تنّا سنگھ کا پوتا اکثر ان سے فون پر کہتا ہے، ’’باپو، تو آ جا۔‘‘ اپنے ٹینٹ کے پاس پلاسٹک کے اسٹول پر بیٹھے تنّا سنگھ کہتے ہیں، ’’میں کیسے واپس جا سکتا ہوں؟ آخر، میں یہاں اسی کے مستقبل کے لیے آیا ہوں۔‘‘

وہ نم آنکھوں کے ساتھ آگے کہتے ہیں، ’’جب بھی میں اس کی [اپنے ۱۵ سالہ پوتے کی] آواز سنتا ہوں، تو مجھے رونے کا من کرتا ہے۔ کون اپنے پوتے پوتیوں سے دور رہنا چاہے گا؟ کون اس طرح اپنے بیٹے بیٹیوں کو چھوڑ کر آنا چاہتا ہے؟‘‘

وجہ چاہے جو بھی ہو، لیکن تنّا سنگھ نے ڈٹے رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ۲۶ نومبر، ۲۰۲۰ سے وہ ایک دن کے لیے بھی ٹیکری کے احتجاجی مقام سے نہیں ہٹے ہیں۔ اور تقریباً ایک سال بعد، ۱۹ نومبر ۲۰۲۱ کو وزیر اعظم کے ذریعے تینوں زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کے اعلان کے باوجود بھی، ۷۰ سالہ تنّا سنگھ جن کی بیوی کا انتقال ہو چکا ہے، کا کہنا ہے کہ وہ تب تک ٹیکری سے نہیں ہٹیں گے، جب تک کہ پارلیمنٹ میں قانون واپسی کی مہر اور سیل نہیں لگ جاتی۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم ان قوانین کو منسوخ کرنے کے لیے، صدر جمہوریہ کی مہر لگنے کا انتظار کریں گے۔ ہم اس دن کے لیے ہی اپنا گھر چھوڑ کر آئے ہیں۔‘‘

وہ ان ہزاروں کسانوں میں سے ایک ہیں، جو ایک سال پہلے تین زرعی قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے راجدھانی کی سرحد پر آئے اور جب سرکار کے ذریعے آگے جانے کی اجازت نہیں ملی، تو ٹیکری (مغربی دہلی میں)، سنگھو (راجدھانی کے شمال مغرب میں)، اور غازی پور (مشرقی دہلی میں) بارڈر پر رہنے لگے۔

تنّا سنگھ، پنجاب کے مُکتسر ضلع کے بھنگچاری گاؤں سے ہیں۔ وہ اپنے ٹریکٹر سے دوسرے کسانوں کے ساتھ آئے تھے۔ ان کا ٹریکٹر بھی احتجاجی مقام کے آس پاس ہی کہیں کھڑا رہتا ہے۔ گاؤں میں ان کی فیملی آٹھ ایکڑ کی زمین پر گیہوں اور دھان کی کھیتی کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں کھیت کی ذمہ داری اپنے بیٹے کو سونپ کر یہاں آیا ہوں۔‘‘

Tanna Singh's 'home' for the last one year: 'Many things happened, but I didn’t go back home [even once] because I didn’t want to leave the morcha'
PHOTO • Sanskriti Talwar
Tanna Singh's 'home' for the last one year: 'Many things happened, but I didn’t go back home [even once] because I didn’t want to leave the morcha'
PHOTO • Sanskriti Talwar

پچھلے سال سے یہی تنّا سنگھ کا ’گھر‘ (بائیں) ہے: ’اس دوران بہت کچھ ہوا، لیکن میں گھر نہیں لوٹا، کیوں کہ مورچہ چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا‘

سنگھ کے لیے یہ سال مشکلوں سے بھرا رہا، نقصان لے کر آیا۔ اس سال، ان کے ایک چچا کے بیٹے اور ان کی بھابھی کے پوتے کی بھی موت ہو گئی۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس نے ابھی ابھی اپنا ماسٹرس پورا کیا تھا۔ وہ ابھی بہت چھوٹا تھا...اس کے باوجود بھی میں گھر واپس نہیں گیا۔ پچھلے ایک سال میں بہت کچھ ہوا، لیکن میں گھر نہیں لوٹا۔ اس کی وجہ تھی کہ میں مورچہ [احتجاج] چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا۔‘‘

اس کے علاوہ، اس دوران اُن کے گھر خوشیوں کے بھی پل آئے، جس میں وہ شامل نہیں ہو سکے۔ وہ کہتے ہیں، ’’شادی کے ۱۵ سال بعد میری بیٹی ماں بنی اور میں اس سے ملنے نہیں جا سکا۔ میں اپنے نواسے کو دیکھنے بھی نہیں گیا...جب میں واپس جاؤں گا، تو پہلے ان سے ملوں گا۔ میں نے اسے صرف [اب ۱۰ مہینے کا] فون پر تصویروں میں دیکھا ہے۔ وہ بہت پیارا ہے!‘‘

اسی روڈ پر ڈیوائیڈر کے پاس موجود ایک عارضی ٹینٹ میں، جس کے ٹھیک اوپر سے دہلی میٹرو کی لائن گزرتی تھی، جسکرن سنگھ مجھ سے کہتے ہیں: ’’ہم جدوجہد کے لیے، اپنے گھر کے آرام کو چھوڑ کر سڑکوں پر رہنے لگے۔ جب کسی انسان کے سر پر کوئی پختہ چھت نہ ہو، تو وہ وقت اس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں، اس سال کڑاکے کی ٹھنڈ اور شدید گرمی پڑی۔ لیکن بارش کے دن سب سے زیادہ مشکل تھے۔ ’’اُن راتوں میں کوئی بھی سو نہیں پا رہا تھا۔ کئی بار ہوا کے ساتھ چھت اڑ جاتی تھی۔ جب جب ایسا ہوتا، ہم اسے ٹھیک کر دیتے۔‘‘

Tanna Singh with 85-year-old Joginder Singh, who has been staying in the same tent, as did many others who came from his village to the protest site
PHOTO • Sanskriti Talwar
Tanna Singh with 85-year-old Joginder Singh, who has been staying in the same tent, as did many others who came from his village to the protest site
PHOTO • Sanskriti Talwar

تنّا سنگھ کے ساتھ ۸۵ سالہ جوگندر سنگھ کھڑے ہیں، جو ان کے ہی ٹینٹ میں رکتے ہیں؛ تنا سنگھ کے گاؤں سے احتجاج کے مقام پر آنے والے تمام دوسرے لوگ بھی ان کے ساتھ ہی رکتے ہیں

جسکرن (سب سے اوپر کور فوٹو میں) مانسا ضلع کے بھیکھی کے تمام لوگوں کے ساتھ احتجاج کے مقام پر آتے جاتے رہتے ہیں۔ گاؤں میں ان کی ۱۲ ایکڑ کی زمین ہے، جس پر وہ گیہوں اور دھان کی کھیتی کرتے ہیں۔ ایک دن اچانک کرنٹ لگنے سے ان کے بیٹے کی موت ہو گئی اور اس حادثہ کے تقریباً ۱۸ مہینے بعد، ان کی بیوی کا انتقال ہو گیا۔ فی الحال، وہ اپنی ۸۰ سالہ ماں، ایک بہو، اور دو پوتے پوتیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔

پچھلے جمعہ کو جب وہ اپنے گاؤں کے چار دیگر کسانوں کے ساتھ بس سے ٹیکری جا رہے تھے، اسی دن وزیر اعظم نے تینوں زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔ ۵۵ سالہ جسکرن کہتے ہیں، ’’جب قوانین کو منسوخ کرنے کا اعلان ہوا، تب ہم نہ تو اپنے گاؤں میں تھے اور نہ ہی ٹیکری پہنچے تھے کہ جشن منا سکیں۔‘‘ جلد ہی، انہیں ماں کا فون آیا اور انہیں گھر واپس آنے کے لیے کہا گیا، کیوں کہ سرکار نے کسانوں کی مانگ پوری کر دی تھی۔ لیکن، ۲۹ نومبر کو شروع ہونے والے سرمائی اجلاس کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’ہم پارلیمنٹ میں قوانین کے منسوخ ہونے کا انتظار کریں گے۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہم کسان [اس احتجاجی مظاہرے میں] کچھ کام آئے۔ لیکن ہم اصل میں تبھی خوش ہوں گے، جب ان قوانین کو واقعی میں منسوخ کر دیا جائے گا اور ہم واپس گھر جا پائیں گے۔‘‘

بھٹنڈا ضلع کے کوٹڑا کوریاں والا گاؤں سے ٹیکری آئی پرم جیت کور کہتی ہیں کہ اپنے گاؤں لوٹنا بھی آسان نہیں ہوگا۔ ’’ہمارے دلوں پر یہ بات بھاری گزرے گی۔ ہم نے یہاں جو گھر بنائے ہیں، اپنے ہاتھوں سے بنائے ہیں، اور بہت مشکل وقت میں بنائے تھے؛ انہیں ہم بہت یاد کریں گے۔ ہم نے طے کیا ہے کہ یہاں پنجاب کے اپنے گھر کی طرح ہی ہر سہولت دستیاب ہو۔‘‘

Paramjit Kaur (with Gurjeet Kaur, both from Bathinda district, and other women farmers have stayed in tents at Tikri since last November. 'Our hearts will find it difficult [to return to our villages', Paramjit says. 'We will miss the homes we have built here, built with our hands, and in very difficult times'
PHOTO • Sanskriti Talwar
Paramjit Kaur with Gurjeet Kaur, both from Bathinda district, and other women farmers have stayed in tents at Tikri since last November. 'Our hearts will find it difficult [to return to our villages', Paramjit says. 'We will miss the homes we have built here, built with our hands, and in very difficult times'
PHOTO • Sanskriti Talwar

پرم جیت کور (بائیں) اور گرجیت کور بھٹنڈا سے ہیں۔ ان دونوں کی طرح تمام دیگر خواتین کسان بھی پچھلے نومبر سے ٹیکری پر ٹینٹ (دائیں) میں رہ رہی ہیں۔ پرم جیت کہتی ہیں، ’ہم نے یہاں جو گھر بنائے ہیں، اپنے ہاتھوں سے بنائے ہیں، اور بہت مشکل وقت میں بنائے تھے؛ انہیں ہم بہت یاد کریں گے‘

ہریانہ میں بہادر گڑھ کے پاس ہائی وے کے ڈیوائیڈر پر انہوں نے اپنے ٹینٹ لگا رکھے ہیں۔ ٹینٹ کے پاس میں ہی وہ اور دیگر خواتین کسان، ہری سبزیاں، ٹماٹر، سرسوں، گاجر اور آلو اُگا رہی ہیں۔ جس دن میں ان سے ملی، اس دن ایک بڑے برتن میں دوپہر کے کھانے کے لیے، وہ اس ’کھیت‘ سے کاٹی گئی پالک پکا رہی تھیں۔

پرم جیت کہتی ہیں کہ یہاں سے جانے کے بعد یہاں کی یادوں اور یہاں برداشت کیے گئے نقصانات سے باہر نکل پانا تھوڑا مشکل ہوگا۔ وہ آگے کہتی ہیں، ’’ہم اُن سبھی ۷۰۰ لوگوں کو یاد کریں گے، جن کی موت جدوجہد  کے دوران ہوئی۔ ایک بار جب ٹرک کی چپیٹ میں آنے سے تین خواتین احتجاجیوں کی موت ہو گئی تھی، تو ہمیں کافی صدمہ پہنچا تھا۔ وہ یہاں تقریباً ۱۰ دن رکی تھیں اور دیوالی پر واپس اپنے گھر جا رہی تھیں۔ وہ سبھی بہت خوش تھیں، اور ڈیوائیڈر پر کھڑی کسی آٹو رکشہ کا انتظار کر رہی تھیں۔ ہم اُس رات کھانا بھی نہیں کھا سکے۔ مودی سرکار کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔‘‘

پرم جیت کی عمر تقریباً ۶۰ سال ہے۔ وہ اپنے ضلع بھٹنڈا کی بھارتیہ کسان یونین (ایکتا اُگراہاں) کی خاتون لیڈر ہیں۔ ۲۶ جنوری کی ٹریکٹر پریڈ کا واقعہ یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’کئی لوگ لاٹھیوں اور ڈنڈوں کی مار سے زخمی ہو گئے تھے۔ انہوں نے ہم پر آنسو گیس کے گولے بھی داغے، اور ہم پر کیس [ایف آئی آر] درج کیے۔ یہ سب ہم زندگی بھر یاد رکھیں گے۔‘‘

وہ دہراتی ہیں، تین زرعی قوانین کو منسوخ کرنے سے کسانوں کی جدوجہد ختم نہیں ہوگی۔ ’’کسی بھی سرکار [جنہیں اقتدار کے لیے منتخب کیا گیا] نے کبھی کسان برادری کے بارے میں نہیں سوچا۔ وہ صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔ ہم گھر جائیں گے اور اپنے بچوں سے ملیں گے، اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیلیں گے۔ لیکن ہمارے پاس لڑنے کے لیے زراعت سے متعلق کئی دیگر مسائل موجود ہیں۔‘‘

On the divider of the highway not far from their tents, Paramjit and other women farmers have been growing vegetables. The day I met her, she was cooking spinach harvested from this ‘farmland’
PHOTO • Sanskriti Talwar
On the divider of the highway not far from their tents, Paramjit and other women farmers have been growing vegetables. The day I met her, she was cooking spinach harvested from this ‘farmland’
PHOTO • Sanskriti Talwar

ٹینٹ کے پاس میں ہی ہائی وے کے ڈیوائیڈر پر، پرم جیت اور دیگر خواتین کسان سبزیاں اُگا رہی ہیں۔ جس دن میں ان سے ملی، اس دن ایک بڑے برتن میں دوپہر کے کھانے کے لیے، وہ اس ’کھیت‘ سے کاٹی گئی پالک پکا رہی تھیں

ٹیکری پر ڈیرہ ڈالنے والی اور پنجاب کے مانسا ضلع کی رہنے والی ۶۰ سالہ جسبیر کور نٹ، اپنے ضلع سے پنجاب کسان یونین کی ریاستی کمیٹی کی رکن بھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہمیں اب بھی ان کے [مودی کے] ارادوں پر شک ہے۔ اپنے اعلان میں انہوں نے کہا کہ وہ اپنی کوششوں کے بعد، کسانوں کے ایک طبقہ کو منانے میں ناکام رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا اب بھی یہ ماننا ہے کہ ان زرعی قوانین کو لانا ایک صحیح فیصلہ تھا۔ جس کا اعلان کیا گیا ہے، ہم اسے تحریری طور پر حاصل کرنے کے انتظار میں ہیں۔ اس کے بعد، ہم اس بات پر بھی غور کریں گے کہ انہوں نے کیا لکھا ہے، کیوں کہ وہ اکثر الفاظ کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔‘‘

جسبیر، بجلی (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ کو واپس لینے کے ساتھ ساتھ پرالی جلانے سے جڑے آرڈیننس سمیت دیگر زیر التوا مطالبات کی فہرست بھی پیش کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہمیں معلوم ہے کہ سرکار ان مطالبات کو منظور کر سکتی ہے۔ لیکن وہ ایم ایس پی [کم از کم امدادی قیمت] پر گارنٹی دینے کے لیے آگے نہیں بڑھیں گے۔ اس کے علاوہ، ہمارے اور بھی مطالبات ہیں: احتجاج کرنے والے کسانوں کے خلاف درج سبھی پولیس کیس خارج ہوں، کسانوں کے ٹریکٹروں کو ہوئے نقصان کی بھرپائی کریں۔ اس لیے، ہم ابھی یہاں سے جانے والے نہیں ہیں۔‘‘

۲۱ نومبر بروز اتوار، زرعی قوانین کی مخالفت میں، تقریباً ۴۰ کسان یونینوں سے مل کر بنے سمیُکت کسان مورچہ نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ جیسا منصوبہ تھا، تحریک اسی حساب سے چلتی رہے گی۔ وہ ۲۲ نومبر کو لکھنؤ میں ایک کسان پنچایت کریں گے، ۲۶ نومبر کو دہلی کی سرحدوں پر واقع احتجاج کے تمام مقامات پر جلسے کریں گے اور ۲۹ نومبر کو پارلیمنٹ تک مارچ نکالیں گے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Sanskriti Talwar

Sanskriti Talwar is an independent journalist based in New Delhi. She reports on gender issues.

Other stories by Sanskriti Talwar
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez