دیہی ہندوستان کی خستہ حالی قحط سے بھی کہیں زیادہ خوفناک ہے۔ مثال کے طور پر، مراٹھواڑہ میں پانی کا مسئلہ موسمیاتی سائنس کی ناکامی یا ماحولیاتی چیلنجز تک محدود نہیں رہ گیا ہے۔ اس اسٹوری میں آگے جنوری ۲۰۱۵ سے مارچ ۲۰۱۵ کے درمیان ٹائمز آف انڈیا میں پرینکا کاکودکر کی قسط وار شائع ہونے والی بیحد شاندار رپورٹ پیش کی جا رہی ہیں۔ ان رپورٹوں میں واقعات، طریقہ کار اور منصوبوں کو زنجیر کی طرح جوڑتے ہوئے ایک مختصر پڑتال کی گئی ہے۔ ان کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم بحرانوں کے ایک لامتناہی سلسلے سے لگاتار نبرد آزما لوگوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے پاتے ہیں، جن میں سے بہت سے لوگ بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی وجہ سے حالات کے سامنے سپر ڈالتے ہوئے کوئی بھی کام کرنے کو مجبور ہوئے۔ یہ ایک ایسی ریاست کی بات ہے جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم نہ جانے کتنے بالغ افراد مرکزی حکومت کی تضادات سے پُر ’انّ پورنا یوجنا‘ کے بعد بھوک مری کو اب ایک اور بڑے سانحہ میں بدلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

رپورٹ کی یہ ۱۶ قسطیں بڑھتی ہوئی کسانوں کی خودکشی، گھٹتی ہوئی پیداوار، اور دیہی علاقوں میں لوگوں کو مجبوری میں دھکیل رہی بورویل کھدائی کے پاگل پن کو خوفناک تصویر کی طرح سامنے لے آتی ہیں۔ سرکاری تھنک ٹینک کی ناکامی نے ’ڈائریکٹ کیش ٹرانسفر‘ کی پالیسی کے سبب لاکھوں کسانوں کو معاوضہ سے بھی دور کر دیا ہے، کیوں کہ ان کے نام کا بینک میں کوئی اکاؤنٹ نہیں ہے۔ بے موسم برسات سے لے کر بڑھتے قرض جیسے سنگین مسائل پر سرکاری عہدیداروں کا ردعمل کسی برے خواب کی طرح جھانکتا اور موجود نظر آتا ہے۔ ان رپورٹوں میں مہاراشٹر کی سینچائی کے مسئلہ کو ایک بار دیکھنے اور پھر آنکھیں موند لینے سے لے کر، گنّے کی زبردست پیداوار اور قیمتوں میں لگاتار آ رہی گراوٹ تک سب کچھ درج ہے۔

قسط وار لکھی گئی ان بہترین رپورٹوں میں، زمینی حقیقت کو اعداد و شمار اور تحقیقی مطالعوں سے جوڑتے ہوئے ان کی پڑتال پیش کی گئی ہے۔ ان سے یہ مطالعاتی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ بڑے زرعی تجارتوں کی وجہ سے ’ایگریکلچرل کریڈٹ‘ کا ایک بڑا حصہ کنارے لگا دیا جاتا ہے اور یہ لگاتار گھٹتے ہوئے چھوٹے کسانوں کی مشکلوں کو مزید بڑھا دیتا ہے۔

اب رپورٹ پڑھئے…

پی سائی ناتھ

کسانوں کی خودکشی، گھٹتی قیمتیں، بڑھتا قرض اور ایک ایسا بحران جسے انسانوں نے خود دعوت دی ہے…

قحط اور اس کے بعد: مہاراشٹر کی ایک خوفناک کہانی

دیہی ہندوستان کی خستہ حالی پر ٹائمز آف انڈیا میں شائع پرینکا کاکودکر کی قسط وار رپورٹ

رپورٹ ۱ : مرکزی حکومت کی تضادات سے پُر ’انّ پورنا یوجنا‘ نے مہاراشٹر جیسی خوشحال ریاست میں تقریباً ۸۰ ہزار بزرگ لوگوں کو بھوک مری کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اس کی وجہ سے پیدا ہوئی بدحالی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

رپورٹ ۲ : مہاراشٹر میں اب پانی کے مسئلہ سے تقریباً ۹۰ لاکھ کسان متاثر ہیں۔ یہ تعداد سویڈن کی تقریباً پوری آبادی جتنا ہے۔

رپورٹ ۳ : فصلوں کی پیداوار میں بھاری کمی اور قحط کے بحران نے ریاست کے بڑے زرعی بازاروں میں سپلائی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

Man herding cattle
PHOTO • Priyanka Kakodkar

رپورٹ ۴ : ریاستی حکومت کے محکمہ محصولات کے اعداد و شمار (این سی آر بی کے اعداد و شمار مزید خوفناک تصویر ہی پیش کریں گے) اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ کسان کی خودکشیوں کے گراف میں ۴۰ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ ۵ : صرف گھڑے بھر پانی کے لیے گھنٹوں پسینہ بہانا پڑتا ہے۔ اس لیے، صرف کچھ لیٹر پانی کے لیے، یہ لوگ وہ سب کرتے ہیں جو کر سکتے ہیں۔ زندہ رہنے کے لیے پانی کے ٹینکروں پر انحصار لوٹ آیا ہے۔

رپورٹ ۶ : جسمانی معذوری کی وجہ سے مشکلوں کے دور سے گزرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد میں نقل مکانی ہوئی ہے؛ ۷۲ سال یا اس کے آس پاس کی عمر کے لوگ بھی مراٹھواڑہ میں جی توڑ محنت کرنے کو مجبور ہیں۔

رپورٹ ۷ : مہاراشٹر کے ’جل پروش‘ وشمبھر جگتاپ نے پانی کی تلاش میں ۴۸ جگہوں پر بورویل کی کھدائی کی ہے۔ پانی کی تلاش میں وہ خود کہیں ڈوبے ہوئے سے ہیں، لیکن وہ چیز پانی نہیں ہے۔

رپورٹ ۸ : سرکاری تھنک ٹینک کی ناکامی نے ’ڈائریکٹر کیش ٹرانسفر‘ کی پالیسی کے سبب لاکھوں کسانوں کو معاوضہ سے بھی دور کر دیا ہے، کیوں کہ ان کے نام کا بینک میں کوئی اکاؤنٹ نہیں ہے۔

Farmers facing drought

رپورٹ ۹ : حکومت مہاراشٹر کو جیسے یہ لگتا ہے کہ بیمہ اسکیمیں کسانوں کی خودکشی میں کمی پیدا کریں گی۔ موجودہ حالات میں اگر دیکھیں، تو اس کا مطلب بس پریمیم بڑھنے جیسا ہوگا (جو کہ عوام کے پیسے سے حکومت ادا کرے گی)۔ اور کوئی بھی بیمہ کمپنی خودکشی کے بعد بیمہ کی رقم ادا نہیں کرتی، اس لیے پریمیم بھی ہاتھ سے چلا جاتا ہے۔

رپورٹ ۱۰ : کھیتی کے لیے ملنے والے قرض کا ایک بڑا حصہ کسانوں کو نہیں ملتا۔ مہاراشٹر میں زرعی لون کا تقریباً ۴۴ فیصد درج فہرست کمرشیل بینکوں کی شہری اور میٹروپولیٹن شاخوں سے دیا جاتا ہے۔ دیہی علاقوں کی شاخوں کی شرح ۳۰ فیصد ہی ہے۔

رپورٹ ۱۱ : چھوٹے یا اوسط درجے کے کسانوں کی کریڈٹ میں حصہ داری پورے ملک میں بیحد کم ہوئی ہے۔ چھوٹے کسانوں کے معاملے میں ۲۵ ہزار روپے سے کم کے لون کے فیصد میں بھاری کمی آئی ہے۔ بلکہ ایک کروڑ یا اس سے زیادہ کے لون ہی ایگریکلچرل کریڈٹ کو دوسری زندگی عطا کر رہے ہیں۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ قرض کسے دیا جائے گا۔

رپورٹ ۱۲ : مہاراشٹر میں پانی اور سینچائی کے مسئلہ کو دور کرنے کے نام پر تقریباً ۷۰ ہزار چھوٹے پروجیکٹ چل رہے ہیں، جن کی لاگت ۴۶۰۰ کروڑ روپے کے آس پاس ہے۔ لیکن، ان کا کوئی خاص استعمال دیکھنے کو نہیں ملتا۔ مہاراشٹر کے ۱۵-۲۰۱۴ کے اقتصادی سروے کے حساب سے، اصل میں، ان کی استعداد کا صرف ۱۲ فیصد استعمال ہی ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔

PHOTO • Priyanka Kakodkar

رپورٹ ۱۳ : مہاراشٹر میں اس سال جنوری سے مارچ کے دوران ہی ۶۰۱ کسانوں نے خودکشی کی ہے۔ اس سے، روزانہ ۷ کسانوں کی خودکشی کی ہولناک تصویر سامنے آتی ہے۔ یہ اعداد و شمار حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے ہیں۔

رپورٹ ۱۴ : حکومت مہاراشٹر کا یہ دعویٰ ہے کہ بے موسم برسات کی وجہ سے پیدا ہوئی بدحالی کے سبب تین کسانوں نے خودکشی کی ہے۔

رپورٹ ۱۵ : حکومت مہاراشٹر ’صرف تین کسانوں کی خودکشی‘ کے اپنے دعوے کا دفاع کرتی نظر آتی ہے۔ حکومت کی دلیل ہے کہ صرف تین کسانوں نے سوسائڈ نوٹ لکھا ہے اور اس میں بے موسم برسات اور اس کے بعد کی بدحالی کو وجہ بتایا ہے۔

رپورٹ ۱۶ : بیف پر پابندی کے دو مہینے بعد بھی حکومت مہاراشٹر نے مویشیوں کے لیے ایک بھی باڑے کا انتظام نہیں کیا ہے۔ یہ حالت پہلے سے جدوجہد کر رہے کسانوں کے لیے آگ میں گھی جیسا کام کر رہی ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez