یہ ایک چھوٹا، خستہ ڈھانچہ نظر آرہا ڈھانچہ ہے۔ اسے ستارا ضلع کے کٹگون گاؤں کے باشندوں کے لیے فخر و اعزاز کا ذریعہ ہونا چاہیے تھا، اور ان کے لیے یہ شاید ہے بھی۔ تاہم، ایسا لگتا ہے کہ مقامی پنچایت کی نظر میں اس چھوٹے سے گھر کی بہت زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ نہ ہی ظاہری طور پر ایسا لگتا ہے کہ حکومتِ مہاراشٹر کو اس کی کوئی فکر ہے۔

یہ مشہور و معروف سوشل ریفارمر جیوتیبا پھُلے کا آبائی مکان تھا۔ ان کے دادا کا گھر۔ یہ نہایت ہی خستہ حالت میں ہے، پلاسٹر کی پپڑیاں چھتوں سے جھڑ رہی ہیں۔ ہم نے پردھان منتری آواس یوجنا (دیہی غریب باشندوں کو گھر فراہم کرنے کی وزیر اعظم کی اسکیم) کے تحت بنے ہوئے اچھے اچھے مکان دیکھے ہیں۔ تاہم، اس مکان کو دیکھ کر یہ ضرور لگتا ہے کہ اس کی دوبارہ تعمیر اسی کیٹیگری میں نہایت گھٹیا طریقے سے کی گئی ہے۔

یہ مکان اتنا چھوٹا ہے کہ اس کی مرمت کرنے یا صفائی کرنے میں بہت زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ اور اس کے لیے وسائل بھی موجود ہیں، کیوں کہ آپ پنچایت کی اسمارٹ جمنازیم کے ٹھیک پیچھے سے دیکھ سکتے ہیں۔ اس خستہ حال ڈھانچہ کے ٹھیک پیچھے پھُلے کے نام پر ایک تعلیمی ادارہ چل رہا ہے، جس کا سڑک کے کنارے ایک کھلا اسٹیج بھی ہے۔

PHOTO • P. Sainath

غلط ڈھنگ سے بنا اسٹیج: آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اسپانسر کا نام پھُلے کے نام سے کہیں زیادہ نمایاں ہے

اسٹیج کے اخیر میں ایک بڑا سا بورڈ ہے جس پر اسپانسر کا نام، جانسن ٹائلس، لکھا ہوا ہے، جو کہ جلی حروف میں کشیدہ خط کے ساتھ لکھا ہوا ہے اور ’مہاتما جیوتی راؤ پھُلے‘ سے کہیں زیادہ نمایاں ہے۔ یہ بداخلاقی ہے اور بالکل زیب نہیں دیتا۔ لیکن ساتھ ہی یہ کارپوریٹ دور کی ترجمانی بھی کر رہا ہے، جس میں اگر پھُلے زندہ ہوتے، تو ان سے اپنی سوشل ریفارم تحریک کے لیے لوگوں سے تعاون مانگنے سے پہلے کہا جاتا کہ وہ اس کا ایک ’ریونیو ماڈل‘ پیش کریں۔ پھُلے کا ماڈل انصاف، حقوقِ انسانی، تعلیم، ذات پات کے خلاف اور عزتِ نفس حاصل کرنے کی لڑائی پر مبنی تھا۔ یہ جانسن ٹائلس کے برخلاف تھا، جس میں بڑے طمطراق سے ’’پوری دنیا میں طرز ہائے زندگی کو نئی شکل دینے‘‘ کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ احاطہ کے اندر موجود پھُلے کے مجسمہ کا پشت ان کے چھوٹے سے آبائی گھر کی طرف ہے، گویا یہ اس کی خستہ حالت اور گاؤں میں پانی کی شدید قلت کے خلاف احتجاج کر رہا ہو۔

کٹگون میں رہنے والے ۳۳۰۰ لوگ پانی کی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں، حالانکہ ان کا گاؤں نیر باندھ اور جھیل سے محض ۲۰ کلومیٹر دور ہے۔ یہ گاؤں تین ضلعوں کی ۱۳ تحصیلوں کو ملا کر بنے اُس ’کھاٹو‘ کا حصہ ہے، جہاں ہر سال ان کی پانی سے متعلق پریشانیوں کو لے کر ’دُشکال پریشد‘ (قحط کونسل) بلائی جاتی ہے۔ ہم نے پرانے مہابلیشور میں کرشنا ندی کے نقطۂ آغاز سے پانی کے بہاؤ کی جانب اپنے سفر کے دوران کٹگون کا دورہ کیا۔

PHOTO • P. Sainath

گھر کے اندر چھت سے پلاسٹر جھڑ رہے ہیں۔ دائیں: جیوتی با گھر کی طرف اپنی پیٹھ کیے ہوئے کھڑے ہیں، شاید وہ دونوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، یعنی گھر کی خستہ حالت اور کٹگون گاؤں کے خلاف

یہاں صرف جیوتی با پھُلے کا ہی آبائی گھر خستہ حالت میں نہیں ہے۔ کٹگون کے باشندے بھی یہاں چین سے زندگی نہیں گزار رہے ہیں۔ بہت سے لوگ کام کی تلاش میں یہاں سے شہروں کی طرف جا چکے ہیں، لیکن کچھ لوگ اب لوٹ رہے ہیں۔

’’مجھے ایک مہینہ میں ۱۵ ہزار روپے ملتے تھے،‘‘ گوتم جاولے نے بتایا، جو ممبئی میں ایک مشہور فلم ساز کے یہاں ڈرائیور تھے۔ ’’اس شہر سے باہر کا کوئی آدمی بھلا اتنے پیسے میں کیسے زندگی گزار سکتا ہے؟ ایک طرف تو میں بی ایم ڈبلیو اور مرسڈیز بینز کاریں چلا رہا تھا اور دوسری طرف میں اپنی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر پا رہا تھا۔ اس لیے میں واپس چلا آیا۔‘‘

جاولے ہم سے اس خستہ حال گھر کے سامنے بات کر رہے ہیں، جس کی دیوار پر یہ الفاظ پینٹ سے لکھے ہوئے ہیں، ’پھُلے فیملی ہاؤس‘۔ یہ جیوتی با پھُلے کا آبائی گھر تھا۔ لیکن، کیا یہ ان کی جائے پیدائش بھی تھا؟ یہ واضح نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ان کے دادا کی پراپرٹی تھی۔ ان کی جائے پیدائش کو لے کر مختلف ذرائع سے متضاد شواہد ملتے ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ ان کی پیدائش یہیں کٹگون میں ہوئی تھی، اس کے بعد ان کی فیملی سرکاری اہل کاروں کے مظالم سے پریشان ہو کر کہیں اور بھاگ گئی تھی۔ دوسروں کا دعویٰ ہے کہ ان کی پیدائش پُنے ضلع میں کھان واڑی میں ہوئی تھی۔ بعض شائع ہوچکے دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی پیدائش پُنے میں ہوئی، جب ان کے والد یہاں منتقل ہو گئے تھے۔

ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ آج کٹگون گاؤں علم کی پیاس بجھانے، تعلیم اور انصاف حاصل کرنے کی جگہ نہیں ہے جیسا کہ جیوتی با پھُلے چاہتے تھے۔ بلکہ، کٹگون گاؤں آج صحیح معنوں میں پیاس (پانی کی قلت) کی جگہ ہے۔

تصویریں: پی سائی ناتھ

P. Sainath
psainath@gmail.com

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez