وہ اپنے گیتوں کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ شاید کبھی لوگ ان کی صلاحیت کی تعریف کریں گے۔

۲۴ سال کے سنتو تانتی کہتے ہیں، ’’میں کبھی اپنا ایک البم نکالوں گا۔‘‘ سنتو، آسام کے جورہاٹ ضلع کے سکوٹا ٹی اسٹیٹ کے ڈھیکیا جولی ڈویژن کے رہنے والے ہیں۔

دنیا کے بقیہ ہر کسی کام سے بڑھ کر، سنتو ایک گلوکار بننے کا خواب دیکھتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں۔ لیکن، ان کی دنیا کی حقیقت کچھ اور ہی نکلی، اور وہ اپنے والد کی سائیکل مرمت کرنے کی ایک چھوٹی سی دکان میں کام کرتے ہوئے اپنا گزارہ کرتے ہیں۔

فلم دیکھیں: سنتو تانتی کے مایوسی، کام اور امید سے بھرے گیت

سنتو تانی آدیواسی ہیں، لیکن آپ انہیں کسی ایک خاص قبیلہ سے جوڑ کر نہیں دیکھ سکتے۔ گزشتہ تقریباً ڈیڑھ سو سالوں میں اوڈیشہ، مغربی بنگال، بہار، جھارکھنڈ، تلنگانہ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، اور آندھرا پردیش سے مہاجر مزدوروں کے طور پر بہت سے آدیواسی آسام آ کر بس گئے اور یہاں کے چائے کے باغات میں کام کرتے رہتے ہیں۔ ان آدیواسی برادریوں کے آپس میں اور دیگر برادریوں کے ساتھ گھلنے ملنے سے ان کی اگلی کئی نسلیں وجود میں آئیں۔ ان برادریوں کو مشترکہ طور پر اکثر ’ٹی ٹرائبس (چائے کے باغات کے آدیواسی)‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

ان کی ۶۰ لاکھ سے زیادہ آبادی آسام میں رہتی ہے، اور بھلے ہی انہیں اپنی آبائی ریاستوں میں درج فہرست قبیلہ کی شکل میں نشان زد کیا گیا ہے، لیکن یہاں انہیں یہ درجہ نہیں ملا ہے۔ ان میں سے ۱۲ لاکھ سے زیادہ لوگ ریاست کے تقریباً ۱۰۰۰ چائے کے باغات میں کام کرتے ہیں۔

روزمرہ کی مشکلیں اور کڑی محنت، ان میں سے اکثر لوگوں کے خوابوں پر پانی پھیر دیتی ہے۔ لیکن سنتو کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ وہ جھومور گاتے ہیں، جن میں ان کے آس پاس کی تکلیفوں کو آواز ملتی ہے۔ دھوپ اور بارش میں چائے کے باغات میں کام کرنے والے محنت کش لوگ اور ہر ایک کپ چائے کے پیچھے چھپی ان کی کڑی محنت، سنتو کے گیتوں کے بول بن کر پھوٹتے ہیں۔

Santo grew up dreaming of being a singer. But he has to earn a livelihood helping out at a small cycle repair shop that his father owns
PHOTO • Himanshu Chutia Saikia
Santo grew up dreaming of being a singer. But he has to earn a livelihood helping out at a small cycle repair shop that his father owns
PHOTO • Himanshu Chutia Saikia

سنتو، گلوکار بننے کا خواب لیکر بڑے ہوئے۔ لیکن، انہیں گھر چلانے کے لیے اپنے والد کی سائیکل مرمت کرنے کی ایک چھوٹی سی دکان میں کام کرنا پڑتا ہے

یہاں گائے جانے والے جھومور گیت سادری زبان میں ہیں اور کئی نسلوں سے گائے جا رہے ہیں۔ سنتو اپنے والد اور چچا کے بنائے گیتوں کو گاتے ہیں یاان گیتوں کو گاتے ہیں جنہیں سن کر وہ بڑے ہوئے ہیں اور جو کئی نسلوں سے گائے جا رہے ہیں۔ یہ گیت، ملک کے الگ الگ حصوں سے چل کر آسام کے چائے کے باغات میں آئے مہاجر مزدور برادریوں کی کہانیاں کہتے ہیں۔ ان میں، نئے گھر کی تلاش میں پرانے کو بھول جانے کے سفر کے قدموں کے نشان ملتے ہیں۔ گھنے جنگلوں کو صاف کرکے اور اوبڑ کھابڑ راستوں کو برابر کرکے، انہیں چائے کے زرخیز باغات میں تبدیل کرنے کے قصے ان گیتوں میں اپنی جگہ بناتے ہیں۔

گاؤں والے موسیقی کے تئیں سنتو کا جنون دیکھ کر اکثر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ چاہے جو خواب دیکھ لے، آخر میں اسے چائے کے باغات میں پتیاں ہی چننی ہیں۔ ایسی باتیں کبھی کبھی سنتو کو مایوس کر دیتی ہیں، لیکن وہ جلد ہی خود کو سنبھال لیتے ہیں۔ ان باتوں سے شکست کھا کر وہ بڑا خواب دیکھنے سے خود کو نہیں روکتے، نہ ہی بڑی امیدوں کے ساتھ اپنے گانوں کو لگاتار سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے سے باز آتے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Himanshu Chutia Saikia

Himanshu Chutia Saikia is an independent documentary filmmaker, music producer, photographer and student activist based in Jorhat, Assam. He is a 2021 PARI Fellow.

Other stories by Himanshu Chutia Saikia
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez