یمنا جادھو کو دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ وہ دو راتوں سے ٹھیک سے سوئی ہیں۔ وہ مٹھی باندھی، ہاتھ اٹھا کر ہنستے ہوئے ’لال سلام‘ کرتی ہیں اور کہتی ہیں، ’’ہم اگلے دو دونوں کے منتظر ہیں۔‘‘

وہ مہاراشٹر کے ناسک ضلع کے ڈُڈگاؤں سے، چھ گھنٹے پہلے ہی دہلی پہنچی ہیں۔ ’’ہم نے ۲۷ نومبر کی رات کو ناسک سے ٹرین پکڑی تھی،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’ہمارے پاس کوئی ریزرو سیٹ نہیں تھی۔ ہم پورے سفر کے دوران دروازے کے پاس ہی بیٹھے رہے۔ ۲۴ گھنٹوں تک بیٹھا رہنے کے سبب پیٹھ میں درد ہو رہا ہے۔‘‘

یمنا (اوپر کے کور فوٹو میں) ان ہزاروں کسانوں میں سے ایک ہیں، جو ۲۹ نومبر کی ٹھنڈی صبح کو دہلی پہنچے ہیں۔ آل انڈیا کسان سنگھرش کوآرڈی نیشن کمیٹی، جو ۱۵۰-۲۰۰ زرعی جماعتوں اور یونینوں کی ایک مشترکہ تنظیم ہے، نے دو روزہ احتجاجی مظاہرہ میں حصہ لینے کے لیے ہندوستان بھر کے کسانوں کو جمع کیا ہے۔ آج، ۳۰ نومبر کو، یہ سبھی مظاہرین زرعی بحران پر بحث کے لیے پارلیمنٹ کا ایک خصوصی ۲۱ روزہ اجلاس بلانے کے مطالبہ کو لے کر، پارلیمنٹ کی جانب مارچ کرنے والے ہیں۔

PHOTO • Shrirang Swarge
PHOTO • Shrirang Swarge
PHOTO • Shrirang Swarge

زمین کا مالکانہ حق نہیں، پانی کی کمی، نامناسب فصلہ بیمہ اسکیم اور قرض معافی – مہاراشٹر کے کسانوں کی یہی کچھ تشویشیں تھیں

آل انڈیا کسان سبھا کے کسان لیڈر، اجیت نولے کہتے ہیں کہ کئی ریاستوں سے کسان آئے ہیں، اور ان میں مہاراشٹر سے کم از کم ۳۰۰۰ ہیں۔ ان میں سے کئی، یمنا کی طرح ہی، زرعی مزدور ہیں جو ۱۵۰ روپے یومیہ مزدوری کماتے ہیں۔

شدید ہوتا زرعی بحران ان کی آمدنی کو براہِ راست متاثر کر رہا ہے، یمنا کہتی ہیں۔ ’’کھیتوں پر جتنا کام ہوگا، پیسے کمانے کے لیے ہمیں اتنے ہی موقعے ملیں گے،‘‘ کسان سبھا کا لال ٹی شرٹ پہنے وہ کہتی ہیں۔ ’’فی الحال، مہاراشٹر کو سنگین قحط کا سامنا ہے۔ کسان ربیع موسم [مانسون کے بعد] کے لیے بوائی نہیں کر رہے ہیں۔ ایسے میں ہمیں کام کہاں ملے گا؟‘‘

دہلی پہنچنے کے بعد بہت سے کسانوں نے حضرت نظام الدین اسٹیشن کے پاس، گرودوارہ شری بالا صاحب جی میں آرام کیا۔ اسی گرودوارہ نے صبح میں ان کے کھانے کے لیے دال اور چاول کا انتظام کیا ہے، جسے کھاکر وہ ۱۱ بجے تک فارغ ہو چکے ہیں۔ ناسک ضلع کے گنگاوڑھے گاؤں کی، تقریباً ۳۵ سالہ تُلجا بائی بھڈنگے بتاتی ہیں کہ پہلی رات کے لیے وہ بھاکری اور چٹنی لے کر آئے تھے، لیکن دوسری رات کو زیادہ نہیں کھا پائے۔ ’’ہم سفر کے لیے ۱۰۰۰ روپے رکھے ہوئے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’کل، ۲۰۰ روپے ہم نے کھانے پر خرچ کیے۔ ناسک اسٹیشن تک پہنچنے کے لیے ہم نے رکشا والے کو پیسے دیے۔ ہم نے یہ مان لیا ہے کہ ہمیں پانچ دنوں کے لیے کام [اور مزدوری] چھوڑنا ہوگا۔ یہ مارچ ایک بیان ہے۔ ہم نے یہ ممبئی میں کیا تھا، اور اب دوبارہ کریں گے۔‘‘

ناسک کے آدیواسی علاقے میں ایک بڑی تشویش حق جنگلات قانون، ۲۰۰۶ کو نافذ نہیں کیا جانا ہے، جو آدیواسیوں کو ان زمینوں کا حق فراہم کرتا ہے جس پر وہ لمبے عرصے سے کھیتی کر رہے ہیں۔ بھڈنگے کہتی ہیں کہ آدیواسی کسان جن زمینوں کو دہائیوں سے جوت رہے ہیں، اس کے وہ ابھی تک مالک نہیں بنے ہیں۔ ’’میرے پاس حالانکہ زیادہ زمین نہیں ہے، لیکن میں دوسرے کسانوں کی زمین پر کام کرتی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’اگر وہ کھیت کھو دیں گے، تو میں کام کہاں کروں گی؟‘‘

PHOTO • Shrirang Swarge
PHOTO • Shrirang Swarge

ناسک ضلع کے گنگاوڈے گاؤں کی تُلجا بائی بھڈنگے (بائیں) اور دیورام بھنگرے۔ ’یہ مارچ ایک بیان ہے۔ ہم نے یہ ممبئی میں کیا تھا، اور اب دوبارہ کریں گے،‘ وہ کہتی ہیں۔

آدیواسی علاقے سے باہر کے مہاراشٹر کے جو کسان اور زرعی مزدور دہلی آئے ہیں، وہ آبپاشی کی سہولیات کی کمی، پانی کی کمی، نامناسب فصلہ بیمہ اسکیم اور قرض معافی کی شکایت کر رہے ہیں۔ ’’زمین پر کچھ بھی نہیں بدلا ہے،‘‘ احمد نگر کے امبے وَنگن گاؤں کے ۷۰ سالہ دیورام بھنگرے کہتے ہیں، وہ دوپہر میں ساڑھے بارہ بجے دہلی کی سڑکوں پر نکلنے والے مارچ کے ساتھ چل رہے ہیں۔ ’’کسانوں کو جون میں بوائی کے موسم میں شاید ہی کبھی فصل بیمہ ملتا ہے، جب کہ انھیں اس وقت پیسے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ کسان کے پاس پیسہ نہیں ہوگا، تو وہ کم زرعی مزدوروں کو کام پر رکھے گا۔ ہمارے گاؤں میں پانی کی بہت زیادہ کمی ہے، پھر بھی کوئی مدد نہیں مل رہی ہے۔ مودی نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے ہیں۔ ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ ہم ناراض ہیں۔‘‘

ہاتھوں میں لال جھنڈا اور ٹی شرٹ پہنے کسانوں کی بھیڑ جیسے ہی دہلی کی سڑکوں پر اترتی ہے، پوری فضا ’مودی سرکار ہوش میں آؤ‘ کے نعروں سے گونج اٹھتی ہے۔ کنارے کھڑے لوگ اور وہاں سے گزرنے والے مسافر انھیں دیکھتے ہیں، لیکن کسان پوری مضبوطی سے نعرہ لگانا جاری رکھتے ہیں۔

شائستہ اور طاقتور، کسان رام لیلا میدان کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں – نظام الدین سے نو کلومیٹر دور – دہلی کے دل کے قریب، جہاں یہ کسان رات گزاریں گے۔ تقریباً پانچ کلومیٹر کے بعد صرف ایک بریک کے ساتھ، یہ لوگ دوپہر میں ساڑھے چار بجے رام لیلا میدان پہنچتے ہیں۔

PHOTO • Shrirang Swarge
Farmers at Ramlila Maidan
PHOTO • Shrirang Swarge

بائیں: کرشنا کھوڑے کہتے ہیں، ’میرے والد چاہتے تھے کہ میں ایک پولس افسر بنوں۔ میں اس کے لیے کوشش کروں گا۔‘ دائیں: رام لیلا میدان میں پہلا دن ختم ہونے کے قریب

مظاہرین سبھی علاقوں اور عمر کے ہیں، مرد و عورت دونوں۔ ۱۸ سالہ کرشنا کھوڑے، ناسک کے پمپل گاؤں دے دیگر لوگوں کے ساتھ یہاں آئے ہیں۔ اس سال مارچ میں، ان کے والد نیوروتی نے لانگ مارچ میں حصہ لیا تھا، جب مہاراشٹر کے کسان ۱۸۰ کلومیٹر پیدل چل کر ناسک سے ممبئی گئے تھے۔ ’’جب وہ گھر واپس لوٹے، تو بیما پڑ گئے،‘‘ ہاتھ میں جھنڈا اور کندھوں پر بیگ اٹھا کر چلتے ہوئے، کرشنا کہتے ہیں۔ ’’انھوں نے دو یا تین دنوں کے بعد سینہ میں درد کی شکایت کی۔ ہم انھیں ڈاکٹر کے پاس لے گئے، جس نے ہمیں ان کا ایکس رے کرانے کے لیے کہا۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم یہ کراتے، ان کا انتقال ہو گیا۔‘‘

کرشنا کی ماں، سونا بائی، تبھی سے دوہرا کام کر رہی ہیں، انھیں کھیت کی دیکھ بھال کرنے کے ساتھ ساتھ زرعی مزدور کے طور پر بھی کام کرنا پڑ رہا ہے۔ کرشنا پولس افسر بننا چاہتے ہیں۔ ’’میں کسان نہیں بننا چاہتا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میرے والد چاہتے تھے کہ میں ایک پولس افسر بنوں۔ میں اس کے لیے کوشش کروں گا۔‘‘

نیوروتی کے ساتھ جو کچھ ہوا، کیا اس کے بعد سونابائی نے اپنے بیٹے کے مارچ میں شریک ہونے پر اعتراض جتایا تھا؟ وہ مکسراتے ہیں۔ ’’انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں کیوں جانا چاہتا ہوں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’میں نے کہا کہ میں اس کا حصہ بننا چاہتا ہوں۔ پھر انھوں نے اتنا ہی کہا تھا: ’اپنا خیال رکھنا‘۔‘‘

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez