تو کوئی کام اور نہ ہی پیسہ۔ بڑھتے ہوئے قرض کی وجہ سے، زمین اور مویشی جیسے اثاثے تیزی سے بیچے جانے لگے، زیورات کو گروی رکھا جانے لگا۔

امید جب ٹوٹتی ہے، تو فکرمندی بڑھنے لگتی ہے، پھر یہ دہشت ہونے لگتی ہے کہ گھر میں بہت سے کام کیے جانے تھے، لیکن نہیں ہو سکے۔ اس کی وجہ سے دل کا دورہ پڑ سکتا ہے یا کوئی کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔

PHOTO • Jaideep Hardikar

کافی مضبوط 2000 سال پرانا باندھ، ڈیلٹا کی لائف لائن جسے چولا نے بنایا تھا، سردیوں میں پوری طرح خشک ہو چکا تھا، اور کاویری ندی بھی خاموش ہو گئی تھی

سیتو آدھے من سے ان لمحوں کو یاد کرتے ہیں جب انھوں نے پھانسی کا پھندا اپنے گلے میں ڈال لیا تھا، اس غلطی پر پچھتاتے ہوئے کہ انھوں نے اپنی بیوی اور فیملی کو اپنے پیچھے چھوڑے گئے بحران کا سامنا کرنے کے لیے، اس دنیا سے جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اب انھیں اطمینان ہے کہ وہ ابھی زندہ ہیں، اور یہ کہ ان کے آس پاس دوسرے کسان اور دوست موجود ہیں – تمام کے تمام بحران میں مبتلا ہیں، لیکن ابھی تک ہارے نہیں ہیں۔

سبرامنیم بتاتے ہیں کہ تینور کے کچھ خوشحال کسان اس سال اپنی فصل بچانے میں کامیاب رہے، کیوں کہ ان کے بورویل میں تھوڑا پانی بچا تھا۔ لیکن، سیتو کے پاس بورویل نہیں تھا۔ ’’میں اُس دن اپنے کھیت کے پاس کھڑا نہیں ہو سکا، اس کی حالت دیکھ کر،‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ یہ نومبر کا مہینہ تھا، ان کا کھیت بالکل تنہا دکھائی دے رہا تھا۔ ’’میرے بیج پھوٹے نہیں تھے؛ بارش بالکل بھی نہیں ہوئی تھی۔‘‘

وہ بتاتے ہیں کہ صدمہ، فکرمندی، ناامیدی – سبھی چیزیں ایک ساتھ جمع ہو گئیں۔ ’’مجھے بہت سارا قرض چکانا ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ میں قرض دینے والوں کے یہ پیسے جلد ہی چکا پاؤں گا۔‘‘

سیتو سے ہم جس دن ملے، اس دن ان کی بیوی اور بیٹا گاؤں سے باہر کام کرنے گئے ہوئے تھے؛ ان کی بیٹی کی شادی چند سال قبل ہو چکی تھی، اور ان کا چھوٹا بیٹا اسکول میں ہے۔ اس فیملی کے پاس واحد اثاثہ جو بچا ہے وہ ہے جرسی گائے جو ایک دن میں تین لیٹر سے زیادہ دودھ نہیں دیتی – اور چارے کی کمی کی وجہ سے یہ بھی بھوکی لگ رہی ہے۔

’’ہمارے پاس بس یہی بچی ہے،‘‘ سیتو کہتے ہیں، ’’مجھے نہیں معلوم کہ میں اس پر مزید کتنے دنوں تک انحصار کر پاؤں گا۔‘‘

تصویریں: جے دیپ ہرڈیکر

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Jaideep Hardikar

Jaideep Hardikar is a Nagpur-based journalist and writer, and a PARI core team member.

Other stories by Jaideep Hardikar
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez