وہ اُن ’رین ہیٹ‘ (بارش سے بچنے کی ٹوپیوں) کو محض ۶۰ روپے میں فروخت کر رہا تھا۔ نہیں، یہ اس نے نہیں بنائی ہیں، اس نے کہا۔ وہ تو صرف ایک چھوٹا فروشندہ تھا، جس نے یہ ٹوپیاں اور شاید دیگر سامان ان کے حقیقی بنانے والوں – پہاڑ پر رہنے والے آدیواسیوں – سے خریدے تھے۔ اس سے ہماری ملاقات جون ۲۰۰۹ میں، اوڈیشہ میں گنجم اور کندھمال ضلعوں کی سرحدوں سے گزرتے وقت ہوئی، جب کچھ دیر پہلے ہی بارش شروع ہوئی تھی۔ ہر ٹوپی فن کا ایک نمونہ تھا، جسے بانس اور پتیوں کے ساتھ نزاکت سے بُنا گیا تھا۔ اگر وہ انہیں ۶۰ روپے میں بیچنے کے لیے اپنی سائیکل سے لمبی دوری طے کر رہا تھا، تو اس نے انہیں آدیواسیوں سے بہت کم قیمت میں خریدا ہوگا۔
آپ پورے مشرقی ہندوستان اور کچھ مشرقی ایشیائی ممالک میں بھی ان ٹوپیوں – جنہیں گنجم میں پلاری (اور کالاہانڈی میں چھاتُر ) کہا جاتا ہے – کی الگ الگ شکلیں دیکھ سکتے ہیں۔ ہم نے اوڈیشہ میں لوگوں کو شروعاتی بارش کے دوران کھیتوں میں کام کرتے وقت پہنے ہوئے دیکھا، لیکن انہیں دیگر موسموں میں بھی پہنا جاتا ہے۔ زیادہ تر، کھیتوں میں کسان، مزدور، چرواہے اور گڑیریے انہیں کام کرتے وقت پہنتے ہیں۔ میرے دوست اور ساتھی مسافر پروشوتم ٹھاکر نے بتایا کہ یہ ’’غریبوں کی چھتریاں‘‘ ہیں۔ ان کے پاس پرانے زمانے کی چھتریوں کی شکل تھی۔ ان کا مقصد اور موسم جو بھی ہو، وہ خوبصورتی سے بنائی گئی تھیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز