کربھاری رام راؤ جادھو کی کنواں کھودنے کے لیے درخواست تین سال پہلے منظور ہو گئی تھی۔ اس کے لیے، انھیں ضلع انتظامیہ سے ۲ لاکھ ۹۹ ہزار روپے کی سبسڈی ملنی تھی۔ بجائے اس کے، وہ کہتے ہیں، ’’میں نے وہ پیسہ کبھی نہیں دیکھا ہے اور اسے خود سے کھودنے کی کوشش میں اب تک ڈیڑھ لاکھ روپے کا قرضدار ہو چکا ہوں۔‘‘

۴۸ سالہ جادھو، اورنگ آباد کے پھولمبری تعلقہ کے گنوری گاؤں میں رہتے ہیں۔ وہ اپنے چار ایکڑ کھیت پر کپاس اور بجرا اُگاتے ہیں، جس کے لیے وہ پاس کی پہاڑیوں سے بہنے والے جھرنے سے پانی لیتے ہیں۔ لیکن مراٹھواڑہ علاقے میں قحط ایک عام بات ہے، اور جادھو نے سوچا تھا کہ خود ان کا کنواں ان کے کھیت اور مویشیوں کی رکھوالی میں مدد کرتا رہے گا۔

اس لیے انھوں نے سال ۲۰۱۳ کے شروع میں ایک درخواست جمع کی۔ اس کے لیے انھیں اپنی زمین سے متعلق ضروری کاغذات جمع کرنے تھے۔ ان کاغذات کو حاصل کرنے کے لیے، جادھو کئی دفاتر کے چکر لگانے پڑے تھے، یعنی تلاتی (گاؤں کا اکاؤنٹینٹ)، گرام پنچایت، اور پنچایت سمیتی (جو گرام پنچایت اور ضلع پریشد کے درمیان ثالثی کا رول ادا کرتی ہے)۔ ان سب کے دوران انھیں کاغذات اور ضلع پریشد سے ورک آرڈر حاصل کرنے کے لیے رشوت دینے کو کہا گیا۔ ’’ایک کمزور کسان انتظامیہ سے لوہا نہیں لے سکتا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

Karbhari Ramrao Jadhav in his farm

کربھاری رام راؤ جادھو: ’ایک کمزور کسان انتظامیہ سے لوہا نہیں لے سکتا‘

ریاستی حکومت مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی قانون (منریگا) کے تحت اُن کسانوں کو ۲ لاکھ ۹۹ ہزار کی سبسڈی دیتی ہے، جن کی خود کا کنواں کھودنے کی درخواست منظور ہو جاتی ہے۔ کسانوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس پیسے سے مزدوری ادا کریں گے اور پائپ جیسے سامان حاصل کریں گے۔ یہ اخراجات پنچایت سمیتی سے قسطوں میں مانگے جا سکتے ہیں۔

لیکن کام شروع کرنے کے لیے، بلکہ خود اپنی زمین کے کاغذات پانے کے لیے، جادھو کو پیسوں کی ضرورت پڑی۔ وہ ایک مقامی ساہوکار کے پاس گئے، جس نے انھیں ماہانہ ۵ فیصد شرحِ سود پر ۴۰ ہزار روپے دیے، یعنی ۶۰ فیصد سالانہ کے بھاری سود پر۔ ماضی میں قحط کے زمانے میں، جادھو نے بینکوں سے قرض لیے تھے، لیکن کسی پرائیویٹ سورس سے انھوں نے پہلی بار پیسے لیے تھے۔ ’’میں نے ۳۰ ہزار روپے رشوت کے طور پر دے دیے اور کنویں کی ابتدائی تعمیر کے لیے ۱۰ ہزار روپے رکھ لیے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’مجھے امید تھی کہ میں ساہوکار کے پیسے جلد ہی لوٹا دوں گا۔ میں جن لوگوں سے ملا، انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ کام کر دیں گے۔‘‘

فروری ۲۰۱۵ میں، انھیں انتظامیہ کی طرف سے منظوری مل گئی، اور کام شروع کرنے کے لیے جس ورک آرڈر کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی اس کے بعد جلد ہی مل گیا۔ اس سے ان کے اس اعتماد کو تقویت ملی کہ جیسے ہی انھیں منریگا کا فنڈ ملے گا، وہ اپنا قرض چکانے کے قابل ہو جائیں گے۔ لہٰذا، انھوں نے مزدوروں کو کام پر لگایا اور اپنے کھیت کے قریب ہی پوری محنت سے کنواں کھودنا شروع کر دیا۔

لیکن ورک آرڈر ملنے کے باوجود انھیں پنچایت سمیتی سے پیسے نہیں ملے۔ وہ اپنے گھر سے ۱۵ کلومیٹر دور، پھولمبری کے سمیتی آفس پیدل یا پھر ساجھا رکشہ میں بیٹھ کر لگاتار جاتے رہے۔ وہاں پر کسی نے بھی ان کی شکایتوں پر دھیان نہیں دیا۔ جادھو کہتے ہیں، ’’پیسے کے لیے بار بار چکر لگانے سے نہ صرف مجھے پیسوں کا نقصان ہوا، بلکہ اس کی وجہ سے میرے کام کا وقت بھی ضائع ہوتا رہا۔‘‘

دریں اثنا، کنویں کی کھدائی ۲۰ فیٹ تک ہو چکی تھی۔ جادھو کو امید تھی کہ چند اور ہفتوں کی کھدائی کے بعد کنویں میں پانی نکلنا شروع ہو جائے گا۔ لیکن سرکاری پیسہ اب بھی جاری نہیں کیا گیا۔ پیسہ کی اس دیری نے جادھو کے پروجیکٹ کو روک دیا۔ ’’مزدوروں نے کام چھوڑ دیا، اور میں انھیں قصوروار نہیں ٹھہرا رہا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میں ان کے پیسے نہیں ادا کر سکتا تھا۔ پھر وہ کام کیوں جاری رکھتے؟‘‘

نصف تعمیر کردہ کنواں جو جادھو کی جھونپڑی کے قریب پتھروں سے گھرا ہوا ہے انھیں ہر روز قرض، بڑھتی ہوئی شرحِ سود، مزدوری کی لاگت اور گھنٹوں کی محنت جیسے ان کے نقصانات کی یاد دلاتا رہتا ہے، اس کنویں کے لیے جو اَب صرف ایک گڑھا بن کر رہ گیا ہے۔


ویڈیو دیکھیں: ’یہ میرا کنواں ہے، یہ اچانک رک گیا۔۔۔‘

گنوری میں حالانکہ، یہ اسٹوری کوئی انوکھی نہیں ہے۔ یہ گاؤں، ابتدائی اپریل کی تپتی ہوئی دھوپ میں جہاں میلوں تک کھیت پھیلے ہوئے ہیں، اورنگ آباد شہر سے ۳۵ کلومیٹر دور واقع ہے۔ یہ اُن پہاڑیوں کے بیچ میں پھیلا ہوا ہے، جہاں چاروں طرف پانی کے ذرائع ہیں۔ پہاڑیوں سے بہنے والے چشموں نے بہت سے لوگوں کو کنواں کھودنے کے لیے درخواست دینے پر آمادہ کیا۔ سالوں بعد، جادھو جیسے ۱۷ دوسرے کسان اب بھی انتظار کر رہے ہیں۔

موسیٰ نور شاہ کو، جن کے پاس چار ایکڑ زمین ہے، رشوت کے پیسے جمع کرنے کے لیے ایک دوسرے کسان کو اپنی ۱۰ مرغیاں اور چھ بکریاں ۵۰ ہزار روپے میں بیچنی پڑیں۔ ’’میں نے (مختلف لوگوں کو) ۲۰ ہزار روپے ادا کیے، جس کے بعد مجھے ورک آرڈر ملا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میں نے کنویں کی کھدائی شروع کر دی، لیکن انھوں نے اور پیسے مانگے، یہ کہتے ہوئے کہ کاغذات پورے نہیں ہیں۔‘‘

موسیٰ، جو کہ غیر تعلیم یافتہ اور تقریباً ۴۵ سال کے ہیں، کے پاس کنواں کھودنے سے پہلے بینک اکاؤنٹ تک نہیں تھا۔ ’’انھوں نے مجھ سے بینک کھاتہ کھلوانے کے لیے کہا، تاکہ کنویں کا پیسہ سیدھے اس میں ٹرانسفر کر دیا جائے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’میں ریاستی اسکیم پر بھروسہ کرنے کی قیمت چکا رہا ہوں۔ میرے پاس اب قرض زیادہ ہو چکا ہے اور جانور کم بچے ہیں۔ اس نے میرے مالی منصوبوں کو بگاڑ دیا ہے۔ میری بیٹی کی شادی پچھلے ایک سال سے لٹکی ہوئی ہے۔‘‘

Old farmer stuck in debt

موسیٰ نور شاہ: ’میرے پاس اب قرض زیادہ اور جانور کم رہ گئے ہیں‘

ناانصافی سے تنگ آکر، گنوری گاؤں کے ایک کسان کا بیٹا، سنیل روٹھے جس نے کنویں کی کھدائی کے لیے درخواست دی تھی، مارچ میں گاؤں کے گرام سیوک کے دفتر میں گھس کر چیخنے لگا۔ اس سے کہا گیا کہ صرف گنوری گاؤں کے کسانوں نے ہی رشوت نہیں دی ہے، بلکہ ہزاروں دوسرے کسانوں نے بھی دی ہے۔ سنیل نے اس بات چیت کو اپنے اسمارٹ فون پر ریکارڈ کر لیا اور اسے وہاٹس ایپ پر ڈال دیا۔ مقامی نیوز میڈیا نے جب اس مدعے کو اٹھایا، تو اپریل کے دوسرے ہفتہ میں ڈویژنل کمشنر پرشوتم بھاپکر نے انکوائری کا حکم دے دیا، اور انتظامیہ نے کام کو دوبارہ شروع کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ دریں اثنا، انتقامی کارروائی کے خوف سے، کسان اس بات سے انکار کر رہے ہیں کہ انھوں نے کسی کو رشوت دی ہے۔

لیکن انکوائری کا نتیجہ یا تو ٹرانسفر ہوگا یا پھر برخاستگی، اور زمینی سطح پر اس کا بہت زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ گنوری کے کسانوں نے مقامی میڈیا کو یہ بات صرف روتھے کی ریکارڈنگ کی وجہ سے بتائی اور اس لیے کہ ان کے ذریعے رشوت دینے کے بعد بھی ان کا پروجیکٹ آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔ اگر ان کے کنویں کے لیے فنڈ جاری ہوگیا ہوتا، تو بدعنوان کا یہ کھیل حسب معمول چلتا رہتا جس میں وہ پھنسے ہوئے ہیں۔ کسانوں کے لیے شروع کی گئی زیادہ تر اسکیمیں ان کی مدد کرنے کی بجائے انھیں برباد کر رہی ہیں۔

اس کا ثبوت یہ ہے کہ مراٹھواڑہ کے زرعی علاقے میں جتنے کنووں کو کاغذ پر منظوری مل چکی ہے، اس سے کافی کم کنووں کی تعمیر ہو سکی ہے۔ ڈویژنل کمشنر کے آفس میں دستیاب ڈیٹا کے مطابق، مہاراشٹر میں سال ۲۰۰۸ میں منریگا کی شروعات سے لے کر اب تک اس علاقے کے لیے ۸۹۴۶۰ کنووں کو منظوری مل چکی ہے، لیکن ان میں سے ابھی تک صرف ۴۶۵۳۹ کی ہی تعمیر مکمل ہو سکی ہے۔ اورنگ آباد ضلع میں ۶۶۱۶ کنووں کو منظوری دی گئی تھی، لیکن صرف ۲۴۹۳ کی ہی کھدائی اور تعمیر ہو سکی، اور ۵۶۲ نے تو ابھی تک کام بھی شروع نہیں کیا ہے۔

اس فرق کو ختم کرنے کے لیے، ریاستی حکومت اور ضلع انتظامیہ نے مالی سال ۱۷۔۲۰۱۶ میں اورنگ آباد ضلع میں ۲۵۰۰ کنووں کی تعمیر مکمل کرنے کا ہدف رکھا ہے۔ اس سال ۳۱ مارچ تک، صرف ۳۳۸ ہی پورے ہوئے تھے۔ اسی طرح، مراٹھواڑہ میں ۳۹۶۰۰ پرائیویٹ تالاب منظور کیے گئے تھے، لیکن اب تک صرف ۵۸۲۵ ہی پورے ہو سکے ہیں۔

Jadhav and his daughter-in-law with their cow

گنوری گاؤں میں اپنی جھونپڑی کے سامنے جادھو اور ان کی بہو اپنی بچی ہوئی دو گایوں کے ساتھ

گنوری گاؤں میں، جادھو نے اپریل ۲۰۱۶ میں اپنی آدھا ایکڑ زمین ایک ساہوکار کے پاس ۴۰ ہزار روپے میں گروی رکھ دی تھی تاکہ مزدوروں کی مزدوری دے سکیں، جو ۶۰ ہزار روپے ہوچکی تھی۔ وہ قرض کا پیسہ چکانے میں تو کامیاب رہے، لیکن زمین واپس لینے میں ناکام رہے۔ کھیتی کے موسم کا پیسہ جُٹانے کے لیے پچھلے سال انھوں نے اپنی چار میں سے دو گائیں بیچ دیں؛ اس سال کے لیے انھیں مزید پیسوں کی ضرورت ہے۔

’’میں نے جب اپنے کنویں کا خواب دیکھا تھا اس سے پہلے، میرے سر پر کوئی پرائیویٹ لون نہیں تھا،‘‘ جادھو بتاتے ہیں۔ ’’اس کنویں نے میری مالی حالت بگاڑ دی۔ سود کی شرحیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، اور اب مجھے خریف کے موسم میں مانسون سے پہلے کی تیاریوں کے لیے پیسوں کا انتظام کرنا ہے۔ میں فکرمند ہوں کہ اب مجھے پیسے کون دے گا ۔۔۔‘‘


تصویر: پارتھ ایم این

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez