چرخہ سے دھاگے کاتنے کی ماہر – لکشمی بائی

پاری کے رضاکار سنکیت جین کا ارادہ ہے ہندوستان بھر کے ۳۰۰ گاؤوں کا دورہ کرنا۔ دیگر اسٹوریز کے علاوہ، یہ فیچر انہی کی تخلیق ہے: جو کسی دیہی منظر یا واقعہ کی تصویر اور اس تصویر کا خاکہ ہے۔ پاری پر اس سلسلہ کی یہ نویں کڑی ہے۔ پوری تصویر یا خاکہ کو دیکھنے کے لیے سلائڈر کو دائیں یا بائیں کسی ایک جانب دبا کر کھینچیں

لکشمی بائی دھنگر اپنے چرخہ کو دیکھ کر ہنستے ہوئے کہتی ہیں، ’’میں دھاگے کاتنا کبھی نہیں چھوڑوں گی۔‘‘ اب ۷۰ سال کی ہو چکیں لکشمی بائی، نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے سے بھیڑ کے بالوں اور اون سے دھاگے بناتی ہیں اور وہ بھی اپنے ہاتھوں سے۔ ان کے پاس کمال کا ہنر ہے – لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کا کوئی مارکیٹ نہیں ہے۔

کسی زمانے میں، وہ روزانہ ۱۰ گھنٹے کتائی کرتی تھیں۔ لکشمی بائی یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’میری شادی [تقریباً ۱۵ سال کی عمر میں] سے ٹھیک پہلے میری ساس نے ۱۲ بورے میں بھیڑ کے بال [تقریباً ۱۲۰ کلوگرام] جمع کر رکھے تھے۔ میں نے روزانہ ۸ سے ۱۰ گھنٹے تک محنت کرکے، چھ مہینے میں ان ۱۲ بوریوں میں بھرے بال سے دھاگے بنا ڈالے۔‘‘ لیکن، اب وہ ایک دن میں صرف دو ہی گھنٹے یہ کام کر پاتی ہیں۔

لکشمی بائی کا تعلق بنیادی طور پر دھنگر برادری سے ہے، جن کا روایتی پیشہ بھیڑ اور بکریاں پالنا ہے (مہاراشٹر میں اب انہیں دیگر پس ماندہ ذات یا او بی سی کی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے)۔ وہ مہاراشٹر کے کولہاپور ضلع کے کرویر بلاک کے اڈور گاؤں میں رہتی ہیں۔ یہاں پر، بھیڑ کے بال اور اون سال میں دو بار اتارے جاتے ہیں۔ پہلی بار دیوالی کے بعد اکتوبر-نومبر کے مہینے میں اور دوسری بار اکشے ترتیہ کے بعد اپریل-مئی میں۔

لکشمی بائی کہتی ہیں، ’’صدیوں سے، دھاگے کاتنے کا کام عورتیں ہی کرتی آ رہی ہیں جب کہ مرد بھیڑوں کے بال کترتے ہیں اور ان کا دودھ بھی نکالتے ہیں۔‘‘ روایتی طور پر، جانوروں کو چرانے کا کام مرد ہی کرتے تھے، لیکن اب ان کے ساتھ عورتیں بھی جاتی ہیں۔

دھنگر لوگ اب سخت بالوں کو نرم کرنے اور پھر مشین سے انہیں سیدھا کرنے کے عوض ۸ روپے فی کلو ادا کرتے ہیں۔ یہ کام عام طور سے قریبی گاؤوں کے لوگ کرتے ہیں۔ پہلے، اسی کام کو عورتیں اپنے ہاتھوں سے کرتی تھیں، جس کے لیے وہ لکڑی سے بنی کمان کی شکل کا ایک آلہ استعمال کرتی تھیں۔

نرم بالوں کو چرخے سے کتائی کرکے دھاگہ بنایا جاتا ہے۔ پھر یہ دھاگہ سنگروں (دھنگروں کی ایک ذیلی ذات جنہیں روایتی طور پر ہینڈ لوم سے اون کی بُنائی کرنے میں مہارت حاصل ہے) کو بھیج دیا جاتا ہے۔ اس دھاگے سے سنگر مرد گھونگڈیا (کمبل) بناتے ہیں۔ سنگر، ساڑھے ۷ فٹ لمبے اور ڈھائی فٹ چوڑے کمبل کی بُنائی کرنے کے ۴۰۰ روپے لیتے ہیں۔ اس سائز کا ایک کمبل بنانے کے لیے بھیڑ کے چھ کلو بال کی ضرورت پڑتی ہے۔ دھنگر عورتیں اس میں گھنٹوں تک دھاگے کاتنے کی اپنی محنت کو جوڑ کر، ۱۳۰۰ روپے میں ایک گھونگڈی بیچنے کی کوشش کرتی ہیں۔

’’اب اسے ۱۳۰۰ روپے میں بیچنا مشکل ہو گیا ہے۔ [مشین سے بنی ہوئی] بیڈ شیٹ صرف ۵۰۰ روپے میں مل جاتی ہے اور لوگ اس بات کو سمجھتے نہیں ہیں کہ ایک گھونگڈی بنانے میں کتنی محنت لگتی ہے،‘‘ لکشمی بائی اس کمبل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں جسے وہ پچھلے تین مہینوں سے بیچنے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن ابھی تک کامیاب نہیں ہو پائی ہیں۔ ایک دہائی پہلے، یہ لوگ ایک مہینہ میں ایسے کم از کم چار کمبل بیچ لیا کرتے تھے۔ لیکن اب مہینہ میں صرف ایک ہی بیچ پاتے ہیں۔

پہلے، کلمبے تارف کالے، بھاماٹے، چویے، کوپرڈے گاؤوں (یہ سبھی کولہاپور ضلع میں ہیں) کے لوگ اُن کے گھر آتے اور گھونگڈیا خرید کر لے جاتے تھے۔ ’’لیکن اب صرف بوڑھے لوگ ہی اسے خریدتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

لکشمی بائی کا اندازہ ہے کہ ’’تین دہائی قبل، میرے گاؤں میں ۳۰ دھنگر عورتیں دھاگے کاتنے کا کام کرتی تھیں۔ اب صرف درجن بھر عورتیں بچی ہیں۔‘‘ اس کی بنیادی وجہ ہے: بے حد کم منافع، بڑھاپا اور گھونگڈیا کی مانگ میں کمی۔

لکشمی بائی دھاگے کی کتائی، کھیتوں میں مزدوری اور گھونگڈیا فروخت کرنے جیسے کاموں میں بے شمار گھنٹے گزارتی ہیں، پھر بھی ہر مہینے ۵۰۰۰ روپے سے بھی کم کما پاتی ہیں۔ تقریباً ایک دہائی قبل، وہ اڈور گاؤں میں دوسروں کے کھیتوں پر ہر سیزن میں زرعی مزدوری کرکے اس سے دو گنا کما لیتی تھیں۔ روزانہ آٹھ گھنٹے تک کام کرنے کے بدلے انہیں ۱۰۰ روپے ملتے تھے۔ وہ یاد کرتی ہیں، ’’میرے والدین بھی زرعی مزدوری کا کام کرتے تھے۔ ان کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ مجھے اسکول بھیج سکیں۔‘‘

ان کے شوہر، ۷۵ سالہ شام راؤ دھنگر ہر سال مہاراشٹر کے پونہ، سانگلی، کولہاپور، ستارا اور سولاپور ضلعوں کے گاؤوں اور کرناٹک کے بیلگام ضلع کے گاؤوں میں ہزاروں کلومیٹر گھوم کر ۲۰۰ بھیڑ بکریوں کو چرایا کرتے تھے۔ دھنگر لوگ عام طور پر مغربی مہاراشٹر میں مانسون کی بھاری بارش (جون سے ستمبر تک) شروع ہونے سے پہلے، کم از کم تین مہینوں کے لیے مہاجرت کرتے ہیں۔

شام راؤ اور لکشمی بائی کے دو بیٹے، ۳۵ سالہ بیر دیو اور ۴۰ سالہ سریش کے پاس مشترکہ طور پر ۶۴ بھیڑ اور ۶ بکریاں ہیں۔ ان جانوروں کی کم ہو چکی تعداد کے بارے میں بتاتے ہوئے شام راؤ کہتے ہیں، ’’آج کل ہر کوئی گھاس کے میدانوں میں بھی گنّے کی کھیتی کرنے لگا ہے – اور کسان ہمیں اپنے کھیتوں میں گھُسنے نہیں دیتے ہیں۔ ایسے میں، اب ان جانوروں کو چرانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔‘‘

ان کی دو بیٹیوں، ۴۰ سالہ بھارتی اور ۳۰ سال کے آس پاس کی سنگیتا کی شادی ہو چکی ہے۔ ان دونوں بیٹیوں میں سے بھارتی اب بھی دھاگے کاتنے کا کام کرتی ہیں۔ لکشمی بائی بتاتی ہیں، ’’میری بہو مجھ سے بار بار کہتی ہے: ’میں یہ کام نہیں کر سکتی۔ اس سے کہیں بہتر تو زرعی مزدوری کا کام ہے‘۔‘‘ نوجوان عمر کے لوگ اب دوسرے متبادل کی تلاش کرنے لگے ہیں۔ مثال کے طور پر، جہاں کہیں بھی صنعتیں ہیں ان میں نوکریاں کرنا۔

خود لکشمی بائی نے روزانہ چرخے پر کام کرنے کا وقت گھٹا کر صرف دو گھنٹے کر دیا ہے۔ ان کے ہنر کی گرتی ہوئی مانگ کے علاوہ، اس کی ایک بڑی وجہ اب ان کی پیٹھ میں شدید درد کا ہونا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’نوجوان نسل اس پیشہ کا انتخاب کبھی نہیں کرے گی۔ میرا صرف ایک ہی خواب ہے کہ ہمیں اپنے گھونگڈیا کی اچھی قیمت مل جائے – کیوں کہ یہ ہماری سخت محنت کی نشانی ہے۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Sanket Jain

Sanket Jain is a journalist based in Kolhapur, Maharashtra. He is a 2022 PARI Senior Fellow and a 2019 PARI Fellow.

Other stories by Sanket Jain
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez