انھوں نے پوچھا، ’’کیا تم نے کتّے کو مارا تھا؟‘‘ اس سے پہلے کہ سنندا ساہو جواب دیتیں، ایک لاٹھی ان کے سر پر آ کر گری۔ جب انھیں ہوش آیا، تو وہ اسپتال میں تھیں۔

کُتّا ایک بہانہ تھا۔ وہ اسے پسند نہیں کرتے تھے۔ جن بھائیوں نے کبھی ان کی چوٹی گوندھی تھی اور انھیں گڑیا کہہ کر بلاتے تھے، وہی بھائی کئی سال پہلے سنندا کے ذریعہ گلی کے ایک آوارہ کتے کو پالنے کے سبب ان کے لیے پریشان کرنے والے اجنبی بن گئے۔ ’’مر جاؤ یا بھاگ جاؤ – وہ ہر روز یہی کہتے۔ کتے کو پالنے سے میری تنہائی دور ہو گئی تھی۔ میں نے اس کا نام کالو رکھا تھا،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔

سنندا کے اوپر یہ حملہ اس وقت کیا گیا، جب چھ سال بعد وہ ۲۰۱۰ میں اپنے گھر لوٹی تھیں اور جس کے ۲ ماہ بعد ان کے بیمار اور بستر مرگ پکڑ چکے والد، کرشن نند ساہو کا انتقال ہو گیا تھا۔ انھوں نے اپنے دونوں بیٹوں، ان کی بیویوں اور ان کے تین بچوں کے ذریعہ خود اپنی آنکھوں سے بیٹی کی یہ بے عزتی دیکھی تھی، بغیر کچھ کہے ہوئے۔ ان کی بیوی، کنک لتا نے بھی خاموشی اختیار کر لی تھی۔

سنندا پر یہ بات واضح کر دی گئی تھی کہ ان کا نہ تو خیر مقدم ہے اور نہ ہی کوئی ضرورت۔ ’’انھوں نے مجھے صابن اور تیل تک نہیں دیا،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ کھانا بھی بہت تھوڑا دیا گیا۔ تبھی ایک فکرمند پڑوسی نے ایک سماجی کارکن کو اس کی خبر دی، جس نے سنندا کو گاؤں کی پنچایت سے مدد حاصل کرنے کے لیے آمادہ کیا۔ نتیجتاً، ریاست کی جانب سے ایسی بیکس خواتین کو دی جانے والی راحت سے انھیں بھی ۳۰۰ روپے ماہانہ پنشن ملنے لگی۔ اس کے علاوہ، انتیودیہ یوجنا کے تحت ہر مہینے ۲۵ کلو سبسڈی والے چاول کی سپلائی بھی ہونے لگی۔

نہال پرساد گاؤں (گونڈیا تحصیل، ڈھینکنال ضلع، اوڈیشہ) میں، کئی لوگوں نے سنندا کے بھائیوں کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ ’’انھوں نے کچھ نہیں کیا،‘‘ گاؤں کے ایک ایسے ہی فکرمند شخص، ۴۵ سالہ رمیش موہنتی بتاتے ہیں۔

اپنی بہن سے ان بھائیوں کو کوئی ہمدردی نہیں تھی، بلکہ ان کا یہ ماننا تھا کہ اس نے فیملی کی عزت کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ ’’ان کی بیویوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر انھوں نے میرے ساتھ کوئی رشتہ رکھا، تو وہ انھیں چھوڑ کر چلی جائیں گی،‘‘ سنندا کہتی ہیں۔

یہ سزا سنند کے گناہِ عظیم – محبت کرنے کے لیے تھی۔ لیکن اس کی شروعات تب ہوئی، جب انھوں نے دوسرا جرم کیا، پھر تو انھوں نے اس سے بھی زیادہ بے رحمی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔

مئی ۲۰۱۶ میں، ۳۶ سالہ سنندا نے اپنے متوفی والد کے نو ایکڑ کھیت میں سے اپنے حصہ کا مطالبہ کیا۔ ان کی دلیل بہت سیدھی تھی: ’’میری دو بہنوں کی شادی زمین بیچ کر کی گئی تھی۔ چونکہ میں نے شادی نہیں کی، اس لیے باقی زمین کے ایک حصہ پر میرا یکساں حق ہے۔‘‘

سنندا کا مطالبہ ناقابل قبول اور ناقابل معافی تھا۔ یہ ایک ایسا ملک ہے، جہاں زرعی مردم شماری ۲۰۱۰۔۱۱ کی آل انڈیا رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ مصرف والی کل زمین کا (ادارہ جاتی زمینوں کو چھوڑ کر) ۸۷ء۲ فیصد مردوں کے قبضے میں ہے، جب کہ خواتین کے پاس اس کا ایک چھوٹا سا حصہ، یعنی صرف ۱۲ء۸ فیصد ہی ہے۔

ایک دن دوپہر میں بھائیوں نے اس بہانے ان کی پٹائی کر دی کہ انھوں نے غصہ میں آکر کالو کو مارا ہے۔ ’’کل کو یہ ہمیں بھی مارے گی،‘‘ لاٹھی سے پٹائی کرتے وقت وہ یہی کہتے ہوئے چیخ رہے تھے۔

PHOTO • Puja Awasthi

سنندا گاؤں کے کمیونٹی سنٹر میں پنچایت کے ذریعہ دیے گئے اپنے کمرے میں۔ (دائیں) پوشاک بنانے کے لیے کپڑا کاٹنے کا کام کرتی ہوئی

سنندا کے کیس ڈٹیل کے ساتھ ایک پتلی بھورے رنگ کی فائل ہے، جو ان کے گھر سے ۹۰ کلومیٹر دور رکھی ہوئی ہے۔ اور وہ جگہ ہے ڈھینکنال کے سپرنٹنڈنٹ آف پولس (ایس پی) کے دفتر میں واقع، خواتین کے لیے امدادی مرکز۔ اس فائل کے اندر موجود میڈیکل رپورٹ میں لکھا ہے، ’’سر میں زخم۔ اب سر چکرانے کی شکایت کر رہی ہیں۔ سی ٹی اسکین کے لیے کہا گیا۔‘‘ یہ رپورٹ کٹک کے ایس سی بی میڈیکل کالج اور اسپتال کے ذریعہ تیار کی گئی ہے، جہاں انھیں ڈھینکنال میں ابتدائی علاج کے بعد بھیجا گیا تھا۔

سنند کی پنچایت سے رابطہ کرنے میں مدد کرنے والی سماجی کارکن، بھانو متی پانی، گھریلو تشدد سے خواتین کاتحفظ قانون، ۲۰۰۵ کے تحت تشکیل کردہ اس مرکز میں ایک صلاح کار ہیں۔ مرکز میں لگے ایک سفید فلیکس پوسٹر پر لکھا ہے، اپریل ۲۰۰۹ میں اس کی شروعات سے لے کر مارچ ۲۰۱۶ تک، یہاں سے تقریباً ۱۲۱۲ خواتین نے امداد حاصل کی ہے۔ یہ امداد، جیسا کہ قانون میں کہا گیا ہے، زیادہ تر صلاح اور ثالثی کی شکل میں پہنچائی گئی ہیں۔ بہت کم خواتین باقاعدہ طور پر پولس یا عدالتوں سے براہِ راستہ رابطہ کر پاتی ہیں۔ سنندا کے معاملے میں جذباتی اور جسمانی تشدد کی حد نے، بھانو متی کو ان کے لیے قانونی امداد فراہم کرنے پر مجبور کیا۔ اور اس طرح سنندا کے بھائیوں اور ان کے بالغ بچوں کے خلاف تعزیراتِ ہند کی کئی دفعات کے تحت معاملہ درج ہوا۔

اس کیس نے یقینی بنایا کہ سنندا اور ان کی والدہ کو ان کے سات کمروں کے گھر کے سب سے اچھے حصے میں دو کمرے دیے جائیں۔ ان کے بھائیوں نے امن قائم کرنے کی تجویز رکھی۔ دونوں بہنوں کے سامنے یہ مشکل پیدا ہوئی کہ ان کی (بھائیوں کی) حمایت کریں یا سنندا کی۔ ماحول پرامن ہوا، لیکن بہت ہی کمزور۔

’’اگر مجھے یہ سب پہلے معلوم ہوتا، تو میری زندگی بالکل مختلف ہوتی،‘‘ سنندا پشیمانی کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں۔

ان کی مراد مارچ ۲۰۰۷ سے ہے – تب ۲۷ سال کی سنندا پر بشو جیت ڈھالا نے بربر حملہ کیا تھا۔ کسی زمانے میں دلکش، پھر ضدی اور بعد میں غصہ ور، یہ عاشق سنندا کے پیچھے تب سے پڑا ہوا تھا، جب وہ ۱۸ سال کی تھیں اور ۱۰ویں کلاس میں پڑھ رہی تھیں۔ وہ سیٹی بجاتا، ان کے سامنے لیٹر پھینکتا، ان کے چہرے پر ٹارچ مارتا اور جب وہ راستے سے گزرتیں، تو گانا گانے لگتا۔ وہ ڈر گئیں اور اپنی ماں کی آغوش میں سہارا لیتے ہوئے انھیں سب کچھ بتا دیا۔ ماں نے اچھی نیت سے کی جانے والی اس چھیڑ چھاڑ کے بدلے محبت جتانے کا مشورہ دیا۔ ’’اس کی موجودگی سے مجھے مزہ آنے لگا۔ وہ مجھے خوش کر دیتا،‘‘ سنندا کہتی ہیں۔ خوش نما خواب میں ڈوبی سنندا کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا کہ بشو جیت ان سے ۲۰ سال بڑا ہے۔ یا وہ بے روزگار ہے۔

لیکن یہ خوش نما خواب اس وقت نا امیدی میں تبدیل ہو گیا، جب ان کی فیملی نے پہلی بار شادی کی بات چھیڑی۔ سنندا یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’اس کی بہن نے کہا کہ میں بدصورت ہوں اور بھائی کو اپنی باتوں میں پھنسا لیا۔‘‘ ایک نوجوان لڑکی کے لیے، جسے تب تک اس کے والدین اور بھائی بہن بہت پیار کرتے تھے، یہ ناقابل قبول تھا۔ ’’مجھے لگا کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں،‘‘ وہ اُداس لہجہ میں کہتی ہیں۔ بشوجیت پھر بھی اپنی ضد پر اڑا رہا، لیکن اس کے بعد سنندا پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

’’اس نے مجھے اپنے وعدوں سے لبھانے کی کوشش کی۔ اس نے طویل محبت نامہ لکھا کہ وہ ہمیشہ کے لیے انتظار کرے گا۔ اس نے میرے والد کے پاس ایک ثالث کو بھی بھیجا، لیکن میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ایسی فیملی میں شادی نہیں کروں گی، جس نے میری شکل کی بنیاد پر مجھے درکنار کر دیا،‘‘ سنندا کہتی ہیں۔

ان کا عزم اپنے دادا شوریہ چرن ساہو کی یادداشت سے اور پختہ ہو گیا، جو ایک مجاہد آزادی تھے۔ ’’میں کبھی بھی ایسا کچھ کرنے کا تصور نہیں کر سکتی تھی، جس سے ان کی بدنامی ہو،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔

سال ۲۰۰۷ میں ان کے اوپر ہونے والا حملہ، ان کے ذریعہ شادی سے مسلسل انکار کرنے کا نتیجہ تھا۔ ایک رات جب وہ بیت الخلاء کے لیے گھر سے باہر کھیتوں کی جانب نکلیں، تو انھیں محسوس ہوا کہ کوئی ان کی گردن کو زور سے دبا رہا ہے۔

PHOTO • Puja Awasthi

جس سلائی مشین کا وہ استعمال کرتی ہیں، اسے ایک خیراتی تنظیم نے دیا تھا۔ (دائیں) ابھی ابھی تیار کیے گئے ایک پروڈکٹ کے ساتھ

دو دن بعد، ان کی آنکھ گھر سے چار کلومیٹر دور، ایک کمیونٹی ہیلتھ سنٹر میں کھلی۔ ’’مجھے نہیں یاد کہ میری عصمت دری ہوئی تھی، لیکن میرے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ پولس نے کچھ بھی سننے سے انکار کر دیا۔ میری کوئی جانچ نہیں کرائی گئی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ خود سنندا کی فیملی نے پولس امداد لینے سے منع کر دیا اور ان سے کہا کہ وہ بشوجیت سے شادی کر لیں، کیوں کہ خاندان کی عزت واپس لوٹانے کا یہی واحد طریقہ تھا۔ وہ ایسا اس لیے بھی چاہتے تھے، کیوں کہ سنندا کی وجہ سے بشوجیت ان کے گھر میں زبردستی داخل ہو کر ان کے اثاثے کو نقصان پہنچا سکتا تھا، جس سے وہ ڈرے ہوئے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ اس کے نشانے پر آئیں۔

پولس اور فیملی کی مدد نہ ملنے سے سنندا، بشوجیت کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے میں ناکام رہیں۔ حملے کے دو مہینے بعد، اس نے ۱۸ سالہ سنندا سے شادی کر لی۔

اس درمیان، سنندا سے تب تک گھر سے دور رہنے کے لیے کہا گیا، جب تک کہ دوسری بہنوں کی شادی نہیں ہو جاتی۔

اگلے تین سالوں تک وہ شیلٹر ہوم اور رشتہ داروں کے یہاں بھٹکتی رہیں۔ انھیں کچھ دنوں کے لیے واحد ہلکی سی راحت تب ملی، جب پڑوسی جاجپور ضلع میں اپنے ایک رشتہ دار کے یہاں رہنے کے دوران انھوں نے سلائی سیکھ لی۔ ایک خیراتی تنظیم نے انھیں ایک سلائی مشین دی۔

وہ مشین اب گاؤں کے کمیونٹی سنٹر سے ملحق ایک غبار آلودہ کمرے میں رکھی ہوئی ہے۔ جنوری ۲۰۱۶ میں، جب پنچایت نے سنندا کو اس سنٹر کا استعمال کرنے کی اجازت دی تھی، تبھی سے یہ ان کا ورکشاپ بنا ہوا ہے۔ یہیں پر وہ بلاؤز اور شلوار قمیض سلتی ہیں – ان میں سے کچھ دیواروں پر لٹکے ہوئے ہیں۔ وہ بچے ہوئے کپڑے کے ٹکڑوں کو آپس میں جوڑ کر دائرہ نما پارچہ بناتی ہیں، ان کے رنگوں اور پرنٹ کو میل کرانے میں انھیں کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔

اچھے دنوں میں وہ ۲۰۰ روپے کما لیتی ہیں، جب کہ اوسط کمائی روزانہ ۲۵ روپے ہے۔ اس کے علاوہ وہ بکریاں بھی بیچتی ہیں۔ اس طرح دونوں پیسوں کو ملا کر وہ ہر مہینے ۳۰۰۰ روپے بنا لیتی ہیں – جو کہ ان کی ۷۵ سالہ ماں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن، یہ اپنے لیے نئے کپڑے خریدنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ آج انھوں نے جو نارنگی پوشاک پہن رکھی ہے، یہ ان کی بہن نے دیا تھا۔

ماں ان سے بار بار گزارش کرتی ہیں کہ شادی کرنے سے ’عزت‘ ملے گی، لیکن وہ اتنی ہی تیزی سے اسے ٹھکرا دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’شادی سے خوشی ملے گی، اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔‘‘

PHOTO • Puja Awasthi

سنندا کی ماں کنک لتا، جو فیملی کے گھر کے دو سب سے خستہ حال کمرے میں ان کے ساتھ رہتی ہیں

فیملی کے ذریعہ ٹھکرائے جانے نے سنندا کو حالانکہ تھوڑا تلخ ضرور بنا دیا ہے، لیکن وہ احساسِ جرم میں مبتلا نہیں ہیں۔ ’’میں نے کوئی غلطی نہیں کی،‘‘ وہ زور دے کر کہتی ہیں۔

ایک بار پولس کیس کا نمٹارہ ہو جائے، اس کے بعد وہ زمین میں اپنا حصہ مانگنے کی قانونی لڑائی لڑنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ وہ اپنی والدہ کو تیرتھ یاترا پر لے جانا چاہتی ہیں، دودھ کا کاروبار کرنے کا منصوبہ ہے اور پھول کی کھیتی کرنا چاہتی ہیں، جس میں ان کا پسندیدہ پھول، رجنی گندھا بھی شامل ہے۔ ’’شاید میں ایک آنگن واڑی معاون بن جاؤں،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔

اور کیا؟

وہ ایک کتا بھی پالنا چاہتی ہیں۔ ’’کالو کی ہی طرح۔ وہ پچھلے سال مر گیا،‘‘ سنندا مسکراتے ہوئے کہتی ہیں۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Puja Awasthi

Puja Awasthi is a freelance print and online journalist, and an aspiring photographer based in Lucknow. She loves yoga, travelling and all things handmade.

Other stories by Puja Awasthi
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez