گنٹور ضلع کے تقریباً ۴۸۰۰ افراد پر مشتمل گاؤں رائے پوڈی میں ایک ایکڑ سے بھی کم زمین کے مالک، ۵۵ سالہ دلت کسان تُراکا بابو راؤ پوچھتے ہیں، ’’ہمیں ایسا معاوضہ کیوں دیا جا رہا ہے جو پٹّہ والے زمین مالکان سے مختلف ہے؟‘‘ وہ اس معاوضے کا ذکر کر رہے ہیں جو حکومت آندھرا پردیش ایک ’عالمی معیار‘ کی نئی راجدھانی، امراوتی، بنانے کے لیے کسانوں کو زمین کے بدلے دے رہی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’دراصل، ہمارے کھیت پٹّہ (بیع نامہ والی) زمینوں سے کہیں زیادہ زرخیز ہیں کیونکہ وہ دریائے کرشنا سے ملحق ہیں۔‘‘

بابو راؤ ان ۸۰۰ کسانوں میں سے ایک ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق درج فہرست ذاتوں (ایس سی) اور دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) سے ہے اور جو اسائنڈ لینڈ فارمرز ویلفئیر ایسوسی ایشن (تفویض کردہ زمین مالکان کی فلاح و بہبود کی تنظیم)، رائے پوڈی کے رکن ہیں۔ جب ریاست نے آندھرا پردیش اصلاح اراضی (زرعی اراضی کی  سیلنگ) قانون، ۱۹۷۳ کے تحت زمین کی تقسیم کی تھی، تو ان کاشتکاروں کو کرشنا اور اس کے جزیروں کے کنارے رائے پوڈی میں تقریباً ۲۰۰۰ ایکڑ زمین (ان کے اپنے اندازے کے مطابق) ’تفویض‘ کی گئی تھی۔ پلاٹ حاصل کرنے والے زیادہ تر کنبوں کا تعلق دلت اور او بی سی برادری سے تھا۔

بابو راؤ کہتے ہیں، ’’ہم تین پشتوں سے اس زمین کی کاشت کر رہے ہیں، جب یہ ملک آزاد بھی نہیں ہوا تھا۔ اندرا گاندھی نے ہمیں تفویض کردہ پٹّہ دے کر اس زمین کا مالکانہ حق دیا تھا۔‘‘ آندھرا پردیش تفویض کردہ اراضی (امتناع منتقلی) قانون، ۱۹۷۷ کے مطابق، تفویض کردہ پلاٹ کو کوئی شخص خرید یا بیچ نہیں سکتا ہے۔ اسے صرف کنبے کے  ایک فرد سے دوسرے فرد کو منتقل کیا جا سکتا ہے۔

تاہم، حکومت اپنی ’گرین فیلڈ‘ راجدھانی کی تعمیر کے پہلے مرحلے کے لیے ۳۳۰۰۰ ایکڑ اراضی اپنی تحویل میں لے رہی ہے۔ مقامی کارکنوں کا تخمینہ ہے کہ ان میں سے تقریباً ۱۰۰۰۰ ایکڑ زمین تفویض کردہ پلاٹ ہیں، جب کہ باقی پٹّہ زمینیں ہیں جو اونچی ذات کے کمّا، کاپو اور ریڈّی کسانوں کی ملکیت ہیں۔

Turaka Baburao
PHOTO • Rahul Maganti

تقریباً ۱۰۰۰۰ ایکٹر ’تفویض کردہ‘ زمینیں  تحویل میں لیے جانے کے بارے میں رائے پوڈی گاؤں کے ترکا بابو راؤ کہتے ہیں، ’ہم تین پشتوں سے اس زمین کی کاشت کر رہے ہیں، جب یہ ملک آزاد بھی نہیں ہوا تھا‘

حالانکہ منصفانہ معاوضہ اور شفافیت کے حق کے ساتھ تحویل اراضی، باز آباد کاری اور باز رہائش قانون (ایل اے آر آر) کو مرکزی حکومت نے ۲۰۱۳ میں پاس کیا تھا، لیکن نئی راجدھانی کے لیے زمین کی تحویل کی خاطر ریاستی حکومت اپنی خود کی لینڈ پولنگ اسکیم (ایل پی ایس) لے کر آئی ہے۔ ایل اے آر آر کے ذریعے فراہم کیے گئے حفاظتی اقدامات اور بندشوں کے علاوہ سماجی اور ماحولیاتی اثرات کا جائزہ، کم از کم ۷۰ فیصد متاثرین کی رضامندی، اور متاثرین کی بحالی اور آباد کاری کے پیکیج کو ایل پی ایس نظر انداز کرتا ہے۔ ایل پی ایس جنوری ۲۰۱۵ میں نافذ ہوا تھا۔ اس اسکیم کے تحت صرف ان لوگوں کی رضامندی لی جاتی ہے جو زمین کے مالک ہیں۔ زمین پر انحصار کرنے والے لوگ، جیسے زرعی مزدوروں کو اس سے خارج کر دیا گیا ہے۔ زمین مالکان ’رضاکارانہ طور پر‘ اپنے پلاٹ ریاست کو دے سکتے ہیں اور بدلے میں، مالی معاوضے کی بجائے نئی راجدھانی میں ’دوبارہ تیار کردہ‘ پلاٹ حاصل کر سکتے ہیں۔

۱۷ فروری ۲۰۱۶ کو آندھرا پردیش حکومت کی میونسپل انتظامیہ اور شہری ترقی کے محکمہ نے ایک حکم نامہ جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ’رضاکارانہ طور پر‘ دی گئی پٹّہ اراضی کے ہر ایکڑ کے عوض زمیندار کو نئی راجدھانی میں ۱۰۰۰ مربع گز کا رہائشی پلاٹ اور ۴۵۰ مربع گز کا تجارتی پلاٹ، جہاں دکان یا کاروبار قائم کیا جا سکتا ہے، دیا جائے گا۔ لینڈ پولنگ اتھارٹی یا آندھرا پردیش کیپٹل ریجن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (اے پی سی آر ڈی اے) باقی ماندہ زمین کو اپنی تحویل میں رکھے گی اور اسے سڑکوں، عوامی عمارتوں، صنعتوں اور دیگر شہری سہولیات کی تعمیر کے لیے استعمال کرے گی۔

دوسری جانب ایک ایکڑ تفویض کردہ اراضی کے لیے اے پی سی آر ڈی اے نے ۸۰۰ مربع گز کے رہائشی پلاٹ اور ۲۵۰ مربع گز کے تجارتی پلاٹ کا معاوضہ مقرر کیا ہے۔ جبکہ اس نے کرشنا ندی کے جزیروں پر تفویض کردہ زمین کے لیے ۵۰۰ مربع گز کے رہائشی پلاٹ اور ۱۰۰ مربع گز کے تجارتی پلاٹ سے بھی کم کا معاوضہ مقرر کیا ہے۔

PHOTO • Sri Lakshmi Anumolu
Field of maize. The fertile fields of Uddandarayunipalem, Lingayapalem and Venkatapalem villages in November 2014, before the whole land pooling exercise for the capital region has started.
PHOTO • Sri Lakshmi Anumolu

راجدھانی کے لیے ’لینڈ پولنگ‘ کی کارروائی شروع ہونے سے قبل ۲۰۱۴ میں دریائے کرشنا کے شمالی کنارے پر واقع دیہاتوں میں ’تفویض کردہ‘ زرخیز زمینوں سے حاصل پیداوار

تاہم، زیادہ تر پٹّہ زمین مالکان کا خیال ہے کہ معاوضہ کا فرق مناسب ہے۔ ’’ہم نے کڑی محنت سے اپنی جوت والی زمینیں حاصل کی ہیں۔ انہوں نے [تفویض کردہ زمین مالکان نے] اسے حکومت سے مفت حاصل کیا ہے، کیونکہ وہ غریب ہیں۔ ہم دونوں کے ساتھ یکساں سلوک کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائے پوڈی کے ایک کمّا کسان سوال کرتے ہیں۔

انومولو گاندھی رائے پوڈی سے تقریباً پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اُوڈنڈ رایونی پلیم گاؤں میں پٹّہ اراضی کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماحولیاتی کارکن بھی ہیں۔ انہوں نے کرشنا کی دلدلی زمینوں پر میگا کیپٹل کی وجہ سے پڑنے والے ماحولیاتی اثرات کو اجاگر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’معاوضہ میں فرق کی حکمت عملی [وزیر اعلیٰ چندرا بابو] نائیڈو کی طرف سے پٹّہ زمین مالکان کو ان کی زمینیں پولنگ کے لیے دینے پر راضی کرنے کی غرض سے اپنائی گئی تھی۔ اگر معاوضہ یکساں ہوتا تو پٹّہ زمین مالکان کبھی اپنی زمین دینے پر راضی نہیں ہوتے، کیونکہ ان میں سے زیادہ تر تفویض کردہ زمینوں کو حکومت کی طرف سے غریبوں کو دیا گیا ٹکڑا سمجھتے ہیں۔

تاہم، آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے کئی حصوں میں زمین کی جبری تحویل سے بے گھر ہونے والے لوگوں کی نمائندگی کرنے والے آندھرا پردیش ہائی کورٹ کے وکیل روی کمار کہتے ہیں، ’’[الگ الگ معاوضے کا] حکومتی آرڈرعدالت میں قانون کے سامنے ٹھہر نہں سکتا اور یہ غیر آئینی ہے۔ ہائی کورٹ نے ۲۰۰۴ میں تحویل اراضی افسر، چیویلا ڈویژن، حیدرآباد بنام میکل پانڈو کیس میں ایک فیصلہ سنایا تھا۔ اس ٖفیصلے میں کہا گیا تھا کہ تفویض کردہ زمین اور پٹّہ زمین دونوں کو یکساں معاوضہ دیا جانا چاہیے۔‘‘

اس طرح کے عدالتی فیصلوں اور ایل اے آر آر قانون کے علاوہ آندھرا پردیش حکومت کے محکمہ محصولات کی طرف سے جون ۲۰۱۶ میں جاری ایک حکم نامے (جی او نمبر ۲۵۹) میں کہا گیا تھا کہ تفویض کردہ اراضی کے مالکان کو پٹّہ زمین مالکان کے برابر معاوضہ ادا کیا جانا چاہیے۔ لیکن اس حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’’جب بھی کسی پروجیکٹ کے لیے، کسی عوامی مقصد کے لیے یا کسی سرکاری محکمے یا کارپوریشن کو الگ کرنے کے لیے تفویض کردہ زمینوں کی ضرورت ہو گی، تو زمینوں کو پٹّہ [زمینوں] کی شرائط کے مطابق واپس لیا جائے گا۔‘‘

Thokala Pulla Rao
PHOTO • Rahul Maganti
PHOTO • Rahul Maganti

بائیں: فکرمند ٹھوکل پُلّا راؤ نے ۲۰۱۶ میں اپنی زرخیز زمین تقریباً ۶ لاکھ روپے میں فروخت کر دی۔ بازار میں اس کی موجودہ قیمت ۵ کروڑ روپے فی ایکڑ ہے۔ دائیں: اپنے پٹّہ پاس بک کے ساتھ پُلی چینا لزروس

رائے پوڈی گاؤں کے بابو راؤ سمیت پٹّہ اور تفویض کردہ زمینوں کے تقریباً ۴۰۰۰ مالکان نے ایل پی ایس کے خلاف مزاحمت کی اور اپنی زمین ریاست کو دینے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے جلسے اور احتجاج کا انعقاد کیا۔ انہوں نے نیشنل کمیشن فار شیڈیولڈ کاسٹ کو خط لکھا۔ جب حکومت کے پاس کوئی چارہ کار نہیں بچا، تو اس نے ایل اے آر آر ایکٹ کا حوالہ دیا۔ پھر مختلف گاؤوں کے مختلف گروپوں کے کسانوں نے آندھرا پردیش ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی اور ایل اے آر آر کے تحت اراضی کی تحویل پر جون ۲۰۱۷ سے حکم التوا (اسٹے آرڈر) حاصل کیا۔

رائے پوڈی، اوڈنڈ رایونی پلیم اور وینکٹ پلیم گاؤوں کی تفویض کردہ زمینیں، جو کرشنا کے شمالی کنارے اور اس کے جزیروں پر واقع ہیں، مستقبل میں ریاست کی راجدھانی کے ریور فرنٹ (دریا کے کناروں) کے لیے اہم ہیں۔ امراوتی کا ماسٹر پلان، جو سنگاپور کی تعمیراتی کمپنیوں کے ایک گروپ کے ذریعہ تیار کیا گیا ہے، ایک ’سِیڈ کیپٹل‘ کی تجویز پیش کرتا ہے۔ اس میں پہلے ایک بنیادی علاقہ ۱۶۰۰ ایکڑ زمین پر تیار کیا جائے گا، اس کے ساتھ ایک صنعتی ژون، ایک میراث ژون، سیاحتی ہب اور سیاحتی مقامات شامل ہوں گے۔ اس میں واٹر پارکس، ایڈوینچر پارک، تھیم پارک اور ریور فرنٹ پر گولف کورس بنانے کا بھی منصوبہ ہے۔

مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق، راجدھانی کے ڈیزائن اور تعمیر میں شامل کمپنیوں کو اپنے کاروبار قائم کرنے کے لیے ۶۰۰۰ سے ۱۰۰۰۰ ایکڑ اراضی ملے گی۔ صحیح اعداد و شمار معلوم نہیں ہیں کیونکہ کمپنیوں اور ریاستی حکومت کے درمیان مفاہمت نامے کو عام نہیں کیا گیا ہے۔

بابو راؤ کے دوست اور ساتھی کسان، ۶۰ سالہ ٹھوکل پُلّا راؤ، جو رائے پوڈی میں اسائنڈ لینڈ فارمرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے رکن ہیں، ۷۷ء۰ ایکڑ زمین کے مالک تھے۔ پلا راؤ نے ۲۰۱۶ میں اپنی زرخیز زمین تقریباً ۶ لاکھ روپے میں ایک ریئل اسٹیٹ دلال کو بیچ دی تھی (حالانکہ اس طرح کی لین دین کی اجازت نہیں ہے)۔ یہاں زمین کی بازار میں موجودہ قیمت مبینہ طور پر کم از کم ۵ کروڑ روپے فی ایکڑ ہے۔

A signboard showing the directions to the yet to be constructed Ambedkar Smriti Vanam
PHOTO • Rahul Maganti

بائیں: سیاسی جماعتیں اور کارکن تحویل اراضی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ دائیں: مجوزہ امبیڈکر میموریل اور پارک کا اعلان کرنے والا ایک سائن بورڈ

پلا راؤ کہتے ہیں، ’’مجھے ڈر تھا کہ مجھے کوئی معاوضہ نہیں ملے گا، کیونکہ حکومت کہتی رہی کہ یہ زمین ان کی ہے۔ ریونیو حکام نے ہمیں بتایا کہ چونکہ حکومت نے ہمیں زمین دی ہے، اس لیے جب ضرورت پڑے گی تو وہ اسے واپس لے سکتی ہے۔ چونکہ ہمیں قانون کا علم نہیں ہے، اس لیے ہم نے اس بات کو درست سمجھا۔‘‘ دلالوں نے اس کا اور پلا راؤ جیسے زمین مالکان کے خوف کا فائدہ اٹھایا۔ کسانوں اور مقامی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ بہت سے دلال حکمراں تلگو دیشم پارٹی کے سیاست دانوں کے بے نامی (اسٹینڈ ان) ہیں اور بعض اوقات وہ خود بھی سیاست داں ہوتے ہیں۔

نیشنل الائنس آف پیپلز موومنٹس (این اے پی ایم) کی دسمبر ۲۰۱۴ کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے نشاندہی کی ہے کہ نومبر ۲۰۱۴ میں تقریباً ۳۴۰۰ ایکڑ اراضی کی خرید و فروخت کی گئی تھی، اور ایک مہینہ میں ۴۰۰۰ کروڑ روپے کا لین دین ہوا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ کام ریونیو حکام اور ریئل اسٹیٹ دلالوں کی ملی بھگت سے ہوا تھا۔

پلا راؤ کا خیال ہے کہ تعمیر کا کام مکمل ہونے کے بعد امراوتی اقلیتی بستیوں (گھیٹو) والا شہر بن سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’راجدھانی میں بھی ذات پات کی بنیاد پر امتیاز موجود رہے گا۔ تفویض کردہ زمین کے تمام مالکان کو ایک جگہ اور پٹّہ زمین کے مالکان کو دوسری جگہ پلاٹ دیے جا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسے گاؤں کو دوبارہ بنائے گا جہاں ذاتوں کے درمیان سرحدیں واضح طور پر متعین ہوں گی۔‘‘

۱۴ اپریل ۲۰۱۷ کو وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو نے نئی راجدھانی میں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے ۱۲۵ فٹ اونچے مجسمے کا سنگ بنیاد رکھا۔ ۲۰ ایکڑ کا یہ پلاٹ امبیڈکر اسمرتی ونم کہلائے گا۔ میڈیا رپورٹوں میں بتایا گیا کہ باغ اور مجسمہ کے لیے ۱۰۰ کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سنگ بنیاد کی تقریب کے موقع پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ امراوتی، دوسری صدی کے دکن کے علاقے کے بدھ ستواہنا راجاؤں کی راجدھانی سے متاثر ہے، جسے امراوتی بھی کہا جاتا ہے۔

لیکن، بابو راؤ پوچھتے ہیں، ’’امبیڈکر کے نام پر مجسمے اور باغات بنانے کا کیا فائدہ جب آپ ان کے نظریات پر عمل نہیں کرتے ہیں اور غریبوں اور دلتوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کرتے ہیں؟‘‘

کور فوٹو: سری لکشمی انومولو

اس سیریز کی دیگر اسٹوریز:

’یہ عوام کی راجدھانی نہیں ہے‘

زمین کی بڑھتی قیمت، گھٹتی پیداوار

راجدھانی کے لیے بڑا شہر، اور معمولی مزدوری پانے والے مہاجر مزدور

مترجم: شفیق عالم

Rahul Maganti

Rahul Maganti is an independent journalist and 2017 PARI Fellow based in Vijayawada, Andhra Pradesh.

Other stories by Rahul Maganti
Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Shafique Alam
shafique.aalam@gmail.com

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam