کسی نے فون تو نہیں اٹھایا، لیکن ۳۰ سیکنڈ کی کالر ٹیون ریکارڈنگ اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے بج رہی تھی: ’’وائرس کو پھیلنے سے روکنا ممکن ہے... پابندی سے صابن سے ہاتھ دھوئیں، اور جو لوگ بیمار ہو سکتے ہیں، ان سے ۱ میٹر کی دوری بناکر رکھیں۔‘‘

جب میرے دوسری بار فون کرنے پر انہوں نے اٹھایا، تب بالا صاحب کھیڈکر اپنی کالر ٹیون سے ملے مشورہ کے ٹھیک برخلاف کر رہے تھے۔ وہ مغربی مہاراشٹر کے سانگلی ضلع میں کھیتوں میں گنّے کاٹ رہے تھے۔ ’’یہاں ہر کوئی کورونا وائرس کی وجہ سے خوفزدہ ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’ایک دن، میں نے دیکھا کہ ایک عورت زور زور سے رو رہی تھی کیوں کہ اسے فکر لاحق تھی کہ اسے یہ انفیکشن ہو جائے گا اور پھر اس کے بچوں کو بھی ہو جائے گا۔‘‘

اُنتالیس سالہ کھیڈکر کو جی ڈی باپو لاڈ کوآپریٹو چینی فیکٹری میں مزدوری پر رکھا گیا ہے – یہ مہاراشٹر کی متعدد فیکٹریوں میں سے ایک ہے جو ابھی بھی کام کر رہی ہے۔ چینی کو ’لازمی شے‘ کی فہرست میں رکھا گیا ہے، اس لیے ۲۴ مارچ کو وائرس کو روکنے کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے اعلان کردہ ملک گیر لاک ڈاؤن میں شامل نہیں ہے۔ اس سے ایک دن پہلے، مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ اُدھو ٹھاکرے نے ریاست کی سرحدیں بند کر دی تھیں اور ریاست کے اندر بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے پر روک لگا دی تھی۔

ریاست میں چینی کی کل ملاکر ۱۳۵ فیکٹریاں ہیں – ۷۲ کوآپریٹو ہیں اور ۶۳ پرائیویٹ، ریاست کے کوآپریٹو وزیر، بالا صاحب پاٹل بتاتے ہیں۔ ’’ان میں سے ۵۶ فیکٹریاں ۲۳ مارچ کو بند ہو گئیں، اور ۷۹ ابھی بھی چل رہی ہیں،‘‘ انہوں نے مجھے فون پر بتایا۔ ’’ان فیکٹریوں میں آنے والے گنّے کی ابھی بھی کٹائی چل رہی ہے۔ ان میں سے کچھ مارچ کے آخر تک گنّے کی پیرائی بند کر دیں گی، اور کچھ اپریل کے آخر تک کریں گی۔‘‘

ہر چینی فیکٹری کے کنٹرول میں گنے کے کھیتوں کا ایک متعینہ رقبہ ہوتا ہے۔ فیکٹریوں میں کام پر رکھے گئے مزدوروں کو اُن کھیتوں میں سے گنّے کاٹ کر فیکٹریوں میں پیرائی کے لیے جانا ہوتا ہے۔ یہ فیکٹریاں ٹھیکہ داروں کے ذریعے مزدوروں کو کام پر رکھتی ہیں۔

بارامتی کے پاس چھترپتی شوگر فیکٹری کے ٹھیکہ دار، ہنومنت منڈھے کہتے ہیں کہ وہ مزدوروں کو پہلے سے کچھ روپے دے کر ’بک‘ کر لیتے ہیں۔ ’’ہمیں یہ یقینی بنانا پڑتا ہے کہ موسم کے ختم ہونے تک وہ لوگ دی گئی پیشگی رقم کے برابر گنّے کاٹیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

File photos of labourers from Maharashtra's Beed district chopping cane in the fields and loading trucks to transport it to factories for crushing. Cane is still being chopped across western Maharashtra because sugar is listed as an 'essential commodity'
PHOTO • Parth M.N.
PHOTO • Parth M.N.

فائل فوٹو: مہاراشٹر کے بیڈ ضلع کے مزدور کھیتوں میں گنّا کاٹتے ہوئے اور فیکٹریوں میں پیرائی کے لیے بھیجنے کے لیے ٹرکوں پر لادتے ہوئے۔ مغربی مہاراشٹر میں ابھی بھی گنّے کی کٹائی چل رہی ہے کیوں کہ چینی کو ’لازمی اشیاء‘ کی فہرست میں رکھا گیا ہے

دھمکی بھرے ایک نوٹس میں، سانگلی کی چینی فیکٹری، جہاں کھیڈکر کام کرتے ہیں، نے ۱۸ مارچ کو اپنے ٹھیکہ دار کو لکھا کہ گنّے کا موسم ختم ہونے والا ہے اور مزدوروں کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ موسم ختم ہونے تک گنّے کاٹتے رہیں۔ ’’نہیں تو، آپ کو اپنا کمیشن اور گھر واپس جانے کا خرچ بھی نہیں ملے گا،‘‘ نوٹس کے آخر میں لکھا تھا۔

اس لیے ٹھیکہ داروں کو، مزدوروں کو کام کرتے رہنے کے لیے مجبور کرنا پڑتا ہے۔ منڈھے نے کہا کہ وہ خود بھی ایک کسان ہیں اور فیکٹری سے ملنے والا کمیشن نہیں چھوڑ سکتے۔ ’’وہ سب واپس جانا چاہتے ہیں،‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’لیکن بدقسمتی سے یہ ان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔‘‘

ہم نے جب ۲۷ مارچ کو فون پر بات کی، تب وہ مزدوروں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ میری بات ان میں سے کسی مزدور سے کروا سکتے ہیں۔ بیڈ کے پہاڑی پرگاؤں کے ۳۵ سالہ ماروتی مسکے بات کرنے کے لیے تیار ہوئے۔ ’’ہم اس وائرس سے بہت ڈرے ہوئے ہیں، خاص کر اس لیے کیوں کہ ہمیں کوئی نہیں بتا رہا ہے کہ یہ کیا چیز ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’وہاٹس ایپ پر ملنے والے پیغام خوف میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ ہم بس گھر واپس جانا چاہتے ہیں۔‘‘

۲۶ مارچ کو، مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ نے ایک عوامی خطاب میں مزدوروں سے کہا تھا کہ وہ جہاں ہیں وہیں رہیں، کیوں کہ سفر کرنے سے وائرس کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ’’ہم مزدوروں کا خیال رکھیں گے،‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’یہ ہماری ذمہ داری ہے، ہماری تہذیب ہے۔‘‘

اگر گنّا مزدور جہاں ہیں وہیں رہتے ہیں، تو ریاست کو ان کی دیکھ بھال کے لیے بہت بڑے قدم اٹھانے ہوں گے – مزدور بہت ہی کم آمدنی میں کام چلاتے ہیں اور زیادہ دنوں تک انتظار کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔

ان میں سے کئی لوگ اپنے گاؤں میں کسان بھی ہیں، ان کے پاس زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہیں، لیکن یہ زمین ان کے اہل خانہ کی پرورش کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ موسم کی فطرت تیزی سے بدلتی جا رہی ہے، بیجوں اور کھاد کی قیمت آسمان چھو رہی ہے، اور منافع گھٹتا جا رہا ہے۔ بیڈ اور احمد نگر کی سرحد پر واقع مُنگوس واڈے گاؤں میں کھیڈکر کے پاس تین ایکڑ زمین ہے، جس پر وہ بنیادی طور پر باجرا اُگاتے ہیں۔ ’’اب ہم اسے بیچتے نہیں ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’فصل بس ہماری فیملی کے کھانے کے لیے ہی ہوتی ہے۔ ہماری آمدنی پوری طرح سے اس مزدوری پر ہی منحصر ہے۔‘‘

Lakhs of workers from the agrarian Marathwada region migrate to the sugar factories of western Maharashtra and Karnataka when the season begins in November every year. They cook and eat meals while on the road
PHOTO • Parth M.N.
Lakhs of workers from the agrarian Marathwada region migrate to the sugar factories of western Maharashtra and Karnataka when the season begins in November every year. They cook and eat meals while on the road
PHOTO • Parth M.N.

مراٹھواڑہ کے زرعی علاقے سے لاکھوں مزدور مغربی مہاراشٹر اور کرناٹک کی چینی فیکٹریوں میں کام کرنے کے لیے ہر سال نومبر میں موسم کی شروعات ہونے پر مہاجرت کر جاتے ہیں۔ وہ لوگ راستے میں ہی کھانا پکاتے ہیں اور کھاتے ہیں (فائل فوٹو)

ان کی طرح، ہر سال نومبر میں موسم کی شروعات ہونے پر، مراٹھواڑہ کے زرعی علاقے سے لاکھوں مزدور مغربی مہاراشٹر اور کرناٹک کی چینی فیکٹریوں میں کام کرنے کے لیے مہاجرت کر جاتے ہیں۔ وہ لوگ وہاں رہ کر دن کے ۱۴ گھنٹے کام کرکے چھ مہینے تک گنّے کاٹتے ہیں۔

بالا صاحب اور ان کی بیوی، ۳۶ سالہ پاروتی، ۱۵ سال سے مہاجرت کر رہے ہیں۔ دونوں کھلے کھیتوں میں سو سے زیادہ دیگر مزدوروں کے ساتھ بنا رکے گنّے کاٹ رہے ہیں، جب کہ پورے ملک میں کئی لوگ لاک ڈاؤن میں اپنے گھروں کے اندر محفوظ بیٹھے ہیں۔ ’’ہم لوگ پریشان ہیں، اس لیے ہمیں یہ کرنا ہی پڑے گا،‘‘ بالا صاحب کہتے ہیں۔

چینی کی فیکٹریاں – جن میں سے زیادہ تر، بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر، ریاست کے طاقتور لیڈروں کی پراپرٹی ہیں – بہت منافع کماتے ہیں، جب کہ مزدوروں کو فی ٹن گنّا کٹائی کے صرف ۲۲۸ روپے ہی ملتے ہیں۔ بالا صاحب اور پاروتی دن میں ۱۴ گھنٹے کھیتوں میں محنت کرکے کل ملاکر ۲-۳ ٹن سے زیادہ گنّا نہیں کاٹتے۔ ’’چھ مہینے کے آخر تک، ہم دونوں مل کر ۱ لاکھ روپے تک کما لیتے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہم عام طور پر شکایت نہیں کرتے، لیکن اس سال، خطرہ بہت بڑا لگ رہا ہے۔‘‘

جب مزدور ہجرت کرتے ہیں، تب وہ گنّے کے کھیتوں میں عارضی جھونپڑیاں بناتے ہیں۔ تقریباً ۵ فٹ اونچی، یہ جھونپڑیاں گھاس سے بنی ہوتی ہیں، کچھ پلاسٹک سے ڈھکی، جس میں بس دو لوگوں کے سونے لائق جگہ ہوتی ہے۔ مزدور کھلے میں کھانا بناتے ہیں اور حوائج ضروریہ کے لیے کھیتوں میں جاتے ہیں۔

’’اگر میں آپ کو تصویریں بھیحجوں کہ ہم کس طرح سے رہتے ہیں، تو آپ لوگ حیران رہ جائیں گے،‘‘ بالا صاحب کہتے ہیں۔ ’’سماجی دوری بنانا تو ایک آسائش کی چیز ہے جو ہم برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘

’’تمام جھونپڑیاں پاس پاس بنی ہوئی ہیں،‘‘ پاروتی کہتی ہیں۔ ’’جھونپڑیوں میں یا کھیتوں میں، کہیں بھی، دوسرے مزدوروں سے ۱ میٹر کی دوری بناکر رکھنا ناممکن ہے۔ اوپر سے ہمیں ہر شام پانی بھرنا پڑتا ہے، اور ۲۵ عورتیں ایک ہی نل سے پانی بھرتی ہیں۔ اسی تھوڑے سے پانی کو ہم صفائی کے لیے، کھانا پکانے اور پینے میں استعمال کرتے ہیں۔‘‘

ان خراب حالات کے باوجود، کھیڈکر کہتے ہیں کہ وہ اس بارے میں زیادہ کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔ ’’چینی فیکٹریوں کے مالک بہت طاقتور ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہم میں سے کسی میں بھی ان کے خلاف بولنے یا اپنے حق کے لیے کھڑے ہونے کی ہمت نہیں ہے۔‘‘

The migrant workers install temporary shacks on the fields, where they will spend six months at a stretch. They cook food in the open and use the fields as toilets. Social distancing is a luxury we cannot afford', says Balasaheb Khedkar
PHOTO • Parth M.N.
The migrant workers install temporary shacks on the fields, where they will spend six months at a stretch. They cook food in the open and use the fields as toilets. Social distancing is a luxury we cannot afford', says Balasaheb Khedkar
PHOTO • Parth M.N.

مہاجر مزدور کھیتوں میں عارضی جھونپڑیاں بناتے ہیں، جہاں وہ چھ مہینے گزاریں گے۔ وہ لوگ کھلے میں کھانا بناتے ہیں اور حوائج ضروریہ کے لیے کھیتوں میں جاتے ہیں۔ ’سماجی دوری بنانا تو ایک آسائش کی چیز ہے جو ہم برداشت نہیں کر سکتے‘، بالا صاحب کہتے ہیں (فائل فوٹو)

چینی کی ہر فیکٹری میں کم از کم ۸ ہزار مزدور کام کرتے ہیں، دیپک ناگر گوجے بتاتے ہیں، جو بیڈ میں ایک کارکن ہیں، اور مہاجر گنّا مزدوروں کے اہل خانہ کے مسائل پر کام کر رہے ہیں۔ اگر آج ۷۹ فیکٹریاں کھلی ہوئی ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ ۶ لاکھ سے زیادہ مزدور سماجی دوری بنانے میں یا مناسب صفائی رکھنے میں ناکام ہیں۔ ’’یہ کچھ اور نہیں بلکہ مزدوروں کا غیرانسانی عمل ہے،‘‘ ناگرگوجے کہتے ہیں ’’چینی کی فیکٹریاں مزدوروں کو فوراً چھوڑ دیں، اور ان کی تنخواہیں نہیں کاٹی جانی چاہئیں۔‘‘

ناگرگوجے کے ذریعے مقامی میڈیا میں یہ ایشو اٹھانے کے بعد، مہاراشٹر کے چینی کمشنر، سوربھ راؤ نے ۲۷ مارچ کو ایک نوٹس جاری کیا کہ چینی ایک لازمی شے ہے، اس لیے لاک ڈاؤن کے قانون اس پر لاگو نہیں ہوتے۔ ’’اگر ریاست کو چینی کی ضرورت کے مطابق سپلائی کرنی ہے، تو فیکٹریوں کو کھلا رکھنا پڑے گا کیوں کہ وہیں سے خام مال آتا ہے۔ لیکن فیکٹروں میں گنّا کاٹنے والے مزدوروں کا بھی خیال رکھنا چاہیے،‘‘ نوٹس میں لکھا تھا، اور فیکٹریوں کو خاص ہدایت جاری کی گئی تھی۔

نوٹس میں فیکٹریوں سے مزدوروں کے لیے رہنے اور کھانے کا انتظام کرنے کے ساتھ سینیٹائزر اور مناسب صفائی رکھنے کے لیے پانی کا انتظام کرنے کو بھی کہا گیا تھا۔ ہدایتوں میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مزدور سماجی دوری بناکر رکھ پائیں۔

شائع ہونے کے بعد کی تحریر: اتوار، ۲۹ مارچ کو ۲۳ فیکٹریوں کے مزدوروں نے کام کرنا بند کر دیا تھا کیوں کہ ان فیکٹریوں نے ان میں سے کوئی بھی سہولت مہیا نہیں کرائی تھی۔

بالا صاحب کھیڈکر نے بتایا کہ ان کی فیکٹری کے مقامی مزدور اب بھی کام کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے اور ان کی بیوی جیسے مہاجر مزدوروں نے دو دن پہلے ہی کام کرنا بند کر دیا تھا۔ ’’یہ سب اور بھی زیادہ مشکل ہو گیا ہے کیوں کہ مقامی راشن کی دکانیں بھی ہم سے کنارہ کرنے لگی ہیں، اس خوف سے کہ ہمیں کورونا وائرس ہے،‘‘ انہوں نے بتایا۔ ’’ہم خالی پیٹ یہ کام نہیں کر سکتے۔ فیکٹری نے ہمیں ماسک یا سینیٹائزر نہیں دیے ہیں، لیکن کم از کم انہیں ہمارے کھانے کا انتظام تو کرنا چاہیے۔‘‘

مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez