رام واکچورے اپنے گھر کے قریب واقع ایک بازار سے ہر صبح ۲۷۵ طالب علموں اور دیگر لوگوں کے لیے سبزیاں خریدتے ہیں ۔ تین کلو آلو، پھول گوبھی، ٹماٹر وغیرہ۔ ’’مجھے ہر سبزی کی قیمت معلوم ہے میں اپنی موٹربائک پر تھیلا لٹکاکر اسکول جاتا ہوں،‘‘ ویر گاؤں کے ضلع پریشد اسکول کے ٹیچر کہتے ہیں۔

جون میں، احمد نگر کے اکولا تعلقہ کے کلس گاؤں میں رہنے والے ۴۴ سالہ واکچورے کا تبادلہ ۲۰ کلومیٹر دور، ویرگاؤں کے اسکول میں کر دیا گیا تھا۔ وہ کلس گاؤں کے پرائمری اسکول میں ۱۸ سال سے پڑھا رہے تھے۔ اب، ان کا بنیادی کام مڈ ڈے میل اسکیم کے نفاذ (ابتدائی تعلیم کے لیے قومی غذائیت پروگرام کے تحت) کو یقینی بنانا ہے۔

’’پرنسپل سب کچھ نہیں کر سکتے، اس لیے انہوں نے ذمہ داریاں سونپ دی ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں، مڈ ڈے میل کے رجسٹر کو بھرتے ہوئے وہ مشکل سے اوپر دیکھتے ہوئے۔ ’’سرکاری نوکری آپ کو تحفظ فراہم کرتی ہے، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ میں ایک ٹیچر ہوں۔‘‘

واکچورے کی نصاب کے علاوہ سرگرمیاں غیر معمولی نہیں ہیں – مہاراشٹر کے ضلع پریشد اسکولوں میں ٹیچروں کو اکثر غیر تعلیمی کام سونپ دیے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے انہیں پڑھانے کا وقت بالکل بھی نہیں مل پاتا ہے، وہ کہتے ہیں۔

ویرگاؤں کے اسکول میں، جہاں ساتویں کلاس تک کی پڑھائی ہوتی ہے، واکچورے کے ۴۲ سالہ ساتھی، ساباجی داتر کہتے ہیں کہ سال بھر کے نصاب میں کل ۱۰۰ سے زیادہ کام ہوتے ہیں۔ داتر اوسطاً، ایک ہفتہ میں ۱۵ گھنٹے غیر تعلیمی سرگرمیوں میں گزارتے ہیں۔ ’’یہ کام اکثر اسکول کے وقت ہی ہوتے ہیں [ایک دن  میں چار گھنٹے]،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’جتنا ممکن ہو سکتا ہے، ہم ان کاموں کو اسکول کے بعد نمٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ جب دونوں کام ایک ساتھ آ جاتے ہیں، تو غیر تعلیمی کاموں کو فوقیت دی جاتی ہے۔

PHOTO • Parth M.N.
PHOTO • Parth M.N.

رام واکچورے (بائیں) اور ساباجی داتر (دائیں) ویرگاؤں کے ضلع پریشد اسکول میں خود کو تعلیمی اور غیر تعلیمی کاموں کے درمیان پھنسا ہوا پاتے ہیں

’’حق تعلیم (آر ٹی ای) قانون، ۲۰۰۹ (خاص کر، اس کی دفعہ ۲۷) کے مطابق، اساتذہ کو صرف الیکشن کے دوران، قدرتی آفات اور ہر ۱۰ سال میں مردم شماری کے وقت غیر تعلیمی کام کرنے کے لیے کہا جا سکتا ہے،‘‘ داتر کہتے ہیں۔

لیکن مہاراشٹر کے ریاستی اسکولوں کے ۳ لاکھ سے زیادہ ٹیچر دیگر تمام اوقات میں بھی ضلع انتظامیہ اور ریاستی حکومت کے لیے مختلف غیر تعلیمی کاموں کو انجام دیتے ہیں – وہ چیک کرتے ہیں کہ کتنے لوگ خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، اس بات کا پتہ لگاتے ہیں کہ کیا سرکاری اسکیمیں اُن تک پہنچ رہی ہیں، جائزہ لیتے ہیں کہ کیا گاؤں والے بیت الخلا کا استعمال کر رہے ہیں اور ان سے کھلے میں رفع حاجت کے نقصان کے بارے میں بات کرتے ہیں۔

ان اضافی کاموں کے لیے اساتذہ کو پیسے بھی نہیں دیے جاتے۔ ضلع پریشد اسکول کے ٹیچر، جن کے پاس گریجویٹ کے ساتھ ساتھ تعلیم کے شعبہ میں ڈپلومہ ہونا لازمی ہے، اور سیکنڈری اسکول کے ٹیچر، جن کے پاس بی ایڈ ڈگری کے ساتھ گریجویٹ ہونا ضروری ہے، صرف ۲۵ ہزار روپے کی مجموعی تنخواہ کے ساتھ کام شروع کرتے ہیں۔ وہ، زیادہ سے زیادہ، کئی سالوں کے بعد پرنسپل بننے پر، ۶۰ ہزار روپے کما سکتے ہیں۔ اس تنخواہ میں مختلف ’بھتّے‘ شامل ہیں – مہنگائی بھتّہ، سفر، کرایہ وغیرہ۔ اور مجموعی تنخواہ سے بہت ساری کٹوتی بھی کی جاتی ہے، جیسے کہ پروفیشنل ٹیکس اور پنشن کی رقم جب کہ غیر تعلیمی کام کے پیسے نہیں ملتے۔

’آر ٹی ای قانون ۲۰۰۹ کے مطابق، اساتذہ کو صرف الیکشن کے دوران، قدرتی آفات اور ہر ۱۰ سال میں مردم شماری کے وقت غیر تعلیمی کام کرنے کے لیے کہا جا سکتا ہے،‘ داتر کہتے ہیں

’’میں ایک بار ناسک کے ایک گاؤں میں یہ جانچ کرنے گیا تھا کہ کتنے لوگ خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں،‘‘ ۴۰ سال کے دیوی داس گیرے کہتے ہیں، جو جون میں ویرگاؤں میں اپنے تبادلہ سے پہلے چندوَڑ تعلقہ کے اردھُل گاؤں کے ضلع پریشد اسکول میں پڑھاتے تھے۔ ’’ایک فیملی جس کے پاس بنگلہ تھا، اس نے مجھے دھمکی دی اور کہا، ’ہمارا نام فہرست میں ہونا چاہیے‘۔ ہم اپنے اساتذہ کو کتنا نیچے گرا رہے ہیں؟ کیا ہم احترام کے لائق بھی نہیں ہیں؟ یہ ہتک آمیز ہے۔ ہمیں اتوار کو بھی آرام کرنے نہیں دیا جاتا ہے۔‘‘

دیگر مواقع پر، گیرے کو بوتھ سطح کے افسر کے طور پر دروازے دروازے جانا پڑا، گاؤں کے باشندوں سے دستاویز جمع کرنے پڑے، مہاجرت، موت اور نئے ووٹروں کی بنیاد پر ووٹر لسٹ کو اپڈیٹ بھی کرنا پڑا۔ ’’یہ سال بھر چلتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں، تبھی طلبہ صحن میں کھیلنا بند کر دیتے ہیں اور ہمارے ارد گرد جمع ہو جاتے ہیں۔ ’’المیہ یہ ہے کہ اگر ہم ٹھیک سے نہ پڑھائیں، تو ہمیں میمو سے خطرہ نہیں ہوتا۔ لیکن تحصیل دار کے دفتر سے بیت الخلا کی گنتی کا حکم آنے پر سستی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔‘‘

جس کام کے لیے انہیں رکھا نہیں گیا ہے اس کے لیے دوڑتے رہنے سے پریشان ہوکر، اکولا میں ۴۸۲ ٹیچروں نے ۱۸ ستمبر، ۲۰۱۷ کو پنچایت کمیٹی کے دفتر کے سامنے احتجاج کیا۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں میں بینر اٹھا رکھے تھے، جس پر مراٹھی میں لکھا تھا ’آمہالا شکوو دیا‘ (’ہمیں پڑھانے دیں‘)۔

اکولا واقع کارکن اور ویرگاؤں اسکول کے ٹیچر، بھاؤ چاسکر نے اس احتجاجی مظاہرہ کی قیادت کی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ ۱۰ برسوں میں غیر تعلیمی کاموں میں اضافہ ہوا ہے۔ ’’انتظامیہ کے خالی عہدہ بھرے نہیں جاتے ہیں۔ مالیہ اور پلاننگ [محکموں] میں عہدے خالی ہیں، اور سارے کام ٹیچروں کے ذریعے کرائے جاتے ہیں۔ یہ غیر تعلیمی کام جسے ہم کرنے کے لیے مجبور ہیں، اساتذہ کے تئیں لوگوں کے خیالات کو کمزور کر رہے ہیں۔ وہ ہمارے اوپر سست، بے ادب ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ احتجاج کے بعد، ہمیں کچھ دنوں تک بلایا نہیں گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد، یہ دوبارہ شروع ہو گیا۔‘‘

PHOTO • Parth M.N.
PHOTO • Parth M.N.

’ہمیں پڑھانے دیں‘: بھاؤ چاسکر نے اضافی کام کرائے جانے کے خلاف ستمبر ۲۰۱۷ میں سینکڑوں اساتذہ کے احتجاجی مظاہرہ کی قیادت کی تھی

خواتین ٹیچروں کو تو اس سے بھی زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ چالیس سالہ تبسم سلطانہ، جو عثمان آباد شہر میں لڑکیوں کے اسکول میں پڑھاتی ہیں، کا کہنا ہے کہ انہیں تعلیمی فرائض، غیر تعلیمی ذمہ داریوں اور گھریلو کاموں کے درمیان جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ ’’کام کے گھنٹے یا وقت اساتذہ کے لیے یکساں ہوتے ہیں، چاہے ان کی صنف کچھ بھی ہو،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’لیکن ہمیں اپنے سسرال والوں اور بچوں کی دیکھ بھال بھی کرنی پڑتی ہے، ان کے لیے کھانا بنانا پڑتا ہے، گھر چھوڑنے سے پہلے سبھی کچھ یقینی بنانا پڑتا ہے۔‘‘ تبسم کے دو بیٹے ہیں، دونوں کالج میں پڑھ رہے ہیں۔ ’’وہ بڑے ہو چکے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’جب وہ اسکول میں تھے تب یہ خاص طور سے مشکل تھا۔ لیکن اب مجھے اس کی عادت ہو گئی ہے۔‘‘

’ٹیچر انتخابی حلقہ‘ (اساتذہ کے ذریعے نامزد) سے مہاراشٹر لیجسلیٹو کونسل کے رکن، کپل پاٹل کہتے ہیں کہ ٹیچر آسان شکار ہوتے ہیں۔ ’’وہ تعلیم یافتہ، دستیاب اور سرکاری نوکر ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے جس کے سبب مہاراشٹر کے ضلع پریشد اسکولوں میں طلبہ کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ ٹیچر پڑھانے کے لیے دستیاب نہیں ہیں، جس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ چھٹی پر ہیں۔ وہ کہیں اور کام کر رہے ہیں۔ اور اس عمل میں طلبہ کا سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے، کیوں کہ اس کا تعلیم کے معیار پر سیدھا اثر پڑتا ہے۔‘‘

خسارے میں ہیں تقریباً ۴ء۶ ملین طالب علم (۲۰۱۷-۱۸ کے اعداد و شمار)، جو مہاراشٹر کے ۶۱۶۵۹ ضلع پریشد اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ ضلع پریشد اسکول مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں اور زیادہ تر طالب علم کسانوں اور زرعی مزدوروں کے گھروں سے ہوتے ہیں، جن میں سے کئی دلت اور آدیواسی برادری کے ہیں، جو پرائیویٹ اسکول کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے۔ ’’یہ سماج کے ایک طبقہ کی تعلیم سے سمجھوتہ کرنا ہے،‘‘ سولاپور واقع کارکن اور ٹیچر، نوناتھ گیند کہتے ہیں۔ ’’لیکن جب ٹیچر بوتھ سطح کے افسروں کے طور پر کام کرنے سے انکار کرتے ہیں، تو مقامی انتظامیہ انہیں دھمکی بھی دیتی ہے۔‘‘

Teachers hanging around at virgaon school
PHOTO • Parth M.N.
Children playing in school ground; rain
PHOTO • Parth M.N.

اساتذہ سے بلاک سطح کے افسروں کا کام کرانے کے سبب، وہ کلاس میں پڑھانے کے لیے دستیاب نہیں ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ضلع پریشد اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کا تعلیمی معیار متاثر ہو رہا ہے

سولاپور ضلع کے ماڈھا تعلقہ میں موڈنمب گاؤں کے ضلع پریشد اسکول میں ایک پرائمری ٹیچر، ۳۷ سالہ پرمیشور سُروَسے کے خلاف نومبر ۲۰۱۷ میں ایک ایف آئی آر دائر کر دی گئی تھی، جب انہوں نے بوتھ سطح کے افسر کے طور پر کام کرنے کے خلاف احتجاج درج کرایا تھا۔ ’’میری ذمہ داری بہتر تعلیم فراہم کرنا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میرے اسکول میں، ہم میں سے چھ ٹیچروں کو امتحان سے ایک ہفتہ قبل بوتھ سطح کے افسروں کے طور پر کام کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ ہم نے کہا کہ چھ ٹیچر ایک ساتھ اسکول نہیں چھوڑ سکتے، ورنہ طلبہ کا نقصان ہوگا۔ ہم نے تحصیل دار سے ملنے کی درخواست کی۔‘‘

’المیہ یہ ہے کہ اگر ہم ٹھیک سے نہ پڑھائیں، تو ہمیں میمو سے خطرہ نہیں ہوتا۔ لیکن تحصیل دار کے دفتر سے بیت الخلا کی گنتی کا حکم آنے پر سستی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی،‘ دیوی داس گیرے کہتے ہیں

لیکن سولاپور شہر کے تحصیل دار دفتر نے چھ ٹیچروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرا دی۔ ’’ہمیں حکم عدولی اور اپنا کام نہیں کرنے کا ملزم بنایا گیا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’ہم آگے بحث نہیں کر سکتے تھے۔ ہم مجبور تھے اور اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم اگلے ۳۰ دنوں تک اسکول نہیں جا سکتے۔ بوتھ سطح کے افسروں کے طور پر ہمارا کام آج تک جاری ہے، اور ہمیں کچھ وقت کے لیے پولس اسٹیشن بھی جانا پڑا۔ ہم میں سے دو کو نوٹس دیا گیا اور عدالت میں پیش ہونا پڑا تھا۔ ہم ان سب کے بیچ کیسے پڑھاتے؟ اس مدت کے دوران  ۴۰ طالب علموں نے ہمارے اسکول کو چھوڑ دیا اور پاس کے ایک پرائیویٹ اسکول میں داخلہ لے لیا۔‘‘

دتاتریہ سُروے کا ۱۱ سالہ بیٹا، وویک، ان میں سے ایک تھا۔ سُروے، جو ایک کسان ہیں اور اپنے ۲ء۵ ایکڑ کھیت میں جوار اور باجرا اُگاتے ہیں، کہتے ہیں، ’’میں نے [موڈنمب کے] اسکول کے پرنسپل سے شکایت کی، اور انہوں نے کہا کہ ٹیچر اپنا کام کر رہے ہیں،‘‘ سُروے بتاتے ہیں۔ ’’اسکول سال میں تقریباً ۲۰۰ دن چلتا ہے۔ اگر ٹیچر ان دنوں میں بھی حاضر نہیں ہیں، تو میرے بچے کو اسکول بھیجنے کا کیا مطلب ہے؟ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ریاست ضلع پریشد اسکولوں میں پڑھنے والے طالب علموں کی پرواہ نہیں کرتی ہے۔‘‘

سُروے کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بیٹے کو بہترین تعلیم ملے۔ ’’کھیتی میں کوئی مستقبل نہیں ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ اکتوبر ۲۰۱۷ میں، انہوں نے اپنے بیٹے کا داخلہ تقریباً دو کلومیٹر دور، ایک پرائیویٹ اسکول میں کرایا۔ اب وہ ۳۰۰۰ روپے سالانہ فیس دیتے ہیں۔ ’’لیکن میں نئے اسکول سے خوش ہوں۔ یہ پیشہ ور ہے۔‘‘

PHOTO • Parth M.N.

پرنسپل انل موہتے کو اپنے نئے اسکول میں منتقل ہونے کے بعد نئے سرے سے شروعات کرنی پڑے گی، جہاں ان کے شاگرد اور وہ الگ الگ زبانیں بولتے ہیں

اس قسم کی لگاتار شکایتیں بتاتی ہیں کہ ریاستی حکومت ضلع پریشد کے اسکولوں کے تئیں سنجیدہ نہیں ہے، کپل پاٹل کہتے ہیں۔ ’’یہ جون [۲۰۱۸] میں اساتذہ کے ریاست گیر تبادلوں کو [بھی] ظاہر کرتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ان تبادلوں کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ دور دراز کے علاقوں کے ٹیچروں کو بھی قصبوں یا بہتر کنیکٹیوٹی والے گاؤوں میں رہنے کا موقع ملنا چاہیے۔ لیکن، ایک ٹیچر سے موصولہ خط کو پکڑے ہوئے، جس میں انہوں نے اپنا تبادلہ ردّ کرنے کی درخواست کی ہے، پاٹل کہتے ہیں، ’’ریاست نے نہ تو طالب علموں کے بارے میں سوچا ہے اور نہ ہی ٹیچروں کے بارے میں۔‘‘

احمد نگر میں، ضلع پریشد اسکول کے ۱۱۴۶۲ میں سے ۶۱۸۹ (یا ۵۴ فیصد) ٹیچروں کے تبادلہ کا حکم ملا، ضلع کے تعلیمی افسر رماکانت کاٹمورے کہتے ہیں۔ ’’ریاست بھر کے ہر ضلع میں یہ فیصد یکساں ہے۔ یہ ایک باقاعدہ عمل ہے۔‘‘

جن ٹیچروں کا تبادلہ کیا گیا، ان میں سے ایک رمیش اتراڈکر بھی ہیں۔ وہ دیوپور گاؤں کے ضلع پریشد اسکول میں پڑھاتے تھے ’’وہ میرے گھر سے ۲۰ کلومیٹر دور تھا، بُلڈھانہ شہر میں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ مئی ۲۰۱۸ میں، انہیں ۶۵ کلومیٹر دور، مومن آباد کے ضلع پریشد اسکول میں منتقل کر دیا گیا۔ ’’میری بیوی شہر کے میونسپلٹی اسکول میں پڑھاتی ہیں، اس لیے ہم شفٹ نہیں ہو سکے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میں روزانہ اسکول جاتا ہوں۔ ایک طرف کا سفر کرنے میں مجھے دو گھنٹے لگتے ہیں۔‘‘ اتراڈکر نے دو ناول لکھے ہیں اور شاعری کے دو مجموعے شائع کیے ہیں؛ اس تخلیق کے لیے انہیں ریاست کی طرف سے ادبی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ لیکن اپنے تبادلہ کے بعد سے، وہ پڑھنے یا لکھنے کا کام نہیں کر پا رہے ہیں۔ ’’سفر کرنے سے بہت زیادہ تھک جاتا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میری زندگی میں رخنہ پڑ چکا ہے۔‘‘

انل موہتے (۴۴) کو بھی ان کے آبائی قصبہ اکولا میں، جہاں پر وہ ایک ٹیچر کے طور پر کام کرتے تھے، سے ۳۵ کلومیٹر دور ایک آدیواسی گاؤں، شیل ویہرے کے ضلع پریشد اسکول میں پرنسپل بناکر بھیج دیا گیا۔ موہتے کولی آدیواسی طالب علموں کی زبان نہیں سمجھتے، اور وہ مراٹھی زبان مہارت سے نہیں بولتے ہیں۔ ’’میں انہیں کیسے پڑھاؤں گا؟ اس سے پہلے، میں نے اورنگ آباد [اکولا سے تقریباً پانچ کلومیٹر دور] کے ایک اسکول میں چار سال تک کام کیا۔ میں اپنے طالب علموں کو جانتا تھا، ان کی طاقت اور کمزوریوں کو جانتا تھا۔ وہ بھی مجھے اچھی طرح سے جانتے تھے۔ ہمارا تال میل تھا۔ اب مجھے نئے سرے سے شروعات کرنی ہوگی۔‘‘

شیل ویہرے کے ان کے اسکول میں – کئی دیگر ضلع پریشد اسکولوں کی طرح ہی – کوئی انٹرنیٹ نیٹ ورک نہیں ہے۔ ’’ہمیں مڈ ڈے میل اسکیم کی تفصیلات اور حاضری رجسٹر آن لائن بھرنا ہوتا ہے،‘‘ موہتے کہتے ہیں۔ ’’تقریباً ۱۵ کام آن لائن کرنے پڑتے ہیں۔ اسکول میں ایسا کرنا ناممکن ہے۔ مجھے اسے روزانہ لکھنا پڑتا ہے اور گھر واپس لوٹنے کے بعد آن لائن بھرنا ہوتا ہے۔ یہ اس کام کو اور بڑھا دیتا ہے جس میں ہم پہلے سے ہی ڈوبے ہوئے ہیں۔‘‘

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez