’’اب ویسا نہیں ہے جیسا برسوں پہلے ہوا کرتا تھا۔ آج کی عورتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ مانع حمل کے کون سے طریقے دستیاب ہیں،‘‘ صالحہ خاتون کہتی ہیں، جو دھوپ میں اپنے گھر کے برآمدے میں کھڑی ہیں۔ یہ گھر اینٹ اور گارے سے بنا ہے، جس کی دیواروں کو سمندری ہرے رنگ سے رنگا گیا ہے۔
وہ اپنے تجربہ کی بنیاد پر بتا رہی ہیں – گزشتہ ایک دہائی سے صالحہ، اپنے بھتیجہ کی بیوی شمع پروین کے ساتھ، بہار کے مدھوبنی ضلع کے حسن پور گاؤں کی عورتوں کے لیے غیر رسمی طور پر نامزد خاندانی منصوبہ بندی اور حیض کے دوران صفائی کی صلاح کار بنی ہوئی ہیں۔
عورتیں اکثر مانع حمل کے بارے میں سوال اور درخواستوں کے ساتھ ان سے رابطہ کرتی ہیں۔ وہ پوچھتی ہیں کہ اگلے حمل سے پہلے دو بچوں کے درمیان فرق کیسے بنائے رکھا جا سکتا ہے، ٹیکہ کاری کب سے شروع ہونے والی ہے۔ اور کچھ عورتیں تو ضرورت پڑنے پر خفیہ طریقے سے مانع حمل انجیکشن لگوانے بھی آتی ہیں۔
شمع کے گھر کے کونے والے کمرے میں ایک چھوٹا سا دواخانہ ہے، جہاں الماریوں پر دوا کی چھوٹی شیشیاں اور گولیوں کے پیک رکھے ہوئے ہیں۔ ۴۰ سالہ شمع اور ۵۰ سالہ صالحہ – ان میں سے کوئی بھی تربیت یافتہ نرس نہیں ہے – پٹھوں میں یہ انجیکشن لگاتی ہیں۔ ’’کبھی کبھی عورتیں اکیلے آتی ہیں، انجیکشن لیتی ہیں اور جلدی نکل جاتی ہیں۔ ان کے گھر پر کسی کو کچھ بھی جاننے کی ضرورت نہیں ہے،‘‘ صالحہ کہتی ہیں۔ ’’دیگر عورتیں اپنے شوہر یا خاتون رشتہ داروں کے ساتھ آتی ہیں۔‘‘
یہ ایک دہائی پہلے کے مقابلے ڈرامائی تبدیلی ہے، جب پھول پارس بلاک کی سینی گرام پنچایت میں تقریباً ۲۵۰۰ کی آبادی والے حسن پور گاؤں کے باشندوں کے ذریعہ خاندانی منصوبہ بندی کی تکنیکوں کا استعمال شاید ہی کیا جاتا تھا۔
تبدیلی کیسے آئی؟ ’’یہ اندر کی بات ہے،‘‘ شمع کہتی ہیں۔
حسن پور میں اس سے پہلے مانع حمل کا کم استعمال ریاست گیر حالت کی جانب اشارہ کرتا ہے – این ایف ایچ ایس۔۴ (۲۰۱۵۔۱۶) کے مطابق بہار میں کل شرح پیدائش (ٹی ایف آر) ۳ اعشاریہ ۴ تھی – جو کل ہند شرح ۲ اعشاریہ ۲ سے کافی زیادہ تھی۔ (ٹی ایف آر بچوں کی وہ اوسط تعداد ہے جنہیں ایک عورت اپنی افزائشی مدت کے دوران پیدا کرے گی)۔
این ایف ایچ ایس۔۵ (۲۰۱۹۔۲۰) میں ریاست کا ٹی ایف آر گھٹ کر ۳ ہو گیا، اور یہ گراوٹ قومی خاندانی صحت کے سروے کے راؤنڈ ۴ اور ۵ کے درمیان ریاست میں مانع حمل کے استعمال میں اضافہ کے ساتھ میل کھاتی ہے – جو ۲۴ اعشاریہ ۱ فیصد سے بڑھ کر ۵۵ اعشاریہ ۸ فیصد ہو گیا تھا۔
مانع حمل کے جدید طریقوں میں (این ایف ایچ ایس۔۴ کے مطابق) عورتوں کی نس بندی سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی (۸۶ فیصد) محسوس ہوتی ہے۔ این ایف ایچ ایس۔۵ کے اعداد و شمار کی تفصیل ابھی موصول نہیں ہوئی ہے۔ لیکن دو بچوں کے درمیان کے فرق کو یقینی بنانے کے لیے مانع حمل انجیکشن سمیت نئے مانع حمل کا استعمال ریاستی پالیسی کا ایک اہم جزو ہے۔
حسن میں بھی صالحہ اور شمع کو لگتا ہے کہ عورتیں اب مانع حمل – مانع حمل گولیوں اور انجیکشن کا استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ انجیکشن کا نام ہے ڈپو میڈروکسی پروجیسٹران ایسی ٹیٹ (ڈی ایم پی اے) جس کی مارکیٹنگ ہندوستان میں ’ڈپو پروویرا‘ اور ’پری‘ کے نام سے کی جاتی ہے۔ سرکاری اسپتالوں اور طبی مراکز میں ڈی ایم پی اے ’انترا‘ برانڈ کے نام سے دستیاب ہے۔ ۲۰۱۷ میں ہندوستان میں اس کے استعمال سے پہلے، ’ڈپو‘ کو غیر منفعت بخش گروپوں سمیت، افراد اور پرائیویٹ کمپنیوں کے ذریعے پڑوسی ملک نیپال سے بہار میں درآمد کیا جا رہا تھا۔ ایک انجیکشن کی قیمت ۲۴۵ روپے سے ۳۵۰ روپے ہے اور یہ سرکاری طبی مراکز اور اسپتالوں میں مفت دستیاب ہے۔
مانع حمل انجیکشن پر اعتراض کرنے والے بھی رہے ہیں، خاص کر ۹۰ کی دہائی میں خواتین کے حقوق کی لڑائی لڑنے والے گروہوں اور طبی کارکنان کے ذریعہ اس کی کئی سالوں تک مخالفت کی گئی، جنہیں اس بات کی فکر تھی کہ انجیکشن سے بہت زیادہ یا بہت کم حیض، دانے، وزن بڑھنا، وزن کم ہونا اور حیض کی مدت میں بے ترتیبی جیسی خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ یہ طریقہ محفوظ ہے یا نہیں اس بارے میں شک، کئی جانچ، مختلف جماعتوں کی جانب سے رد عمل اور کئی دیگر چیزوں کے سبب ہندوستان میں ڈی ایم پی اے کو ۲۰۱۷ سے پہلے شروع کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اب اس کی پیداوار ملک میں ہی کی جا رہی ہے۔
اکتوبر ۲۰۱۷ میں اس انجیکشن کا استعمال بہار میں ’انترا‘ نام سے شروع کیا گیا، اور جون ۲۰۱۹ سے یہ تمام شہروں اور دیہی طبی مراکز اور ذیلی مراکز میں دستیاب تھا۔ ریاستی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، اگست ۲۰۱۹ تک انجیکشن کی ۴۲۴۴۲۷ خوراک دی گئی، جو ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ ایک بار انجیکشن لینے والی ۴۸ اعشاریہ ۸ فیصد خواتین نے اس کی دوسری خوراک لی تھی۔
اگر ڈی ایم پی اے کا لگاتار دو سال سے زیادہ استعمال کیا جائے، تو یہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ مطالعہ کے خطرات میں سے ایک ہڈی معدنیات کی کثافت میں کمی ہے (ایسا مانا جاتا ہے کہ انجیکشن بند ہونے پر یہ پھر سے بڑھ سکتا ہے)۔ عالمی ادارہ صحت کی تجویز ہے کہ ڈی ایم پی اے کا استعمال کرنے والی خواتین کی ہر دو سال میں جانچ کی جا سکتی ہے۔
شمع اور صالحہ نے زور دیکر کہا کہ وہ انجیکشن کے تحفظ کو لیکر بہت محتاط ہیں۔ ہائی بلڈ پریشر سے متاثرہ خواتین کو انجیکشن نہیں لگائے جاتے ہیں، اور یہ دونوں طبی رضاکار انجیکشن لگانے سے پہلے ان کے بلڈ پریشر کی ہر حال میں جانچ کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک انہیں کسی کی طرف سے سائڈ افیکٹ کی کوئی شکایت نہیں ملی ہے۔
ان کے پاس اس بات کا کوئی ڈیٹا نہیں ہے کہ گاؤں میں کتنی خواتین ’ڈپو پروویرا‘ کا استعمال کر رہی ہیں، لیکن یہ طریقہ خواتین میں زیادہ مقبول ہے، شاید رازداری بنائے رکھنے اور ہر تین مہینے میں ایک انجیکشن کے متبادل کے سبب۔ ساتھ ہی، جن خواتین کے شوہر شہر میں کام کرتے ہیں اور سال میں کچھ مہینے کے لیے گاؤں لوٹتے ہیں، ان کے لیے یہ قلیل مدتی مانع حمل کا ایک آسان طریقہ ہے۔ (طبی کارکنان اور طبی تحقیق کا کہنا ہے کہ انجیکشن کی خوراک لینے کے تین مہینے بعد افزائشی دور لوٹ آتا ہے۔(
مدھوبنی میں مانع حمل انجیکشن کے استعمال میں اضافہ کی ایک دوسری وجہ گھوگھرڈیہہ پرکھنڈ سوراجیہ وکاس سنگھ (جی پی ایس وی ایس) کا کام ہے۔ ۱۹۷۰ کے عشرے میں، ونوبا بھاوے اور جے پرکاش نارائن کے حامیوں نے لامرکوزی جمہوریت اور اجتماعی خود انحصاری کی اصولوں سے متاثر ہوکر یہ تنظیم قائم کی تھی۔ (وکاس سنگھ ریاستی حکومت کی ٹیکہ کاری مہموں اور نس بندی کیمپوں میں بھی شامل رہا ہے۔ ایسے کیمپوں کی ۱۹۹۰ کے عشرے میں ’ہدف شدہ‘ نقطہ نظر اپنانے کے سبب تنقید کی گئی تھی)۔
مسلم اکثریتی گاؤں حسن پور میں پولیو ٹیکہ کاری اور خاندانی منصوبہ بندی کے لیے عوامی حمایت اور آلات کا استعمال ۲۰۰۰ تک بہت کم رہا۔ بعد میں جے پی ایس وی ایس نے اس گاؤں اور دیگر گاؤوں کی خواتین کو سیلف ہیلپ گروپ اور مہیلا منڈلوں میں منظم کرنا شروع کیا۔ صالحہ ایک ایسے ہی سیلف ہیلپ گروپ کی رکن بن گئیں اور انہوں نے شمع کو بھی اس میں شامل ہونے کے لیے راضی کر لیا۔
گزشتہ تین سالوں میں، دونوں خواتین نے حیض، صفائی، غذائیت اور خاندانی منصوبہ بندی پر جی پی ایس وی ایس کے ذریعہ منعقد ٹریننگ کیمپوں میص حصہ لیا ہے۔ مدھوبنی ضلع کے تقریباً ۴۰ گاؤوں میں جہاں وکاس سنگھ کام کر رہا ہے، تنظیم نے ’سہیلی نیٹ ورک‘ میں خواتین کو منظم کرکے انہیں حیض کے پیڈ، کنڈوم اور مانع حمل گولیوں والا ایک کٹ بیگ دینا شروع کیا، جنہیں یہ خواتین فروخت کر سکتی تھیں۔ اس پہل کے نتیجہ میں، مانع حمل آلات خواتین کے دروازے تک پہنچ گئے ہیں، اور وہ بھی تبصرہ نہ کرنے والی خواتین کی ایک جوڑی کے ذریعے۔ ۲۰۱۹ میں، جب ڈی ایم پی اے ’پری‘ برانڈ کے نام سے دستیاب ہونے لگا، تو کٹ بیگ میں اسے بھی شامل کر لیا گیا تھا۔
’’اب سہیلی نیٹ ورک کے پاس تقریباً ۳۲ خواتین کا ایک سیلز نیٹ ورک ہے۔ ہم نے انہیں مقامی تھوک تاجر سے جوڑ دیا ہے جس سے وہ تھوک قیمتوں پر چیزیں خریدتی ہیں،‘‘ مدھوبنی میں واقع جی پی ایس وی ایس کے سی ای او، رمیش کمار سنگھ کہتے ہیں۔ اس کے لیے تنظیم نے شروعات میں کچھ خواتین کو ابتدائی رقم مہیا کرائی۔ ’’وہ فروخت کی گئی ہر ایک شے پر ۲ روپے کا منافع کما سکتی ہیں،‘‘ سنگھ کہتے ہیں۔
حسن پور میں جب کچھ خواتین نے مانع حمل انجیکشن کا استعمال کرنا شروع کیا، تو انہیں یہ یقینی بنانا پڑا کہ دوسری خوراک لینے سے پہلے دو خوراکوں کے درمیان کے تین مہینے کے فرق کے بعد دو ہفتے سے زیادہ وقت نہ لگے۔ تبھی شمع اور صالحہ اور ۱۰ دیگر خواتین کے گروپ نے قریب کے ابتدائی طبی مرکز کی اے این ایم (معاون نرس دائیوں) سے انجیکشن لگانا سیکھا۔ (حسن پور میں ابتدائی طبی مرکز نہیں ہے، قریبی پی ایچ سی ۱۶ اور ۲۰ کلومیٹر دور، پھول پارس اور جھنجھارپور میں ہیں)۔
پھول پارس ابتدائی طبی مرکز (پی ایچ سی) میں انجیکشن لینے والی خواتین میں سے ایک عظمیٰ ہیں (نام بدل دیا گیا ہے) ہیں۔ عظمیٰ نوجوان ہیں اور ان کے یکے بعد دیگرے پیدا ہونے والے تین بچے ہیں۔ ’’میرے شوہر دہلی اور دیگر مقامات پر کام کرنے جاتے ہیں۔ ہم نے طے کیا کہ وہ جب بھی گھر لوٹیں، سوئی [انجیکشن] لینا ٹھیک رہے گا،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’وقت اتنا مشکل ہے کہ ہم ایک بڑی فیملی نہیں رکھ سکتے۔‘‘ عظمیٰ بعد میں کہتی ہیں کہ وہ اب نس بندی کے ذریعے ’’مستقل’‘ حل پر غور کر رہی ہیں۔
جن خواتین کو ’موبائل طبی کارکن‘ کے طور پر تربیت یافتہ بنایا گیا ہے، وہ ان خواتین کی بھی مدد کرتی ہیں جو مفت میں ’انترا‘ انجیکشن لگوانا چاہتی ہیں جن کے لیے انہیں ابتدائی طبی مراکز میں جاکر رجسٹریشن کرانا پڑتا ہے۔ شمع اور صالحہ کا کہنا ہے کہ آگے چل کر خواتین کو آنگن باڑی میں بھی ’انترا‘ ملنے کی امید ہے۔ اور صحت اور خاندانی فلاح و بہبود کی وزارت کی جانب سے مانع حمل انجیکشن پر تیار کیے گئے کتابچہ کے مطابق، یہ انجیکشن تیسرے مرحلہ میں ذیلی مراکز میں بھی دستیاب ہوں گے۔
شمع کہتی ہیں کہ اس وقت گاؤں کی زیادہ تر خواتین دو بچے ہونے کے بعد اس پر ’’بریک‘‘ لگا رہی ہیں۔
لیکن حسن پور میں اس تبدیلی کو آنے میں کافی وقت لگا۔ ’’لمبا (وقت) لگا، لیکن ہم نے کر دکھایا،‘‘ شمع کہتی ہیں۔
شمع کے شوہر، ۴۰ سالہ رحمت اللہ ابو حسن پور میں طبی خدمات فراہم کرتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس ایم بی بی ایس کی ڈگری نہیں ہے۔ انہیں کے تعاون سے شمع نے تقریباً ۱۵ سال پہلے، مدرسہ بورڈ کی عالم سطح کا گریجویشن کا امتحان پاس کیا۔ اس تعاون، اور خواتین کے گروپ کے ساتھ ان کے کام نے، شمع کو اپنے شوہر کے ساتھ ان کے دوروں پر، کبھی کبھی زچگی کے لیے، یا مریضوں کو اپنے گھر کے کلینک میں آرام سے رکھنے کے لیے آمادہ کیا۔
شمع اور صالحہ کو حالانکہ ایسا نہیں لگتا کہ اپنے مسلم اکثریتی گاؤں میں انہیں مانع حمل کے ایشو پر مذہبی عقائد کے حساس ایشو کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے برعکس، وہ کہتی ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ معاشرہ نے چیزوں کو الگ طرح سے دیکھنا شروع کر دیا ہے
شمع کی ۱۹۹۱ میں شادی ہوئی تھی جب وہ صرف ایک نوعمر تھیں اور دُبیاہی سے حسن پور آئی تھیں، جو اب سپول ضلع میں ہے۔ ’’میں سختی سے گھونگھٹ کرتی تھی۔ میں نے اپنا محلہ بھی نہیں دیکھا تھا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ لیکن انہوں نے خواتین کے ایک گروپ کے ساتھ کام کرنا شروع کیا اور سب کچھ بدل گیا۔ ’’اب میں ایک بچے کی پوری طرح سے جانچ کر سکتی ہوں۔ میں انجیکشن بھی لگا سکتی ہوں، پانی کی بوتل بھی چڑھا سکتی ہوں۔ اتنا کر لیتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
شمع اور رحمت اللہ ابو کے تین بچے ہیں۔ سب سے بڑا بیٹا ۲۸ سال کی عمر میں بھی غیر شادی شدہ ہے، وہ فخر سے کہتی ہیں۔ ان کی بیٹی نے گریجویشن کر لیا ہے اور اب بی ایڈ کرنا چاہتی ہے۔ ’’ماشاء اللہ، وہ ٹیچر بننے جا رہی ہے،‘‘ شمع کہتی ہیں۔ سب سے چھوٹا بیٹا کالج میں ہے۔
شمع جب حسن پور کی خواتین سے اپنی فیملی کو چھوٹا رکھنے کے لیے کہتی ہیں، تو وہ مان جاتی ہیں۔ ’’کبھی کبھی وہ میرے پاس صحت سے متعلق الگ الگ مسائل لیکر آتی ہیں، پھر میں انہیں مانع حمل کے بارے میں صلاح دیتی ہوں۔ فیملی جتنی چھوٹی ہوگی، وہ اتنے خوش رہیں گے۔‘‘
شمع روزانہ اپنے گھر کے باہری برآمدے میں ۵ سے ۱۶ سال کے ۴۰ بچوں کو پڑھاتی ہیں۔ گھر کی دیواروں سے پینٹ جھڑ رہے ہیں، لیکن اس کے ستون اور محراب برآمدے کو روشن کرتے ہیں۔ وہ اسکول کے نصاب کے ساتھ ساتھ، کشیدہ کاری یا سلائی اور موسیقی کے بارے میں بھی پڑھاتی ہیں۔ اور یہاں، نوعمر لڑکیاں شمع سے اپنے من کی بات کر سکتی ہیں۔
ان کی سابق طالبات میں سے ایک، ۱۸ سالہ غزالہ خاتون ہیں۔ ’’ماں کی گود بچے کا پہلا مدرسہ ہوتا ہے۔ یہیں سے صحت اور تمام اچھی تدریس شروع ہوتی ہے،‘‘ وہ شمع سی سیکھی گئی ایک لائن دوہراتے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’حیض کے دوران کیا کرنا ہے اور شادی کے لیے صحیح عمر کیا ہے، میں نے سب کچھ یہیں سے سیکھا ہے۔ میرے گھر کی سبھی عورتیں اب سینیٹری پیڈ کا استعمال کرتی ہیں، کپڑے کی تہوں کا نہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’میں اپنی غذائیت کا بھی دھیان رکھتی ہوں۔ اگر میں صحت مند ہوں، تو مستقبل میں میرا بچے بھی صحت مند ہوں گے۔‘‘
کمیونٹی بھی صالحہ پر بھروسہ کرتی ہے (وہ اپنی فیملی کے بارے میں زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتیں)۔ وہ اب حسن پور مہیلا منڈل کے نو سیلف ہیلپ گروپ کی صدر ہیں۔ ہر ایک گروپ میں ۱۲-۱۸ عورتیں ہر مہینے ۵۰۰ سے ۷۵۰ روپے بچاتی ہیں۔ یہ گروپ مہینہ میں ایک بار میٹنگ کرتا ہے۔ اکثر، گروپ میں کئی نوجوان عورتیں ہوتی ہیں، اور صالحہ مانع حمل پر گفتگو کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔
جی پی ایس وی ایس کے مدھوبنی میں مقیم صدر، جتندر کمار، جو ۱۹۷۰ کی دہائی کے آخر میں اس کے بانی ممبران میں سے ایک تھے، کہتے ہیں، ’’ہمارے ۳۰۰ خواتین کے گروپ کا نام کستوربا مہیلا منڈل ہے اور ہماری کوشش گاؤں کی خواتین کے لیے خود مختاری کو ایک حقیقت بنانے کی ہے، اس [حسن پور] جیسے قدامت پسند معاشروں میں بھی۔‘‘ وہ زور دیکر کہتے ہیں کہ ان کے کام کی مجموعی شکل معاشروں کو شمع اور صالحہ جیسی رضاکاروں پر بھروسہ کرنے میں مدد کرتی ہے۔ ’’یہاں کے علاقوں میں اس قسم کی افواہیں بھی پھیلیں کہ پلس پولیو ڈراپس لڑکوں کو بانجھ بنا دیں گے۔ تبدیلی میں وقت لگتا ہے...‘‘
شمع اور صالحہ کو حالانکہ ایسا نہیں لگتا کہ اپنے مسلم اکثریتی گاؤں میں انہیں مانع حمل کے ایشو پر مذہبی عقائد کے حساس ایشو کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے برعکس، وہ کہتی ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ معاشرہ نے چیزوں کو الگ طرح سے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔
’’میں آپ کو ایک مثال دوں گی،‘‘ شمع کہتی ہیں۔ ’’پچھلے سال، میری ایک رشتہ دار جن کے پاس بی اے کی ڈگری ہے، پھر سے حاملہ ہو گئیں۔ ان کے پاس پہلے سے ہی تین بچے ہیں۔ اور ان کا آخری بچہ آپریشن سے ہوا تھا۔ میں نے ان کو آگاہ کیا تھا کہ وہ محتاط رہیں، ان کا پیٹ کھولا جا چکا ہے۔ انہیں سنگین پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا اور بچہ دانی کو ہٹانے کے لیے اس بار ایک اور سرجری کرانی پڑی۔ انہوں نے ساری چیزوں پر ۳-۴ لاکھ روپے خرچ کیے۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ اس قسم کے واقعات دیگر خواتین کو محفوظ مانع حمل کے طریقے اپنانے پر مجبور کرتے ہیں۔
صالحہ کا کہنا ہے کہ لوگ اب ان باریکیوں پر غور کرنے کے لیے تیار ہیں کہ گناہ کیا ہے۔ ’’میرا مذہب بھی یہی کہتا ہے کہ آپ کو اپنے بچے کی دیکھ بھال کرنی چاہیے، اس کی اچھی صحت کو یقینی بنانا چاہیے، اسے اچھے کپڑے دینے چاہئیں، اس کی اچھی پرورش کرنی چاہیے...‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’ایک درجن یا آدھا درجن ہم نے پیدا کر لیے اور پھر انہیں آوارہ گردی کرنے کے لیے چھوڑ دیا – ہمارا مذہب یہ نہیں کہتا کہ بچے پیدا کرو اور انہیں اکیلا چھوڑ دو۔‘‘
پرانا ڈر اب ختم ہو چکا ہے، صالحہ کہتی ہیں۔ گھر پر اب ساس کی حکمرانی نہیں ہے۔ بیٹا کماتا ہے اور گھر پر اپنی بیوی کو پیسے بھیجتا ہے۔ وہ گھر کی مکھیا ہے۔ ہم اسے دو بچوں کی پیدائش کے درمیان فرق بنائے رکھنے کے بارے میں سکھاتے ہیں۔ اور اگر اس کے دو یا تین بچے ہیں، تو ہم اسے سرجری [نس بندی] کرانے کی صلاح دیتے ہیں۔’‘
ان کوششوں پر حسن پور کے لوگوں نے اچھا رد عمل دیا ہے۔ صالحہ کے مطابق: ’’لائن پہ آ گئے۔’’
پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتا لگایا جا سکے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم zahra@ruralindiaonline.org کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی namita@ruralindiaonline.org کو بھیج دیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز