وہ بھی اتنا ہی حیران تھا جتنے کہ ہم۔
ہمارے لیے پریشانی کا باعث یہ سوال تھا: اپنی سائیکل کو اتنی اونچائی پر اس نے پوال کے ڈھیر پر کیسے لٹکایا؟ اس کے لیے، شاید، پریشان کرنے والا سوال یہ تھا: وہ پاگل کون تھا جو اپنا آدھا جسم کار کی کھڑکی سے باہر نکالے، سڑک پر عمودی، اس کی تصویر (آئی فون ۳ایس سے) کھینچنے کی کوشش کر رہا تھا۔
یہ اکتوبر ۲۰۰۹ کی بات ہے، جب ہم آندھرا پردیش میں کرشنا اور گنٹور ضلعوں کے درمیان کار سے کہیں جا رہے تھے۔ اور جب ہم نے پہلی بار اسے دور سے دیکھا، تو یہ تھوڑا عجیب لگا۔ ایک سائیکل وہاں اوپر لٹک رہی تھی اور ایک آدمی اس سے بھی اوپر چڑھا ہوا تھا۔ پوال کا بوجھ اتنا بڑا تھا کہ یہ معلوم کرنا ناممکن ہو رہا تھا کہ وہ کس گاڑی پر بیٹھا ہوا ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ ایک ٹریکٹر کی ٹرالی ہے۔
اور جب ہم نزدیک پہنچے تو دیکھ پائے، جیسا کہ آپ بھی فوٹو میں دیکھ سکتے ہیں، کہ مضبوط بانس کا ایک چھوٹا سا حصہ پوال کے ڈھیر سے باہر نکلا ہوا ہے، جس پر وہ سائیکل کسی طرح لٹکی یا بندھی ہوئی تھی – ہم کوئی رسی نہیں دیکھ سکے۔ کسی گاڑوں کی سڑک پر گاڑی کے رکنے سے پہلے اس کی تصویر کھینچنے کا واحد طریقہ یہی تھا کہ کھڑکی کے باہر بہت بے تکے طریقے سے جھک کر کلک کیا جائے۔ پھر ہم نے ایک پل کو پار کیا اور دونوں گاڑیاں مخالف سمتوں میں روانہ ہو گئیں – ہم یہ چیک کرنے لگے کہ فوٹو کھنچی ہے یا نہیں، اور وہ شاید پوال کو پکڑنے میں لگا ہوا تھا – اپنی سائیکل کو نہیں، کیوں کہ ٹریکٹر جھٹکے کے ساتھ مڑا تھا۔
مترجم: محمد قمر تبریز