’’زراعت میں بحران جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘

پنجاب کے طاقتور آڑھتی ایسوسی ایشن کے نائب صدر، درشن سنگھ سنگھیرا، اور اس کے برنالا ضلع کی شاخ کے سربراہ سے ملیے۔ آڑھتی کمیشن ایجنٹ ہوتے ہیں، کسانوں اور ان کی پیداوار کے خریداروں کے درمیان کی ایک کڑی۔ وہ کاٹی گئی فصل کی نیلامی اور خریداروں کو ڈلیوری کا انتظام کرتے ہیں۔ وہ اس پیشہ میں ایک لمبے عرصہ سے پیسے قرض دینے کا کام بھی کر رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں، وہ اِن پُٹ ڈیلروں کی شکل میں بھی ابھرے ہیں۔ ان تمام چیزوں کا مطلب ہے کہ اس ریاست کے کسانوں پر ان کا بہت زیادہ کنٹرول ہے۔

آڑھتی سیاسی طور پر بھی طاقتور ہیں۔ ریاستی اسمبلی کے ممبران کو وہ اپنا بھائی مانتے ہیں۔ گزشتہ سال جولائی میں، انھوں نے وزیر اعلیٰ امرندر سنگھ کو ’فخرِ قوم‘ کے خطاب سے سرفرار کیا۔ مقامی میڈیا نے اس پروگرام کو ’’ایک بڑا اعزازی پروگرام‘‘ بتایا۔ اس کا انعقاد وزیر اعلیٰ کے ذریعہ یہ بات کہے جانے کے ٹھیک بعد کیا گیا تھا کہ کسانوں کے ذریعہ آڑھتیوں سے لیے گئے قرض کو معاف کرنا مشکل ہوگا۔

دیہی پنجاب میں کسانوں اور زرعی مزدوروں کے درمیان قرض کی صورتحال پر ایک مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ ۸۶ فیصد کسان اور ۸۰ فیصد زرعی مزدور قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس کے مصنفین، پنجابی یونیورسٹی، پٹیالہ کے محققین نے کہا کہ اس قرض کا پانچواں حصہ آڑھتیوں اور ساہوکاروں کو بقایا تھا۔ اس کے علاوہ، قرض کا بوجھ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ یہ معمولی اور چھوٹے کسانوں کے درمیان سب سے زیادہ ہے۔ اس مطالعہ میں ۱۰۰۷ کسانوں اور ۳۰۱ زرعی مزدوروں کے کنبوں کو شامل کیا گیا۔ اس کا زمینی سروے ۲۰۱۴-۱۵ میں ریاست کے سبھی علاقوں میں کیا گیا تھا۔ دیگر مطالعات میں بھی قرض کے گہرانے اور تکلیفوں کے بڑھنے کی بات کی گئی ہے۔

درشن سنگھ سنگھیرا زرعی بحران کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ ’’سب کچھ کسانوں کی خرچ کرنے کی عادتوں کے سبب ہوتا ہے۔ یہی چیز انھیں پریشانی میں ڈالتی ہے،‘‘ وہ پختگی سے کہتے ہیں۔ ’’ہم انھیں اِن پُٹ (کھاد وغیرہ) خریدنے کے لیے پیسوں سے مدد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، جب ان کے یہاں شادی، علاج اور دیگر خرچ ہوتے ہیں تب بھی ہم انھیں پیسے دیتے ہیں۔ جب کسان کی فصل تیار ہو جاتی ہے، تو وہ اسے لاتا ہے اور آڑھتی کو دے دیتا ہے۔ ہم فصل کو صاف کرتے ہیں، اسے بوریوں میں بھرتے ہیں۔ سرکار، بینکوں، بازار سے نمٹتے ہیں۔‘‘ سرکار گیہوں اور دھان کی کل خرید قیمت کا ڈھائی فیصد ایجنٹوں کو ادا کرتی ہے۔ ان کی سرگرمی کا سرکاری موقف، ریاست کو شامل کرنے کا، پنجاب اسٹیٹ ایگریکلچرل مارکیٹنگ بورڈ کے ذریعہ گورن ہوتا ہے۔ کسانوں کو اپنے پیسے ان کمیشن ایجنٹوں کے توسط سے حاصل ہوتے ہیں۔ اور یہ سب اُس پیسے سے الگ ہے، جو آڑھتیوں کو قرض دینے کے بدلے حاصل ہوتا ہے۔

A Punjabi farmer in the field
PHOTO • P. Sainath

منسا میں ایک زرعی مزدور۔ پنجاب میں مزدور اور کسان دونوں قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں، جن میں سے پانچواں حصہ آڑھتیوں کا قرضدار ہے

ہم جودھپور گاؤں کا دورہ کرنے کے فوراً بعد برنالا شہر کے اسی بلاک میں، سنگھیرا کے اناج بازار کے دفتر پہنچے۔ وہاں، رنجیت اور بلوندر سنگھ نے بتایا کہ ۲۵ اپریل، ۲۰۱۶ کو ان کے رشتہ دار بلجیت سنگھ اور ان کی ماں بلبیر کور نے ایک گھنٹہ کے اندر ہی، ایک دوسرے کے بعد، عوامی طور پر خودکشی کر لی تھی۔ ’’وہ ایک آڑھتی کے ذریعہ اپنی زمین کو قرق کیے جانے کی مخالفت کر رہے تھے، جو عدالت کے آرڈر کی کاپی اور ۱۰۰ پولس والوں کے ساتھ شہر میں آیا تھا،‘‘ بلوندر نے بتایا۔ ’’اس کے علاوہ، مقامی انتظامیہ کے کئی اہلکار اور آڑھتیوں کے بہت سے غنڈے بھی آئے تھے۔‘‘ کل ۱۵۰ لوگ تھے تقریباً – جو فیملی کی دو ایکڑ زمین کو قرق کرنے آئے تھے۔

بلوندر کہتے ہیں، ’’اکیلے اس جودھپور گاؤں میں ۴۴۵۰ گھر ہیں۔ ان میں سے صرف ۱۵-۲۰ ہی قرض سے پاک ہیں۔‘‘ اور قرض کی وجہ سے کسان اپنی زمین آڑھتیوں کے ہاتھوں کھو رہے ہیں۔

’’آڑھتیوں اور کسانوں کے درمیان رشتے اتنے برے نہیں ہیں،‘‘ سنگھیرا کہتے ہیں۔ ’’اور کھیتی میں کوئی بحران نہیں ہے۔ مجھے دیکھیں، وراثت میں مجھے صرف آٹھ ایکڑ زمین ملی تھی۔ اب میرے پاس ۱۸ ایکڑ ہے۔ میڈیا کبھی کبھی مدعوں کو کچھ زیادہ ہی چڑھا بڑھا کر پیش کرتا ہے۔ خودکشی کے بعد سرکاری معاوضہ ملنے سے ایسے واقعات بڑھتے ہیں۔ اگر ایک فیملی کو بھی معاوضہ ملتا ہے، تو یہ دوسروں کو ایسا کرنے کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ معاوضہ پوری طرح سے روک دیجیے، خودکشی اپنے آپ بند ہو جائے گی۔‘‘

ان کے لیے، ولین وہ یونین ہیں کو کسانوں کے حقوق کا دفاع کرتی ہیں۔ اور سب سے خراب مجرم بھارتیہ کسان یونین (ڈاکونڈا) ہے۔ بی کے یو (ڈی) اس علاقے میں مضبوط ہے جسے قابو میں کر پانا مشکل ہے۔ زمین کی قرقی اور تحویل کو روکنے کے لیے ان کے ممبران بڑی تعداد میں باہر نکلتے ہیں۔ اس وقت بھی جب آڑھتی بندوقوں سے لیس ہو کر آتے ہیں۔

’’زیادہ تر آڑھتیوں کے پاس اسلحے ہیں،‘‘ سنگھیرا تسلیم کرتے ہیں۔ ’’لیکن ان کا استعمال صرف اپنی حفاظت کے لیے کیا جاتا ہے۔ جب آپ کے پاس بڑی مقدار میں پیسہ ہو، تو آپ کو سیکورٹی کی ضرورت ہوتی ہے، نہیں؟ یاد رہے، ۹۹ فیصد کسان اچھے لوگ ہیں۔‘‘ ظاہر ہے، باقی ایک فیصد اتنے خطرناک ہیں کہ ان کی وجہ سے ہر وقت مسلح سیکورٹی کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان کے پاس بھی ایک بندوق ہے۔ ’’پنجاب میں دہشت گردی کے دنوں میں یہ ضروری ہو گیا تھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

دریں اثنا، قرض کے سبب خودکشیاں بڑھی ہیں۔ پچھلے سال اسمبلی کی زرعی خودکشیوں سے متعلق کمیٹی کے سامنے پیش کیے گئے ایک مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ ۲۰۰۰ سے ۲۰۱۵ کے درمیان ۸۲۹۴ کسانوں نے اپنی زندگی خود ختم کر لی۔ پنجاب میں کسانوں اور مزدوروں کی خودکشی نامی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسی مدت میں ۶۳۷۳ زرعی مزدوروں نے بھی خود کو مار ڈالا تھا۔ اور یہ ریاست کے ۲۲ ضلعوں میں سے صرف چھ ضلعوں میں ہوا تھا، ایسا رپورٹ کے مصنفین نے کہا ہے، جو کہ پنجاب ایگریکلچر یونیورسٹی (پی اے یو)، لدھیانہ کے محققین ہیں۔ ریاستی سرکار کے ریونیو ڈپارٹمنٹ کے ذریعہ کرائے گئے اس مطالعہ میں پایا گیا کہ ان سبھی خودکشیوں میں سے ۸۳ فیصد قرض کی وجہ سے ہوئی تھیں۔

A man sitting on a bed in an orange turban
PHOTO • P. Sainath

آڑھتی اور سابق پولس اہلکار، تیجا سنگھ کی دلیل ہے کہ کسانوں کی آدھی خودکشی حقیقی نہیں ہے

’’کوئی بھی بے بسی میں خودکشی نہیں کر رہا ہے،‘‘ تیجا سنگھ کا دعویٰ ہے۔ ’’ان پچھلے ۱۰ سالوں سے کھیتی اچھی ہو رہی ہے۔ آڑھتیوں نے تو قرض کی شرحوں کو کم کیا ہے۔‘‘ ایک مہینہ میں ایک فیصد (سالانہ ۱۲ فیصد)، وہ کہتے ہیں۔ حالانکہ، ایک کے بعد ایک گاؤں میں کسانوں نے شرح ڈیڑھ فیصد (۱۸ فیصد سالانہ) یا اس سے زیادہ ہونے کی بات کی تھی۔ تیجا سنگھ وہ آڑھتی ہیں جو جودھپور گاؤں کی لڑائی میں شامل تھے، جہاں ماں اور بیٹے نے کھلے عام سب کے سامنے خودکشی کر لی تھی۔ ’’ان سبھی زرعی خودکشیوں میں سے صرف ۵۰ فیصد ہی حقیقی ہیں،‘‘ انھوں نے کہا۔

حالانکہ، وہ آڑھتیوں کی سیاست کے بارے میں نرمی سے بولتے ہیں۔ ہاں، گروہ تو ہیں۔ ’’لیکن جو بھی پارٹی اقتدار میں آتی ہے، ان کا آدمی ہماری ایسوسی ایشن کا صدر بن جاتا ہے۔‘‘ موجودہ ریاستی سربراہ کانگریس کے ساتھ ہے۔ الیکشن سے پہلے اس عہدہ پر ایک اکالی ہوتا تھا۔ تیجا سنگھ کے بیٹے جسپریت سنگھ کا ماننا ہے کہ آڑھتیوں کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ ’’ہمارا یہ صرف ایک پیشہ ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہمیں بدنام کیا جا رہا ہے جو کہ غلط ہے۔ ہمارے [جودھپور] معاملے کے بعد، تقریباً ۵۰ آڑھتیوں نے اس پیشہ کو چھوڑ دیا۔‘‘

لیکن، جسپریت میڈیا سے خوش ہیں۔ ’’مقامی پریس ہمارے لیے بہت اچھا رہا ہے۔ میڈیا پر ہمارا اعتماد ہے۔ ہم ان کا احسان نہیں چکا پائیں گے۔ نہیں، ہم نے اپنے حق میں کوریج کے لیے کسی کو بھی پیسہ نہیں دیا۔ ہندی پریس ہمارے دفاع میں آیا [جب جودھپور واقعہ کے بعد ان کے خلاف مجرمانہ معاملے درج کیے گئے تھے]۔ ہم نے ہائی کورٹ سے فوراً ہی ضمانت حاصل کر لی، جو کہ دوسری صورت میں نہیں ہو سکتا تھا۔‘‘ انھیں لگتا ہے کہ ہندی اخبار زیادہ مددگار ہیں، کیوں کہ وہ تاجر برادری کی حمایت کرتے ہیں۔ انھیں اس بات پر افسوس ہے کہ پنجابی پریس زمیندار طبقوں کے قریب ہونے لگتا ہے۔

ریاستی حکومت کی اکتوبر ۲۰۱۷ کی قرض معافی محدود، سطح دار اور شرطوں پر مبنی تھی۔ یہ اس پر نافذ ہوتا ہے کہ کسانوں کا کوآپریٹو بینکوں اور پبلک سیکٹر یا یہاں تک کہ پرائیویٹ بینکوں پر کتنا بقایا ہے۔ اور وہ بھی، ایک محدود، مشروط طریقے سے سامنے آیا ہے۔ کانگریس پارٹی نے ۲۰۱۷ کے اپنے انتخابی منشور میں، ’’کسانوں کے زرعی قرض کو‘‘ پوری طرح سے معاف کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اور کہا تھا کہ ۲۰۱۶ کے پنجاب کے زرعی قرضوں کے قانون کو اسے ’’زیادہ وسیع اور مؤثر‘‘ بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ لیکن سرکار نے کسانوں کے ذریعہ آڑھتیوں سے لیے گئے ۱۷ ہزار کروڑ روپے کے قرض میں سے ایک پیسہ بھی آج تک معاف نہیں کیا ہے۔

سال ۲۰۱۰ کے ایک مطالعہ نے سفارش کی تھی کہ یہ ’’نظام، جس میں کسانوں کی پیداوار کی ادائیگی کمیشن ایجنٹوں کے توسط سے کیا جاتا ہے، کو ہٹا دیا جانا چاہیے۔‘‘ پی اے یو، لدھیانہ کے محققین کے ذریعہ پنجاب کی زراعت میں کمیشن ایجنٹ سسٹم پر کیے گئے مطالعہ میں کہا گیا تھا کہ ’’کسانوں کو ان کی پیداوار کی خرید کے لیے سیدھی ادائیگی کی جائے۔‘‘

کمیشن ایجنٹوں اور کسانوں کی کہانی ملک بھر میں گونج رہی ہے۔ لیکن یہاں پر ایک انوکھا عنصر ہے۔ دوسری جگہوں پر ان کی زیادہ تر برادریوں کے برخلاف، درشن سنگھ سنگھیرا، تیجا سنگھ اور ان کے جیسے بہت سے لوگ بنیا یا دیگر تجارتی ذاتوں سے نہیں ہیں۔ وہ جاٹ سکھ ہیں۔ جاٹ اس پیشہ میں دیر سے شامل ہوئے۔ لیکن وہ اچھا کر رہے ہیں۔ آج، پنجاب کے ۴۷۰۰۰ آڑھتیوں میں سے ۲۳۰۰۰ جاٹ ہیں۔ ’’شہروں میں، ہم سب سے بڑے گروپ نہیں ہیں،‘‘ سنگھیرا کہتے ہیں۔ ’’میں ۱۹۸۸ میں اس پیشہ میں شامل ہوا۔ اس منڈی میں ۱۰ سال بعد بھی، صرف ۵-۷ ہی جاٹ آڑھتی تھے۔ آج ۱۵۰ دکانیں ہیں، جن میں سے ایک تہائی جاٹ ہیں۔ اور اس علاقہ کے چھوٹے بازاروں میں، ہم اکثریت میں ہیں۔‘‘

The first two are of Guru Gobind Singh and Guru Nanak. The last two are of Guru Hargobind and Guru Tegh Bahadur. The central one in this line up of five is of Shiva and Parvati with a baby Ganesha.
PHOTO • P. Sainath

درشن سنگھ سنگھیرا کے دفتر کی دیوار پر دلچسپ اور ملی جلی تصویریں آویزاں ہیں

زیادہ تر جاٹوں نے بنیا آڑھتیوں کے جونیئر پارٹنر کے طور پر شروعات کی۔ پھر اپنا الگ کاروبار شروع کر دیا۔ لیکن بنیا کیوں جاٹوں کو حصہ دار کی شکل میں چاہتے ہیں؟ جب پیسے کی وصولی اور کسی چیز کا خطرہ سامنے آتا ہے، تو سنگھیرا کہتے ہیں، ’’بنیا آڑھتی ڈر جاتے ہیں۔‘‘ جاٹ آڑھتی کسی سے ڈرتے نہیں ہیں۔ ’’ہم پیسہ واپس لے لیتے ہیں،‘‘ وہ آرام سے کہتے ہیں۔

میں نے مُکتسر ضلع میں زیادہ تر جاٹ کسانوں کے ایک گروپ کو جب یہ کہانی سنائی، تو وہ زور سے ہنسنے لگے۔ ’’وہ آپ کو سچ بتا رہا تھا،‘‘ ان میں سے کچھ نے کہا۔ ’’جاٹ غلط کام کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ بنیا پیچھے ہٹ جائیں گے۔‘‘ جونیئر پارٹنرس اب اس پیشہ میں ان کے بڑے بھائی بننے کی راہ پر ہیں۔

لیکن بنیوں کے ساتھ اس شراکت داری کا اثر شاید ابھی بھی محدود طریقوں سے دکھائی دیتا ہے۔ ہم نے سنگھیرا کے دفتر میں، دیوار پر لگی پانچ تصویروں کے بارے میں ان کے بیٹے اونکار سنگھ سے پوچھا۔ پہلے دو گرو گووند سنگھ اور گرو نانک ہیں۔ آخری دو گرو ہرگووند سنگھ اور گرو تیغ بہادر ہیں۔ ایک قطار میں لگی پانچوں تصویروں میں سے بیچ کی تصویر، شیو اور پاروَتی اور بچہ گنیش کی ہے۔ یہ کیسے ہوا؟

’’ہم نے اس پیشہ کو اختیار کیا ہے، ہمیں اس کے طریقوں کے مطابق ہی چلنا ہے،‘‘ اونکار نے کہا۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

P. Sainath
psainath@gmail.com

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez