’’وہ ماں اپنے چار بچوں کے ساتھ رات در رات چلتی رہی – وہ میرے لیے ماں دُرگا ہے۔‘‘

ایک مہاجر مزدور کی شکل میں دیوی دُرگا کی مورتی بنانے والے فنکار، رِنٹو داس سے ملئے۔ یہ جنوب مغربی کولکاتا میں بیہلا کے بارشا کلب میں، درگا پوجا کے پنڈال میں مورتی بنانے کا ایک غیر معمولی ہنر ہے۔ درگا کے ساتھ مہاجر مزدوروں کی شکل میں دیگر دیوی دیوتا بھی موجود ہیں – سرسوتی، لکشمی، گنیش وغیرہ۔ یہ کورونا وائرس کے وبائی امراض کے دوران مہاجروں کی جدوجہد کو خراج عقیدت ہے۔

لاک ڈاؤن کی مدت میں ۴۶ سالہ رنٹو داس کو لگتا تھا کہ وہ ’’گزشتہ چھ مہینے سے گھر میں نظربند ہیں۔‘‘ اور، وہ کہتے ہیں، ’’ٹیلی ویژن اسکرین کو کھولتے ہی میں نے اس پر موت دیکھی، اتنے سارے لوگ متاثر ہوئے تھے۔ کئی تو، دن رات پیدل چل رہے تھے۔ کبھی کبھی تو انہیں کھانا پانی بھی نہیں مل رہا تھا۔ مائیں، لڑکیاں، سبھی چل رہی ہیں۔ تبھی میں نے سوچا کہ اگر اس سال پوجا کرتا ہوں، تو میں لوگوں کے لیے پوجا کروں گا۔ میں ان ماؤں کو عزت بخشوں گا۔‘‘ اور اس لیے، ماں درگا مہاجر مزدور ماں کی شکل میں۔

’’بنیادی خیالات کچھ اور تھے،‘‘ ۴۱ سالہ پلّب بھومِک، جنہوں نے رنٹو داس کے منصوبوں کے مطابق مورتی کا خاکہ بنایا، نے مغربی بنگال کے نادیا ضلع میں واقع اپنے گھر سے پاری کو بتایا۔ ۲۰۱۹ کی درگا پوجا کی دھوم دھام ختم ہونے سے پہلے ہی ’’بارشا کلب کے منتظمین نے اس سال کی پوجا کی تیاری شروع کر دی تھی۔ لیکن پھر کووڈ- ۱۹ وبائی امراض نے یہ واضح کر دیا کہ ۲۰۲۰ الگ ہوگا – اس لیے کلب کو پرانے منصوبوں کو منسوخ کرنا پڑا۔‘‘ اور نئے منصوبہ کا خاکہ لاک ڈاؤن اور مزدوری کے بحران کے ارد گرد تیار کیا گیا۔

This worker in Behala said he identified with the Durga-as-migrant theme, finding it to be about people like himself
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بیہلا کے اس کارکن نے کہا کہ اس نے درگا جیسے مہاجر تھیم کی شناخت کی، اسے لگا کہ یہ اس کے جیسے لوگوں کے بارے میں ہے

’’میں نے ماں درگا کی مورتیاں ان کے بچوں اور مہیسا سُر کے ساتھ بنائیں،‘‘ بھومک بتاتے ہیں، ’’جب کہ دیگر کاریگروں نے بارشا کلب کی پوجا کے آرٹ ڈائرکٹر، رنٹو داس کی نگرانی میں پنڈال کے مختلف گوشوں پر کام کیا۔‘‘ ملک بھر میں اقتصادی حالت بگڑنے کے سبب، سبھی پوجا کمیٹیاں متاثر ہوئیں۔ ’’بارشا کلب کو بھی اپنا بجٹ آدھا کرنا پڑا۔ چونکہ بنیادی موضوع پر کام کرنا ممکن نہیں تھا، اس لیے رنٹو دا مہاجر ماں کی شکل میں درگا کے اس خیال کو سامنے لیکر آئے۔ ہم نے اس پر بات چیت کی اور میں نے مورتی کو شکل دینا شروع کیا۔ میں کہوں گا کہ یہ پنڈال ایک ساتھ مل کر کام کرنے کا نتیجہ ہے۔‘‘

بھومک کہتے ہیں کہ حالات نے ’’مجھے درگا کی ایک ایسی شکل بنانے پر مجبور کیا، جو اپنے بھوکے بچوں کے ساتھ تکلیفوں کا سامنا کر رہی ہے۔‘‘ داس کی طرح، انہوں نے بھی گاؤوں کے اپنے گھروں کی طرف لمبا پیدل سفر کرتے ہوئے مختلف ’’لاغر عورتوں کی تصویریں ان کے بچوں کے ساتھ‘‘ دیکھی تھیں۔ دیہی قصبہ کے ایک فنکار کے طور پر، وہ بھی ان ماؤں کی جدوجہد کو بھول نہیں سکتے، جسے انہوں نے اپن ارد گرد دیکھا تھا۔ ’’نادیا ضلع کے کرشنا نگر کے میرے آبائی قصبہ میں اسے پورا کرنے میں تقریباً تین مہینے کا وقت لگا۔ وہاں سے یہ بارشا کلب میں گیا،‘‘ بھومک کہتے ہیں، جو کولکاتا کے گورنمنٹ آرٹس کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران، مشہور فنکار بکاش بھٹا چارجی کے کام سے بہت زیادہ متاثر تھے، جن کی پینٹنگ ’دارپامائی‘ سے حوصلہ پاکر انہوں نے درگا کی یہ مورتی بنائی۔

پنڈال کی تھیم نے عوام سے بڑے پیمانے پر پذیرائی حاصل کی ہے۔ ’’یہ پنڈال ہمارے بارے میں ہے،‘‘ ایک کارکن نے، پیچھے کی گلیوں میں غائب ہونے سے پہلے مجھے بتایا۔ ایک مہاجر کے اوتار میں درگا کی مورتی کی تنقید کرتے ہوئے، انٹرنیٹ پر ناگزیر ٹرول ہوئے ہیں۔ لیکن، انتظامیہ کمیٹی کے ایک ترجمان کہتے ہیں، ’’یہ دیوی سبھی کے لیے ایک ماں ہے۔‘‘

اور، پلّب بھومک اس مورتی کی تنقید کرنے والوں سے کہتے ہیں: ’’بنگال کے دستکاروں، مورتی سازوں، اور فنکاروں نے درگا کا تصور ہمیشہ ان عورتوں کی شکل میں کیا ہے جنہیں وہ اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں۔‘‘

اس اسٹوری میں مدد کرنے کے لیے اسمیتا کھٹور اور سنچیتا ماجی کا شکریہ۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Ritayan Mukherjee

Ritayan Mukherjee is a Kolkata-based photographer and a PARI Senior Fellow. He is working on a long-term project that documents the lives of pastoral and nomadic communities in India.

Other stories by Ritayan Mukherjee
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez