پونم، رانی کے بالوں کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اس میں تیل لگاتی ہیں اور پھر اسے کس کر گوندھتے ہو چوٹی بناتی ہیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ چوٹی میں ربڑ بینڈ لگا پاتیں، ان کا بچہ اپنے دیگر بھائی بہن اور دوستوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے دوڑتے ہوئے باہر نکل پڑتا ہے۔ پونم دیوی رات کا کھانا بناتے ہوئے اپنے بچوں کی اس حرکت پر کہتی ہیں، ’’ دوست سب کے آبیتے، ای سب سانجھ ہوئیتے گھر سے بھاگ جائی چاہے کھیلا لیل (دوستوں کی آہٹ پاتے ہی، وہ سب شام کو کھیلنے کے لیے دوڑتے ہوئے باہر نکل پڑتے ہیں)۔‘‘ رانی ان کی دوسری بیٹی ہے، جس کی عمر ۸ سال ہے۔

پونم کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ لیکن ان کے چاروں بچوں میں سب سے چھوٹے ان کے بیٹے کا ہی برتھ سرٹیفکیٹ ان کے پاس موجود ہے۔ سرٹیفکیٹ کے بارے میں وہ کہتی ہیں، ’’ ہمرا لاگ میں اِتّے پائی رہیتے ت بنوائیے لیتئے سب کے (اگر ہمارے پاس پیسہ ہوتا، تو ہم باقی تینوں کا بھی بنوا لیے ہوتے)۔‘‘

ان کے کچے مکان کے ارد گرد بانس کی لکڑی کی مدد سے باڑ لگایا گیا ہے، جیسا کہ عام طور پر دیہی بہار کے بہت سے گھروں کے ارد گرد دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کے شوہر ۳۸ سالہ منوج دہاڑی مزدور ہیں۔ وہ بہار کے مدھوبنی ضلع کے بینی پٹّی بلاک میں واقع ایک تارا گاؤں میں رہتی ہیں۔ منوج محنت مزدوری کرکے مہینے میں ۶۰۰۰ روپے کے آس پاس کماتے ہیں۔

پونم (بدلا ہوا نام) بتاتی ہیں، ’’میری عمر اب ۲۵ سال سے کچھ ایک مہینے زیادہ ہو چکی ہے۔ میرا آدھار کارڈ میرے شوہر کے پاس ہے اور وہ ابھی گھر پر نہیں ہیں۔ میری شادی کس عمر میں ہوئی تھی، یہ مجھے ٹھیک ٹھیک یاد نہیں ہے۔‘‘ اگر ان کی عمر ابھی ۲۵ سال ہے، تو بہت ممکن ہے کہ شادی کے وقت ان کی عمر ۱۴ سال کے آس پاس رہی ہو۔

پونم کے تمام بچوں کی پیدائش گھر پر ہی ہوئی تھی۔ منوج کی چچی، ۵۷ سالہ شانتی دیوی کہتی ہیں، ’’ہر بار دائی نے مدد کی تھی۔ ہم نے اسپتال جانے کے بارے میں تبھی سوچا، جب لگا کہ حالت بگڑ رہی ہے۔‘‘ وہ ان کے (منوج اور پونم کے) گھر کے قریب اسی محلہ میں رہتی ہیں اور پونم کو اپنی بہو مانتی ہیں۔

PHOTO • Jigyasa Mishra

پونم کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ لیکن ان کے چاروں بچوں میں سب سے چھوٹے بیٹے کا ہی برتھ سرٹیفکیٹ ان کے پاس موجود ہے

شانتی دیوی کہتی ہیں، ’’ہم میں سے زیادہ تر کی طرح پونم کو برتھ سرٹیفکیٹ بنوانے کے عمل کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں تھی۔ اسے بنوانے کے لیے ضلع اسپتال جانا اور ایک متعینہ رقم کی ادائیگی کرنی ہوتی ہے۔ لیکن مجھے نہیں معلوم کہ کتنا۔‘‘

برتھ سرٹیفکیٹ کے لیے پیسہ دینا پڑتا ہے؟

پونم جواب دیتے ہوئے کہتی ہیں، ’’بالکل، یہاں وہ مفت میں برتھ سرٹیفکیٹ نہیں دیتے۔ کہیں اور دیتے ہیں کیا؟‘‘ یہاں ’وہ‘ کہنے سے پونم کا مطلب آشا کارکن اور ہاسپیٹل اسٹاف سے ہے۔ وہ آگے کہتی ہیں، ’’ پائی لیئی چھے، اوہی دُوآرے نائی بنبائے چھیائی (وہ لوگ اس کے بدلے پیسے مانگتے ہیں، اس لیے ہم اپنی بیٹیوں کا برتھ سرٹیفکیٹ نہیں بنوا سکے)۔‘‘

پونم اور شانتی دیوی، دونوں، بلکہ محلہ میں رہنے والا ہر کوئی میتھلی بولتا ہے۔ ملک میں اس زبان کو بولنے والوں کی آبادی ۱۳ لاکھ سے زیادہ ہے، اس آبادی کا زیادہ تر حصہ بہار کے مدھوبنی، دربھنگہ اور سہرسہ ضلع میں رہتا ہے۔ ساتھ ہی یہ پڑوسی ملک نیپال میں بھی دوسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔

بے حد دلچسپ بات ہے کہ ایک تارا گاؤں میں واقع پرائمری ہیلتھ سنٹر، پونم کے گھر سے بمشکل ۱۰۰ میٹر کی دوری پر موجود ہے۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ یہ پرائمری ہیلتھ سنٹر زیادہ تر بند ہی رہتا ہے، سوائے ان گنے چنے دنوں کے، جب کمپاؤنڈر نمودار ہو جاتے ہیں۔ پونم کی پڑوسن راج لکشمی مہتو (جن کی عمر ۵۰ سال سے زیادہ ہے) کمپاؤنڈر کی موجودگی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں، ’’وہ آخری بار یہاں ۳ دن پہلے آئے تھے۔ وہ عام طور پر ہفتہ میں دو بار ہی ہیلتھ سنٹر کا تالا کھولتے ہیں، لیکن ڈاکٹر کا چہرہ تو یہاں شاید ہی کبھی نظر آتا ہے اور ڈاکٹر یہاں آئے ہوں، ایسا ہم نے مہینوں سے نہیں دیکھا ہے۔ دلار چندر کی بیوی یہاں دائی ہیں، جنہیں ہم ڈلیوری کے وقت ایمرجنسی میں بلاتے ہیں۔ وہ پاس کے ہی ٹولے میں رہتی ہیں۔ وہ بے حد بھروسہ مند ہیں۔‘‘

PHOTO • Jigyasa Mishra

پونم کے گھر کے قریب واقع پرائمری ہیلتھ سنٹر، جو اکثر بند ہی رہتا ہے

ریسرچ ریویو انٹرنیشنل جرنل میں ۲۰۱۹ میں شائع ایک رپورٹ ایک اہم بات کی طرف اشارہ کرتی ہے: ’’نیتی آیوگ کے مطابق ہندوستان میں ۶ لاکھ ڈاکٹروں، ۲۰ لاکھ نرسوں، اور ۲ لاکھ ڈینٹل سرجنوں کی بھاری کمی ہے۔ حالانکہ عالمی ادارۂ صحت ڈاکٹر-مریض تناسب کو ۱:۱۰۰۰ یعنی ۱۰۰۰ مریض پر ۱ ڈاکٹر رکھنے کی سفارش کرتا ہے، پھر بھی دیہی ہندوستان میں یہ تناسب ۱:۱۱۰۸۲ اور بہار اور اتر پردیش جیسی کچھ ریاستوں میں یہ تناسب بالترتیب ۱:۲۸۳۹۱ اور ۱:۱۹۹۶۲ ہے۔

رپورٹ میں اس بات کو بھی درج کیا گیا ہے ’’ہندوستان کے ۱۰ لاکھ ۱۴ ہزار منظور شدہ ڈاکٹروں میں سے ۸۰ فیصد ڈاکٹر ایسے شہروں میں کام کرتے ہیں جہاں ملک کی صرف ۳۱ فیصد آبادی ہی رہتی ہے۔‘‘ کمی کی یہی کہانی طبیعیاتی سہولیات سے متعلق بنیادی ڈھانچوں، مثلاً پرائمری ہیلتھ سنٹر، ضلع اسپتالوں یا کمیونٹی ہیلتھ سنٹر اور دیگر اسپتالوں کے معاملے میں بھی کھل کر سامنے آتی ہے۔ ایسے حالات میں پونم کے گھر سے پرائمری ہیلتھ سنٹر کی نزدیکی ’پانی میں بھی مچھلی پیاسی‘ کی کہاوت کو بیان کرتی ہے۔

ہم پونم کے دالان میں کھڑے ہو کر بات چیت کر رہے تھے۔ بہار میں دالان کا استعمال بڑے بزرگوں یا مردوں کے ٹھکانے کے طور پر کیا جاتا ہے۔ کچھ وقت بعد پڑوس کی کچھ اور عورتیں ہماری بات چیت میں شامل ہو جاتی ہیں۔ ایک بار تو ایسا لگا کہ شاید وہ چاہتی ہیں کہ ہم اندر کسی کمرے میں جا کر بات چیت کریں، لیکن ہم نے دالان میں ہی بات چیت کرنا جاری رکھا۔

راج لکشمی بتاتی ہیں، ’’جب میری بیٹی کو بچہ ہونے والا تھا، ہمیں آناً فاناً میں اسے بینی پٹّی اسپتال لے کر جانا پڑا۔ پہلے گھر پر ہی ڈلیوری کی بات طے ہوئی تھی، لیکن آخری پل میں ہمیں پتہ چلا کہ دائی کہیں باہر چلی گئی ہے۔ اس لیے میں اور میرا بیٹا اسے آٹورکشہ میں لے کر اسپتال گئے۔ ڈلیوری کے فوراً بعد ڈیوٹی پر موجود نرس نے ہم سے ۵۰۰ روپے مانگے۔ میں نے اس سے کہا کہ ہم ابھی پیسے دے پانے کی حالت میں نہیں ہیں، لہٰذا اس نے ہمیں نشانہ پر لے لیا اور برتھ سرٹیفکیٹ پانے کے لیے ہمیں کافی مشقت کرنی پڑی۔‘‘

طبی سہولیات سے جڑے ڈھانچہ کی سب سے نچلی سطح پر ہوا یہ تجربہ یہاں عورت کے درد اور اس کو ملی تکلیف، حالات کے المیہ اور اس کے اندر کے انتشار سے پیدا شدہ حالات کی زندہ تصویر پیش کرتا ہے، جس کا سامنے کرنے کو انسان مجبور ہے۔

PHOTO • Jigyasa Mishra

پونم کی چچی شانتی دیوی کہتی ہیں، ’وہ اس کے بدلے پیسے کی مانگ کرتے ہیں، اسی وجہ سے ہم اپنی بچیوں کا برتھ سرٹیفکیٹ نہیں حاصل کر سکے‘

طبی سہولیات کے معاملے میں بنیادی ڈھانچے کی کمی سے، ایسے ڈاکٹروں کے ہونے سے جو ہیلتھ سنٹر میں نہ کے برابر قدم رکھتے ہیں یا پھر ایسی پرائیویٹ ہیلتھ سروسز کے ہونے سے، جو یا تو پہنچ سے باہر ہیں یا اپنی نا اہلی یا عدم صلاحیت کی وجہ سے بے حد خطرناک ہیں، غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والی عورتوں کو زیادہ تر آشا کارکنوں کی مدد پر منحصر رہنا پڑتا ہے۔ گاؤں کی سطح پر اگر کوئی کووڈ کے خلاف زمینی لڑائی میں جی جان سے لگا ہوا رہا ہے، تو وہ آشا کارکن ہی تھیں۔

ایسے وقت میں جب ہر کوئی سیکورٹی کے لحاظ سے احتیاط برتتے ہوئے گھروں میں رہ رہا تھا، آشا کارکن اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہوئے انہیں سونپے گئے دیگر تمام کاموں کے ساتھ ساتھ، گھر گھر جا کر ٹیکہ کاری کی مہم چلانے سے لے کر دواؤں کی سپلائی، زچگی سے قبل اور بعد میں دیکھ بھال جیسے کام لگاتار کر رہی تھیں۔

اس لیے جب معاون نرس (اے این ایم) کی سطح پر چھوٹے پیمانے پر بدعنوانی سامنے آتی ہے، تو آشا کارکن، آنگن واڑی کارکن، اور پونم اور راج لکشمی جیسی عورتیں بے یار و مددگار ہو جاتی ہیں۔ بھلے ہی مانگ کم پیسے کی ہو، لیکن یہاں کی غریب عورتوں کے لیے وہ ان کی صلاحیت سے زیادہ ہوتا ہے۔

اُن کچھ کے سمیت جو ایسے حالات کے آگے سمجھوتہ کر لیتی ہیں، ساری آشا کارکن پر بے حد دباؤ ہوتا ہے۔ ملک بھر میں ۱۰ لاکھ سے بھی زیادہ آشا کارکن ہیں، جو دیہی آبادی اور طبی سہولیات کے درمیان پل کا کام کرتی ہیں۔ وہ اپنے لیے خطرناک ماحول میں بھی طرح طرح سے کام کرتی ہیں۔ ملک کے بہت سے علاقوں میں پچھلے سال اپریل کے مہینہ سے ان کے لیے ہر دن ۲۵ گھروں کا معائنہ کرنا لازمی کر دیا گیا تھا، جہاں انہیں ہر گھر تک مہینہ میں کم از کم چار بار کووڈ سے وابستہ سروے کرنے کے لیے جانا ہوتا تھا۔ انہیں یہ سب کچھ تحفظ کے بے حد کم انتظامات کے ساتھ کرنا ہوتا تھا۔

وبائی مرض سے کافی پہلے ۲۰۱۸ میں بہار میں ۹۳۶۸۷ کی تعداد والے، ہندوستان میں آشا کارکنوں کے دوسرے سب سے بڑے گروپ نے بہتر تنخواہ کی مانگ کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر ہڑال کی تھی۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے کئی قسم کی یقین دہانی کے بعد یہ ہڑتال واپس لے لی گئی تھی۔ لیکن اس کے بعد کچھ نہیں ہوا۔

دربھنگہ کی آشا کارکن، مینا دیوی کہتی ہیں، ’آپ سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ہمیں کام کے بدلے کتنا کم محنتانہ دیا جاتا ہے۔ اگر ہم ان کے (جن کنبوں میں کسی بچے کی پیدائش ہوئی ہوتی ہے) ذریعے خوشی خوشی دیا ہوا پیسہ نہیں لیتے ہیں، تو پھر آپ ہی بتائیے ہماری گزر بسر کیسے ہوگی؟‘

اس سال مارچ کے مہینے میں آشا سمیکت سنگھرش منچ کی قیادت میں وہ پھر ہڑتال پر گئیں، اس بار ان کا نعرہ تھا: ’’ایک ہزار میں دم نہیں، اکیس ہزار ماہانہ تنخواہ سے کم نہیں‘‘۔ انہوں نے آشا کارکنوں کو سرکاری ملازم کا درجہ دیے جانے کی بھی مانگ کی۔ حال میں، بہار میں آشا کارکنوں کی ایک مہینہ میں زیادہ سے زیادہ کمائی کا اوسط ۳۰۰۰ روپے ہے اور وہ آمدنی بھی ان کے ذریعے کیے جانے والے تمام کاموں کے بدلے ملنے والے عارضی محنتانہ سے ہوتی ہے۔

جب بھی وہ ہڑتال پر جاتی ہیں، ہر بار سرکار انہیں بھروسہ دلاتی محسوس ہوتی ہے اور پھر اپنے وعدے سے منحرف ہو جاتی ہے۔ آج بھی انہیں دیگر سرکاری نوکریوں کی طرح تنخواہ، پنشن یا دیگر روزگار بھتوں جیسا کچھ نہیں ملتا ہے۔ ایسے میں بطور آشا کارکن یا آنگن واڑی کارکن گزر بسر کرنا اور کام کرنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے۔

دربھنگہ کی آشا کارکن، مینا دیوی کہتی ہیں، ’’آپ سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ہمیں کام کے بدلے کتنا کم محنتانہ دیا جاتا ہے۔ اگر ہم ان کے (جن کنبوں میں کسی بچے کی پیدائش ہوتی ہے) ذریعے خوشی خوشی دیا ہوا پیسہ نہیں لیتے ہیں، تو پھر آپ ہی بتائیے ہماری گزر بسر کیسے ہوگی؟ ہم کبھی اس کے لیے کسی پر کسی طرح کا دباؤ نہیں بناتے ہیں اور نہ ہی ایک متعینہ رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو کچھ بھی خوشی خوشی دے دیتے ہیں، ہمارے لیے وہی بہت ہے، پھر چاہے وہ بچے کی پیدائش کے موقع پر ہو یا برتھ سرٹیفکیٹ بنوانے کے بدلے ہو۔‘‘

اور یہ سب ان کے یا ان کے جیسے کچھ اور لوگوں کے معاملے میں صحیح ہو سکتا ہے، لیکن ملک بھر میں لاکھوں آشا کارکن ہیں، جو ایسی کسی بھی طرح کی سرگرمی سے بالکل دوری بنا کر رکھتی ہیں۔ لیکن مدھوبنی اور بہار کے کچھ اور حصوں کے معاملے میں بے حد غریب عورتوں کا تجربہ اس کے بالکل برعکس ہے، جن سے ملنے پر جبراً پیسہ وصولی کی بات کا پتہ چلتا ہے۔

منوج کے ماں باپ منوج اور ان کی بیوی کے علاوہ ان کے پہلے تین بچوں – انجلی (عمر ۱۰ سال)، رانی (عمر ۸ سال) اور سوناکشی (عمر ۵ سال) – کے ساتھ رہتے تھے۔ لیکن ان کے ماں باپ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ان کے چوتھے بچے اور اکلوتے بیٹے راجا (جو کہ اب ڈھائی سال کا ہے) کی پیدائش ان کے گزرنے کے بعد ہوئی تھی۔ پونم کہتی ہیں، ’’میری ساس کو کینسر تھا۔ حالانکہ، مجھے نہیں معلوم کہ کون سا والا۔ وہ تقریباً ۴-۵ سال پہلے چل بسیں۔ اس کے بعد، ۳ سال پہلے میرے سسر کی موت کے بعد سے اب بس ہم ۶ لوگ ہی ہیں۔ ان کو ہمیشہ پوتے کی خواہش رہی، کاش وہ راجا کو دیکھ پائے ہوتے۔‘‘

PHOTO • Jigyasa Mishra

’میرے تیسرے بچے کی پیدائش کے بعد جب ’آشا‘ نے مجھ سے پیسے مانگے، مجھے تب جا کر پتہ چلا کہ برتھ سرٹیفکیٹ نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے‘

پونم نے صرف چھٹویں کلاس تک ہی پڑھائی کی ہے اور ان کے شوہر نے ۱۰ویں تک۔ پونم بتاتی ہیں، ’’دیکھئے، شروع شروع میں تو مجھے جنم پتری (برتھ سرٹیفکیٹ) کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔ میرے تیسرے بچے کی پیدائش کے بعد جب ’آشا‘ نے مجھ سے پیسے مانگے، مجھے تب جاکر معلوم ہوا کہ برتھ سرٹیفکیٹ نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، اس نے مجھ سے ۳۰۰ روپے مانگے تھے۔ مجھے لگا تھا کہ یہ عام فیس ہے۔ لیکن پھر میرے شوہر نے مجھے بتایا کہ ہمیں برتھ سرٹیفکیٹ کے لیے کسی کو پیسے دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسپتال سے یہ مفت میں پانا ہمارا حق ہے۔‘‘

پونم آگے بتاتی ہیں، ’’ کہلکئی اڈھائی سو روپیہ دیاؤ تو ہم جنم پتری بنوا دیب (اس نے کہا کہ اگر میں اس کو ۲۵۰ روپے دوں، تو وہ برتھ سرٹیفکیٹ بنوا کر دے دے گی۔ ہم نے اپنے بیٹے کے لیے یہ بنوا لیا کیوں کہ اس نے قیمت کم کرکے ۵۰ روپے کر دی تھی۔ لیکن ہم ۷۵۰ روپے کا خرچ نہیں اٹھاسکے جو اس نے ہماری بیٹیوں کا بھی برتھ سرٹیفکیٹ بنوانے کے بدلے مانگے تھے۔‘‘

پونم برتھ سرٹیفکیٹ بنوانے کی کارروائی پر بات کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’اگر ہم یہ خود ہی بنوانے کی کوشش کریں، تو ہمیں اس کے لیے بینی پٹّی اسپتال (بلاک ہیڈکوارٹر) جانا پڑے گا۔ وہاں، ہمیں صفائی والی کو کچھ پیسے دینے پڑیں گے۔ تو دونوں طرح سے ہی پیسہ خرچ ہونا ہی ہے، چاہے ہم یہاں آشا کو دیں یا بینی پٹّی تک جائیں۔ پھر ہم نے جانے دیا۔ مستقبل میں کبھی ان برتھ سرٹیفکیٹ کی ضرورت پڑی، تو تب کا تب دیکھیں گے۔ میرے شوہر کافی محنت کے بعد مشکل سے ایک دن میں ۲۰۰ روپے کما پاتے ہیں۔ ہم وہ بنوانے میں ایک بار میں اتنا خرچ کیسے کر سکتے ہیں جتنی ان کی چار دن کی کمائی ہوگی؟

شانتی اس میں اپنی بات جوڑتے ہوئے کہتی ہیں، ’’میری تو ایک بار ’آشا‘ سے بحث بھی ہو گئی تھی۔ میں نے تو اسے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر ہمیں اس کے لیے پیسہ دینا پڑے گا، تو ہم برتھ سرٹیفکیٹ بنوائیں گے ہی نہیں۔‘‘

اُس وقت تک پونم کے زیادہ تر پڑوسی گاؤں میں لگنے والے ہفتہ وار ہاٹ میں جانے کے لیے نکلنے لگے تھے، تاکہ اندھیرا ہونے سے پہلے وہاں پہنچ سکیں۔ ہاٹ جانے کے سوال پر پونم کہتی ہیں، ’’میں سوناکشی کے پاپا (پونم، منوج کو ایسے ہی بلاتی ہیں) کا انتظار کر رہی ہوں، تاکہ ہم بھی جا کر تھوڑی سبزیاں یا مچھلی لے لیں۔ میں تین دن سے لگاتار دال چاول ہی بنا رہی ہوں۔ سوناکشی کو روہو (مچھلی) کا ذائقہ پسند ہے۔‘‘

لوٹتے ہوئے یہ ضرور لگتا ہے کہ وہاں بیٹیوں کے برتھ سرٹیفکیٹ سے زیادہ اہم اور فوری طور پر ضروری چیزیں کرنے کو ہیں۔

پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتا لگایا جا سکے۔

اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم zahra@ruralindiaonline.org کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی namita@ruralindiaonline.org کو بھیج دیں۔

جگیاسا مشرا ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن سے ایک آزاد صحافتی گرانٹ کے توسط سے صحت عامہ اور شہریوں کی آزادی پر رپورٹ کرتی ہیں۔ ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن نے اس رپورٹ کے مواد پر کوئی ادارتی کنٹرول نہیں کیا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Jigyasa Mishra

Jigyasa Mishra is an independent journalist based in Chitrakoot, Uttar Pradesh.

Other stories by Jigyasa Mishra
Illustration : Jigyasa Mishra

Jigyasa Mishra is an independent journalist based in Chitrakoot, Uttar Pradesh.

Other stories by Jigyasa Mishra
Editor : P. Sainath
psainath@gmail.com

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought'.

Other stories by P. Sainath
Series Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez