جیون بھائی بریا کو چار سالوں میں دو بار دل کا دورہ پڑا تھا۔ پہلی بار سال ۲۰۱۸ میں اس وقت پڑا تھا، جب وہ اپنے گھر پر ہی تھے۔ ان کی بیوی، گابھی بین انہیں اسپتال لے کر بھاگیں۔ دوسری بار، اپریل ۲۰۲۲ میں جب وہ بحر ہند میں مچھلی پکڑنے والی ایک بڑی کشتی چلا رہے تھے، تو اچانک ان کے سینہ میں تیز درد ہونے لگا۔ وہاں موجود ایک ساتھی نے اسٹیئرنگ کا پہیہ اپنے ہاتھ میں پکڑا اور دوسرے ساتھی نے گھبرا کر انہیں نیچے لیٹنے میں مدد کی۔ اس وقت یہ لوگ ساحل سمندر سے تقریباً پانچ گھنٹے دور تھے۔ آخری سانس لینے سے پہلے جیون بھائی دو گھنٹے سے زیادہ وقت تک اسی حالت میں مبتلا رہے۔

گابھی بین جس بات سے سب سے زیادہ ڈر رہی تھیں، آخرکار وہ سچ ثابت ہوا۔

پہلی بار دل کا دورہ پڑنے کے ایک سال بعد جب جیون بھائی نے پھر سے مچھلی پکڑنے کا فیصلہ کیا، تو ان کی بیوی اس بات سے بہت زیادہ خوش نہیں تھیں۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ خطرناک ہے۔ جیون بھائی بھی کچھ ایسا ہی محسوس کر رہے تھے۔ گجرات کے امریلی ضلع میں واقع ایک چھوٹے سے ساحلی قصبہ، جعفر آباد میں اپنی جھونپڑی میں بیٹھی ہوئی گابھی بین کہتی ہیں، ’’میں نے انہیں منع کیا تھا۔‘‘

لیکن قصبہ کے زیادہ تر لوگوں کی طرح، ۶۰ سالہ جیون بھائی کو بھی مچھلی پکڑنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں آتا تھا۔ اس کام سے وہ ہر سال ۲ لاکھ روپے کماتے تھے۔ ۵۵ سالہ گابھی بین بتاتی ہیں، ’’وہ ۴۰ سال سے یہ کام کر رہے تھے۔ دل کا دورہ پڑنے کے ایک سال بعد جب انہوں نے اسے دوبارہ شروع کیا، تو میں نے بھی کسی طرح سے اپنے گھر کو چلانے کے لیے بطور مزدور [دوسرے ماہی گیروں کے لیے مچھلی سکھانے کا] کام کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے جب محسوس ہوا کہ وہ اب صحت یاب ہو گئے ہیں، تو انہوں نے کام پر دوبارہ جانے کا فیصلہ کیا۔‘‘

جیون بھائی مچھلی پکڑنے والی بڑی کشتی (ٹرالر) پر کام کرتے تھے، جو جعفر آباد کے بڑے ماہی گیروں کی تھی۔ کام کرنے والے لوگ ان کشتیوں کو سال میں آٹھ مہینے (مانسون کے موسم کو چھوڑ کر) بحر ہند میں لے جاتے ہیں، اور ہر بار ۱۵-۱۰ دنوں تک سمندر میں مچھلیاں پکڑتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھ کچھ ہفتوں کے لیے کھانا اور پانی بھی لے کر جاتے ہیں۔

گابھی بین کہتی ہیں، ’’ایمرجنسی سروسز تک رسائی کے بغیر اتنے دنوں تک سمندر میں رہنا کبھی بھی محفوظ نہیں ہے۔ ان کے پاس صرف ایک فرسٹ ایڈ کٹ (ابتدائی طبی مدد کے طور پر چھوٹا موٹا سامان) ہوتی ہے۔ دل کے مریض کے لیے تو یہ بہت ہی خطرناک کام ہے۔‘‘

Gabhiben holding a portrait of her late husband, Jeevanbhai, at their home in Jafrabad, a coastal town in Gujarat’s Amreli district
PHOTO • Parth M.N.

گجرات کے امریلی ضلع کے ساحلی قصبہ، جعفر آباد میں گھر کے اندر اپنے آنجہانی شوہر کی تصویر پکڑے گابھی بین

ہندوستانی ریاستوں میں سب سے لمبا ساحلی علاقہ گجرات میں ہے، جو ۳۹ تعلقہ اور ۱۳ ضلعوں کے اندر ۱۶۰۰ کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ ملک کی سمندری پیداوار کا ۲۰ فیصد حصہ یہیں سے آتا ہے۔ فشریز کے کمشنر کی ویب سائٹ کے مطابق، ریاست کے ۱۰۰۰ سے زیادہ گاؤوں کے پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ ماہی گیری کے شعبہ سے جڑے ہوئے ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر لوگ سال کے جو چار مہینے سمندر کے اندر گزارتے ہیں، اس دوران وہ طبی خدمات سے پوری طرح کٹ جاتے ہیں۔

دل کا پہلا دورہ پڑنے کے بعد جیون بھائی جب بھی سمندر کے لیے روانہ ہوتے، گابھی بین دماغی تناؤ اور بے چینی میں مبتلا ہو جاتیں۔ تنہائی کی اس مدت میں وہ خوف و امید کے درمیان جھولتے خیالوں سے لڑتیں، اور سیلنگ فین (چھت سے ٹنگے پنکھے) پر نظر ٹکائے، جاگتے ہوئے اپنی راتیں گزارتی تھیں۔ جب جیون بھائی بحفاظت گھر لوٹ کر آتے، تب وہ چین کی سانس لیتی تھیں۔

پھر ایک دن وہ سمندر میں گئے، تو زندہ نہیں لوٹے۔

*****

اگر ریاست گجرات نے پانچ سال پہلے ہائی کورٹ سے کیے گئے اپنے وعدے کو پورا کر دیا ہوتا، تو جیون بھائی کی قسمت کچھ اور ہو سکتی تھی۔

اپریل ۲۰۱۷ میں، جعفر آباد کے ساحل پر واقع شیال بیٹ جزیرہ کے رہائشی، ۷۰ سالہ جندور بھائی بالدھیا نے گجرات ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی داخل کرکے کشتی والی ایمبولینس کی طویل مدتی مانگ دہرائی تھی۔ اس عرضی کو داخل کرنے میں ۴۳ سالہ وکیل اور کارکن اروِند بھائی کھومان نے ان کی مدد کی تھی۔ اروند بھائی، سینٹر فار سوشل جسٹس سے وابستہ ہیں، جو کہ احمد آباد کی ایک تنظیم ہے اور کمزور برادریوں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔

عرضی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہندوستانی آئین کی دفعہ ۲۱ میں جینے کے حق کی جو گارنٹی دی گئی ہے، اسے نظر انداز کرتے ہوئے ریاست گجرات ماہی گیروں کو حاصل ’’بنیادی اور آئینی حقوق کی خلاف ورزی‘‘ کر رہی ہے۔

عرضی میں ’روایتی ماہی گیری کا کام، ۲۰۱۷‘ کا بھی حوالہ دیا گیا تھا، جس میں ’’پیشہ ورانہ تحفظ، صحت کی حفاظت اور طبی نگہداشت سے متعلق کم از کم تقاضوں‘‘ کا تعین کیا گیا ہے۔

Standing on the shore of Jafrabad's coastline, 55-year-old Jeevanbhai Shiyal says fisherfolk say a silent prayer before a trip
PHOTO • Parth M.N.

جعفر آباد کے ساحلی علاقہ میں کھڑے ۵۵ سالہ جیون بھائی شیال بتا رہے ہیں کہ سمندر میں جانے سے پہلے ماہی گیر خاموشی سے دعا کرتے ہیں

اگست ۲۰۱۷ میں، ہائی کورٹ نے ریاست کی طرف سے چند یقین دہانیاں موصول ہونے کے بعد اس عرضی کو نمٹا دیا تھا۔ ریاست کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے، منیشا لو کمار نے عدالت کو بتایا تھا کہ ریاست ’’ساحلی علاقوں میں رہنے والے‘‘ لوگوں اور ’’ماہی گیروں کے حقوق کو اچھی طرح جانتی ہے۔‘‘

مزیدار بات یہ ہے کہ عدالتی حکم نامہ میں اس بات کا ذکر کیا گیا تھا کہ ریاست نے ’’کسی بھی قسم کی ناگہانی حالت سے نمٹنے کے لیے پوری طرح لیس‘‘ سات کشتی والی ایمبولینس خریدنے کا فیصلہ کیا ہے، جو ۱۶۰۰ کلومیٹر میں پھیلے ساحلی علاقے میں اپنی خدمات انجام دیں گی۔

اس بات کو پانچ سال گزر چکے ہیں، اور ماہی گیروں کو صحت سے متعلق ایمرجنسی کا بھی لگاتار سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن انہیں ابھی تک کشتی والی صرف دو ہی ایمبولینس ملی ہیں – ایک اوکھا میں ہے اور دوسری پوربندر میں – جب کہ ان سے سات ایمبولینس کا وعدہ کیا گیا تھا۔

جعفر آباد سے ۲۰ کلومیٹر شمال میں واقع ایک چھوٹے سے قصبہ، راجولا کے رہنے والے اروند بھائی کہتے ہیں، ’’ساحلوں کا زیادہ تر علاقہ اب بھی خطروں سے بھرا ہوا ہے۔ پانی میں چلنے والی ایمبولینس تیز رفتار کشتیاں ہیں، جو کسی متعینہ دوری کو مچھلی پکڑنے والی کشتیوں کے مقابلے آدھے وقت میں طے کر سکتی ہیں۔ ہمیں ایسی ایمبولینس کی سخت ضرورت ہے کیوں کہ ماہی گیر آج کل سمندر کے کنارے مچھلیاں نہیں پکڑتے ہیں۔‘‘

جیون بھائی کو جس دن جان لیوا دل کا دورہ پڑا تھا، تب وہ ساحل سے ۴۰ ناٹیکل میل، یا تقریباً ۷۵ کلومیٹر دور تھے۔ آج سے تقریباً ۲۰ سال پہلے، ماہی گیر سمندر کے اتنے اندر تک شاید ہی کبھی جاتے تھے۔

گابھی بین بتاتی ہیں، ’’جب انہوں نے پہلی بار مچھلی پکڑنا شروع کیا تھا، تب وہ پانچ یا آٹھ ناٹیکل میل کے اندر ہی اچھی خاصی تعداد میں مچھلیاں پکڑ لیتے تھے۔ ساحل سے یہ بمشکل ایک یا دو گھنٹے کی دوری پر ہوا کرتا تھا۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے۔ آج کل، ہمیں ساحل سے ۱۰ یا ۱۲ گھنٹے کی دوری پر سمندر کے اندر جانا پڑتا ہے۔‘‘

Gabhiben recalls the stress and anxiety she felt every time Jeevanbhai set off to sea after his first heart attack. Most fisherfolk in Gujarat are completely cut off from medical services during time they are at sea
PHOTO • Parth M.N.

گابھی بین اس ذہنی تناؤ اور بے چینی کو یاد کرتی ہیں جو انہیں جیون بھائی کو پڑنے والے دل کے پہلے دورہ کے بعد ان کے سمندر میں جانے پر محسوس ہوتی تھی۔ گجرات کے زیادہ تر ماہی گیر جب سمندر کے اندر ہوتے ہیں، تو ان دنوں میڈیکل سروس سے پوری طرح کٹ جاتے ہیں

*****

ماہی گیروں کے سمندر کے اتنے اندر جانے کے پیچھے دو وجہیں ہیں: ساحلی آلودگی میں اضافہ اور آبی پیڑ پودے والے علاقوں میں کمی۔

نیشنل فشر ورکرز فورم کے سکریٹری، عثمان غنی کا کہنا ہے کہ ساحلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر صنعتی آلودگی کا سمندر کے حیاتیاتی نظام (ایکو سسٹم) پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ ’’اس کی وجہ سے مچھلیاں اب ساحلوں کی طرف نہیں آتیں، جس کی وجہ سے ماہی گیروں کو سمندر کے اندر جانے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ وہ جتنا اندر جائیں گے، ایمرجنسی سروس بھی اتنی ہی اہم ہوتی جائے گی۔‘‘

ماحولیاتی حالت کی رپورٹ (ایس او ای)، ۲۰۱۳ کے مطابق، گجرات کے ساحلی ضلعوں میں ۵۸ بڑی صنعتیں ہیں، جن میں کیمیکل، پیٹرو کیمیکل، اسٹیل اور دھات وغیرہ کی صنعتیں شامل ہیں۔ کانکنی اور کھدائی کے بالترتیب ۸۲۲ اور ۳۱۵۶ پٹّے موجود ہیں۔ سال ۲۰۱۳ میں جب یہ رپورٹ منظر عام پر آئی تھی، تب سے کارکنوں کا ماننا ہے کہ اس کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہوگا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ریاست میں بجلی کی پیداوار کے ۷۰ فیصد سے زیادہ پروجیکٹ اس کے ۱۳ ساحلی ضلعوں میں ہی مرکوز ہیں، جب کہ بقیہ ۳۰ فیصد بجلی کی پیداوار ریاست کے دیگر ۲۰ ضلعوں میں ہوتی ہے۔

بڑودہ کے ایک ماحولیاتی کارکن، روہت پرجاپتی کا کہنا ہے، ’’صنعتیں اکثر ماحولیاتی ضابطوں کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ ہر کوئی اپنی گندگی کو یا تو براہ راست یا ندیوں کے ذریعے سمندر میں بہا رہا ہے۔ گجرات میں کم از کم ۲۰ آلودہ ندیاں ہیں۔ ان میں سے کئی ندیاں بحیرہ عرب میں جا کر مل جاتی ہیں۔‘‘

عثمان غنی کہتے ہیں کہ ریاست نے ساحلی علاقے میں ترقی کے نام پر آبی پیڑ پودوں والے علاقے کو بھی تقسیم کر دیا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’آبی پیڑ پودے (مینگرو) ساحلوں کی حفاظت کرتے ہیں اور مچھلیوں کو انڈے دینے کے لیے محفوظ مقام عطا کرتے ہیں۔ لیکن گجرات کے ساحلوں کے آس پاس جہاں کہیں بھی کاروباری صنعتیں لگائی گئی ہیں، وہاں وہاں ان آبی پیڑ پودوں کو کاٹ دیا گیا ہے۔ اگر آبی پیڑ پودے نہیں ہوں گے، تو مچھلیاں ساحل کی طرف کبھی نہیں آئیں گی۔‘‘

Jeevanbhai Shiyal on a boat parked on Jafrabad's shore where rows of fish are set to dry by the town's fishing community (right)
PHOTO • Parth M.N.
Jeevanbhai Shiyal on a boat parked on Jafrabad's shore where rows of fish are set to dry by the town's fishing community (right)
PHOTO • Parth M.N.

جعفر آباد میں سمندر کے ساحل پر کھڑی ایک کشتی میں بیٹھے جیون بھائی شیال؛ یہاں پر قصبہ کے ماہی گیروں کے ذریعے مچھلیوں کو قطار میں سُکھایا جا رہا ہے (دائیں)

سال ۲۰۲۱ کی ہندوستان میں جنگل کی حالت پر رپورٹ کے مطابق، گجرات میں ۲۰۱۹ سے سمندری پیڑ پودے والے علاقوں میں ۲ فیصد کی کمی آئی ہے، جب کہ اسی مدت میں قومی سطح پر ایسے علاقوں میں ۱۷ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ گجرات کے ۳۹ میں سے ۳۸ ساحلی تعلقہ مٹی کے کٹاؤ کے معاملے میں زیادہ حساس ہیں۔ اگر سمندری پیڑ پودوں کا خاتمہ اندھا دھند طریقے سے نہیں ہوتا، تو اس کٹاؤ سے بچا جا سکتا تھا۔

پرجاپتی کہتے ہیں، ’’سمندری پیڑ پودوں کو بچانے میں ناکامی گجرات کے ساحلی علاقوں میں سمندر کی آبی سطح کو بڑھانے کے اسباب میں سے ایک ہے۔ سمندر ان کچروں کو واپس ساحلوں پر لے آتا ہے جنہیں ہم اس میں بہاتے ہیں۔ آلودگی اور اس کے نتیجہ میں سمندری پیڑ پودوں کے نقصان کی وجہ سے ریاست کے ساحلی علاقوں کا آلودگی سے پاک ہونا بہت مشکل ہے۔‘‘

بہرحال، مچھلیوں کی تلاش میں ساحلوں سے کافی دور پانی میں نکلنے کو مجبور ماہی گیروں کو گہرے پانی کی طاقتور موجوں، تیز ہواؤں اور غیر یقینی موسم کا سامنا ہونا طے ہے۔ سب سے زیادہ نقصان غریب ماہی گیروں کو ہوتا ہے، کیوں کہ مچھلی پکڑنے کے لیے وہ جن کشتیوں کا استعمال کرتے ہیں وہ سائز میں کافی چھوٹی ہوتی ہیں اور ناموافق موسم کی مار برداشت کر پانے کے قابل نہیں ہوتی ہیں۔

سال ۲۰۱۶ کے اپریل مہینہ میں ثنا بھائی شیال کی کشتی سمندر کے بیچ میں جا کر ٹوٹ گئی۔ تیز موجوں نے ایک معمولی سی دراڑ کو اتنا چوڑا کر دیا کہ کشتی میں بہت تیزی سے پانی بھرنے لگا۔ کشتی پر سوار آٹھوں ماہی گیروں نے دراڑ کو بند کرنے کی حتی الامکان کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔ مدد کے لیے ان کی پکار کو بھی کسی نے نہیں سنا، کیوں کہ دور دور تک کوئی تھا ہی نہیں۔ وہ پوری طرح سے اپنے حال پر اکیلے پڑ گئے تھے۔

ایسی حالت میں کشتی ٹوٹ کر بکھر گئی اور آخرکار ڈوبنے لگی۔ کوئی متبادل نہ دیکھ کر گھبرائے ہوئے ماہی گیر سمندر میں کود گئے اور ٹوٹی ہوئی کشتی کی لکڑی کا جو بھی حصہ ملا اسے پکڑ کر اپنی جان بچانے کی کوشش کرنے لگے۔ چھ ماہی گیر کسی طرح بچ گئے۔ دو ماہی گیروں کو اپنی جان گنوانی پڑی، جن میں سے ایک ۶۰ سالہ ثنا بھائی بھی تھے۔

سبھی چھ ماہی گیر سمندر میں تقریباً ۱۲ گھنٹے تک تیرتے اور ڈوبتے رہے۔ پھر ایک مچھلی پکڑنے والے ٹرالر کی نظر ان پر پڑی اور انہیں بچایا جا سکا۔

Jamnaben's husband Sanabhai was on a small fishing boat which broke down in the middle of the Arabian Sea. He passed away before help could reach him
PHOTO • Parth M.N.

جمنا بین کے شوہر ثنا بھائی مچھلی پکڑنے والی ایک چھوٹی کشتی پر سوار تھے، جو بحیرہ عرب کے بیچ میں جا کر ٹوٹ گئی۔ کوئی مدد پہنچنے سے پہلے ہی ان کی موت ہو گئی

ثنا بھائی کی ۶۵ سالہ بیوی جمنا بین کہتی ہیں، ’’ان کی لاش تین دنوں کے بعد ملی۔‘‘ وہ جعفر آباد میں رہتی ہیں۔ ’’میں یہ نہیں کہتی کہ ایک اسپیڈ بوٹ دستیاب ہوتی، تو وہ بچ ہی جاتے۔ لیکن تب شاید ان کے بچنے کا بہتر امکان ضرور ہوتا۔ جیسے ہی انہیں اپنی کشتی میں سوراخ ہونے کا پتہ چلا ہوگا، انہوں نے مدد کے لیے کسی کو تو آواز دی ہی ہوگی۔ بدقسمتی سے ہم یہ کبھی نہیں جان سکیں گے کہ ان آخری لمحوں میں کیا ہوا تھا۔‘‘

ان کےد ونوں بیٹے – دنیش (۳۰ سالہ) اور بھوپد (۳۵ سالہ) شادی شدہ ہیں اور دونوں کے دو دو بچے ہیں – بھی مچھلی پکڑنے کا کام کرتے ہیں۔ ثنا بھائی کی موت کے بعد سے ان کے من میں ایک گھبراہٹ بیٹھ گئی ہے۔

جمنا بین بتاتی ہیں، ’’دنیش آج بھی باقاعدگی سے مچھلیاں پکڑنے کے لیے جاتا ہے، لیکن بھوپد جہاں تک ممکن ہوتا ہے جانے سے کتراتا ہے۔ لیکن، ہم بال بچے والے لوگ ہیں۔ ہمیں اپنا پیٹ بھرنے کے لیے کمانا پڑتا ہے، اور ہماری آمدنی کا ایک ہی ذریعہ ہے۔ ہماری زندگی سمندر پر ہی منحصر ہے۔‘‘

*****

پچپن سال کے جیون بھائی شیال کے پاس خود کا مچھلی پکڑنے والا ٹرالر ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مچھلی پکڑنے کے لیے نکلنے سے پہلے ماہی گیر خاموشی سے ایک دعا کرتے ہیں۔

وہ یاد کرتے ہیں، ’’تقریباً سال بھر پہلے میرے ایک آدمی کو سینہ میں اچانک بہت تیز درد اٹھا۔ اس وقت وہ کشتی پر ہی تھا۔ ہم فوراً کنارے کی طرف لوٹ پڑے۔‘‘ پانچ گھنٹے تک وہ آدمی سانس لینے کے لیے تڑپتا رہا۔ جب ٹرالر کنارے تک پہنچا، تو اس نے اپنے سینہ کو ہتیھلیوں میں جکڑ رکھا تھا۔ شیال بتاتے ہیں کہ وہ پانچ گھنٹے انہیں پانچ دنوں کے برابر لگے تھے۔ ہر آنے والا لمحہ گزرتے ہوئے لمحہ پر بھاری پڑتا محسوس ہو رہا تھا۔ ہر ایک منٹ تناؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ خوش قسمتی سے وہ ماہی گیر بچ گیا، کیوں کہ کنارے پر پہنچنے کے ساتھ ہی اسے فوراً اسپتال میں داخل کر دیا گیا تھا۔

سمندر میں لگے اس چکر نے شیال کا ۵۰ ہزار روپے سے زیادہ کا نقصان کرا دیا، کیوں کہ انہیں اسی دن لوٹنا پڑا تھا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ٹرالر کو سمندر میں ایک بار آنے جانے میں ۴۰۰ لیٹر ایندھن کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمیں ایک بھی مچھلی پکڑے بغیر ہی لوٹنا پڑا تھا۔‘‘

When one of Jeevanbhai Shiyal's workers suddenly felt chest pains onboard his trawler, they immediately turned back without catching any fish. The fuel expenses for that one trip cost Shiyal over Rs. 50,000
PHOTO • Parth M.N.

جب جیون بھائی شیال کے ٹرالر پر ان کے ایک آدمی کو سینہ میں اچانک بہت تیز درد محسوس ہوا، تو وہ بغیر کوئی مچھلی پکڑے فوراً واپس لوٹ پڑے۔ اس چکر کو لگانے میں ان کا ۵۰ ہزار روپے سے زیادہ کا ایندھن خرچ ہوا تھا

'We bear the discomfort when we fall sick on the boat and get treated only after we are back home,' says Jeevanbhai Shiyal
PHOTO • Parth M.N.

جیون بھائی شیال کہتے ہیں، ’جب ہم کشتی پر نکلے ہوتے ہیں، تو بیمار پڑنے پر بھی اپنی عدم سہولیات کو برداشت کرنے کے لیے مجبور رہتے ہیں۔ کسی طرح کا علاج ہمیں تب ہی ملتا ہے، جب ہم گھر لوٹتے ہیں‘

شیال بتاتے ہیں کہ مچھلی پکڑنے کے کاروبار میں دن بہ دن لاگت بڑھنے کی وجہ سے ماہی گیروں کو اپنی صحت سے جڑے مسائل کی اندیکھی کرنی پڑتی ہے۔ ’’یہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن کوئی بچت نہیں کر پانے کے سبب ہم بے حد معمولی زندگی جینے کے لیے مجبور ہیں۔ ہمارے حالات ہمیں اپنی صحت کی اندیکھی کرنے کے لیے مجبور کر دیتے ہیں۔ جب ہم کشتی پر نکلے ہوتے ہیں، تو بیمار پڑنے پر بھی اپنی عدم سہولیات کو برداشت کرنے کے لیے مجبور رہتے ہیں۔ کسی طرح کا علاج ہمیں تب ہی ملتا ہے، جب ہم گھر لوٹتے ہیں۔‘‘

شیال بیٹ کے رہائشیوں کے لیے تو گھر پر بھی کسی قسم کی طبی سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ اس جزیرہ تک پہنچنے کا واحد ذریعہ پھیری (کشتی) کی سواری ہے، اور وہاں تک پہنچنے میں۱۵ منٹ لگتے ہیں۔ ڈگمگاتی ہوئی کشتی میں سوار ہونے اور اترنے کے لیے پانچ منٹ کی مشقت الگ سے کرنی پڑتی ہے۔

بوٹ ایمبولینسوں کی مانگ کے ساتھ ساتھ، بالدھیا کے ذریعے دائر کی گئی عرضی میں معاش کے لیے مچھلی کے کاروبار پر منحصر شیال بیٹ کے ۵۰۰۰ سے بھی زیادہ باشندوں کے لیے ایک سہولت آمیز ابتدائی طبی مرکز (پرائمری ہیلتھ کیئر سینٹر، پی ایچ سی) کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔

اس مطالبہ کے جواب میں ہائی کورٹ نے ہدایت دی تھی کہ اس ضلع اور آس پاس کے ضلعوں کے طبی افسران ہفتہ میں پانچ دن کے لیے صبح ۱۰ بجے سے شام کے ۴ بجے تک ذیلی طبی مرکز میں تعینات کیے جائیں گے۔

بہرحال، وہاں کے باشندے بتاتے ہیں کہ مذکورہ ہدایت کی کوئی تعمیل زمینی سطح پر نہیں ہوئی ہے۔

Kanabhai Baladhiya outside a Primary Health Centre in Shiyal Bet. He says, 'I have to get on a boat every time I need to see a doctor'
PHOTO • Parth M.N.

شیال بیٹ میں واقع ایک ابتدائی طبی مرکز کے باہر بیٹھے کانا بھائی بالدھیا۔ وہ کہتے ہیں، ’مجھے ہر بار ڈاکٹر کو دکھانے کے لیے، کشتی کے ذریعے سفر کرنا پڑتا ہے‘

Hansaben Shiyal is expecting a child and fears she won’t get to the hospital on time
PHOTO • Parth M.N.

ہنسا بین شیال حاملہ ہیں، اور انہیں یہ خوف ستاتا رہتا ہے کہ وہ وقت پر اسپتال نہیں پہنچ پائیں گی

کانا بھائی بالدھیا، جو پہلے خود ایک ماہی گیر تھے، کہتے ہیں کہ اپنے گھٹنے میں لگاتار رہنے والے درد کا علاج کرانے کے لیے انہیں جعفر آباد یا راجولا جانا پڑتا ہے۔ تقریباً ۷۵ سال کے بالدھیا بتاتے ہیں، ’’یہاں کا طبی مرکز اکثر بند رہتا ہے۔ عدالت نے پتہ نہیں کیا سوچ کر، یہاں ہفتہ میں پانچ دن کے لیے ہی ڈاکٹر کو بھیجا ہوگا، گویا ہفتہ کے آخر میں لوگ بیمار نہیں پڑتے ہیں۔ لیکن یہاں تو کام کاج والے دنوں میں بھی بری حالت ہی رہتی ہے۔ مجھے تو جب بھی ڈاکٹر سے ملنا ہوتا ہے، تب کشتی سے ہی جانا پڑتا ہے۔‘‘

حاملہ عورتوں کو تو کہیں زیادہ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہنسا بین شیال کے حمل میں آٹھ مہینے کا بچہ ہے اور حمل کے دوران صحت سے متعلق مسائل کے سبب انہیں ہفتہ میں تین بار جعفر آباد واقع استپال جانا ہوتا ہے۔ انہیں اچھی طرح اپنے پیٹ کا وہ خطرناک درد یاد ہے، جب وہ چھ مہینے کی حاملہ تھیں۔ رات ہوئے بہت دیر ہو چکی تھی اور اس دن کے لیے پھیری سروس کو بند ہوئے کئی گھنٹے گزر چکے تھے۔ انہوں نے کسی طرح رات کاٹنے اور صبح ہونے کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ بہت خطرناک اور فکرمندیوں میں ڈوبی ہوئی رات تھی۔

صبح کے چار بجنے کے بعد ہنسا بین کے لیے برداشت کرنا مشکل ہو گیا۔ انہوں نے ایک کشتی چلانے والے کو بلایا۔ وہ اتنا رحم دل تھا کہ ان کی مدد کرنے کے لیے راضی ہو گیا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’حمل کے دوران درد میں مبتلا ہوتے ہوئے کشتی پر سوار ہونا اور اس سے اترنا ایک بہت ہی تکلیف دہ کام ہے۔ کشتی کبھی بھی مستحکم حالت میں نہیں رہتی ہے۔ آپ کو ان کے ڈگمگانے کے ساتھ توازن بنانا پڑتا ہے۔ ایک چھوٹی سی غلطی سے بھی آپ پانی میں گر سکتے ہیں۔ یہ کم و بیش تنی ہوئی رسی پر چلنے جیسا مشکل کام ہے۔‘‘

بہرحال، جب وہ کشتی پر کسی طرح بیٹھیں، تب ان کی ساس منجو بین (۶۰ سالہ) نے ایمبولینس سروس کو فون کیا۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہمیں لگا کہ ایمبولینس کو تھوڑا پہلے بلا لینے سے ہمارا وقت بچے گا۔ لیکن انہوں نے ہمیں جعفر آباد بندرگاہ پہنچنے کے بعد پھر سے فون کرنے کے لیے کہا۔‘‘

اس کا مطلب تھا کہ انہیں اسپتال تک پہنچنے کے لیے بندرگاہ پر ۷-۵ منٹ تک مزید انتظار کرنا پڑا تھا، جب تک کہ ایمبولینس آئی اور انہیں اسپتال لے جانے کے لیے روانہ ہوئی۔

Passengers alighting at Shiyal Bet (left) and Jafrabad ports (right)
PHOTO • Parth M.N.
Passengers alighting at Shiyal Bet (left) and Jafrabad ports (right)
PHOTO • Parth M.N.

شیال بیٹ (بائیں) اور جعفر آباد (دائیں) بندرگاہوں پر اتر رہے مسافر

ہنسا بین اس پورے سفر کے دوران بری طرح ڈر گئی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’مجھے یہی لگ رہا تھا کہ میں اپنی ڈیلیوری کے لیے وقت پر اسپتال نہیں پہنچ پاؤں گی۔ مجھے لگتا تھا کہ میں کشتی سے گر جاؤں گی، دوسری طرف میں درد سے الگ بے حال تھی۔ میں اپنے گاؤں کی ان عورتوں کے بارے میں جانتی تھی جو وقت پر اسپتال نہیں پہنچ پانے کے سبب جان سے ہاتھ دھو بیٹھی تھیں۔ مجھے ایسے معاملوں کی جانکاری تھی، جب بچے کو نہیں بچایا جا سکا تھا۔‘‘

عرضی گزار کی مدد کرنے والے کارکن اور وکیل اروند بھائی کہتے ہیں کہ طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے سبب گزشتہ برسوں میں شیال بیٹ سے نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی تعداد بہت تیزی سے بڑھی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’آپ کو ایسے خاندان ملیں گے جنہوں نے اپنا سب کچھ بیچ دیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر خاندان ایسے ہیں جو طبی سہولیات کی کمی کے سبب کئی بڑے حادثات کا سامنا کر چکے ہیں۔ ایسے تمام لوگ اب ساحلی علاقوں میں رہنے لگے ہیں اور طے کر لیا ہے کہ وہ دوبارہ واپس نہیں لوٹیں گے۔‘‘

ایک قسم گابھی بین نے بھی کھائی ہے، جب کہ وہ ساحلی علاقہ میں رہتی ہیں – ان کی فیملی کی اگلی نسل اپنا پشتینی کاروبار ہمیشہ کے لیے چھوڑ دے گی۔ جیون بھائی کی موت کے بعد، وہ دوسرے ماہی گیروں کے لیے یومیہ مزدوری پر مچھلیوں کو سُکھانے کا کام کرتی ہیں۔ یہ محنت کا کام ہے، جس کے عوض انہیں روزانہ صرف ۲۰۰ روپے ملتے ہیں۔ وہ اپنی آمدنی کا ایک ایک پیسہ اپنے ۱۴ سال کے بیٹے روہت پر خرچ کرتی ہیں، جو جعفر آباد کے ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھتا ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ بڑا ہو کر وہ جو بننا چاہے وہ بنے، بس ماہی گیر نہ بنے۔

گابھی بین کو اس بات کی بھی فکر نہیں ہے کہ بڑا ہو کر روہت ان کو بڑھاپے میں جعفر آباد میں اکیلا چھوڑ کر کہیں اور نہ بس جائے۔ جعفر آباد میں ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں ہے جو اپنے برے خوابوں کے ساتھ اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ ان لوگوں میں سے ایک گابھی بین بھی ہیں۔

پارتھ ایم این ایک آزاد صحافی ہیں جو ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن کے گرانٹ کے ذریعہ صحت عامہ اور شہری آزادی کے موضوعات پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن نے اس رپورٹ کے مواد پر کسی طرح کا ادارتی کنٹرول استعمال نہیں کیا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Editor : Sangeeta Menon

Sangeeta Menon is a Mumbai-based writer, editor and communications consultant.

Other stories by Sangeeta Menon
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez