امبا داس ککڑے نے بہت سوچ سمجھ کر خطرہ اٹھایا ہے: انھوں نے خریف کے اس موسم میں دوسری فصل لگائی ہے۔ یہ ان کی کھیتی کی لاگت کے ایک حصہ کو واپس حاصل کرنے کی آخری امید ہے۔

مانسون کی شروعاتی بارش کے بعد، وسط جون کے آس پاس، پربھنی ضلع کے سائیلو تعلقہ کے مورے گاؤں کے 83 سالہ کسان نے کپاس، سویابین، تور اور مونگ لگائی تھی۔ اس کے بعد، اگست کے تقریباً وسط تک مراٹھواڑہ میں کوئی بارش نہیں ہوئی۔ فصلیں یا تو خشک ہو گئیں یا پھر پربھنی سمیت اس خطہ کے بڑے علاقے میں آدھی ادھوری ہی رہ گئیں۔ ککڑے کا سویا، تور اور مونگ بھی سکڑ گیا۔

’’میرے پاس 10 ایکڑ ہے،‘‘ ککڑے بتاتے ہیں۔ ’’میں نے ایک ایکڑ سے کپاس توڑ لی تھی اور اس کی جگہ گوبھی لگا دی تھی (جولائی کے اخیر میں)۔ یہ تین مہینے کی فصل ہے، اور اسے زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ اگر بارش نہیں ہوئی، تو میں دیگر فصلوں کو بھی ٹماٹر سے بدل دوں گا (اسے بھی کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے)۔‘‘

پہلے سے ہی ایک ایکڑ میں لگائی گئی کپاس کی فصل کو گوبھی سے بدلنے سے، ککڑے کو اس ایکڑ پر جون میں خرچ کیے گئے 15000 روپے کا نقصان ہو گیا ہے۔ اگر سوکھے کا اثر جاری رہا، تو انھیں اس مزید 15000 روپے کے بھی نقصان ہو جانے کا خطرہ ہے، جو انھوں نے  گوبھی کی بوائی پر لگایا ہے۔ ’’میں جانتا ہوں کہ اس موسم میں مجھے کوئی منافع نہیں ہونے والا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

PHOTO • Parth M.N.

83 سالہ امبا داس ککڑے نے اس وقت سوچ سمجھ کر خطرہ مول لیا، جب انھوں نے اس خریف کے موسم میں ایک ایکڑ سے کپاس کی فصل کو ہٹا کر اس کی جگہ گوبھی لگائی

ککڑے نے 3 لاکھ روپے کا بینک لون اور 5 لاکھ روپے کا پرائیویٹ لون لے رکھا ہے۔ ’’میں صرف دونوں فصلوں کی بوائی کی لاگت (اس ایک ایکڑ پر) واپس حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ ہم سبھی قدرت کے رحم و کرم پر ہیں۔ گزشتہ 10 برسوں میں موسم مزید غیر یقینی بنا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ مجھے اکتوبر میں شروع ہونے والے ربیع کے موسم سے پہلے پیسے نہیں مانگنے پڑیں گے۔‘‘

ککڑے اپنی کپاس کی کچھ فصل باقی رکھیں گے، کیوں کہ وہ تمام 10 ایکڑ پر دوسری فصلیں نہیں لگا سکتے، اس کے لیے انھیں مزید پیسے کی ضرورت ہوگی جو کہ ان کے پاس نہیں ہے۔ اور انھیں امید ہے کہ اگست کے دوسرے نصف میں مراٹھواڑہ میں بارش کے بعد، مانسون دوبارہ آئے گا۔ اگر بارش ہوتی رہی، تو کپاس کی فصل نومبر تک کاٹی جا سکے گی، اور اس سے اچھا منافع ہو سکتا ہے۔ پہلی بوائی کی خشک ہوئی چکیں غذائی فصلیں حالانکہ واپس نہیں آئیں گی۔

اپنی زمین کے ایک حصہ پر، دو بار پیرنی، یعنی دوسری بار بوائی کرکے، ککڑے نقصان سے بچنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ مراٹھواڑہ کے کسان جب وسط جون کے آس پاس خریف کی پہلی بوائی کرتے ہیں، تو ان فصلوں کو بڑھنے کے لیے لگاتار بارش کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر بارش کم ہوئی یا نہیں ہوئی، تو کسانوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی پہلی بوائی سے فصل زیادہ نہیں ہونے والی ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی، وہ دوبارہ رقم جمع کرتے ہیں اور اگست کے پہلے ہفتہ کے آس پاس دوسری بوائی کرنے کی ہمت جٹاتے ہیں، اس امید میں کہ کم از کم ان کی لاگت نکل جائے۔ اگر دوبار پیرنی کے بعد بارش ہوئی، تو اس جوے کا فائدہ ہوگا۔ اگر بارش نہ ہوئی، تو ان پر دوہری مار پڑے گی۔

ککڑے، جو کہ 80 کی عمر میں چل رہے ہیں، اس عمر میں اپنے کھیت پر چہل قدمی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ غیر یقینیت ان پر اثر ڈالتی ہے۔ ’’ہماری فیملی میں کل 16 ممبران ہیں۔ میرے تینوں بیٹے شادی شدہ ہیں۔ اضافی آمدنی کے لیے وہ زرعی مزدوری بھی کرتے ہیں (پاس کے گاؤوں میں)۔ میرے پوتے کھیتی میں مدد کرتے ہیں اور پڑھائی کر رہے ہیں، وہ چھوٹے ہیں۔‘‘

کھُپسا گاؤں میں، جو کہ یہاں سے تین کلومیٹر دور ہے، 49 سالہ صاحب راؤ دسالکر بھی ککڑے کے نقش پر چل رہے ہیں۔ اپنے 12 ایکڑ کی کپاس میں سے انھوں نے 1.5 ایکڑ خالی کر لیا ہے؛ وہ بھی اپنی بقیہ فصل سے کچھ واپسی کی امید کر رہے ہیں۔ ’’مجھے 1.5 ایکڑ پر 25000 روپے کا نقصان ہوا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’اب میں نے اس پر گوبھی لگائی ہے۔ میں نے فصل کی زیادہ زمین کو اس لیے نہیں بدلا، کیوں کہ اگر بعد میں بارش ہوتی بھی ہے تو، ایک ایکڑ میں 3-2 کوئنٹل کپاس کی پیداوار ہو سکتی ہے (اچھے مانسون میں، یہ 8-6 کوئنٹل تک ہو سکتی ہے)، اور میں اس سے کم از کم کچھ پیسے (فی کوئنٹل تقریباً 4000 روپے) حاصل کر سکتا ہوں۔

PHOTO • Parth M.N.

کھُپسا گاؤں کے صاحب راؤ دسالکر نے اس سال بہتر واپسی کی امید میں، 1.5 ایکڑ زمین پر کپاس کی جگہ گوبھی لگائی ہے

مراٹھواڑہ کے جو کسان صرف غذائی فصلیں پیدا کرتے ہیں، وہ کافی پریشان ہیں، کیوں کہ ایسی فصلیں نہیں ہیں جو اتنے دنوں تک خشک موسم میں زندہ رہ سکیں۔ لاتور ضلع کے جلکوٹ تعلقہ کے ملیہپرگا گاؤں میں، 35 سالہ ہری کیندرے، کسی اور کے کھیت پر مزدوری کرتے ہیں، کیوں کہ ان کی اپنی فصلیں سوکھ چکی ہیں۔ ’’صرف اسی طریقے سے میں دوبار پیرنی کے لیے پیسے جمع کر سکتا ہوں،‘‘ وہ کھیت پر ہل چلاتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’میرے 10 ایکڑ کھیت میں جو سویابین، مونگ، تور اور چنا ہے اس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہونے والا۔ یہ 60000 روپے کا نقصان ہے۔‘‘

بارش نہ ہونے کی وجہ سے جلکوٹ کے آبی ذخائر بھی خشک ہو چکے ہیں۔ ’’سورج مکھی (غذائی فصل) میں زیادہ پانی نہیں لگتا،‘‘ کیندرے کہتے ہیں۔ ’’میں اپنی 200 روپے کی روزانہ کی کمائی سے اگر وافر پیسہ جمع کر سکا، تو میں سورج مکھی لگاؤں گا۔۔۔‘‘ یہ دوبار پیرنی واحد راستہ ہے جس کے لیے وہ اکتوبر میں ربیع کی فصل سے پہلے پیسہ جمع کر سکتے ہیں۔ ’’میں نے 4 لاکھ روپے کا پرائیویٹ لون لے رکھا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ اگر میں اور قرض لوں گا تو برباد ہو جاؤں گا۔ مجھے اپنی فصلوں سے پیسہ جمع کرنا ہوگا۔‘‘

PHOTO • Parth M.N.

بارش نہ ہونے سے یا تو بہت سی فصلیں سوکھ چکی ہیں یا پھر پوری طرح تیار نہیں ہوئی ہیں

پچھلے سالوں میں بھی مراٹھواڑہ کے کسانوں کو ایسی ہی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مانسون کے ابتدائی دنوں میں بھی کئی ہفتوں تک ایک بوند بھی بارش نہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد بہت سے کسانوں نے دوبار پیرنی کے ذریعے اپنی قسمت آزمائی تھی۔ لیکن اس خطہ میں 2015-2012 کے دوران چار برسوں تک قحط سالی رہی، اور اس قسم کے ہر سال میں کسان بوائی کے لیے پیسے جمع کرنے میں پوری طرح ناکام رہے۔ لہٰذا 2017 میں، چند کسانوں نے ہمت جٹائی ہے؛ کئی کسانوں نے تو یہ تسلیم کر لیا کہ خریف کا موسم بے نتیجہ رہے گا۔

بیڈ ضلع کے مجل گاؤں کے 32 سالہ گنیش بھالیکر کہتے ہیں کہ اس سال بہت سے کسان دوبارہ بوائی اس لیے نہیں کر رہے ہیں، کیوں کہ انھوں نے خریف موسم سے قبل پیسے جمع کرنے کے لیے پہلے ہی قرض لے رکھا تھا۔ ’’مزید پیسے قرض لینا اور دوسری بوائی کا خطرہ اٹھانا خودکشی کرنے کے مترادف ہوگا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہمارے سروں پر کافی قرضے ہیں۔ ربیع موسم کے لیے سیدھے تیاری کرنا زیادہ پریکٹیکل ہے۔‘‘

PHOTO • Parth M.N.

بائیں: گنیش بھالیکر بیڈ ضلع کے مجل گاؤں میں اپنے بچوں کے ساتھ۔ دائیں: سریش چولے اور ان کی بیوی اپنے کھیت پر

بھالیکر نے ایک ساہوکار سے تقریباً 1 لاکھ روپے کا قرض لے رکھا ہے۔ وہ چونکہ ایک کاشت کار ہیں جن کے پاس اپنا کوئی کھیت نہیں ہے، اس لیے وہ کسی بھی بینک سے لون نہیں لے سکتے۔ وہ 18 ایکڑ پر کھیتی کرتے ہیں، 13 ایکڑ پر گنے کی کھیتی اور پانچ پر سویابین کی۔ کھیت کے مالک کے ساتھ ہوئے قرار کے مطابق، گنیش 25 فیصد خرچ خود اٹھاتے ہیں، جب کہ کھیت کا مالک 75 فیصد۔ منافع یا نقصان کی تقسیم بھی اسی طرح ہوتی ہے۔

’’پانچ ایکڑ سویابین پوری طرح خشک ہو چکی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں، خراب فصل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے۔ ’’میں نے یہ مان لیا ہے کہ سویابین پر میرے لگائے ہوئے 15000 روپے پوری طرح برباد ہو گئے۔ اور بارش کی کمی سے گنے پر بھی اثر پڑا ہے۔ گنے پر اِن سفید دھبوں کو دیکھئے۔ پیداوار بہت کم ہوگی۔۔۔۔‘‘

بھالیکر کے برخلاف، جلکوٹ تعلقہ کے کولنور گاؤں کے سریش چولے کے پاس کپاس یا گنے جیسی کوئی نقدی فصل نہیں ہے جو بارش کے بعد بچ سکے۔ انھوں نے 4.5 ایکڑ زمین پر جو سویا بین، تور اور جوار لگائی تھی، وہ خراب حالت میں ہے۔ ’’انھیں دیکھئے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اس وقت تک (اگست کے پہلے ہفتہ تک)، پودے کمر تک بڑے ہوجانے چاہئیں۔ لیکن یہ مشکل سے ٹخنوں کے برابر رینگ رہے ہیں۔‘‘ اگر اگست کے اخیر میں مانسون کی تیز بارش ہوئی، تب بھی چولے پر بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ ’’فصلوں کو لگاتار بارش کی ضرورت ہوتی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میں نے بوائی کے وقت بیج، کھاد، حشرہ کش دوائیں، اور مزدوری پر 45000 روپے خرچ کیے تھے۔ مجھے اس میں سے 10 فیصد بھی واپس نہیں ملے گا۔۔۔۔‘‘

ویڈیو دیکھیں: ’انھیں دیکھئے۔ اس وقت تک، پودے کمر تک بڑے ہوجانے چاہئیں۔ لیکن وہ مشکل سے ٹخنوں کے برابر رینگ رہے ہیں،‘ سریش چولے کہتے ہیں

اسی لیے، اس زرعی خطہ کے زیادہ تر حصوں کی طرح ہی، چولے کو سخت فیصلہ لینا ہے: کیا وہ دوسری بار بوائی کریں اور مزید پیسے کھونے کا خطرہ اٹھائیں؟ ’’میں پر اعتماد نہیں ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’قحط (اب تک) کافی شدید رہا ہے۔ میرے اندر مزید خطرہ اٹھانے کی ہمت نہیں ہے۔‘‘

اگست کے وسط میں، بات چیت کے دو ہفتے بعد، مراٹھواڑہ میں کافی بارش ہوئی، جس سے دوبار پیرنی کرنے والے کسانوں کو تھوڑی راحت ملی۔ چولے کی طرح دوسرے کسان، شاید پچھتا رہے ہوں کہ انھیں بھی اس سال دوسری بوائی کرنی چاہیے تھی، لیکن یہ ایک جوا ہے جو یہاں کے سارے کسان ہر سال کھیلتے ہیں۔

تصویریں: پارتھ ایم این

اردو ترجمہ: ڈاکٹر محمد قمر تبریز

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez