ساحلی آندھرا پردیش کے کوٹاپلیم گاؤں کے بَنتو درگا راؤ کے ناریل کے باغ کا وجود جلد ہی مٹ سکتا ہے۔ ان کی ایک ایکڑ زمین سریکاکولم ضلع کے ان تین گاؤوں – کوٹاپلیم، کوواڈا، مروواڈا (اور ان کی دو بستیوں، گڈیم اور ٹیکّلی) کی ۲۰۷۳ ایکڑ اراضی کا حصہ ہے، جسے ضلع انتظامیہ نیوکلیئر پاور کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ (این پی سی آئی ایل) کے مجوزہ پلانٹ کے لیے اپنی تحویل میں لے رہی ہے۔

لیکن مئی ۲۰۱۷ میں درگا راؤ نے آندھرا پردیش گرامین وکاس بینک سے ۶۰ ہزار روپے کا قرض لیا تھا۔ وہ حیران ہوکر پوچھتے ہیں، ’’ایک طرف تو بینک زرعی قرضے دے رہے ہیں اور دوسری طرف محکمہ محصولات کے حکام دعویٰ کر رہے ہیں کہ سروے نمبر ۳۳ [جہاں ان کی زمین ہے] پانی کا ایک چشمہ ہے۔ دونوں ہی سرکاری ادارے ہیں۔ اب دونوں سچ کیسے ہو سکتے ہیں؟‘‘

ماحولیاتی تحفظ کی تربیت اور تحقیق کا ادارہ (انوائرمنٹ پروٹیکشن ٹریننگ اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ)، حیدرآباد کے ذریعہ جنوری ۲۰۱۷ کی سماجی اثرات کا تخمینہ (سوشل اِمپیکٹ اسیسمنٹ) رپورٹ کے مطابق پاور پلانٹ سے کسانوں اور ماہی گیروں کے تقریباً ۲۲۰۰ خاندانوں کے بے گھر ہونے کا اندیشہ ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق دلت اور او بی سی برادری سے ہے۔ رپورٹ میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اس منصوبے پر ۴ لاکھ کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔

رنستھلم بلاک کے تین گاؤوں اور دو بستیوں میں اراضی کی تحویل کا عمل ۲۰۱۱ میں شروع ہوا تھا اور ۲۰۱۴ کے عام انتخابات کے بعد اس میں تیزی آئی تھی۔ لیکن مارچ ۲۰۱۸ میں ریاست کی حکمراں تیلگو دیشم پارٹی نے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (ین ڈی اے) حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی، اور چونکہ این پی سی آئی ایل مرکزی حکومت کی ایجنسی ہے، اس لیے کوٹاپلیم کے سرپنچ سنکر دھننجے راؤ کے مطابق، ’’اس منصوبے کی تکمیل میں مزید تاخیر ہو گی۔‘‘

اس صورتحال نے گاؤں والوں کی بے یقینی اور الجھن میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

Myalapilli Kannamba (here with her son),
PHOTO • Rahul Maganti
Bantu Durga Rao and Yagati Asrayya with their passbooks in front of Durga Rao's house in Kotapalem
PHOTO • Rahul Maganti

بائیں: مایلاپلّی کنّمبا (یہاں اپنے بیٹے کے ساتھ) حیرت ظاہر کرتے ہیں کہ اگر وہ بے گھر ہوگئے تو ان کے پھوس کے چھپر والے مکانات کو دوبارہ تعمیر کرنے میں کتنے سال لگیں گے۔ دائیں: درگا راؤ اور یگتی اَسریہّ دونوں اپنی ایک ایک ایکڑ زمین سے محروم ہو جائیں گے، اور انہیں اس بات پر بھی حیرانی ہے کہ بینک (جن کی پاس بک وہ مجھے دکھاتے ہیں) اب بھی انہیں اس زمین پر قرض کیسے دے رہے ہیں

دھننجے راؤ کہتے ہیں، ’’[تین گاؤوں کی ۲۰۷۳ ایکڑ اراضی کو تحویل میں لینے کے لیے نقد معاوضے کے طور پر] درکار ۲۲۵ کروڑ روپے میں سے حکومت نے صرف ۸۹ کروڑ روپے منظور کیے ہیں۔‘‘ اورگاؤں والوں کی شکایت ہے کہ جو رقم انہیں دی جا رہی ہے وہ زمین کی بازار میں ملنے والی قیمت سے بہت کم ہے۔

۵۸ سالہ بدی کرشنا زور دے کر کہتے ہیں، ’’مجھے ۱۵ لاکھ فی ایکڑ کے حساب سے معاوضہ ادا کیا گیا، جبکہ ہم نے ۳۴ لاکھ روپے فی ایکڑ کا مطالبہ کیا تھا، یہ رقم ۳۵ کلومیٹر دور بھوگا پورم ہوائی اڈے کے لیے تحویل میں لی گئی زمین کے معاوضے کی رقم کے برابر تھی۔ اور چنئی-کولکاتا قومی شاہراہ سے قربت کی وجہ سے یہاں زمین کی قیمت تقریباً ۳ کروڑ روپے فی ایکڑ ہے۔‘‘ کرشنا کوواڈا (مردم شماری میں جیروکووواڈا کے طور پر درج) میں تین ایکڑ محصولاتی اراضی کے مالک ہیں جس پر وہ ناریل، کیلا اور چیکو اگاتے ہیں۔

تحویل اراضی، باز آباد کاری اور باز رہائش قانون، ۲۰۱۳ (ایل اے آر آر) کے مطابق، خطہ میں گزشتہ ایک سال کے دوران زمین کی خرید و فروخت کی اوسط قیمت کی بنیاد پر ہی معاوضے کا حساب لگایا جانا چاہیے۔ دراصل، اس ضابطہ قانون پر عمل نہیں کیا گیا اور ضلعی انتظامیہ نے ۱۸ لاکھ روپے کی معاوضے کی رقم کا اعلان کر دیا۔ اس پر طرہ یہ کہ جہنیں پیسے ملے ہیں انہیں بھی پوری رقم نہں ملی ہے۔ مقامی سماجی کارکنوں کے اندازے کے مطابق، ۲۰۷۳ ایکڑ میں سے صرف ۲۰ سے ۳۰ فیصد اراضی کا معاوضہ ادا کیا گیا ہے۔

A notice from Revenue Divisional Officer, Srikakulam saying that Bantu Durga Rao was allotted land as per the Andhra Pradesh Land Reforms (Ceilings on Agricultural Holdings) Act, 1973
PHOTO • Rahul Maganti

ریونیو ڈویژنل آفیسر کی طرف سے جاری ایک نوٹِس، جس میں کہا گیا ہے کہ درگا راؤ کو یہ زمین ۱۹۷۳ میں الاٹ کی گئی تھی

۲۰۷۳ ایکڑ میں سے ۱۸ ایکڑ زمین کا وہ حصہ بھی شامل ہے جو بشمول درگا راؤ کے کوٹاپلیم کے ۱۸ دلت خاندانوں کی ملکیت ہے۔ خیال رہے کہ آندھرا پردیش اصلاح اراضی (زرعی اراضی کی  سیلنگ) قانون، ۱۹۷۳ کے تحت ہر خاندان کو ایک ایکڑ زمین دی گئی تھی۔ انہیں ڈی فارم پٹّے دیے گئے تھے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس زمین کی خرید و فروخت غیر قانونی ہے۔ یہ زمین صرف خاندان کے اندر ہی وارثین کو مل سکتی ہے۔

کوٹاپلیم کے ۵۵ سالہ کسان یگتی اسریّہ کہتے ہیں، ’’جب ہمیں یہ زمین ملی تو ہمارے پاس کاشت کاری کے لیے سرمایہ نہیں تھا۔ آبپاشی کی کوئی سہولت نہیں تھی، پانی کا واحد ذریعہ بارش تھی۔ ہمارے پاس بورویل کے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔ لہذا، ہم نے  کپو اور کمّا [اونچی ذات] کے کسانوں کو اپنی زمینیں بٹائی پر دے دیں۔ وہ وہاں بورویل لگا کر ۲۰۱۱ تک کاشتکاری کرتے رہے۔‘‘ اسریّہ اس علاقے میں ایک ایکڑ زمین کے مالک ہیں۔ اس مدت کے دوارن وہ اور ان کے گاؤں کے دوسرے چھوٹے زمین مالکان زرعی مزدوروں کے طور پر کام کرتے رہے۔

جب مجوزہ پاور پلانٹ کی تعمیر کی خبریں آنا شروع ہوئیں، تو اپنی زمین کھو دینے کے خوف سے، کئی زمین مالکان نے خود ہی کاشت کاری سنبھال لی۔ لیکن ان کا الزام ہے کہ کئی معاملوں میں محمکہ محصولات اعلیٰ ذات کے کسانوں کو معاوضہ دے رہا ہے، ’’جبکہ ہمیں یہ بتایا جا رہا  ہے کہ ہمیں معاوضہ نہیں مل سکتا، کیونکہ ہماری زمینیں پانی کے ایک چشمے کا حصہ ہیں،‘‘ ۳۵ سالہ ڈونگا اپّا راؤ کہتے ہیں، جو درگا راؤ کے پلاٹ سے متصل ایک ایکڑ زمین کے مالک ہیں۔

یہاں تک کہ ایل اے آر آر قانون کی دیگر شرائط، جیسے فی خاندان ۸ء۶ لاکھ روپے کا یک مشت آر اینڈ آر (باز آباد کاری اور باز رہائش) پیکیج کا بندوبست اور مکانات، کشتیوں، جالوں، درختوں اور مویشیوں کی قیمت کے تعین اور معاوضے، پر بھی کارروائی نہیں ہوئی۔ کوواڈا کے رہنے والے ۵۶ سالہ مایلاپلی کنّمبا پوچھتے ہیں، ’’ہو سکتا ہے ہمارے پاس صرف پھوس کے گھر ہوں، لیکن ہمارے پاس ایسے پانچ گھر ہیں۔ ہم روز بہ روز بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں۔ ان گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنے میں کتنے سال لگیں گے؟‘‘

کوواڈا نیوکلیئر پاور پلانٹ، جس کی صلاحیت ۷۲۴۸ میگاواٹ ہوگی، ایسا پہلا پلانٹ ہے جو ۲۰۰۸ کے ہند-امریکہ سول نیوکلیئر معاہدے کے تحت نصب کیا جا رہا ہے۔ اس پلانٹ کو پہلے گجرات کے بھاؤ نگر ضلع کے تلجا تعلقہ میں واقع مٹھی وردی گاؤں میں لگایا جانا تھا۔ لیکن وہاں کے کسانوں نے کئی برسوں تک احتجاج کیا اور اسے دوسری جگہ منتقل کرانے میں کامیاب رہے۔ اب یہ پلانٹ کوواڈا میں آ گیا ہے۔

حکومت ہند کی مربوط توانائی پالیسی ، ۲۰۰۶ کے مطابق، ملک ۲۰۳۲ تک ۶۳۰۰۰ میگاواٹ کی جوہری توانائی کی منصوب صلاحیت حاصل کر لے گا، فی الحال سات جوہری پاور پلانٹس میں ہندوستان کی کل منصوب صلاحیت ۶۷۸۰ میگاواٹ ہے۔ توانائی کے مجوزہ ہدف میں سے ۳۰۰۰۰ میگاواٹ صلاحیت کے پلانٹ آندھرا پردیش کے ساحل پر تقریباً چار مختلف مقامات پر نصب کیے جائیں گے۔ فی الحال، صرف کوواڈا پروجیکٹ پر پیش رفت ہو رہی ہے، جبکہ نیلور ضلع میں کوَلی شہر کے قریب جوہری پلانٹ کے لیے زمین کے حصول کا عمل جاری ہے۔

Government officials conducting public hearing in December 2016 which witnessed widespread protests by the villagers
PHOTO • Rajesh Serupally
Coconut and banana plantations interspersed with each other (multi cropping) in the same field in Kotapalem. All these lands are being taken for the construction of the nuclear power plant
PHOTO • Rajesh Serupally

بائیں: دسمبر ۲۰۱۶ میں سرکاری اہلکاروں نے ایک عوامی سماعت کی جہاں گاؤں والوں نے سخت احتجاج کیا۔ دائیں: پانچ دیہات کے تقریباً ۲۰۰۰ خاندان اپنی زمینوں، فصلوں، اورکوٹاپلیم جیسے ناریل اور کیلے کے باغات سے محروم ہو جائیں گے

یہ ایسا وقت ہے جب، ورلڈ نیوکلیئر انڈسٹری اسٹیٹس رپورٹ ، ۲۰۱۷ کے مطابق، دنیا کے کئی حصوں میں زیر تعمیر ری ایکٹروں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روس، امریکہ، سویڈن اور جنوبی کوریا نے گزشتہ چار سالوں میں کئی ری ایکٹر بند کر دیے ہیں۔

اس کے علاوہ، ابوظہبی میں واقع بین الاقوامی قابل تجدید توانائی ایجنسی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ قابل تجدید توانائی کی قیمتوں میں گزشتہ چند سالوں کے دوران کمی واقع ہوئی ہے۔ اگر آندھرا پردیش کو مزید بجلی کی ضرورت ہے، تو ریاست ایٹمی اور تھرمل توانائی کی بجائے توانائی کی قابل تجدید شکلوں میں سرمایہ کاری کر سکتی ہے۔

ان رجحانات کے برخلاف ہندوستان کی توانائی کی پالیسی میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملک کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جوہری توانائی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ تاہم حکومت آندھرا پردیش کے توانائی، بنیادی سہولیات اور سرمایہ کاری محکمہ کے پرنسپل سکریٹری اجے جین نے اپریل ۲۰۱۷ میں دی ہندو اخبار سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ آندھرا پردیش کے پاس اس کی ضرورت سے زیادہ بجلی ہے۔ اس کی بجلی کی روزانہ کی پیداواری صلاحیت ۲۰۰ ایم یو (ملین یونٹ) ہے، جب کہ اس کی اوسط مانگ  ۱۷۸ ایم یو ہے۔ جب اس رپورٹر نے مرکزی محکمہ توانائی، وزارت بجلی کے سابق سکریٹری ڈاکٹر ای اے ایس شرما سے بات کی تو انہوں نے کہا، ’’ایک ایسی ریاست جو پہلے سے ہی اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرتی ہے، وہاں آپ کو اتنے جوہری ری ایکٹر لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟‘‘

بہرحال، کوواڈا  نیوکلیئر پاور پلانٹ کے سابق پروجیکٹ ڈائرکٹر اور این پی سی آئی ایل کے سابق چیف انجینئر جی وی رمیش مجھے بتاتے ہیں، ’’فی میگاواٹ جوہری بجلی پیدا کرنے کے لیے ہم ۲۴ کروڑ روپے خرچ کریں گے اور یہ بجلی ۶ روپے فی کلو واٹ گھنٹے کی رعایتی قیمت پر عوام کو فراہم کریں گے۔‘‘

Fishermen in Kovadda hope the move will at least make fishing sustainable again, unaware that the nuclear power waste could further destroy the water
PHOTO • Rahul Maganti

اس حقیقت سے بے خبر کہ جوہری توانائی کا فضلہ پانی کو مزید تباہ کر سکتا ہے، کوواڈا کے ماہی گیروں کو امید ہے کہ یہ اقدام ماہی گیری کو دوبارہ پائیدار بنائیں گے

لیکن سائنس داں اپنے مطالعوں میں کچھ الگ دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ حیدرآباد میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل ٹیکنالوجی کے سابق ڈپٹی ڈائرکٹر، ڈاکٹر کے بابو راؤ کہتے ہیں، ’’اس سے پہلے، این پی سی آئی ایل نے کہا تھا کہ وہ ایک روپیہ فی کلو واٹ گھنٹے کے لحاظ سے  جوہری توانائی فراہم کریں گے اور اب اسے بڑھا کر ۶ روپے کر دیا ہے۔ وہ صریح جھوٹ بول رہے ہیں۔ پہلے سال کی قیمت ۸۰ء۱۹ روپے سے لے کر ۷۷ء۳۲ روپے فی کلو واٹ گھنٹے تک ہوگی۔‘‘ ڈاکٹر راؤ نے امریکہ کے کلیولینڈ میں واقع انسٹی ٹیوٹ آف انرجی اکنامکس اینڈ فائنانشیل اینالیسس کے مارچ ۲۰۱۶ کے مطالعے سے اعداد و شمار کا حوالہ دیا ہے۔

اس کے علاوہ، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکس وادی) کے ریاستی سکریٹریٹ کے رکن نرسنگا راؤ کا کہنا ہے کہ ایٹامک انرجی ریگولیشن بورڈ (اے ای آر بی) نے ابھی تک کوواڈا میں جوہری پلانٹ کے لیے سائٹ کی منظوری نہیں دی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’اور پروجیکٹ حکام نے ابھی تک وزارت ماحولیات اور آندھر پردیش آلودگی کنٹرول بورڈ سے کلیئرنس کے لیے درخواست نہیں دی ہے۔ جنرل الیکٹرک، جسے ۲۰۰۹ کے معاہدے کے مطابق اس سودے پر عمل درآمد کرنا تھا، اب پیچھے ہٹ گئی ہے۔ ویسٹنگ ہاؤس الیکٹرک کمپنی دیوالیہ ہو چکی ہے اور اس منصوبے کے قابل عمل ہونے کو لے کر گومگو میں مبتلا ہے۔ اگر اے ای آر بی اور ڈبلو ای سی ابھی تک اس پروجیکٹ کے لیے تیار نہیں ہیں، تو وزیر اعظم کا دفتر اور آندھرا پردیش کی حکومت زمین کی تحویل پر کیوں بضد ہیں؟‘‘

جب کہ اراضی کی تحویل جاری ہے، کوواڈا کے شمال میں تقریباً ۳۰ کلومیٹر کے فاصلے پر ایچیرلا منڈل کے دھرماورم گاؤں میں ۲۰۰ ایکڑ زمین پر ایک ٹاؤن شپ تعمیر کی جاری ہے۔ جب پاور پلانٹ کی تعمیر شروع ہوگی اور پانچ گاؤوں کے خاندان بے گھر ہو جائیں گے تو ان سب کو اس ٹاؤن شپ میں آباد کرنے کا منصوبہ ہے۔

کوواڈا کے ۴۲ سالہ ماہی گیر مایلاپلی رامو، جو نقل مکانی کا انتظار کر رہے ہیں، امید کرتے ہیں کہ اس اقدام سے ماہی گیری دوبارہ پائیدار ہو جائے گی (دیکھیں: کوواڈا: فارما کمپنیوں کے فضلے سے مرتیں مچھلیاں )۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم اب یہاں [کوواڈا کے ساحل پر] دواؤں کی صنعتوں کے ذریعہ پھیلائی گئی پانی کی آلودگی کی وجہ سے مچھلی نہیں پکڑ سکتے۔ چونکہ دھرماورم بھی ساحل کے قریب ہے، اس لیے وہاں جانے کے بعد ہم ماہی گیری دوبارہ شروع کر سکتے ہیں۔‘‘  انہیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ نیوکلیئر پاور پلانٹ کی وجہ سے پانی کی آلودگی کا اثر پورے خطے میں دواسازی کی آلودگی سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔

نیوکلیئر پاور پلانٹ کی وجہ سے بے گھر ہونے کی صورت میں منصفانہ اور قانونی معاوضے کی مانگ کو لے کر گاؤں کے کچھ لوگ اب حیدرآباد میں واقع آندھرا پردیش ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

مترجم: شفیق عالم

Rahul Maganti

Rahul Maganti is an independent journalist and 2017 PARI Fellow based in Vijayawada, Andhra Pradesh.

Other stories by Rahul Maganti
Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Shafique Alam
shafique.aalam@gmail.com

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam