چند ماہ قبل میں نے ایک صبح، ورسووا گھاٹ پر کھاڑی کے کنارے ایک چٹان پر بیٹھے رام جی بھائی سے پوچھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ ’’ٹائم پاس،‘‘ انہوں نے جواب دیا۔ ’’میں اسے گھر لے جاؤں گا اور کھاؤں گا۔‘‘ انہوں نے ایک چھوٹے سے ٹینگڑا (ایک قسم کی کیٹ فِش) کی طرف اشارہ کیا، جسے انہوں نے تھوڑی دیر پہلے پکڑا تھا۔ میں نے دوسرے مچھواروں کو جال صاف کرتے ہوئے دیکھا جسے انہوں نے گزشتہ شب کھاڑی میں ڈالا تھا – اس میں ڈھیر ساری پلاسٹک تھی، کوئی مچھلی نہیں پھنسی تھی۔
’’کھاڑی میں مچھلی پکڑنا آج بمشکل ممکن ہے،‘‘ بھگوان نام دیو بھانجی کہتے ہیں، جنہوں نے ۷۰ سال سے زیادہ عرصے سے شمالی ممبئی کے کے-ویسٹ وارڈ میں مچھواروں کے گاؤں، ورسووا کولی واڑا میں اپنی زندگی بسر کی ہے۔ ’’جب ہم چھوٹے تھے، تو یہاں کا ساحل ماریشس جیسا تھا۔ اگر آپ پانی میں سکّہ پھینکتے، تو اسے آسانی سے دیکھ سکتے تھے... پانی اتنا صاف ہوا کرتا تھا۔‘‘
جو مچھلیاں بھگوان کے پڑوسیوں کے جال میں آکر پھنستی ہیں – جال کو اب سمندر میں مزید گہرائی میں لے جا کر ڈالا جاتا ہے – وہ اکثر چھوٹے بھی ہوتے ہیں۔ ’’پہلے، ہمیں بڑی پومفریٹ مچھلیاں مل جایا کرتی تھیں، لیکن اب چھوٹی ملتی ہیں۔ اس کا ہمارے کاروبار پر بہت اثر پڑا ہے،‘‘ بھگوان کی بہو، ۴۸ سالہ پریہ بھانجی کہتی ہیں، جو ۲۵ برسوں سے مچھلیاں فروخت کر رہی ہیں۔
یہاں کے تقریباً تمام لوگوں کے پاس ختم یا کم ہوتی مچھلیوں کے بارے میں بتانے کے لیے کوئی نہ کوئی کہانی ضرور ہے – کولی واڑا میں مچھواروں کے ۱۰۷۲ کنبے یا ۴۹۴۳ لوگ رہتے ہیں (۲۰۱۰ کی سمندری ماہی گیری مردم شماری کے مطابق)۔ اور وہ مقامی سطح کی آلودگی سے لے کر عالمی پیمانے پر اعلیٰ درجہ حرارت تک کو اس کی وجہ بتاتے ہیں – دونوں نے ورسووا میں جمع ہو کر شہر کے سمندری ساحلوں پر ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو لانے میں رول ادا کیا ہے۔
سمندری ساحل کے قریب والے پانی میں، ملاڈ کھاڑی میں (جس کا پانی ورسووا میں سمندر میں جاکر گرتا ہے)، بھینگ، پالا اور دیگر مچھلیاں جو تقریباً دو دہائی پہلے اس کولی واڑا کے باشندوں کے ذریعے آسانی سے پکڑی جاتی تھیں، ایسا لگتا ہے کہ اب انسانی مداخلت کے سبب ختم ہو چکی ہیں۔
آس پاس کے علاقوں سے بہنے والے تقریباً ۱۲ نالوں (کھلے سیور) سے بغیر صاف کیا سیویج، صنعتی فضلے، اور ورسووا اور ملاڈ مغرب میں واقع دو میونسپل ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ تنصیبات کے کچرے اب اس کھاڑی میں آکر گرتے ہیں، جس کے بارے میں بھگوان کا کہنا ہے کہ یہاں پر کبھی بالکل صاف پانی ہوا کرتا تھا۔ ’’یہاں پر اب شاید ہی کوئی سمندری زندگی بچی ہو۔ یہ ساری آلودگی سمندر کے اندر ۲۰ میل تک جاتی ہے۔ ہر کسی کے سیویج، گندگی اور کچرے کے سبب، ایک صاف شفاف کھاڑی اب نالا بن چکی ہے،‘‘ بھگوان کہتے ہیں، جو کولی تاریخ، تہذیب اور مقامی سیاست کے اپنے علم کے لیے اس علاقے میں کافی مشہور ہیں۔ کچھ سال پہلے تک، وہ اپنے آنجہانی بھائی کی دو مچھلی پکڑنے والی کشتیوں کے سمندری ساحل کے کاموں کی نگرانی کرتے تھے – جیسے مچھلی کو خشک کرنا، جال بنانا، مرمت کی نگرانی کرنا۔
گندے پانی کا مطلب ہے کھاڑی میں اور ساحل کے پاس محلول آکسیجن کی نچلی سطح کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں فضلے کے بیکٹیریا – اور مچھلیاں اس پر زندہ نہیں رہ سکتیں۔ قومی ماحولیاتی انجینئرنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (این ای ای آر آئی) کے سائنس دانوں کا ۲۰۱۰ کا ایک تحقیقی مقالہ کہتا ہے، ’’ملاڈ کھاڑی کی صورتحال تشویشناک ہے کیوں کہ کم مدوجزر کے دوران کھاڑی میں کوئی ڈی او [محلول آکسیجن] نہیں ہے... اونچی مدوجزر کے دوران حالت تھوڑی بہتر تھی...‘‘
سمندروں کی آلودگی طویل مدتی اثرات پیدا کرنے کے لیے ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ آمیزش کرتی ہے۔ ترقیاتی سرگرمیوں میں تیزی، ساحلی اور سمندری آلودگی (۸۰ فیصد سے زیادہ زمین پر مبنی ذرائع سے پیدا ہوتی ہے) اور سمندر کی موجوں پر ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے سمندر کے مردہ علاقوں (بغیر آکسیجن والے علاقوں) کی توسیع میں تیزی آئے گی، یہ تخمینہ اقوامِ متحدہ ترقیاتی پروگرام کے ذریعے ۲۰۰۸ میں شائع ایک کتاب – اِن ڈیڈ واٹر: مرجنگ آف کلائمینٹ وِد پالیوشن، اوور ہارویسٹ اینڈ انفیسٹیشن اِن دی ورلڈز فشنگ گراؤنڈس (مردہ پانی میں: عالمی ماہی گیری کے علاقوں میں آلودگی، حد سے زیادہ فصل کٹائی اور خلل اندازی کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلی کی آمیزش) میں کیا گیا ہے۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ ’’...سمندری ساحلوں پر تیزی سے ہو رہی تعمیر کے سبب ساحلی جنگلات اور دیگر رہائشی مقامات ختم ہوتے جا رہے ہیں جس سے آلودگی کے اثرات اور شدید ہوتے جا رہے ہیں۔...‘‘
ممبئی میں بھی، سڑکوں، عمارتوں اور دیگر پروجیکٹوں کے لیے ساحلی جنگلات کے ایک بڑے علاقے کو صاف کر دیا گیا ہے۔ ساحلی جنگلات مچھلیوں کی افزائش کے لیے ایک اچھا مقام ہوتا ہے۔ انڈین جرنل آو مرین سائنسز کے ۲۰۰۵ کے ایک تحقیقی مضمون میں لکھا گیا ہے، ’’ساحلی جنگلات نہ صرف ساحلی سمندری ذی روحوں کی مدد کرتے ہیں، بلکہ ساحل کو کٹاؤ سے بھی بچاتے ہیں اور سمندر کی جانب بہنے والی ندیوں اور سمندری جانوروں کے لیے افزائش، کھانا اور نرسری کے میدان کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔‘‘ سال ۱۹۹۰ سے ۲۰۰۱ تک، صرف ۱۱ سالوں میں اکیلے ممبئی مضافاتی علاقے میں کل ۳۶ء۵۴ مربع کلومیٹر کے ساحلی جنگلات کی صفائی کر دی گئی، مضمون میں آگے کہا گیا ہے۔
’’مچھلیاں
[ساحلی جنگلات میں] اپنے انڈے دینے کے لیے ساحل پر آتی تھیں، لیکن اب ایسا نہیں ہو
سکتا،‘‘ بھگوان کہتے ہیں۔ ’’جتنے بھی ساحلی جنگلات برباد کیے جا سکتے تھے ہم نے کر
دیے۔ اب بہت ہی کم بچے ہیں۔ یہاں کے شہری مضافات اور لوکھنڈ والا اور آدرش نگر
جیسے ساحلی علاقوں کی عمارتوں پر پہلے ساحلی جنگلات ہوا کرتے تھے۔‘‘
نتیجتاً، سبھی مچھلیاں ملاڈ کھاڑی اور ارد گرد
کے ساحلوں سے جا چکی ہیں، اس لیے ورسووا کولی واڑا کے مچھواروں کو سمندر کی گہرائی
میں جانے کے لیے مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ لیکن گہرے سمندر میں بھی، سمندر کے بڑھتے
درجہ حرارت، سمندری طوفان اور مہا جال والے بڑے جہازوں کے ذریعے مچھلی پکڑنے سے ان
کے کاروبار پر اثر پڑا ہے۔
’’اس سے پہلے، انہیں مچھلی پکڑنے کے لیے گہرے سمندر میں [ساحل سے ۲۰ کلومیٹر سے زیادہ دور] نہیں جانا پڑتا تھا کیوں کہ ساحلی ایکولوجی بہت مضبوط تھی،‘‘ ورسووا کولی واڑا میں ساحلی آلودگی اور ماحولیاتی آلودگی کے اثرات کا مطالعہ کرنے والے معماروں کے ایک گروپ، بامبے ۶۱ کے کیتکی بھڈگاؤنکر کہتے ہیں۔ ’’گہرے سمندر میں ماہی گیری نے مچھلی پکڑنے کو اقتصادی طور پر غیر مستحکم بنا دیا ہے کیوں کہ اس میں کافی سرمایہ لگانا پڑتا ہے – بڑی کشتیوں، کشتی بانی ٹیم وغیرہ پر۔ اور ماہی گیروں کو اس بات کا پورا یقین بھی نہیں ہوتا کہ بڑی مچھلیاں ان کے ہاتھ لگیں گی ہی۔
گہرے سمندر میں مچھلی پکڑنا بحر عرب کے گرم ہونے کے
سبب بھی غیر یقینی ہو گیا ہے – اس کی اوپری سطح کے درجہ حرارت میں ۱۹۹۲ سے ۲۰۱۳ کے
درمیان فی دہائی اوسطاً ۰ء۱۳ ڈگری سیلسیس کا اضافہ ہوا ہے، جیوفزیکل ریسرچ لیٹرس
نامی رسالہ میں شائع تحقیقی مقالہ بتاتا ہے۔ اس سے سمندری زندگی متاثر ہوئی ہے،
ڈاکٹر ونے دیش مکھ کہتے ہیں، جو چار دہائیوں سے زیادہ عرصے تک سی ایم ایف آر آئی
کے ممبئی مرکز کے ساتھ رہے۔ ’’
سارڈن
مچھلیاں، [ہندوستان کے] جنوب میں واقع
اہم مچھلیوں میں سے ایک، [ساحل کے ساتھ] شمال کی طرف جانے لگیں۔ اور میکرل، جنوب
کی ایک اور مچھلی، گہرے پانی میں [۲۰ میٹر نیچے] جانے لگیں۔‘‘ شمالی بحر عرب کا
پانی اور گہرے سمندر کا پانی نسبتاً ٹھنڈا رہتا ہے۔
ممبئی اور مہاراشٹر کے سمندری پانی کا گرم ہونا
ایک مسلسل عالمی پیٹرن کا حصہ ہے – ۲۰۱۴ میں،
ماحولیاتی تبدیلی پر بین حکومت
پینل
(آئی پی سی سی) نے اندازہ لگایا کہ ۱۹۷۱ سے ۲۰۱۰ کے درمیان ہر ایک دہائی
میں، عالمی بحیروں کے اوپری ۷۵ میٹر حصے ۰۰ء۹ سے ۰ء۱۳ ڈگری سیلسیس تک گرم ہو گئے
تھے۔
اس بڑھتے سمندری درجہ حرارت نے کچھ مچھلیوں کی حیاتیات کو بدل دیا ہے – ایک اہم اور ’’ناگزیز تبدیلی‘‘، ڈاکٹر دیش مکھ کہتے ہیں۔ ’’جب پانی نسبتاً ٹھنڈا تھا اور درجہ حرارت تقریباً ۲۷ ڈگری تھا، تب مچھلیاں دیر سے بڑی ہوتی تھیں۔ لیکن اب چونکہ پانی گرم ہو چکا ہے، مچھلیاں جلدی بڑی ہو جاتی ہیں۔ یعنی، انہوں نے اپنی مدت حیات میں انڈے اور مادّہ منویہ جلدی پیدا کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایسا ہونے پر مچھلیوں کا سائز چھوٹا ہونے لگتا ہے۔ یہ ہم نے بامبے ڈَک اور پومفریب میں واضح طور پر دیکھا ہے۔‘‘ لہٰذا تین دہائی پہلے ایک پوری طرح سے تیار پومفریٹ ، جو تقریباً ۳۵۰-۵۰۰ گرام کی ہوتی تھی، آج صرف ۲۰۰-۲۸۰ گرام کی رہ گئی ہے – اعلیٰ درجہ حرارت اور دیگر عوامل سے ان کا سائز چھوٹا ہو گیا ہے – ایسا ڈاکٹر دیش مکھ اور مقامی مچھواروں کا اندازہ ہے۔
تین دہائی پہلے ایک پوری طرح سے تیار پومفریٹ ، جو تقریباً ۳۵۰-۵۰۰ گرام کی ہوتی تھی، آج صرف ۲۰۰-۲۸۰ گرام کی رہ گئی ہے – اعلیٰ درجہ حرارت اور دیگر عوامل سے ان کا سائز چھوٹا ہو گیا ہے
لیکن، ڈاکٹر دیش مکھ کے خیال میں، حد سے زیادہ مچھلی پکڑنا کہیں زیادہ بڑا سبب رہا ہے۔ کشتیوں کی تعداد بڑھی ہے اور ٹرالر اور دیگر بڑی کشتیاں (جن میں سے کچھ کولی واڑا کے مقامی لوگوں کی بھی ہیں) سمندر میں جتنا وقت گزارتی ہیں، اس میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سال ۲۰۰۰ میں یہ کشتیاں سمندر میں ۶-۸ دن گزارا کرتی تھیں؛ بعد میں یہ بڑھ کر پہلے ۱۰-۱۵ دن ہوا اور اب ۱۶-۲۰ دن ہو چکا ہے۔ اس سے سمندر میں موجودہ مچھلیوں کے ذخیرہ پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ اور، وہ کہتے ہیں، ٹرالنگ کے سبب سمندر کی سطح کے ایکولوجی نظام میں گراوٹ آئی ہے، ’’جو زمین [سمندر کا فرش] کو کھرچتا ہے، پودوں کو اکھاڑ دیتا ہے اور آبی جانوروں کو فطری طور پر بڑھنے نہیں دیتا ہے۔‘‘
دیش مکھ کہتے ہیں کہ مہاراشٹر میں پکڑی گئی مچھلی کی کل مقدار ۲۰۰۳ میں اپنی اعلیٰ سطح پر پہنچ گئی تھی، جب یہ تقریباً ۴ء۵ لاکھ ٹن تھی، جو ۱۹۵۰ کے بعد سے اپنی دستاویزی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ حد سے زیادہ مچھلی پکڑنے کے سبب یہ مقدار ہر سال نیچے ہوتی چلی گئی – ۲۰۱۷ میں یہ ۳ء۸۱ لاکھ ٹن تھی۔
’’حد سے زیادہ کٹائی اور سمندر کی گہرائی میں مہاجال لگانے سے مچھلیوں کی رہائش گاہیں کم ہو رہی ہیں اور سمندری بایو ڈائیورسٹی کے بہترین مقام کی پوری افزائش خطرے میں پڑ گئی ہے،‘‘ اِن ڈیڈ واٹر نامی کتاب کہتی ہے، ’’جس کی وجہ سے ان کے ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔‘‘ اور، یہ کہتی ہے، انسانی سرگرمی کے اثرات (آلودگی اور ساحلی جنگلات سمیت) سمندر کی سطح میں اضافہ اور طوفانوں کی لگاتار آمد اور تیزی سے اور بھی پیچیدہ ہو جائیں گے۔
دونوں کے ثبوت بحر عرب میں – اور اس طرح سے ورسووا کولی واڑا میں موجود ہیں۔ ’’...اینتھروپوجینک فورسنگ نے بحر عرب پر دیر سویر ای سی ایس سی [زیادہ شدید بحری طوفان] کے امکان کو بڑھا دیا ہے...‘‘ ۲۰۱۷ میں نیچر کلائیمنٹ چینج میں شائع ایک تحقیقی مقالہ کہتا ہے۔
ان طوفانوں نے ماہی گیر برادریوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی، بامبے میں ماحولیاتی مطالعہ شعبہ کے کنوینر، پروفیسر ڈی پارتھ سارتھی بتاتے ہیں۔ ’’پکڑی گئی مچھلیوں کی مقدار میں گراوٹ کے سبب، ماہی گیروں کو سمندر میں گہرائی تک جانے کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے۔ لیکن ان کی [کچھ] کشتیاں کافی چھوٹی ہیں اور وہ گہرے سمندر میں جانے لائق نہیں ہیں۔ اس لیے جب طوفان اور طغیانی آتی ہے، تو وہ زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ مچھلی پکڑنا بہت زیادہ غیر یقینی اور خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
سمندر کی آبی سطح کا بڑھنا اس سے جڑا ایک اور مسئلہ ہے۔ ہندوستانی ساحل کے ساتھ، گزشتہ ۵۰ برسوں کے دوران آبی سطح میں ۸ء۵ سینٹی میٹر کا اضافہ ہوا ہے – یا ہر سال ۱ء۷ ملی میٹر (پارلیمنٹ میں اٹھائے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حکومت نے، نومبر 2019 میں راجیہ سبھا کو بتایا)۔ عالمی سمندری سطح اس سے بھی تیز رفتار سے بڑھ رہی ہے – گزشتہ ۲۵ برسوں میں ہر سال ۳ سے ۳ء۶ ملی میٹر کے آس پاس، آئی پی سی سی کے اعداد و شمار اور پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز (امریکہ) نامی رسالہ میں شائع ۲۰۱۸ کا ایک تحقیقی مقالہ بتاتا ہے۔ اس شرح پر، دنیا بھر میں سمندر کی آبی سطح سال ۲۱۰۰ تک تقریباً ۶۵ سینٹی میٹر بڑھ سکتی ہے – حالانکہ یہ اضافہ علاقائی طور پر الگ الگ ہے، جو مدوجزر، کشش ثقل، کرۂ ارض کی گردش کی پیچیدگی پر منحصر ہے۔
ڈاکٹر دیش مکھ وارننگ دیتے ہیں کہ سمندر کی آبی سطح میں اضافہ، ’’ورسووا کے لیے خاص طور سے خطرناک ہے کیوں کہ یہ کھاڑی کے دہانے پر واقع ہے اور ماہی گیر جہاں کہیں بھی اپنی کشتیوں کو رکھتے ہیں، وہ طوفانی موسم کی چپیٹ میں آ جاتی ہیں۔‘‘
ورسووا کولی واڑا کے کئی لوگوں نے سمندر کی اس بڑھتی آبی سطح کو دیکھا ہے۔ ۳۰ سال سے مچھلی فروخت کر رہیں ہرشا راج ہنس تاپکے کہتی ہیں، ’’چونکہ مچھلیوں کی پکڑ کم ہو گئی ہے، اس لیے لوگوں [بلڈروں اور مقامی لوگوں] نے اس زمین کی باز تحویل کر لی ہے، جہاں ہم اپنی مچھلیاں سُکھاتے ہیں اور وہاں [ریت پر] مکان بنانے لگے ہیں۔ اس باز تحویل کے ساتھ، کھاڑی میں پانی کی سطح بڑھ رہی ہے، اور ہم اسے کنارے کے ساتھ ساتھ دیکھ سکتے ہیں۔‘‘
اور جب شہر میں بہت زیادہ بارش ہوتی ہے، تب بھی ماہی گیر برادریں کے اوپر مشترکہ اثر ساحلی جنگلات کا نقصان، تعمیرات کے لیے دوبارہ تحویل میں لی گئی زمین، سمندر کی بڑھتی آبی سطح وغیرہ – کا بہت زیادہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، ۳ اگست ۲۰۱۹ کو ممبئی میں ۲۰۴ ملی میٹر بارش ہوئی – ایک دہائی میں اگست ماہ میں ۲۴ گھنٹے کی تیسری سب سے زیادہ بارش – اور ۴ء۹ میٹر (تقریباً ۱۶ فیٹ) اونچی مدوجزر۔ اس دن، ورسووا کولی واڑا میں لنگر انداز کئی چھوٹی کشتیوں کو طاقتور لہروں نے تباہ و برباد کر دیا اور ماہی گیر برادریوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔
’’کولی واڑا کے اس حصے [جہاں کشتیاں رکھی جاتی ہیں] کی باز تحویل کر لی گئی ہے، لیکن گزشتہ سات برسوں میں پانی اتنا نہیں بڑا، جتنا اس دن بڑھا تھا،‘‘ ورسووا ماشیماری لگھو نوکا سنگٹھن کے صدر، دنیش دھانگا کہتے ہیں، یہ تقریباً ۲۵۰ ماہی گیروں کی تنظیم ہے جو ۱۴۸ چھوٹی کشتیوں پر کام کرتے ہیں۔ ’’طوفان ہائی ٹائڈ کے دوران آیا تھا، اس لیے آبی سطح دو گنی بڑھ گئی۔ کچھ کشتیاں ڈوب گئیں، کچھ ٹوٹ گئیں۔ ماہی گیروں کا جال کھو دیا اور پانی کچھ کشتیوں کے انجن میں گھس گیا۔‘‘ ہر ایک کشتی کی قیمت ۴۵۰۰۰ روپے تک ہو سکتی ہے، دنیش بتاتے ہیں۔ ہر ایک جال کی قیمت ۲۵۰۰ روپے ہے۔
ورسووا کی ماہی گیر برادری کے ذریعہ معاش پر ان سب کا بہت بڑا اثر پڑا ہے۔ ’’ہم نے پکڑی گئی مچھلی کی مقدار میں ۶۵-۷۰ فیصد کا فرق دیکھا ہے،‘‘ پریہ بھانجی کہتی ہیں۔ ’’ابھی ہم بازار میں اگر ۱۰ ٹوکریاں لے کر جا رہے ہیں، تو پہلے [تقریباً دو دہائی پہلے] ۲۰ ٹوکریاں لے جایا کرتے تھے۔ یہ بہت بڑا فرق ہے۔‘‘
اور پکڑی گئی مچھلیوں کا سائز جہاں ایک طرف کم ہوا ہے، وہیں دوسری طرف بندرگاہ کے قریب تھوک بازار میں، جہاں سے خواتین مچھلیاں خریدتی ہیں، قیمتیں بڑھ گئی ہیں – اس لیے ان کا منافع لگاتار کم ہوا ہے۔ ’’پہلے، ہم اپنا سب سے بڑا ٹکڑا [ْپومفریٹ کا]، تقریباً ایک فٹ لمبا، ۵۰۰ روپے میں بیچتے تھے۔ اب اس قیمت میں، ہم چھ انچ کی پومفریٹ بیچتے ہیں۔ پومفریٹ کا سائز چھوٹا ہو گیا ہے اور قیمتیں بڑھ گئی ہیں،‘‘ پریہ کہتی ہیں، جو تین دن مچھلیاں بیچ کر ۵۰۰-۶۰۰ روپے کماتی ہیں۔
کم آمدنی کی بھرپائی کرنے کے لیے، ماہی گیر کنبوں میں سے کئی نے دیگر کام ڈھونڈنے شروع کر دیے ہیں۔ پریہ کے والد وِدیُت نے مرکزی حکومت کے دفتر کے اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ میں کام کیا (جب تک کہ انہوں نے وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ نہیں لے لی)؛ ان کے بھائی گوتم ایئر انڈیا میں اسٹور منیجر کے طور پر کام کر رہے ہیں، جب کہ ان کی بیوی اندھیری بازار میں مچھلی بیچتی ہیں۔ ’’اب وہ دفتر کی نوکری کر رہے ہیں [کیوں کہ مچھلی پکڑنا اب عملی نہیں ہے]‘‘ پریہ کہتی ہیں۔ ’’لیکن میں کچھ اور نہیں کر سکتی کیوں کہ مجھے اسی کی عادت ہے۔‘‘
۴۳ سالہ سنیل کاپتیل، جن کی فیملی کے پاس ایک چھوٹی کشتی ہے، نے بھی آمدنی حاصل کرنے کے دیگر طریقوں کی تلاش کی ہے۔ کچھ مہینے پہلے، انہوں نے اپنے دوست دنیش دھانگا کے ساتھ گن پتی کی مورتی بنانے کا ایک کاروبار شروع کیا ہے۔ ’’پہلے، ہم آس پاس کے علاقوں میں مچھلی پکڑنے جاتے تھے، تقریباً ایک گھنٹہ کے لیے۔ اب، ہمیں ۲-۳ گھنٹے کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ ہم ایک دن میں مچھلی سے بھری ۲-۳ پیٹیوں [ٹوکریوں] کے ساتھ واپس آتے تھے۔ اب ہم ایک پیٹی پکڑنے کے لیے بھی جدوجہد کر رہے ہیں...‘‘ سنیل کہتے ہیں۔ ’’کبھی کبھی ہم ۱۰۰۰ روپے [ایک دن میں] کما لیتے ہیں، کبھی کبھی ۵۰ روپے بھی نہیں کما پاتے۔‘‘
پھر بھی، ورسووا کولی واڑا میں کئی لوگ کل وقتی ماہی گیر اور مچھلی فروش بنے ہوئے ہیں، جو سمندر کی بڑھتی آبی سطح، درجہ حرارت میں اضافہ، حد سے زیادہ ماہی گیری، آلودگی، ختم ہو رہے ساحلی جنگلات وغیرہ کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں – گرتی ہوئی مچھلی کی مقدار اور چھوٹی مچھلیوں کے ساتھ۔ ۲۸ سال کے راکیش سُکچا، جنہیں اپنی فیملی کی آمدنی کے سبب 8ویں کلاس کے بعد اسکول چھوڑنا پڑا، ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو صرف مچھلی پکڑنے پر منحصر ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’ہمارے دادا جی ہمیں ایک کہانی سناتے تھے: اگر تمہیں جنگل میں کوئی شیر نظر آ جائے، تو تمہیں اس کا سامنا کرنا ہوگا۔ اگر تم بھاگوگے، تو وہ تمہیں کھا جائے گا۔ اگر تم [اس کے خلاف] جیت جاتے ہو، تو تم بہادر ہو۔ اسی طرح، انہوں نے ہم سے کہا کہ ہم سمندر کا سامنا کرنا سیکھیں۔‘‘
مضمون نگار اس اسٹوری میں مدد کرنے کے لیے نارائن کولی، جے بھاڈگاؤنکر، نکھل آنند، اسٹالن دیانند اور گریش جٹھا کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی پر پاری کی ملک گیر رپورٹنگ، عام لوگوں کی آوازوں اور زندگی کے تجربہ کے توسط سے اس واقعہ کو ریکارڈ کرنے کے لیے یو این ڈی پی سے امداد شدہ پہل کا ایک حصہ ہے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم zahra@ruralindiaonline.org کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی namita@ruralindiaonline.org کو بھیج دیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمر قمر تبریز)