’’دیدی، براہ کرم کچھ کیجئے، ورنہ یہ لوگ کسی بھی وقت مجھے مار ڈالیں گے!‘‘ گرجا دیوی کے پہلے الفاظ یہی تھے جب میں ان سے ملی تھی۔ ’’میں نے کل دوپہر سے ہی اس چھوٹے، اندھیرے کمرے میں خود کو بند کر رکھا ہے، تاکہ وہ مجھے ماریں نہیں،‘‘ انہوں نے کہا۔

گھر کے ایک تنگ راستے سے گزرتے ہوئے، جہاں برتنوں کے ڈھیر دھونے کے لیے پڑے تھے، میں اس کمرے میں پہنچی جہاں گرجا نے اپنے سسرال والوں سے بچنے کے لیے خود کو بند کر لیا تھا۔ کمرے کے باہر باورچی خانہ اور ایک کھلی ہوئی چھوٹی جگہ تھی، جہاں ان کے شوہر اور بچے کھانا کھاتے ہیں۔

تیس سال کی گرجا نے ۱۵ سال پہلے ایک راج مستری، ۳۴ سالہ ہیم چندر اہیروار سے شادی کی تھی۔ ان کے تین بچے ہیں جن کی عمر ۱۴ سال، ۱۱ سال اور ۶ سال ہے۔

مسئلہ اس وقت شروع ہوا، جب گرجا اپنے سسرال والوں کی ہر غیر مناسب مانگ کی مخالفت کرنے لگیں – جس میں ایک مانگ یہ بھی تھی کہ وہ اپنی نوکری چھوڑ دیں۔ معاملہ اور بھی زیادہ تب بگڑ گیا، جب اتر پردیش کے مہوبا ضلع میں کبرائی بلاک کے اپنے گاؤں، بسورا میں وہ منظور شدہ سماجی صحت کارکن (آشا) کی نوکری کرنے لگیں۔ اور اب، لاک ڈاؤن کے دوران چونکہ ان کے سسرال والے گاؤں لوٹ آئے ہیں، اس لیے یہ ناقابل برداشت ہو گیا ہے۔

’’لاک ڈاؤن سے پہلے حالات قابو میں تھے، کیوں کہ دونوں [ان کے سسر اور ساس] دہلی میں تھے،‘‘ گرجا بتاتی ہیں۔ وہاں پر وہ مزدوری کرتے تھے۔ ’’لیکن جب سے وہ واپس آئے ہیں، میرے لیے زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ پہلے، جب بھی میں گاؤں کی کسی حاملہ عورت کو دیکھنے جاتی یا انہیں اسپتال لے جاتی، تو وہ کہتے کہ میں دیگر مردوں سے ملنے جا رہی ہوں۔ آشا کارکن ہونے کے ناطے، یہ میری ذمہ داری ہے۔‘‘ ہم جب سیڑھیوں سے چڑھتے ہوئے چھت پر جا رہے تھے، تو ان کا چھ سال کا بیٹا، یوگیش بھی ہمارے پیچھے پیچھے آنے لگا۔

گرجا بہت زیادہ رو رہی تھیں، جس کی وجہ سے ان کی آنکھیں اور ہونٹ سوج گئے ہیں۔ وہ اور ہیم چندر مشترکہ فیملی میں رہتے ہیں۔ ان کے دو چچا بھی اپنی فیملی کے ساتھ اسی گھر میں رہتے ہیں، حالانکہ ان کا باورچی خانہ اور رہنے کے کمرے الگ الگ ہیں۔ لیکن، داخلی دروازہ اور آنگن ایک ہی ہے۔

Girija Devi with her six-year-old son Yogesh: 'It has become difficult for me to survive'
PHOTO • Jigyasa Mishra

گرجا دیوی اپنے چھ سال کے بیٹے، یوگیش کے ساتھ: ’میرے لیے زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے‘

گرجا جس تشدد کے بارے میں بتا رہی ہیں، وہ پچھلے کچھ مہینوں سے کئی گھروں میں بڑھتا جا رہا ہے۔ ’’لاک ڈاؤن کے بعد گھریلو تشدد کے معاملوں میں اضافہ ہوا ہے،‘‘ قومی خواتین کمیشن کی چیئر پرسن، ریکھا شرما فون پر بتاتی ہیں۔ ’’زیادہ تر شکایتیں ہماری ویب سائٹ کے توسط سے آن لائن یا ہمارے وہاٹس ایپ نمبر پر آتی ہیں – حالانکہ ۱۸۱ ہیلپ لائن بھی دستیاب ہے۔ لیکن زیادہ تر، متاثرہ کے لیے فون پر بات کرنا آسان نہیں ہوتا ہے۔‘‘

اور یہ شکایتیں اس قسم کے واقعات کی اصلی تصویر پیش نہیں کرتیں۔ ’’ہمارا ماننا ہے کہ گھریلو تشدد جرم کا ایک ایسا زمرہ ہے، جس کی رپورٹ ہمیشہ کم کی جاتی تھی،‘‘ اتر پردیش کے ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولس (اے ڈی جی پی)، اسیم ارون کہتے ہیں۔ وہ، دیگر فرائض کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ، یوپی پولس کی ہیلپ لائن – ۱۱۲ کو بھی دیکھتے ہیں۔ لیکن اب، جب سے لاک ڈاؤن شروع ہوا ہے، وہ کہتے ہیں، ’’کم رپورٹ کیے جانے والے واقعات کے امکانات کہیں زیادہ ہیں۔‘‘

یہ صرف ہندوستان تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ ایک عالمگیر فرق ہے – یعنی تشدد کے حقیقی اور رپورٹ کیے گئے معاملوں کے درمیان کا فرق۔ جیسا کہ یو این ویمن میں کہا گیا ہے : ’’گھریلو اور دیگر قسم کے تشدد کی رپورٹ بڑے پیمانے پر نہ ہونے کے سبب پہلے اس پر جوابی کارروائی کرنا اور ڈیٹا جمع کرنا چیلنج بھرا رہا ہے، کیوں کہ تشدد کی شکار ۴۰ فیصد سے کم عورتیں ہی کسی قسم کی مدد مانگتی ہیں یا جرم کے بارے میں رپورٹ کرتی ہیں۔ مدد مانگنے والی ۱۰ فیصد سے بھی کم عورتیں پولس کے پاس جاتی ہیں۔ موجودہ حالات [وبائی بیماری اور لاک ڈاؤن] رپورٹ کرنے کو مزید مشکل بنا رہے ہیں، جس میں عورتوں اور لڑکیوں کی فون اور ہیلپ لائن تک محدود رسائی اور پولس، انصاف اور سماجی خدمات جیسی عوامی سہولیات میں رکاوٹ شامل ہے۔‘‘

’’کل میرے شوہر کے دادا نے مجھے لاٹھی سے مارا اور میرا گلا دبانے کی بھی کوشش کی،‘‘ گرجا اپنے آنسوؤں کو روکتے ہوئے کہتی ہیں، ’’لیکن ایک پڑوسی نے انہیں روک دیا۔ اس کے بعد انہوں نے اس آدمی کو بھی گالیاں دیں۔ اب، جب میں کسی پڑوسی کو اپنے مسائل بتانے کی کوشش کرتی ہوں، تو وہ کہتے ہیں کہ گھر جاؤ اور خود ہی نمٹاؤ، کیوں کہ وہ میرے سسرال والوں سے گالیاں نہیں سننا چاہتے۔ اگر میرے شوہر میرے لیے بولتے، تو چیزیں بہتر ہوتیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے بزرگوں کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اگر انہوں نے ایسا کیا، تو وہ ان کو بھی ماریں گے۔‘‘

Girija with the letter of complaint for the police that she had her 14-year-old daughter Anuradha write on her behalf
PHOTO • Jigyasa Mishra

گرجا پولس کو لکھا گیا شکایت نامہ دکھا رہی ہیں، جسے ان کی ۱۴ سالہ بیٹی، انورادھا نے ان کی طرف سے لکھا ہے

کئی عورتوں کو اس قسم کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-۴ (۲۰۱۵-۲۰۱۶) کے مطابق، ایک تہائی سے زیادہ عورتوں نے کہا کہ انہوں نے گھریلو تشدد کا سامنا کیا ہے – لیکن ان میں سے صرف ۷ میں سے ۱ نے تشدد روکنے کے لیے کسی سے (پولس سمیت) مدد مانگی تھی۔

لیکن گرجا کے گھر میں موجودہ بحران کا سبب کیا ہے؟

’’لاک ڈاؤن کے کچھ ہفتوں کے بعد، وہ [ان کے ساس سسر اور شوہر کے دادا دادی] جیسے ہی دہلی سے واپس آئے، میں نے انہیں اسکریننگ اور وائرس کی جانچ کروانے کے لیے کہا، کیوں کہ گھر میں بچے ہیں۔ لیکن انہوں نے مجھے یہ کہتے ہوئے گالی دی کہ میں انہیں بدنام کر رہی ہوں اور الزام لگا رہی ہوں کہ وہ کووڈ-۱۹ کے مریض ہیں۔ میری ساس نے مجھے تھپڑ مارنے کی کوشش کی۔ میرے گھر کے باہر ۸ سے ۱۰ لوگ یہ سب دیکھ رہے تھے۔ کوئی بھی میری مدد کے لیے آگے نہیں آیا،‘‘ گرجا کہتی ہیں۔ جب ہم بات کر رہے تھے، اس وقت بھی وہ چوکنّی تھیں کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا ہے۔

یہ لاتعلقی اور خاموشی کے ذریعے ظلم میں شمولیت بھی ایک عالمگیر واقعہ ہے، جیسا کہ ۲۰۱۲ کی ایک رپورٹ، انصاف کی تلاش میں ، میں کہا گیا ہے۔ اس نے بتایا کہ ۴۱ ممالک میں سے ۱۷ میں، ایک چوتھائی یا اس سے زیادہ لوگ اپنی بیوی کو پیٹنا صحیح سمجھتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں یہ تعداد ۴۰ فیصد تھی۔

گرجا نے اس کے بعد مجھے ایک شکایت نامہ دکھایا، جسے ان کی ۱۴ سالہ بیٹی، انورادھا نے ان کی طرف سے لکھا تھا۔ ’’ہم اسے پولس کو دینا چاہتے تھے،‘‘ انورادھا نے مجھ سے کہا، ’’لیکن لاک ڈاؤن کے سبب، ہمیں مہوبا شہر کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے ہمیں بیریئر کے پاس روک دیا۔‘‘ شہر ان کے گاؤں سے تقریباً ۲۵ کلومیٹر دور ہے۔ گرجا نے تب مہوبا کے سپرنٹنڈنٹ آف پولس (ایس پی) سے فون پر بات کی، کیوں کہ انہیں گاؤں سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ انہوں نے کارروائی کرنے کا یقین دلایا۔ [ہماری میٹنگ اور بات چیت اس لیے ممکن ہو پائی، کیوں کہ یہ رپورٹر مہوبا ٹاؤن پولس تھانہ کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) اور کانسٹیبل کے ساتھ گرجا کے گھر پہنچی تھی]۔

مہوبا کے ایس پی، منی لال پاٹی دار نے کہا، ’’ہم عام طور پر گھریلو تشدد کے معاملوں کے ملزمین کو، ان کے خلاف پہلی یا دوسری شکایت ملنے پر گرفتار نہیں کرتے۔ شروع میں، ہم انہیں سمجھاتے ہیں۔ بلکہ، ہم ملزم اور متاثرہ دونوں کو ایک بار، دو بار یا تین بار سمجھاتے ہیں۔ جب ہمیں پتہ چلتا ہے کہ حالات بہتر نہیں ہو رہے ہیں، صرف تبھی ہم ایف آئی آر درج کرتے ہیں۔‘‘

ویڈیو دیکھیں: ’اس لاک ڈاؤن کے دوران وہ جس طرح سے مجھے پیٹتے رہے ہیں!‘

لاک ڈاؤن کے بعد گھریلو تشدد کے معاملے بڑھے ہیں‘، قومی خواتین کمیشن کی چیئر پرسن، ریکھا شرما کہتی ہی

لاک ڈاؤن کے سبب، اے ڈی جی پی ارون کہتے ہیں، ’’ہم نے گھریلو تشدد کے واقعات [شکایتوں] کی تعداد میں بھاری کمی دیکھی ہے۔ یہ پہلے کے مقابلے گھٹ کر تقریباً ۲۰ فیصد رہ گیا، اور ایک ہفتہ، ۱۰ دن تک ایسا ہی رہا، لیکن پھر اس میں لگاتار اضافہ ہونے لگا۔ ایک بار جب مجھے شراب کی دکانوں کے (دوبارہ) کھلنے پر شک ہوا، تو شراب اور گھریلو تشدد کے درمیان تعلق کو مد نظر رکھتے ہوئے، ایسا واقعات میں تیزی آنے لگی۔ لیکن اب [لاک ڈاؤن سے پہلے کی تعداد کے مقابلے] ایسے معاملوں میں ایک بار پھر ۲۰ فیصد کی کمی آئی ہے۔‘‘

کیا یہ اس لیے ہے کہ گھریلو تشدد کی رپورٹ کم کی جاتی ہے؟ ’’یہ سچ ہے،‘‘ اے ڈی جی پی ارون کہتے ہیں۔ ایسا ہمیشہ سے تھا، ’’لیکن اب، چونکہ مجرم عورت کے سامنے ہوتا ہے، اس لیے کم رپورٹ کا امکان زیادہ ہے۔‘‘

اس کے بجائے، زیادہ عورتیں شاید دیگر ہیلپ لائن اور جماعتوں کی جانب رخ کر رہی ہیں۔ ’’اب جو گھریلو تشدد کے معاملے ہمیں مل رہے ہیں، وہ لاک ڈاؤن سے پہلے کے مقابلے تین گنا زیادہ ہیں۔ زیادہ تر شکایتیں آن لائن اور فون پر آتی ہیں۔ چونکانے والی بات یہ ہے کہ ہمیں میڈیکل ڈاکٹر، ایم بی بی ایس سے بھی شکایتیں ملیں،‘‘ لکھنؤ کی ایک سینئر وکیل اور ایسوسی ایشن آف ایڈووکیسی اینڈ لیگل انیشیٹو کی ایگزیکٹو ڈائرکٹر، رینو سنگھ کہتی ہیں۔

گرجا کی طرح، لکھنؤ ضلع کے چنہٹ بلاک ہیڈکوارٹر کی پریہ سنگھ بھی اپنے ہی گھر کے تشدد میں قید ہیں۔

پریہ (۲۷) کی شادی ۲۳ سال کی عمر میں کمار مہندر (۴۲) سے ہوئی تھی، جن کا ایک ۴ سال کا بیٹا ہے۔ ’’پہلے وہ کام کرنے کے بعد نشے میں آتے تھے، لیکن آج کل وہ دوپہر میں بھی پیتے ہیں۔ پٹائی اب لگاتار ہوتی ہے۔ میرا بچہ بھی اسے سمجھتا ہے اور ہمیشہ ان سے ڈرا رہتا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

''The beatings are constant now', says Priya Singh
PHOTO • Jigyasa Mishra

’پٹائی اب لگاتار ہوتی ہے‘، پریہ سنگھ کہتی ہیں

’’اگر کسی شخص یا اس کے شناسا کے ساتھ گھریلو تشدد ہوتا ہے، تو وہ شکایت کرنے کے لیے عام طور پر ہمارے پاس آتے ہیں۔ لیکن اب [لاک ڈاؤن کے سبب] آمد و رفت بند ہونے سے وہ ہمارے پاس نہیں آ سکتے۔ اس لیے ہم ہیلپ لائن نمبر لیکر آئے۔ اور اب ہمیں ایک دن میں اوسطاً ۴-۵ فون کال آتے ہیں۔ یہ سبھی اترپردیش کے مختلف ضلعوں سے گھریلو تشدد کے بارے میں ہوتے ہیں،‘‘ آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن (اے آئی ڈی ڈبلیو اے) کی یوپی کی نائب صدر، مدھو گرگ کہتی ہیں۔

پریہ کے شوہر لکھنؤ میں چکن کاری کپڑوں کے ایک شو روم میں معاون کے طور پر کام کرتے تھے۔ لیکن لاک ڈاؤن میں دکان بند ہو گئی، اس لیے وہ اب گھر پر ہی رہتے ہیں۔ پریہ، کانپور میں اپنے والدین کے پاس پہنچنے کے بعد، ان کے (اپنے شوہر کے) خلاف شکایت درج کرانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

’’کسی کو بھی یقین نہیں ہوگا کہ انہوں نے ہمارے گھر کے کئی برتن اس لیے فروخت کر دیے، تاکہ شراب خریدنے کے لیے کچھ پیسے مل سکیں،‘‘ پریہ کہتی ہیں۔ ’’انہوں نے میرے ذریعے راشن کی دکان سے لائے گئے راشن کو بھی بیچنے کی کوشش کی، لیکن میرے پڑوسیوں نے مجھے آگاہ کیا اور میں نے کسی طرح انہیں روکا۔ وہ سب کے سامنے مجھے مارتے ہیں۔ کسی نے بھی انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی،‘‘ انہوں نے کہا۔

این ایف ایچ ایس-۴ کے مطابق، اتر پردیش میں ۱۵-۴۹ سال کی جن ۹۰ فیصد شادی شدہ عورتوں کے ساتھ جسمانی تشدد ہوا – اس میں مجرم ان کے شوہر تھے۔

گرجا کے والدین ان کی غیر شادی شدہ چھوٹی بہن کے ساتھ دہلی میں رہتے ہیں۔ ’’میں ان کے پاس جانے کی سوچ بھی نہیں سکتی۔ وہاں پر وہ مشکل سے ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں رہتے ہیں۔ میں وہاں جاکر ان کے اوپر ایک اور بوجھ کیسے ڈال سکتی ہوں؟ شاید یہی میری قسمت ہے،‘‘ گرجا کہتی ہیں۔

این ایف ایچ ایس-۴ کے مطابق، ’’ہندوستان کی وہ تمام عورتیں، جن کے ساتھ کبھی نہ کبھی جسمانی یا جنسی تشدد ہوا ہے، ان میں سے ۷۶ فیصد نے کبھی بھی مدد نہیں مانگی اور نہ ہی اپنے ساتھ ہوئے تشدد کے بارے میں کسی کو بتایا۔‘‘

Nageena Khan's bangles broke and pierced the skin recently when her husband hit her. Left: With her younger son
PHOTO • Jigyasa Mishra
Nageena Khan's bangles broke and pierced the skin recently when her husband hit her. Left: With her younger son
PHOTO • Jigyasa Mishra

نگینہ خان کے شوہر نے جب حال ہی میں انہیں مارا، تو چوڑیاں ٹوٹ کر ان کی جلد میں گھس گئی تھیں۔ بائیں: اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ

چترکوٹ کے پہاڑی بلاک کے کالوڑہ خورد گاؤں کی ۲۸ سالہ نگینہ خان، بھاگ کر اپنے والدین کے پاس چلی جانا چاہتی ہیں، جو تقریباً ۱۵۰ کلومیٹر دور، پریاگ راج میں رہتے ہیں۔

’’میرا پورا جسم زخموں سے بھرا ہوا ہے۔ آکر آپ خود ہی دیکھ لیجئے،‘‘ وہ مجھے اپنے گھر کے اندر کھینچتے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’میرے شوہر جس طرح مجھے ہر دوسرے دن پیٹتے ہیں، میں خود سے چلنے کی حالت میں نہیں ہوں۔ میں یہاں کیوں رہوں؟ جب مجھے پیٹا جا رہا ہے اور میں ایک قدم بھی نہیں چل پا رہی ہوں؟ جب میں چل نہیں سکتی، تو مجھے ایک گھونٹ پانی دینے والا بھی کوئی نہیں ہے۔‘‘

’’میرے اوپر ایک احسان کریں،‘‘ وہ آگے کہتی ہیں۔ ’’براہ کرم مجھے میرے والدین کے گھر چھوڑ دیں۔‘‘ ان کے والدین انہیں اپنے گھر لے جانے کے لیے راضی ہیں – لیکن ایسا تبھی ہو سکتا ہے جب عوامی نقل و حمل پھر سے شروع ہو۔ اس گھر سے جانے کے بعد، نگینہ اپنے ۳۷ سالہ شوہر، شریف خان کے خلاف شکایت درج کرانا چاہتی ہیں، وہ ایک فری لانس ڈرائیور ہے۔

۲۵ مارچ کو کووڈ-۱۹ کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ملک گیر لاک ڈاؤن ایک ایمرجنسی پبلک ہیلتھ قدم تھا۔ لیکن ظالموں کے ساتھ بند ہونا گرجا، پریہ اور نگینہ جیسی عورتوں کے لیے ایک الگ قسم کی ہیلتھ ایمرجنسی ہے۔

’’اس گاؤں میں ایسی کئی عورتیں ہیں، جو اکثر اپنے شوہروں کے ذریعے مار کھاتی ہیں، لیکن انہوں نے اسی طرح رہنا قبول کر لیا ہے،‘‘ گرجا دیوی نے مجھے بسورا میں بتایا۔ ’’میں اس کے خلاف بولتی ہوں، اس لیے میں مشکل میں پڑ جاتی ہوں۔ لیکن آپ ہی بتائیں، میں کسی کو صرف اس لیے اپنی بے عزتی کیوں کرنے دوں کہ میں ایک عورت ہوں اور کام کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہوں؟ میں اپنی آخری سانس تک اس کے خلاف آواز اٹھاتی رہوں گی۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Jigyasa Mishra

Jigyasa Mishra is an independent journalist based in Chitrakoot, Uttar Pradesh.

Other stories by Jigyasa Mishra
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez