لکشمی بائی کالے ہر سال اپنی فصل کا ایک حصہ کھو رہی ہیں۔ یہ حد سے زیادہ بارش یا قحط یا کاشتکاری کی خراب تکنیک کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ ’’ہماری فصلوں کو برباد کر دیا جاتا ہے،‘‘ ۶۰ سالہ لکشمی بائی نے کہا، ’’کیوں کہ پنچایت مویشیوں کو زمین پر چرنے کی اجازت دیتی ہے۔ ہم نے جتنے نقصان برداشت کیے ہیں، مجھے اس کی گنتی یاد نہیں۔‘‘

لکشمی بائی اور ان کے شوہر، وامن، ناسک ضلع کے موہدی گاؤں میں جس پانچ ایکڑ زمین پر تین دہائیوں سے کھیتی کرتے آ رہے ہیں وہ گایران کا ایک حصہ ہے – سرکار کے ذریعہ قابو کردہ گاؤں کی مشترکہ زمین جس کا استعمال چراگاہ کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اس میں وہ ارہر، باجرا، جوار اور دھان کی کھیتی کرتے ہیں۔ ’’پنچایت کے ارکان کہتے ہیں کہ اگر ہم نے گاؤں والوں کو اپنی زمین پر مویشی چرانے کی اجازت نہیں دی، تو وہ ہمارے خلاف مقدمہ دائر کریں گے،‘‘ لکشمی بائی نے بتایا۔

لکشمی بائی اور ڈنڈوری تعلقہ کے ان کے گاؤں کے دیگر کسان زمین سے متعلق اپنے حقوق کے لیے ۱۹۹۲ سے ہی لڑ رہے ہیں۔ ’’اس زمین پر کھیتی کرنے والی میں [فیملی کی] تیسری نسل ہوں، لیکن یہ اب بھی ہمارے نام پر نہیں ہے،‘‘ انہوں کہا۔ ’’اپنے زمین سے متعلق حقوق کے لیے ۲۰۰۲ میں ہم نے ستیاگرہ کیا اور جیل بھرو آندولن چلایا۔‘‘ اُس وقت تقریباً ۱۵۰۰ کسانوں نے، جن میں سے اکثریت خواتین کی تھی، ناسک سنٹرل جیل میں ۱۷ دن گزارے، وہ یاد کرتی ہیں۔

زمین کا مالکانہ حق نہیں ہونے کی وجہ سے لکشمی بائی کو، جن کا تعلق لوہار ذات سے ہے – جو مہاراشٹر میں دیگر پس ماندہ طبقہ کے تحت آتی ہے – فصل کے نقصان پر کوئی مدد نہیں ملتی۔ ’’چونکہ زمین ہمارے نام پر نہیں ہے، اس لیے ہمیں [فصل کے لیے] قرض یا بیمہ نہیں ملتا،‘‘ انہوں نے کہا۔ اس کی بجائے وہ اپنے نقصان کو پورا کرنے کے لیے زرعی مزدور کے طور پر کام کرتی ہیں، کئی بار زیادہ کمانے کے لیے آٹھ گھنٹے کی دو شفٹ کرتی ہیں۔

بھیل آدیواسی کسان اور ایک بیوہ، ۵۵ سالہ ویجا بائی گنگُردے کا بھی یہی حال ہے۔ وہ موہدی کی اپنی زمین کے سہارے زندہ نہیں رہ سکتیں۔ ’’اپنی دو ایکڑ زمین پر آٹھ گھنٹے کام کرنے کے بعد، میں [کسی اور کے کھیت پر] مزید آٹھ گھنٹے کام کرتی ہوں،‘‘ ویجا بائی نے کہا، جن کا دن دو شفٹوں میں بٹا ہوا ہے، جس کی شروعات صبح ۷ بجے ہوتی ہے۔

’’لیکن میں ساہوکار سے قرض لینے کی کبھی کوشش نہیں کرتی،‘‘ انہوں نے مزید کہا۔ ’’ساہوکار قرض کے ہر ۱۰۰ روپے پر ۱۰ روپے سود لیتا ہے، جسے مہینہ کے آخر میں ادا کرنا پڑتا ہے۔‘‘ لکشمی بائی بھی نجی ساہوکاروں سے دور رہتی ہیں۔ ’’ساہوکاروں نے پڑوس کے گاؤوں کی بیواؤں کو ہراساں کیا ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔

Women farmers from Nashik protesting
PHOTO • Sanket Jain
Women farmer protesting against farm bill 2020
PHOTO • Sanket Jain

بائیں: ناسک ضلع کی لکشمی بائی کالے (بائیں) اور ویجا بائی گنگُردے (دائیں) اپنی زمین سے متعلق حقوق کے لیے ۱۹۹۲ سے لڑائی لڑ رہی ہیں۔ دائیں: سورنا گنگردے (ہری ساڑی میں) کہتی ہیں، ’’ہم اس زمین پر کھیتی کرنے والی تیسری نسل ہیں‘‘

موہدی گاؤں کی خواتین کے پاس پیسوں کی کمی ہے۔ مردوں کے مقابلے ان کی اجرت کم ہے۔ آٹھ گھنٹے کام کرنے کے انہیں ۱۵۰ روپے ملتے ہیں، جب کہ اسی کام کے لیے مردوں کو ۲۵۰ روپے دیے جاتے ہیں۔ ’’آج بھی، عورتوں کو زیادہ کام کرنے کے باوجود مردوں سے کم پیسے ادا کیے جاتے ہیں۔ حکومت ایسا کیوں سوچ رہی ہے کہ یہ [نئے زرعی] قوانین خواتین کسانوں کو زیادہ متاثر نہیں کریں گے؟‘‘ لکشمی بائی سوال کرتی ہیں۔

نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے لکشمی بائی اور ویجا بائی جنوبی ممبئی کے آزاد میدان آئی تھیں، جس کا انعقاد ۲۴-۲۶ جنوری کو سمیُکت شیتکری کامگار مورچہ نے کیا تھا۔

پورے ناسک اور پڑوسی ضلعوں کے گاؤں سے ۱۵ ہزار کسان ۲۳ جنوری کو ٹیمپو، جیپ اور پک اَپ ٹرکوں سے روانہ ہوئے اور اگلے دن ممبئی پہنچے تھے۔ آزاد میدان میں انہوں نے دہلی کی سرحدوں پر نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے کسانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا، اور اپنے زمین سے متعلق حقوق کا بھی مطالبہ کیا۔ ’’ہمیں حکومت سے ڈر نہیں لگتا۔ ہم نے [۲۰۱۸ میں] ناسک سے ممبئی تک کے مارچ میں حصہ لیا تھا، ہم دہلی بھی گئے تھے، اور ناسک اور ممبئی میں دو درجن سے زیادہ بار احتجاج کر چکے ہیں،‘‘ لکشمی بائی نے احتجاج کے طور پر ہوا میں مٹھی لہراتے ہوئے کہا۔

کسان جن قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ ہیں۔ انہیں سب سے پہلے ۵ جون، ۲۰۲۰ کو آرڈیننس کی شکل میں پاس کیا گیا تھا، پھر ۱۴ ستمبر کو پارلیمنٹ میں زرعی بل کے طور پر پیش کیا گیا اور اسی ماہ کی ۲۰ تاریخ کو موجودہ حکومت کے ذریعہ جلد بازی میں قانون میں بدل دیا گیا۔

کسان ان قوانین کو اپنے معاش کے لیے تباہ کن سمجھ رہے ہیں کیوں کہ یہ قوانین بڑے کارپوریٹ کو کسانوں اور زراعت پر زیادہ اختیار فراہم کرتے ہیں۔ نئے قوانین کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی)، زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ کمیٹیوں (اے پی ایم سی)، ریاست کے ذریعہ خرید وغیرہ سمیت، کاشتکاروں کی مدد کرنے والی بنیادی شکلوں کو بھی کمزور کرتے ہیں۔ ان قوانین کی اس لیے بھی تنقید کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ ہر ہندوستانی کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۳۲ کو کمزور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے قانونی چارہ جوئی کے حق کو ناکارہ کرتے ہیں۔

پرائیویٹ خریدار جب ایم ایس پی سے کم پر فصلیں خریدتا ہے، تو اس سے کسان اور زرعی مزدور دونوں متاثر ہوتے ہیں، لکشمی بائی نے کہا۔ ’’کسان کو جب اچھی قیمت ملے گی، تبھی وہ کمائیں گے اور مزدوروں کی ادائیگی کر پائیں گے۔‘‘ ان قوانین سے، بقول ان کے، ’’بازار میں مزید پرائیویٹ کمپنیوں کا اضافہ ہوگا۔ آمہی بھاو کرو شکنار ناہی [ہم قیمت کا مول بھاؤ نہیں کر پائیں گے]۔‘‘

Women farmers protesting against New farm bill
PHOTO • Sanket Jain
The farmer protest against the new farm bill
PHOTO • Sanket Jain

بائیں: آزاد میدان میں احتجاج کرنے والی عورتیں خود کو تپتے سورج سے سایہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ دائیں: متھرا بائی بردے اپنے ہاتھوں میں کسانوں کے مطالبات کی فہرست کے ساتھ

آزاد میدان کے احتجاج میں، ڈنڈوری تعلقہ کے کورہاٹے گاؤں کی ۳۸ سالہ سورنا گنگردے نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ان قوانین سے عورتوں کو سب سے زیادہ نقصان ہوگا۔ ’’تقریباً ۷۰-۸۰ فیصد کاشتکاری عورتوں کے ذریعہ کی جاتی ہے،‘‘ سورنا نے کہا، جن کا تعلق کولی مہادیو آدیواسی برادری سے ہے۔ ’’لیکن پی ایم کسان یوجنا کو ہی دیکھ لیں۔ اس کا ایک بھی پیسہ ہمارے گاؤں کی عورتوں کے اکاؤنٹ میں جمع نہیں کیا گیا۔‘‘ مرکزی حکومت کی اس اسکیم کے تحت، چھوٹے اور غریب کسان ہر سال ۶ ہزار روپے کی مالی مدد حاصل کرنے کے حقدار ہیں۔

سورنا کے مطابق، حق جنگلات قانون، ۲۰۰۶ کے تحت ۲۰۱۲ میں کورہاٹے گاؤں کے ۶۴ آدیواسی کنبوں میں سے صرف ۵۵ کو ’۷/۱۲‘ (زمین کے حقوق کے ریکارڈ) دیے گئے۔ لیکن ریکارڈز میں شیرا (تبصرہ) – پوٹکھربا زمین (ناقابل کاشت زمین) شامل ہے۔ ’’اس زمین پر کھیتی کرنے والی ہم تیسری نسل ہیں، اس لیے وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ پوٹکھربا زمین ہے؟‘‘ وہ پوچھتی ہیں۔

سورنا پانچ ایکڑ زمین پر ٹماٹر، بھوئی مُگ (مونگ پھلی)، دھنیا، سووا، پالک اور دیگر پتے دار سبزیاں اُگاتی ہیں۔ وہ صرف دو ایکڑ کی مالک ہیں، حالانکہ وہ باقی زمین کی بھی حقدار ہیں۔ ’’ پھساونوک کیلیلی آہے [ہمیں بیوقوف بنایا گیا ہے]،‘‘ انہوں نے کہا۔

اپنے نام پر زمین کی مانگ کرنے کے باوجود، کورہاٹے کے آدیواسی کسانوں کو مشترکہ طور پر ۷/۱۲ دے دیا گیا۔ ’’ شیرا کی وجہ سے نہ تو ہم فصلی قرض لے سکتے ہیں اور اپنے کھیتوں پر کنویں یا بورویل کھود سکتے ہیں، جو ہمیں بارش کا پانی جمع کرنے سے روکتا ہے۔ ہم کھیتی کے لیے تالاب بھی نہیں کھود سکتے،‘‘ سورنا نے بتایا۔

احتجاجوں میں شامل ہونے کے لیے کورہاٹے سے ۵۰ کسان اور زرعی مزدور ممبئی آئے، جن میں ۳۵ خواتین تھیں۔

احتجاج کرنے والے کسانوں نے ۲۵ جنوری کو جنوبی ممبئی میں واقع مہاراشٹر کے گورنر کی رہائش گاہ، راج بھون جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ اپنے مطالبات کی ایک فہرست جمع کروانا چاہتے تھے جس میں شامل ہے تین زرعی قوانین کی منسوخی؛ ایم ایس پی پر فصلوں کی خرید؛ ان کے نام پر زمین؛ اور ۲۰۲۰ میں متعارف کرائے گئے چار لیبر کوڈ کی واپسی۔

The farmers protesting against the farm bill 2020
PHOTO • Sanket Jain
The farmers protesting against the farm bill 2020
PHOTO • Sanket Jain

اپنے زمین سے متعلق حقوق کا مطالبہ کرنے اور نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ہزاروں کسان ۲۴-۲۵ جنوری کے دھرنے میں شریک ہونے ممبئی آئے

راج بھون تک مارچ کرنے سے پہلے، احمدنگر ضلع کی ۴۵ سالہ بھیل آدیواسی کسان، متھرا بائی برڈے متعدد پیلے رنگ کے فارمز کو چھانٹنے میں مصروف تھیں۔ آل انڈیا کسان سبھا، جس نے آزاد میدان کے اس دھرنے کا انتظام کیا تھا، کے ذریعے تیار کردہ ان فارمز میں کسانوں کو درپیش عام مسائل کی فہرست تھی۔ فہرست میں شامل مسائل کچھ اس طرح تھے: ’میں جس ۷/۱۲ زمین پر کھیتی کرتا ہوں وہ مجھے نہیں دی گئی ہے‘؛ ’کھیتی کی زمین کا صرف کچھ ہی حصہ مجھے دیا گیا ہے‘؛ ’زمین کا مالکانہ حق دینے کی بجائے، حکام نے مجھ سے زمین کو خالی کرنے کے لیے کہا ہے‘۔

ہر کسان کو ان مسائل کا انتخاب کرنا تھا جس کا وہ سامنا کر رہے ہیں، اور ان فارمز کو مطالبات کی فہرست کے ساتھ گورنر کو سونپا جانا تھا۔ متھرا بائی اس بات کو یقینی بنا رہی تھیں کہ سنگم نیر تعلقہ کے ان کے گاؤں، شنڈوڈی کی تمام خواتین کسان اپنے فارم کو صحیح طریقے سے پُر کریں۔ انہوں نے اپنی تحریر میں کسانوں کے نام کی ایک فہرست بنا رکھی تھی، جسے دیکھ کر وہ تصدیق کر رہی تھیں کہ ہر ایک نے اپنی تفصیلات ٹھیک سے درج کر دی ہیں۔

اُدھر اپنے گاؤں میں، متھرا بائی ساڑھے سات ایکڑ زمین پر کھیتی کرتی ہیں۔ نجی تاجروں کے ساتھ ان کے حالیہ تجربہ نے انہیں نئے قوانین کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے مزید قوت عطا کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تاجروں نے انہیں ایک کوئنٹل گیہوں کے ۹۰۰ روپے ادا کیے، جو کہ ۲۰۲۰-۲۰۲۱ کے لیے منظور شدہ ایم ایس پی – ۱۹۲۵ روپے سے کافی کم ہے۔ ’’اسی گیہوں کو بازار میں وہ ہمیں تین گنی قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ ہم ہی اسے اُگاتے ہیں، پھر بھی ہم سے زیادہ پیسے مانگے جاتے ہیں،‘‘ متھرا بائی نے کہا۔

ممبئی پولیس کی طرف سے اجازت نہ ملنے کی وجہ سے ۲۵ جنوری کو کسانوں کے ذریعہ راج بھون تک کا مارچ ردّ کر دیا گیا تھا۔ گورنر سے ملاقات کی اجازت نہ ملنے سے ناراض، متھرا بائی نے کہا، ’’ہم لڑنا بند نہیں کریں گے۔ ہم ہی لوگ ہیں جو سب کے لیے فصلیں اگاتے ہیں، گورنر اور وزیر اعظم کے لیے بھی۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Sanket Jain

Sanket Jain is a journalist based in Kolhapur, Maharashtra. He is a 2022 PARI Senior Fellow and a 2019 PARI Fellow.

Other stories by Sanket Jain
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez