تمل ناڈو کے ناڈو مڈولئی کولم کی عورتوں کو اگر مردم شماری ۲۰۱۱ کا ڈاٹا دکھایا جائے، تو وہ اس کا مذاق اڑائیں گی، کیوں کہ اس میں دیہی خواتین کی کام میں حصہ داری کی شرح 30.02 فیصد درج کی گئی ہے۔ مردوں کی شرح بہتر ہے، جو 53.03 فیصد ہے۔ لیکن زمینی سطح پر، حقیقت اس سے بالکل الگ ہے۔ مدورئی ضلع کے اس گاؤں کی تقریباً ہر عورت اپنے گھر اور کھیت، دونوں جگہوں پر کام کرتی ہے۔ گھر کے کام کی انھیں کوئی اجرت نہیں ملتی، جب کہ کھیتوں پر کام کرنے کی مزدوری انھیں مردوں کے مقابلے آدھی ملتی ہے۔ اس پر مزید طرّہ یہ کہ ’صنف نازک‘ کو کھیت پر مشکل کام دیا جاتا ہے۔ مرد کھیت تیار کرتے ہیں۔ یہ وہ کام ہے، جس کی اجرت روایتی طور پر زیادہ ملتی ہے۔ اور اب یہ کام تیزی سے مشینوں کے ذریعہ انجام دیا جاتا ہے۔ لیکن بُوائی اور نِرائی کے ۸۰ فیصد کام عورتوں کے ذریعہ ہی کیے جاتے ہیں، اس کام سے پیٹھ، پیروں اور ہاتھوں پر بہت زیادہ زور پڑتا ہے۔


02-IMG_3095-AK-‘Work’ in Nadumudalaikulam means women.jpg


پودھومنی، جو اپنے شوہر سی۔ جیابل (ایک کسان اور سوئیمنگ انسٹرکٹر) کے ساتھ ساڑھے تین ایکڑ زمین پر کھیتی کرتی ہیں، دوسروں کے کھیتوں پر بھی وہ ایک مزدور کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اس مزدوری سے ان کی اضافی کمائی ہو جاتی ہے۔ فی الحال کھیتوں پر چار گھنٹے (صبح ۸ بجے سے دوپہر ۱۲ بجے تک) کام کرنے کی مزدوری ۱۰۰ روپے ہے۔ پودھومنی کی صبحیں ہنگامہ دار ہوتی ہیں۔ صبح کے ۵ بجے وہ کھانا پکاتی ہیں، گھر کو ٹھیک کرتی ہیں اور اسکول جانے والے اپنے بیٹوں کے لیے کھانا پیک کرتی ہیں۔ اس کے بعد وہ ’شارٹ کٹ‘ سے اپنے کھیتوں میں پہنچتی ہیں، کمر تک پانی بھرے ہوئے کَمّا (تالاب) سے گزر کر۔ اس کے بعد، وہ اپنے ہی کھیت پر سینچائی، بُوائی، نِرائی یا فصل کی کٹائی کا کام کرتی ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے دوپہر کے کھانے کی چھٹی کے بعد، وہ گایوں، بکریوں اور دیگر جانوروں کو چارہ دیتی ہیں اور ان کی جھونپڑیوں کی صفائی کرتی ہیں۔ اس کے بعد وہ رات کا کھانے پکاتی ہیں۔ بات کرتے ہوئے ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکان بکھری ہوئی ہے۔ یہ مسکان تب ہنسی میں تبدیل ہو جاتی ہے، جب ان کے شوہر ان کی اس کڑی محنت کو تسلیم کرتے ہیں۔ دونوں چاہتے ہیں کہ ان کے بیٹے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ’کسی آفس میں‘ کام کریں، کھیت میں نہیں۔ ’’میں اسکول کبھی نہیں گئی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ان کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ وہ کہیں اور دیکھنے لگتی ہیں۔


03-IMG_3086-AK-‘Work’ in Nadumudalaikulam means women.jpg


لوگامنی ایلاوراسن، ان کی بیٹی شوبانا کو کھانا کھلا رہی ہیں۔ وہ چاول اور سامبھر کا چھوٹا سا لقمہ بناتی ہیں۔ چار سال کی یہ بچی جلدی سے اپنا منھ کھول دیتی ہے۔ اسے کبھی کبھار ہی کوئی ہاتھ سے کھلاتا ہے۔ اس کی ماں کے پاس اس کے لیے وقت ہی نہیں بچتا۔ لوگامانی کے دو بڑے بچے ہیں۔ اور استطاعت سے کہیں زیادہ کام، خود اپنے اور دوسروں کے کھیتوں پر۔ وہ اپنے گھر سے صبح ۸ بجے نکلتی ہیں، جب ان کے بچے اسکول جاتے ہیں اور ان کی واپسی پر ہی گھر لوٹتی ہیں۔ وہ جب چھوٹے تھے، تو وہ انھیں اپنے ساتھ دھان کے کھیتوں پر لے جاتی تھیں۔ ’’پہلے، ہم انھیں کپڑے سے بنے جھولے میں ڈالتے ہیں، پھر درختوں کے درمیان لٹکا دیتے ہیں۔ وہ جب آٹھ مہینے کے تھے، تو وہ کھیتوں کی مینڈوں (بندوں) پر بیٹھ کر کھیلا کرتے تھے۔‘‘ یہ عورتیں بچے پیدا کرنے سے ایک دن پہلے تک کام کرتی رہتی ہیں۔ اور، بچے کی پیدائش کے ایک ماہ بعد، دوبارہ کھیتوں پر کام کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ ’’ہمارے لیے سرکاری اسپتال، ہمارے بچوں کے لیے سرکاری اسکول۔ ہم پرائیویٹ نام کی کوئی بھی چیز برداشت نہیں کر سکتے،‘‘ ۲۹ سالہ پودھومنی کہتی ہیں، جو ہر روز بیداری کی حالت میں ہر گھنٹے کام کرتی رہتی ہیں۔


04-IMG_3073-AK-‘Work’ in Nadumudalaikulam means women.jpg


’’میں ۱۴ سال کی تھی، وہ ۳۰ سال کے۔ اگر مجھے زیادہ کچھ معلوم ہوتا تو ۔۔۔۔۔،‘‘ نگاوَلّی تھیروناوکراسو پشیمانی کے ساتھ اپنی شادی کے بارے میں بتاتی ہیں۔ دو دہائیوں کے بعد، وہ تین بچوں کی ماں ہیں، جو گائے کا دودھ نکالتی ہیں اور زرعی مزدور کے طور پر دن میں کام کرتی ہیں۔ ان کے شوہر لاری لوڈ کرتے ہیں، اور روزانہ ۱۵۰ روپے کماتے ہیں۔ کام کی وجہ سے انھیں ۲۵ کلومیٹر دور مدورئی جانا پڑتا ہے۔ زرعی مزدور کے طور پر انھیں ایک دن کے کام کی اجرت ۱۰۰ روپے ملتی ہے، لیکن جب مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی اسکیم (منریگا) کے تحت وہ کام کرتی ہیں، تو انھیں روزانہ ۱۴۰ روپے مزدوری کے ملتے ہیں۔ ان دونوں کی مجموعی آمدنی فیملی کے روزانہ کے اخراجات کو مشکل سے پوری کر پاتی ہے۔ ’’میں اپنی بیٹیوں کے لیے اس سے کچھ بہتر چاہتی ہوں،‘‘ وہ مضبوط لہجہ میں کہتی ہیں۔ ’’انھیں پہلے تعلیم حاصل کرنی ہے، نہ کہ کم عمری میں ہی شادی کر دی جائے۔‘‘ بڑی بیٹی دوسرے سال کی بی اے انگلش کی اسٹوڈنٹ ہے۔ ناگاوَلّی کو اس بات پر فخر ہے کہ اس نے ٹیچر بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ منجھلی بیٹی ہائی اسکول کی کامرس اسٹوڈنٹ ہے۔ سب سے چھوٹا بچہ، جو کہ لڑکا ہے، ۸ویں کلاس میں پڑھتا ہے۔ ’’صرف وہی ہے، جو کھیتوں میں ہماری مدد کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا۔ لڑکیاں آتی ہیں۔ کم از کم جب بھی میں انھیں بلاتی ہوں۔۔۔۔۔‘‘


05-IMG_2837(Crop)-AK-‘Work’ in Nadumudalaikulam means women.jpg


اوچَمّا گوپال گاؤں کی ایک بڑی زمیندار ہیں۔ وہ اپنی ۱۵ ایکڑ زمین پر کام کرنے والی دوسری عورتوں پر کڑی نظر رکھتی ہیں۔ ان کی بڑی عزت ہے، وہ جانتی بھی بہت کچھ ہیں اور وہ ایک دن کی مزدوری ۱۰۰ روپے دیتی ہیں۔ لیکن گاؤں کی عورتیں زیادہ تر منریگا کا کام کرتی ہیں، وہ جب بھی دستیاب ہو، کیوں کہ اس سے انھیں روزانہ ۴۰ روپے زیادہ ملتے ہیں۔ اور، اس لیے بھی کہ تب کوئی بھی کھیتوں کے کنارے کھڑا ہوا ان پر ہر وقت نظر نہیں رکھتا اور نہ ہی ان پر آرڈر چلاتا ہے۔


06-IMG_3060-AK-‘Work’ in Nadumudalaikulam means women.jpg

۷۰ سالہ کَنّمّل چِنّا تھیور نے مجھے اپنی تصویر کھینچنے کی اجازت تبھی دی، جب انھوں نے نیلے رنگ کی ایک خوبصورت ساڑی اور کانوں میں سونے کی بڑی بالی پہن لی۔ دوپہر بعد کے ۳ بج رہے تھے اور وہ زرعی مزدور کے طور پر دن کے کام سے فارغ ہو کر فوراً ہی لوٹی تھیں۔ وہ بغیر بلاؤز کے ساڑی پہنتی ہیں، جو اس علاقے کے انوکھے اسٹائل کے مطابق لپیٹی ہوئی ہے۔ ان کی پیٹھ سیدھی ہے، جب کہ جلد پر جھریاں پڑ چکی ہیں۔ ان کی آنکھیں دھندلی ہیں اور وہ تبھی سن سکتی ہیں جب آپ ان سے اونچی آواز میں بات کریں۔ لیکن وہ ہنستی ہیں اور اکثر اپنا سر ہلاتی ہیں۔ ان کا بیٹا جیابل مجھے بتاتا ہے کہ وہ مالی اعتبار سے مضبوط ہیں، پھر بھی کام کرنے جاتی ہیں۔ ’’ان کے پاس سونا ہے اور وہ پیسے بھی اُدھار دیتی ہیں۔ وہ مجھ پر منحصر نہیں ہیں،‘‘ وہ ہنستے ہیں۔


07-IMG_3047-AK-‘Work’ in Nadumudalaikulam means women.jpg

عورتیں جس وقت کھیتوں پر کام کر رہی ہوتی ہیں، مرد اس وقت مصروف ہوتے ہیں۔ بوڑھے مرد دوپہر کے وقت نیم کے سایے میں تاش کھیلتے ہیں۔ ’’وہ میرے والد ہیں،‘‘ جیابل دائیں طرف بیٹھے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ان کے بال اسی طرح سفید ہیں جس طرح کہ ان کی دھوتی۔ ان کے پیچھے ان سے کم عمر کے مرد ہیں، جو اس کھیل کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر ۲۰۱۱ کی مردم شماری پر یقین کیاجائے، تو ’’قومی سطح پر ورک فورس میں عورتوں کی حصہ داری 25.51 فیصد ہے، جب کہ مردوں کی 53.26 فیصد۔ دیہی علاقوں میں عورتوں کی ورکس فورس میں حصہ داری 30.02 فیصد جب کہ مردوں کی 53.03 فیصد ہے۔ شہری علاقوں میں عورتوں کے لیے یہ 15.44 فیصد اور مردوں کے لیے 53.76 فیصد ہے۔‘‘

ناڈو مڈو لئی کولم کی عورتیں یہ ضرور جاننا چاہ رہی ہوں گی کہ مردم شماری کے مطابق ’’کام‘‘ کیسے کہتے ہیں۔۔۔۔

تصویریں: اَپرنا کارتی کیئن

یہ بھی پڑھیں: جہاں کھیتی کا مطلب ہے دو کل وقتی نوکریاں

یہ مضمون ’دیہی تمل ناڈو کے ختم ہوتے ذریعہ ہائے معاش‘ سیریز کا حصہ ہے اور اسے این ایف آئی نیشنل میڈیا ایوارڈ ۲۰۱۵ کے تحت تعاون حاصل ہے۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Aparna Karthikeyan
aparna.m.karthikeyan@gmail.com

Aparna Karthikeyan is an independent journalist, author and Senior Fellow, PARI. Her non-fiction book 'Nine Rupees an Hour' documents the disappearing livelihoods of Tamil Nadu. She has written five books for children. Aparna lives in Chennai with her family and dogs.

Other stories by Aparna Karthikeyan
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez