’’جنگل بھگوان کی دین ہے۔ اس کا نہ تو کوئی مالک ہوتا ہے اور نہ ہی سرحد، لیکن محافظ کئی ہیں،‘‘ ناگ جی پِسارا کہتے ہیں۔ ناگ جی پَنَروا میں رہتے ہیں۔ یہ راجستھان کے اُدے پور سے باہر کا ایک گاؤں ہے، جو اَراوَی پہاڑیوں کے درمیان واقع ہے۔ یہاں بسنے والے زیادہ تر لوگ اپنے کھیتوں پر مویشیوں کا چارہ اُگاتے ہیں، لیکن ساتھ ہی کھانے پینے اور طبّی استعمال کی اشیاء بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ پَنروا چاروں طرف سے جنگلوں سے گھرا ہوا ہے، جہاں کئی آدیواسی برادریاں رہتی ہیں، ان میں سے ہر ایک قبیلہ جنگلوں کو اپنے ڈھنگ سے سمجھتا اور استعمال کرتا ہے۔


Now you eat it_03_SD_DSC_0008.jpg

پنروا کا نظارہ


محکمہ جنگلات نے ’پھلواری کی نال‘ نام کی جائے محفوظہ کو جانوروں کے چرنے اور ان کی آمدو رفت کو روکنے کے لیے چہار دیواری بنا دی ہے۔ یہاں آپ کو مختلف قسم کے جانور اور درجنوں دیسی پودے اور درخت مل جائیں گے۔ ہندوستان کے پودے کھانا، تیل، رنگ، توانائی اور ادویات کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ پیدا کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک شے چونکہ کارآمد ہے، اس لیے جنگلات کے بارے میں نظریات اور اس کی مالکانہ حیثیت پیچیدہ ہونے لگی ہے۔ جنگل کے اندر سے رسد جمع کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ لیکن، ایسی بہت سی برادریاں اور تنظیمیں ہیں، جو وہاں تک آدیواسیوں کی رسائی کے حق کو حاصل کرنے کے لیے لڑ رہی ہیں۔

جنگلاتی غذائی اجناس کی ماہر، ڈاکٹر لینا گپتا کہتی ہیں کہ جڑی بوٹیاں نیشنل فوڈ سیکورٹی میں مدد کرتی ہیں۔ ’’جنگل کی غذائی اجناس کی تغذئی، ادویاتی، اور سماجی و اقتصادی اہمیت ہے، پھر بھی قدرتی وسائل کے سرکاری اعداد و شمار میں انھیں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ ہمارا روایتی زرعی نظام ہمیں کھانا تو فراہم کرتا ہے، لیکن غذائیت مہیا نہیں کراتا۔ یہ ساری چیزیں کیمیکل پر مبنی کھیتی سے آتی ہیں، اسی لیے یہ کیمیاوی غذا ہے۔ جنگلوں میں پیدا ہونے والی غذائی اجناس میں متعدد قسم کی غذائیت موجود ہوتی ہے۔ دنیا میں زیادہ تر لوگ تین قسم کے اناج کھاتے ہیں: گیہوں، چاول اور مکئی۔ ہماری مقامی حکومتیں اور نان پرافٹس نے جنگلاتی زمین کو ان میں سے کسی ایک فصل کی کھیتی میں بدلنے میں بڑا رول ادا کیا ہے۔


Now you eat it, now you don't_02_SD_DSC_0054.jpg

مقامی سطح پر ’گوڈا‘ کے نام سے مشہور، تغذئی عناصر سے بھرپور اس جڑ کو گرم پانی میں تب تک اُبالا جاتا ہے، جب تک اس کے چھلکے اتر نہ جائیں، اس کے بعد اندر کے حصے کو کھانے میں استعمال کیا جاتا ہے


’’آدیواسیوں کی نئی نسل بدل چکی ہے۔ روایتی علم اب ختم ہوتا جا رہا ہے۔ وہ پودوں کو دوبارہ اُگنے کے لیے وقت نہیں دیتے۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ شہر کے لوگ جو کھانا کھا رہے ہیں، وہیں بہتر کھانا ہے، وہ نہیں چاہتے کہ لوگ انھیں ’جنگلی‘ کہہ کر پکاریں۔‘‘

تین الگ الگ مقامات پر غذائی اجناس اکٹھا کرنے والے آدیواسی برادری کے لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا سیکھنے والا تجربہ تھا۔ ہمارے اوپر یہ بات واضح ہو گئی کہ جنگلات کے بارے میں ہر قبیلہ کا اپنا نظریہ اور اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی ایک خاص جگہ کو جانتا ہے، جس کے بارے میں اس کا ماننا ہے کہ وہاں پر بایو ڈائیورسٹی اب بھی زندہ ہے۔ وہ سب کے سب آسانی سے ایسی درجنوں اشیاء کو پہچان سکتے ہیں۔ ہم نے جب بھی وہاں کا دورہ کیا، کار سے ہی کیا، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ مقامی بایو ڈائیورسٹی (حیاتیاتی گوناگونی) ختم ہو رہی ہے؛ اگر یہ آدیواسی لوگ پیدل ان جگہوں پر جانا چاہیں، تو چند گھنٹوں میں وہاں پہنچ سکتے ہیں۔


Now you eat it, now you don't_SD_01_DSC_0100.jpg

’آنولہ‘، ایک ادویاتی پھل ہے جو ہاضمہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے


کھٹوڑی قبیلہ اب بھی جنگل سے غذائی اجناس جمع کر انھیں بیچتا ہے، جس سے ان کی کچھ آمدنی ہو جاتی ہے، لیکن چونکہ انھیں جنگلوں میں جانے سے روک دیا گیا ہے، اس لیے آج کل وہ ہاتھوں سے مزدوری کرکے اپنی زندگی چلانے پر مجبور ہیں۔ اس قبیلہ کے لوگ بنیادی طور پر راجستھان کے باشندہ نہیں ہیں۔ اُدے پور کے مہاراجہ ۷۰ سال قبل انھیں مہاراشٹر سے لے کر آئے تھے، تاکہ وہ کیکر کے پیڑ سے کتّھا نکال سکیں۔ کٹھوڑیوں کا حق تو چھین لیا گیا ہے، لیکن گڑاسیا نام کا ایک اور قبیلہ ہے، جو آدیواسیوں میں زیادہ مضبوط ہے۔ زیادہ تر گڑاسیوں کے پاس کھیتی لائق چھوٹی زمینیں ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ اپنے کھیتوں پر جنگلی بیجوں کو اُگانے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ قیمتی اجناس کو بچایا جا سکے اور ساتھ ہی انھیں جنگلوں میں بھی کم جانا پڑے۔


Now you eat it, now you don't_04_SD_DSC_0023.jpg

ناگ جی پَنروا کے جنگلوں میں پھل ڈھونڈ رہے ہیں


ناگ جی پِسارا اور ان کی بہن، کیسلی بائی، دونوں ہی گڑاسیا ہیں، کے ساتھ میں مانڈوا گاؤں گئی، جو پَنروا سے پانچ کلومیٹر دور ہے اور جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہاں بایوڈائیورسٹی زیادہ ہے۔ پنروا میں کیسلی بائی کی ایک چھوٹی سی دُکان ہے، جب کہ ناگ جی کے پاس کھیت ہے اور وہ ایک کسان ہیں۔ ناگ جی جنگل کی موجودہ حالت سے پرامید نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بعض جڑی بوٹیوں کو ڈھونڈنا اب کافی مشکل ہے۔ ’’اب، صرف تہواروں کے لیے جنگل سے غذائی اجناس کو جمع کیا جاتا ہے، یا آسانی سے پھل ڈھونڈنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔ صرف جلانے کی لکڑی ایسی چیز ہے، جسے ہر دن جمع کیا جاتا ہے۔‘‘


Now you eat it, now you don't_05_SD_DSC_0036.jpg

کیسلی بائی اپنے ہاتھ میں ایک پھل کو پکڑے ہوئے، جسے انھوں نے زمین سے کھود کر نکالا ہے


’’ان پودوں اور جڑی بوٹیوں کو زمین سے کھود کر نکالنے، صاف کرکے انھیں پکانے میں وقت لگتا ہے،‘‘ کیسلی بائی کہتی ہیں۔ لیکن ان کا ماننا ہے کہ اس کے تغذئی اور ادویاتی عناصر حاملہ عورتوں اور چھوٹے بچوں کے لیے مفید ہیں۔


Now you eat it now you dont_06_SD_DSC_0060.jpg

’ہُویری‘، کھانے میں استعمال کی جانے والی ایک اور مقامی جڑ


رتن لال اور پونا رام ڈگاچا جنگلوں میں ہی پلے بڑھے۔ دونوں ہی گڑاسیا قبیلہ کے کسان ہیں، لیکن ان کا آپس میں خونی رشتہ نہیں ہے۔ وہ اب بھی جنگلاتی اشیاء جمع کرتے ہیں، لیکن ان کا زیادہ تر دھیان کھیتی پر ہی ہوتا ہے۔ پونا رام مقامی سیاست میں کافی سرگرم ہیں اور ساتھ ہی روایتی حکیم بھی، وہ دوا کے طور پر جنگلوں کی بہت سی جڑی بوٹیاں استعمال کرتے ہیں۔ ہم کٹاولی جھیڑ، یا پانی کا چشمہ، گئے، یہ وہ مقام ہے جس کے بارے میں ان کا ماننا ہے کہ یہاں بایوڈائیورسٹی اب بھی کافی مضبوط ہے۔


now you eat it now you dont_07_SD_DSC_0080.jpg

رتن لال ہمیں کیکٹس یا ’تھور‘ کے پتّے دکھاتے ہیں، جسے کھانے اور دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے


’’مجھے یاد ہے، ہم جنگلوں کی زیادہ تر چیزیں کھاتے تھے،‘‘ رتن لال بتاتے ہیں۔ ’’اب، پنروا میں رہنے والے لوگوں نے جنگلوں کا احترام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ وہ جو چاہتے ہیں اور جب چاہتے ہیں یہاں سے لے جاتے ہیں، انھیں بیچ کر صرف پیسہ کمانے کے لیے۔ اب سفید مُسلی جیسی چیز اس لیے غائب ہوتی جا رہی ہے، کیوں کہ لوگ اسے دوبارہ اُگنے میں جتنا وقت لگتا ہے، اتنا وقت دینا نہیں چاہتے۔ ہمارے گھروں کے آس پاس بھی زیادہ بایو ڈائیورسٹی نہیں بچی ہے، اس لیے ہمیں جب بھی کسی چیز کی ضرورت پڑتی ہے، تو یہاں آنا پڑتا ہے۔‘‘


Now you eat it now you dont_08_SD_DSC_0181.jpg

سفید مُسلی، ایک قیمتی اور غائب ہوتا ادویاتی پودا


دونوں نے ان لوگوں کے بارے میں بات کی، جو عام لوگوں کے استعمال کی چراگاہوں پر قبضہ کیے ہوئے ہیں اور انھیں اس بات سے ناراض نہیں ہیں کہ محکمہ جنگلات نے انھیں جنگل سے بے دخل کر دیا ہے۔ رتن لال آدیواسیوں کے مالکانہ اختیار اور جنگل پر مبنی سیاست کی نزاکت کو سمجھاتے ہیں۔ ’’کوئی بھی کسی کو جنگل میں جانے سے نہیں روکے گا، لیکن جنگل کے کچھ ایسے حصے ہیں جن کے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ وہ کس گروپ کا ہے۔ لوگوں کو واضح طور پر بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ فلاں فلاں درخت کس کے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’یہ درخت کئی دہائیوں سے میری فیملی کے پاس ہے، اس لیے ان پر جو بھی پھل لگے گا وہ ہمارا ہے‘۔‘‘ کچھ آدیواسیوں کو محکمہ جنگلات نے بعض چھوٹ دے رکھی ہے۔ انھیں کم مقدار میں جنگل سے پھل وغیرہ لے جانے کی آزادی ہے، جس کے لیے انھیں کوئی پریشان نہیں کرتا۔‘‘

موہن، گنگلا اور لکھما نائک، سبھی کٹھوڑی ہیں، کے ساتھ ہم ہیواڑی گئے۔ یہ وہ علاقہ ہے، جہاں ان کی برادری کے لوگ ہی زیادہ تر آتے ہیں۔


Now you eat it now you don't_09_SD_DSC_0160.jpg

بائیں سے دائیں: موہن، لکھما اور گنگلا نائک


’’چونکہ ہمیں کلو کے حساب سے پیسہ ملتا ہے،‘‘ موہن کہتے ہیں، ’’اس لیے ہمیں اتنا جمع کرنے میں ۱۵ دن لگ جاتے ہیں۔ یہ تھکا دینے والا کام ہے، کیوں کہ ہمیں جنگل کے کافی اندر جانا پڑتا ہے۔‘‘ کٹھوڑیوں کو جو رکاوٹیں آتی ہیں، اس سے وہ کافی ناراض ہیں۔ ’’جنگل سے ہم نے جو کچھ جمع کیا، اسے لے کر باہر نکل کر بیچنے سے پہلے ہمیں جنگلات میں تعینات افسروں کو پیسے دینے پڑتے ہیں۔‘‘ کئی دفعہ، وہ بتاتے ہیں، ’’ہم ان پودوں کی جگہوں کو بھول جاتے ہیں، کیوں کہ ہمیں ہماری آمد و رفت کو انھوں نے محدود کر دیا ہے، لیکن اس سے ہمیں کم سے کم چلنا پڑتا ہے۔‘‘


Now you eat it now you dont_10_SD_DSC_0019.jpg

اشوک جین اپنے جنرل اسٹور پر


’’کٹھوڑی جنگل پر کافی زیادہ منحصر ہیں اور ان کے ذریعہ ہائے معاش ختم ہوتے جا رہے ہیں،‘‘ اشوک جین کہتے ہیں جو پنروا میں ایک جنرل اسٹور کے مالک ہیں اور جو کٹھوڑیوں کے ساتھ ریگولر بزنس کرتے ہیں۔ یہ ان سے سامان خریدتے ہیں اور اس کو پروسیس کرنے کے بعد ۱۰ فیصد زیادہ قیمت پر بیچ دیتے ہیں۔ ’’وہ لوگ سال بھر میں تقریباً آٹھ مہینے جنگلاتی اشیاء جمع کرتے ہیں، لیکن اب سپلائی کم ہونے لگی ہے۔ شہر میں رہنے والے لوگوں کو جنگل میں اُگنے والی جڑی بوٹیاں اور غذائی اجناس چاہئیں، لیکن وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ ان اشیاء کو ڈھونڈنے، انھیں خشک کرنے، پروسیس اور پیک کرنے میں کافی وقت لگتا ہے۔ کٹھوڑی واقعی میں بڑی محنت کرتے ہیں، اور ہم انھیں مناسب قیمت ادا کرتے ہیں، لیکن تب، جب سامان اچھی کوالٹی کا ہو۔ جنگل سے جمع کی گئی مُسلی کی قیمت کھیت پر اُگائی جانے والی مُسلی سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔‘‘


now you eat it now you dont_11_SD_DSC_0017.jpg

مالا ، لال بیج جو ادویاتی تیلوں میں استعمال ہوتا ہے، کو جمع کرنا کافی مشکل کام ہے


آخرکار، ڈاکٹر لینا گپتا کہتی ہیں، جنگلات ہماری فوڈ سیکورٹی سے متعلق بہت سی پریشانیوں کو دور کر سکتے ہیں۔ ’’سب سے پہلے ہمیں اپنے جنگلوں کو بچانے کی ضرورت ہے، جس کے بعد ہی ماحولیاتی نظام کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔ مقامی برادریاں اب بھی بہت سی جنگلی جڑی بوٹیوں کا استعمال کرتی ہیں، ہمیں ان کے علم کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ جنگل میں پیدا ہونے والی غذائی اجناس کو جب ہم بڑے پیمانے پر فروغ دیں گے، تو اس سے ان کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ اس سے ایک جیسے کلچر کا بوجھ بھی کم ہوگا۔


now you eat it now you dont_12_SD_DSC_0026.jpg

آدیواسیوں کے ذریعہ جمع کیا گیا سوکھا آنولہ


لیکن، وہ افسوس کے ساتھ کہتی ہیں، ’’یہ نئی بات نہیں ہے۔ ہماری حکومتیں سب جانتی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے اس کے بارے میں کچھ کیا کیوں نہیں۔ ہو سکتا کہ وہ اسے چھوٹے پیمانے پر کر رہی ہوں، لیکن تباہی بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے، جسے روکنے کے لیے پالیسی کی سطح پر تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

روہت جین کا خصوصی طور پر شکریہ، جو ’بَے نِین روٹس‘کے بانی ہیں، یہ ایک آرگینک اسٹور اور کسانوں کا ایک گروپ ہے، کہ انھوں نے اس اسٹوری کو کرنے میں مدد کی؛ اور پنروا کے آدیواسیوں کا بھی بہت بہت شکریہ۔

Sweta Daga

Sweta Daga is a Bengaluru-based writer and photographer, and a 2015 PARI fellow. She works across multimedia platforms and writes on climate change, gender and social inequality.

Other stories by Sweta Daga
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez