’’ہر کوئی ہمارے ساتھ برا سلوک کیوں کرتا ہے؟‘‘ شیتل پوچھتی ہیں۔ ’’ہم ٹرانس جینڈر ہیں، تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ہمارے پاس عزت نہیں ہے؟‘‘

شیتل برسوں سے تلخ تجربات کی بنیاد پر بول رہی ہیں۔ ۲۲ سال کی عمر میں، تقریباً ایک دہائی کا بھید بھاؤ اور ظلم – اسکول میں، کام کی جگہ، سڑکوں پر، تقریباً ہر جگہ۔

یہ اچلکرنجی کے نہرو نگر میں ان کے گھر سے شروع ہوا تھا جب وہ ۱۴ سال کی تھیں – تب ان کا نام اروِند تھا۔ ’’جب میں ۸ویں یا ۹ویں کلاس میں تھی، تو میں کلاس کی لڑکیوں کی طرح ہی کپڑے پہننا چاہتی تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے.... میں گھر میں خود کو آئینہ میں دیکھتی رہتی، اور میرے والد چیختے، ’تم اپنے آپ کو ایک بایلا (’ہم جنس پرست‘) کی طرح کیوں دیکھ رہے ہو، باہر جاؤ اور لڑکوں کے ساتھ کھیلو‘۔ جب میں نے کہا کہ میں ساڑی پہننا چاہتی ہوں، لڑکی کی طرح جینا چاہتی ہوں، تو انھوں نے مجھے مارا اور کہا کہ وہ مجھے ذہنی مریضوں کے اسپتال میں بھرتی کر دیں گے۔ وہ جب مارتے تھے، تو میں بہت روتی تھی...‘‘

یہاں تک کہ فیملی شیتل (ان کی درخواست پر نام بدل دیا گیا ہے) کو ایک تانترک کے پاس بھی لے گئی، تاکہ اپنے بیٹے کے ’علاج‘ کے لیے جھاڑ پھونک کرائی جا سکے۔ ’’میری ماں نے کہا کہ کسی نے مجھ پر کالا جادو کر دیا ہے۔ میرے والد [وہ کباڑ کا کام کرتے تھے] نے ایک مرغی کی قربانی دی۔ میرے والدین یہ نہیں سمجھ سکے کہ جسمانی طور پر میں بھلے ہی ایک مرد تھی، لیکن میں عورت بننا چاہتی تھی۔ وہ میری بات نہیں سنتے تھے۔‘‘

۱۶ سال کی عمر میں، شیتل نے گھر چھوڑ دیا اور سڑکوں پر بھیک مانگنا شروع کر دیا – وہ آج بھی یہی کام کرتی ہیں۔ صبح ۱۰ بجے سے شام تک، وہ پیسے مانگنے دکانوں پر جاتی ہیں؛ وہ بھیک مانگنے کے لیے جے سنگھ پور، کولہاپور اور سانگلی جیسے آس پاس کے شہروں میں بھی جاتی ہیں اور ایک دن میں ۱۰۰-۵۰۰ روپے جمع کر لیتی ہیں۔ کبھی کبھی لوگ انھیں ۴-۵ ٹرانس جینڈر دوستوں کے ساتھ شادیوں، نام رکھنے کی تقریب، مذہبی جاگرن اور دیگر پروگراموں میں ناچنے گانے کے لیے مدعو کرتے ہیں، جہاں وہ ۲۰۰۰-۳۰۰۰ روپے فی کس کما لیتی ہیں۔

Mastani Nagarkar asking for money outside a shop
PHOTO • Minaj Latkar

’میں کسی بے سہارا کی طرح بھیک مانگنے کے لیے بھٹکنا نہیں چاہتی،‘ شیتل کہتی ہیں

فیملی شیتل کو ایک تانترک کے پاس بھی لے گئی، تاکہ اپنے بیٹے کے ’علاج‘ کے لیے جھاڑ پھونک کرائی جا سکے۔ ’میری ماں نے کہا کہ کسی نے مجھ پر کالا جادو کر دیا ہے۔ میرے والد نے ایک مرغی کی قربانی دی۔ میرے والدین یہ نہیں سمجھ سکے کہ جسمانی طور پر میں بھلے ہی مرد تھی، لیکن میں عورت بننا چاہتی تھی‘

لیکن کام کرنے اور اپنے دَم پر جینے سے بھید بھاؤ اور بھی بڑھنے لگا۔ ’’میں جب پیسے مانگنے بازار جاتی ہوں، تو لوگ میری ساڑی کا پلّو کھینچتے ہیں، عجیب و غریب اشارے کرتے ہیں۔ کچھ دکانوں پر لوگ ہمیں شک کی نظر سے دیکھتے ہیں، جیسے ہم چور ہوں۔‘‘ شیتل کہتی ہیں کہ گھر پر بھی، ’’پڑوس کے کچھ مرد رات میں میرا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور سیکس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ میں اکیلی ہوں اور لگاتار خوف میں زندگی بسر کر رہی ہوں۔‘‘

شیتل جس جگہ کو اپنا گھر بتا رہی ہیں، وہ اچلکرنجی کے شاہپور علاقے کی جھگیوں میں بنا ایک کمرہ ہے، جسے انھوں نے بڑی مشکل سے حاصل کیا ہے۔ اپنے والدین کا گھر چھوڑنے کے بعد، انھیں کچھ دنوں تک بس اسٹاپ پر سونا پڑا۔ ’’مجھے ہر مہینے ۲۰۰۰ روپے کرایہ دینا پڑتا ہے۔ کمرے کی حالت ایسی ہے کہ وہاں کوئی جانور بھی نہیں رہے گا۔ مانسون میں، یہ کبھی کبھی پانی سے بھر جاتا ہے – پھر مجھے بس اسٹیشن پر سونا پڑتا ہے۔ میں وقت پر کرایہ چکا دیتی ہوں، پھر بھی مجھے اچھا کمرہ نہیں مل سکتا۔ میں بھی ایک اچھے گھر میں رہنا چاہتی ہوں، لیکن لوگ ہمیں کرایے پر جگہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ اگر ہماری اپنی فیملی اور سماج ہی ہمیں نہیں اپنائے گا، تو ہم کہاں جائیں گے؟‘‘

شیتل کی لمبی لڑائی اچلکرنجی میں پورے ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی جدوجہد کو بیان کرتی ہے، جو کہ مہاراشٹر کے کولہاپور ضلع کے ہات کننگلے تعلقہ میں تقریباً ۸۸ء۲ لاکھ کی آبادی والا ایک شہر ہے۔ ان کی یہ لڑائی گھر سے لے کر اسکول، کالج، کام کی جگہوں، رہائش اور سڑکوں تک پر ہے۔

گھر میں، عدم اعتماد سے لے کر غصہ، یا انکار اور جبراً شادی تک کا ردِ عمل ہوتا ہے۔ سکینہ (ان کا ایک عورت کے طور پر خیالی نام) نے جب اپنی فیملی کو عورت ہونے کی خواہش کے بارے میں بتانے کی کوشش کی، تو انھوں نے اسے (جسے انھوں نے ایک مرد کے طور پر دیکھا تھا) ایک لڑکی سے شادی کرنے پر زور دیا۔ سماجی بدنامی کے ڈر سے سکینہ کی شادی ۲۷ سال کی عمر میں ہو گئ۔ وہ نہرو نگر کی جھگیوں میں گھر پر، اور ساتھ ہی سماج میں ایک مرد کے طور پر رہتے/ رہتی ہیں۔

’’کبھی کبھی، اگر ہجڑا برادری میں کوئی پروگرام ہوتا ہے، تو میں وہاں پر ساڑی پہن کر جاتی ہوں،‘‘ ۳۳ سال کی سکینہ کہتی ہیں۔ ’’لیکن گھر پر مجھے ایک والد، اور ایک شوہر کی طرح رہنا پڑتا ہے۔ میں عورت کی طرح جینے کی اپنی خواہش کو پورا نہیں کر سکتی۔ میں دوہری زندگی جی رہی ہوں – اپنے دماغ میں ایک عورت کی طرح اور دنیا میں ایک مرد کی طرح۔‘‘

Radhika with her family
PHOTO • Minaj Latkar
Radhika getting ready in a traditional saree and jewellery for her daily round of the markets to ask for money
PHOTO • Minaj Latkar

رادھیکا گوساوی کی ماں سمن (بائیں جانب بیٹھی)، جو ایک گھریلو ملازمہ اور کچرا چُنتی ہیں، کہتی ہیں، ’میں اپنے ہی بیٹے کو گھر سے کیسے نکال سکتی ہوں؟‘

سکینہ کے برعکس، ۳۰ سال کی سنیتا (خیالی نام)، فیملی کے ذریعہ طے کی گئی شادی کی مخالفت کرنے میں کامیاب رہیں۔ لیکن وہ بھی، سکینہ کی طرح ہی ایک مرد کی طرح زندگی بسر کرنا جاری رکھے ہوئی ہیں، نہ کہ عورت کی طرح جیسا کہ وہ خود محسوس کرتی ہیں۔ سنیتا میں اپنی فیملی کو یہ بتانے کی ہمت نہیں تھی۔ ان کے والد کیرانے کی دکان چلاتے ہیں، ماں ایک گھریلو خاتون ہیں۔ ’’وہ مجھ پر شادی کرنے کا دباؤ بنانے لگے، لیکن میں ایک عورت سے شادی کرکے اس کی زندگی کیسے برباد کر سکتی تھی؟ اس لیے میں نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ ہماری [مراٹھا] برادری میں، اگر لوگوں کو پتہ چل گیا کہ میں ٹرانس جینڈر ہوں، تو یہ ہماری فیملی کے وقار کو ٹھیس پہنچائے گا، میری بہنوں کی شادی نہیں ہو پائے گی، میری فیملی کو پریشانی جھیلنی پڑے گی۔ لوگ کیا کہیں گے، اس بارے میں فکرمند ہو کر میں نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔‘‘

سنیتا ۲۵ سال کی تھیں جب انھوں نے گھر چھوڑا اور نہرو نگر کی جھگیوں میں ایک کمرہ کرایے پر لے کر رہنے لگیں۔ ’’تب سے، میں کئی لوگوں سے ملی جو میرے جیسے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’لیکن انھیں گزر بسر کے لیے بھیک مانگنی پڑتی ہے۔ کوئی بھی انھیں کام، یا کرایے پر کمرہ نہیں دینا چاہتا ہے۔ ان کی حالت دیکھ کر مجھے بھی ساڑی پہننے کی ہمت نہیں ہوتی۔ لیکن اس طرح سے زندگی گزارنا بہت مشکل ہے۔‘‘

حالانکہ کچھ کنبوں میں تھوڑی بہت قبولیت ہے۔ اب ۲۵ سال کی ہو چکیں رادھیکا گوساوی (اوپر کے کور فوٹوں میں) کو جب ۱۳ سال کی عمر میں ٹرانس جینڈر ہونے کا احساس ہوا، تو شروع میں ان کی ماں اور دو بہنوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔ ان کے والد، جو لوہے کا کباڑ بینتے تھے، کی موت تبھی ہو گئی جب وہ ۱۰ سال کی تھیں۔

’’میں اپنی ماں کی طرح بالوں میں چوٹی گوندھنا، بہن کی طرح کپڑے پہننا، ٹیکہ، کاجل، لپسٹک لگانا چاہتی تھی۔ اپنی بہن کی طرح گھر کے کام کرنا چاہتی تھی۔ لیکن مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ میں ایسا کیوں محسوس کرتی ہوں،‘‘ نہرو نگر میں رہنے والی رادھیکا (جو پہلے سندیپ کے نام سے جانی جاتی تھیں) کہتی ہیں۔ ’’جب میں نے اپنی ماں کو بتایا کہ میں ایک عورت کی طرح جینا چاہتی ہوں، تو وہ گھبرا گئیں، وہ بہت روئیں۔ میری بہنیں مجھ سے کہتیں، ’تم ہمارے اکلوتے بھائی ہو، لڑکے کو ایک لڑکی کی طرح ہی رہنا چاہیے، جو شادی کرے، ہمارے لیے ایک بھابھی لائے، نوکری کرے – ان سب کے بجائے، تمہارے دماغ میں ساڑی پہننے کا یہ بیوقوفی بھرا خیال کیوں آ رہا ہے؟‘ ہمارے رشتہ داروں نے میری ماں سے کہا کہ وہ مجھے گھر سے نکال دیں۔ ’جب اسے کچھ دنوں تک بے سہارا گھومنا پڑے گا، تو اس کا دماغ اپنے آپ ہی ٹھیک ہو جائے گا، پھر وہ [سدھرنے کے بعد] گھر لوٹ آئے گا‘ انھوں نے کہا۔‘‘

لیکن رادھیکا نے احتجاج کیا۔ ’’میں نے ماں سے کہا کہ میں گھر چھوڑ دوں گی۔‘‘ آخرکار، ان کی ماں سمن، جو ایک گھریلو ملازمہ اور کباڑ بیننے کا کام کرتی ہیں، کو پشیمانی ہوئی۔ ’’میں اپنے ہی بیٹے کو گھر سے کیسے نکال سکتی ہوں؟‘‘ انھوں نے مجھے اپنے گھر پر بتایا۔ ’’اس کی مدد کون کرے گا؟ وہ بری سنگت میں پڑ سکتا ہے۔ خطرہ مول لینے کے بجائے، بہتر ہے کہ وہ میرے ساتھ ہی رہے۔ ہمارے رشتہ دار اور پڑوسی اس کے لیے ہماری تنقید کرتے ہیں، لیکن میں یہ سب برداشت کر لیتی ہوں۔‘‘

Aliya Sheikh
PHOTO • Minaj Latkar

عالیہ کے بھائی بہن انھیں عوامی جگہوں پر اپنا بتانے میں شرم محسوس کرتے ہیں

’میرا بھائی کہتا ہے کہ کسی کو یہ مت بتانا کہ تم میرے بھائی ہو۔ میری بہنیں شادی شدہ ہیں، لیکن میں کسی تقریب میں ان کے سسرال والوں کے گھر نہیں جاتی، وہ اسے پسند نہیں کرتے ہیں،‘ عالیہ کہتی ہیں، جو گزربسر کے لیے بھیک مانگتی ہیں۔ ’کوئی بھی ہمیں انسان کے طور پر نہیں دیکھتا ہے‘

عالیہ شیخ، جو اپنی فیملی کے ساتھ نہرو نگر میں ہی رہتی ہیں، کہتی ہیں کہ ان کے بڑے بھائی – دو کپڑا ملوں میں کام کرتے ہیں اور ایک کپڑے کی دکان پر – عوامی جگہوں پر انھیں پہچاننے میں شرم محسوس کرتے ہیں کیوں کہ وہ ٹرانس جینڈر ہیں۔ ہم جب ان سے ملے، تو وہ رمضان میں روزہ سے تھیں، پھر بھی بھیک مانگنے باہر نکلی ہوئی تھیں۔ ’’میرا بھائی کہتا ہے کہ کسی کو یہ مت بتانا کہ تم میرے بھائی ہو۔ میری بہنیں شادی شدہ ہیں، لیکن میں کسی تقریب میں ان کے سسرال والوں کے گھر نہیں جاتی، وہ اسے پسند نہیں کرتے ہیں۔‘‘

گھر پر ٹکراؤ اور بے قدری کے ساتھ ہی، تعلیم حاصل کرنے کی لڑائی اور پھر کام ڈھونڈنے کا نمبر آتا ہے، تاکہ عزت کی روٹی مل سکے۔ شیتل نے ۱۶ سال کی عمر میں جب گھر چھوڑا تھا، تو وہ ۱۲ویں کلاس تک پڑھائی کر چکی تھیں۔ ’’میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میری بھی کوئی عزت ہے، شعور ہے۔ میں کسی بے سہارا شخص کی طرح بھیک مانگنے کے لیے بھٹکنا نہیں چاہتی۔ میں پڑھائی کرنا اور کسی آفس میں نوکری کرنا چاہتی ہوں۔‘‘

سکینہ – جو ٹرانس جینڈر شخص کے طور پر نہیں، بلکہ ایک آدمی کی طرح زندگی گزار رہی ہیں – مراٹھی ادب میں ایم اے اور بی ایڈ کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب رہیں (وہ اپنی یونیورسٹی کا نام ظاہر کرنا نہیں چاہتیں)۔ لیکن یہ ایک سخت جدوجہد تھا۔ سکینہ کو کالج کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی۔ اس لیے کچھ سالوں کے لیے وہ سیکس ورکر بن گئیں۔ کچھ ہم جماعت اس بات کو جانتے تھے، اس لیے وہ دھمکی دیتے کہ اگر انھوں نے ان کے ساتھ جنسی تعلق نہیں بنایا، تو وہ ان کے گھر والوں کو بتا دیں گے۔ کچھ ٹیچر انھیں خالی کلاس روم میں بلاتے اور سیکس کا مطالبہ کرتے۔ ’’میں عورت کی طرح کپڑے نہیں پہنتی تھی، لیکن میری آواز اور طور طریقے بتا دیتے تھے کہ میں ایک ٹرانس جینڈر ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میں اس استحصال سے تنگ آ گئی تھی اور اکثر خودکشی کرنے کے بارے میں سوچتی تھی۔ میرے والد [ایک راج مستری] میری تین بہنوں کی شادی کرنے کے بعد قرض میں ڈوبے ہوئے تھے۔ میں نے جو پیسہ کمایا [سیکس ورک سے] اس سے میں نے کسی طرح اپنی تعلیم پوری کی۔ کیا کریں؟ ویسے بھی لوگ یہی سوچتے ہیں کہ ہم سیکس ورکر ہیں۔‘‘

سکینہ اب اچلکرنجی میں ایک سرکاری تنظیم کے ساتھ کام کرتی ہیں، جو ایسے لوگوں کی مدد کرتی ہے جو ایچ آئی وی پازیٹو ہیں یا جنہیں تپ دق ہے، اور ۹۰۰۰ روپے ماہانہ کماتی ہیں۔

Some shopkeepers drive them away from the shops and curse them. These three shopkeepers were harassing Radhika with lewd behaviour and driving her away from the shop
PHOTO • Minaj Latkar

’دکاندار اکثر ہمیں دھتکار دیتے ہیں۔ ہم سب کچھ برداشت کرتے ہیں تاکہ کھانے کے لیے کچھ کما سکیں‘، رادھیکا کہتی ہیں

رادھیکا کے لیے بھی، گھر پر قبولیت کے باوجود، کام ڈھونڈنا مشکل رہا ہے۔ انھیں تیسری کلاس کے بعد پڑھائی چھوڑنی پڑی۔ اپنے والد کی طرح، وہ ری سائیکلنگ کے لیے کباڑ – لوہا، پلاسٹک اور دیگر سامان – جمع کرتیں یا اینٹوں کی پرت بنانے کا کام کرتی تھیں۔ ’’تقریباً ۱۶-۱۷ سال کی عمر میں جب میں نے ساڑی پہننی شروع کی، تو لوگوں نے مجھے کام دینا بند کر دیا،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ اس لیے پیسے مانگنے کے لیے اب وہ ۸۰-۱۰۰ دکانوں پر جاتی ہیں۔ دکاندار انھیں الگ الگ رقم دیتے ہیں، ۱ روپیہ سے لے کر ۱۰ روپے تک۔ صبح ۱۰ بجے سے شام ۷ بجے تک، وہ تقریباً ۱۲۵ روپے اکٹھا کر لیتی ہیں اور اسی آمدنی سے فیملی کی مدد کرتی ہیں۔

سنیتا ٹرانس جینڈر کی اپنی پہچان چھپا کر، کام پانے میں کامیاب رہیں – اچلکرنجی میں وہ ایک ریستوراں میں برتن دھونے اور صفائی کرنے کا کام کرتیں، جس کے لیے انھیں روزانہ دو وقت کا کھانا اور ۵۰ روپے ملتے تھے۔ اب انھوں نے ایک چھوٹا کاروبار شروع کرنے کے لیے دوست سے ۲۵ ہزار روپے قرض لیے ہیں (یہاں پر تفصیل اس لیے نہیں دی جا رہی ہے تاکہ ان کے علاقے میں کاروبار کی پہچان نہ ہو سکے)۔

زندہ رہنے کا طریقہ چاہے کوئی بھی ہو، ظلم اور تفریق جاری ہے۔ ’’کچھ لوگ ہمیں پرماتما کا تحفہ سمجھتے ہیں اور ہمارے پیر چھوتے ہیں، لیکن کچھ لوگ ہمیں بہت پریشان کرتے ہیں،‘‘ رادھیکا کہتی ہیں۔ ’’دکاندار اکثر ہمیں دھتکار دیتے ہیں۔ ہم سب کچھ برداشت کرتے ہیں تاکہ کھانے کے لیے کچھ کما سکیں۔ ہم گرمی اور دھوپ میں گھومتے ہیں اور مشکل سے ۱۵۰ روپے جمع کر پاتے ہیں۔ چھوٹے شہروں میں، لوگ ہمیں کتنا دیں گے؟ ہمیں بھیک مانگنا پسند نہیں ہے، لیکن لوگ ہمیں کام نہیں دیتے۔ اگر ہم کہیں جانا چاہیں، تو رکشہ چلانے والے اکثر ہمیں لے جانے سے منع کر دیتے ہیں اور ٹرین اور بسوں میں لوگ ہمارے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ کوئی بھی ہمارے بغل میں کھڑا ہونا یا بیٹھنا پسند نہیں کرتا، لیکن وہ ہمیں ایسے گھوریں گے جیسے کہ ہم کوئی بھوت ہوں۔ ہر دن اس طرح سے جینا اور یہ سب برداشت کرنا بہت مشکل ہے۔ ہماری برادری کے لوگ سگریٹ اور شراب نوشی کے عادی ہیں۔‘‘

کئی ایسی مثالیں ہیں جب پولس نے مدد کرنے کے بجائے ہمارا استحصال کیا۔ شیتل بتاتی ہیں کہ پولس نے پڑوس کے نوجوان لڑکوں کے ذریعے پریشان کرنے سے متعلق ان کی شکایتوں کو نظرانداز کیا اور کارروائی کرنے کے بجائے اُلٹا انہی سے ہفتہ وصولی (رشوت) کرنے لگی۔ شیتل جب تھانے گئیں، تو بقول ان کے، ’’پولس نے مجھ سے کہا، تمہی نے لڑکوں کو چھیڑا ہوگا۔ تم لوگ جبراً دوسروں سے پیسے مانگتے ہو۔‘‘ اگر ٹرانس جینڈر شخص سیکس ورکر ہے، تو رشوت کی رقم بڑھ سکتی ہے، ساتھ ہی جیل کی دھمکی بھی دی جا سکتی ہے۔ ’’پولس کہتی ہے، ’تم سیکس ورکر ہو، تم لوگوں کو پریشان کرتے ہو، تمہیں کون پریشان کرے گا‘،‘‘ شیتل بتاتی ہیں۔

Radhika Gosavi walking through the market street on a very sunny afternoon
PHOTO • Minaj Latkar

رادھیکا پیسے مانگنے کے لیے ۸۰-۱۰۰ دکانوں پر جاتی ہیں؛ صبح ۱۰ بجے سے شام ۷ بجے تک وہ تقریباً ۱۲۵ روپے جمع کر لیتی ہیں

ویسے کچھ تبدیلی ہو رہی ہے، کم از کم کاغذ پر۔ ۲۰۱۶ میں، ٹرانس جینڈر افراد (کے حقوق کے تحفظ) کا قانون لوک سبھا میں پاس ہوا، اور اس میں ترمیم کا انتظار ہے۔ یہ قانون ٹرانس جینڈر افراد کو پوری آزادی سے ’’دیگر‘‘ کے طور پر شناخت ملنے اور ہر ہندوستانی شہری کی طرح تمام قسم کے حقوق حاصل کرنے کا موقع دیتا ہے۔ اس کے دیگر التزامات میں شامل ہے، ریاست کے ذریعے چلائے جا رہے تعلیمی اداروں میں تمام سطحوں پر دو فیصد سیٹیں محفوظ کرنا اور مخصوص روزگار دفاتر شروع کرنا، اور ساتھ ہی ٹرانس جینڈر افراد کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر سزا کا بھی التزام ہے۔

اچلکرنجی میں، میونسپل کاؤنسل نے مئی ۲۰۱۸ میں ٹرانس جینڈر افراد کی بہبود کے لیے ۲۵ لاکھ روپے کا التزام کیا تھا (جسے ابھی تک نافذ نہیں کیا گیا ہے)، کاؤنسل کے چیف افسر پرشانت رسال نے بتایا۔

رسال اور ایڈووکیٹ دلشاد مجاور بھی ٹرانس جیندر افراد کو راشن کارڈ اور آدھار کارڈ دلوانے کی کوشش کر رہے ہیں – اب تک وہ ۶۰ راشن کارڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ٹرانس جینڈر چونکہ اپنا نام بدل لیتے ہیں اور عام طور پر ان کا کوئی مستقل پتہ نہیں ہوتا، اس لیے ان کے لیے پہچان دستاویز حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اور اس کے بغیر، وہ سرکاری اسکیموں کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔

یہی وجہ ہے کہ ان کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے۔ اچلکرنجی میں ایچ آئی وی/ ایڈز بیداری اور روک تھام پر کام کرنے والے ایک این جی، میتری کا کہنا ہے کہ اس شہر میں ۲۵۰ ٹرانس جینڈر افراد این جی او کی خدمات کا استعمال کرتے ہیں۔

ان کی اور دنیا بھر میں ایسے بہت سے لوگوں کی جدوجہد ابھی بھی جاری ہے، جیسا کہ عالیہ کہتی ہیں، ’’کوئی بھی ہمیں انسان کے طور پر نہیں دیکھتا ہے۔‘‘

ٹرانس جینڈر برادری کے لوگوں سے جوڑنے میں میری مدد کرنے کے لیے ایڈووکیٹ دلشاد مجاور، فوٹوگرافی کی ٹپس دینے کے لیے سنکیت جین اور ان سبھی لوگوں کا شکریہ، جنہوں نے اس اسٹوری کے لیے اپنا انٹرویو دیا۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Minaj Latkar

Minaj Latkar is an independent journalist. She is doing an MA in Gender Studies at the Savitribai Phule University, Pune. This article is part of her work as an intern at PARI.

Other stories by Minaj Latkar
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez