ایس بندیپّا سے جس دن دوپہر کے وقت میری ملاقات ہوئی، وہ بگل کوٹ-بیلگام روڈ پر اپنی بھیڑوں کے ریوڑ کے ساتھ چل رہے تھے۔ وہ کسی کھیت کی تلاش کر رہے تھے جہاں تھوڑی دیر کے لیے اپنے جانوروں کے ساتھ ٹھہر سکیں۔ ’’ہمارا کام ایسے زمینداروں کو ڈھونڈنا ہے جو ہمیں اس لید (کھاد) کے لیے اچھے پیسے دیں جو میرے جانور کھیت کے لیے چھوڑتے ہیں،‘‘ انہوں نے کہا۔ یہ سردیوں کا موسم تھا، جب کروبا چرواہے اُس سفر پر ہوتے ہیں جس کی شروعات اکتوبر-نومبر سے ہوتی ہے، جب زرعی کام کم ہوتا ہے۔

تب سے لے کر مارچ-اپریل تک، کرناٹک کے مویشی پرور کروبا، جو درج فہرست قبیلہ کے طور پر درج فہرست ہیں، دو یا تین کنبوں کی جماعتوں میں ایک مقام سے دوسرے مقام پر جاتے ہیں، عام طور پر ایک ہی راستے سے، جس کی کل دوری ان کے اندازہ کے مطابق ۶۰۰ سے ۸۰۰ کلومیٹر کے آس پاس ہوتی ہے۔ ان کی بھیڑ بکریاں پرتی کھیتوں میں چرتی ہیں، اور چرواہے کسانوں سے جانوروں کی لید کے بدلے تھوڑی بہت رقم کماتے ہیں۔ بندیپّا کہتے ہیں کہ وہ ایک پڑاؤ میں کچھ دنوں تک ٹھہرنے کے بدلے اچھے زمیندار سے زیادہ سے زیادہ ۱۰۰۰ روپے کما لیتے ہیں۔ پھر وہ اگلے پڑاؤ کی طرف نکلتے ہیں، جہاں سے وہ اچھے سودے کا انتظام کرنے کے لیے ارد گرد کے کھیتوں کی تلاش کرتے ہیں۔ ماضی میں، انہیں غذائی اجناس، گڑ اور کپڑے جیسی اشیاء بھی ملتی تھیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ کسانوں کے ساتھ بات چیت کرنا اب مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

’’زمینداروں کی زمین پر [اب] اپنے جانوروں اور بچوں کے ساتھ رہنا آسان نہیں ہے،‘‘ نیلپّا چچڈی کہتے ہیں۔ میں ان سے بیلگام (اب بیلگاوی) ضلع کے بالی ہونگل تعلقہ میں بیل ہونگل-مُنا وَلّی روڈ کے پاس ایک کھیت پر ملا تھا، جہاں وہ ریوڑ کو قابو میں رکھنے کے لیے اسے رسی سے گھیر رہے تھے۔

لیکن یہ واحد تبدیلی نہیں ہے جس کا سامنا کروبا مویشی پرور کر رہے ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے ان کی بھیڑوں – جنوبی وسط ہندوستان کے دکن علاقے کے بیابان میں پالے جانے والے جانوروں – کے اونگ کی مانگ گھٹتی جا رہی ہے۔ مضبوط دکنی بھیڑیں زمین کی نیم خشک آب و ہوا کا سامنا کر سکتی ہیں۔ لمبے وقت تک، کروبا چرواہوں کی کمائی کا ایک بڑا حصہ موٹے طور پر کالے رنگ کے اونی کمبل کے لیے اون کی سپلائی سے آتا تھا، جسے مقام سطح پر کمبلی (اور مہاراشٹر اور آندھرا پردیش میں گونگڈی یا گونگلی ) کہا جاتا ہے۔ ان کی جانور کسانوں کو جو کھاد مہیا کراتے، وہ ان کی آمدنی کو بڑھانے کا کام کرتے تھے۔ آسانی سے اور مقامی سطح پر دستیاب فائبر کی شکل میں، اون مقابلتاً سستا تھا اور اس کی مانگ تھی۔

خریداروں میں بیلگاوی ضلع کے رام دُرگ تعلقہ کے گاؤں، دادی بھوی سلاپور کے بُنکر شامل تھے۔ کئی بُنکر بھی کروبا ہیں، جو اس برادری کے ذیلی گروپ ہیں۔ (کروباؤں کے پاس پکّے گھر اور گاؤں بھی ہیں، اور ان کے مختلف ذیلی گروپ مویشی پرور، بُنکر، کاشت کار وغیرہ ہیں)۔ وہ جو کمبل بُنتے تھے وہ کسی زمانے میں ملک کی مسلح افواج میں مقبول تھا، لیکن اب ان کی زیادہ مانگ نہیں ہے۔ ’’وہ اب سلیپنگ بیگ کا استعمال کرتے ہیں،‘‘ پی ایشورپّا بتاتے ہیں، جو ایک بُنکر ہیں اور دادی بھوی سلاپور میں ان کے پاس ایک گڑھے والا کرگھا ہے، جہاں ابھی بھی روایتی کالے کمبل کی بُنائی کی جاتی ہے۔

’’سستے متبادل کے سبب بھی دکنی اونٹ کی مانگ گھٹ رہی ہے، جن میں ملے ہوئے سنتھیٹک کپڑوں کے ساتھ ساتھ اون کی دیگر قسمیں بھی شامل ہیں، جن کی آج کل بازار میں باڑھ آئی ہوئے ہے،‘‘ دادی بھوی سلاپور سے تقریباً ۲۰۰ کلومیٹر دور، ہویری ضلع کے رانے بینّور قصبہ میں ایک دکان کے مالک دنیش سیٹھ کہتے ہیں۔

Left: Walking on major roads (here, the Bagalkot-Belgaum road) is not easy, and the animals often get sick or injured. Right: ‘Off road’ migration has its own difficulties due to the rugged terrain. And the pastoralists have to avoid any patches of agricultural land if they don’t have a grazing and manure agreement with that farmer
PHOTO • Prabir Mitra
Left: Walking on major roads (here, the Bagalkot-Belgaum road) is not easy, and the animals often get sick or injured. Right: ‘Off road’ migration has its own difficulties due to the rugged terrain. And the pastoralists have to avoid any patches of agricultural land if they don’t have a grazing and manure agreement with that farmer
PHOTO • Prabir Mitra

بائیں: مین روڈ (یہاں، بگل کوٹ- بیلگام روڈ) پر چلنا آسان نہیں ہے، اور جانور اکثر بیمار یا زخمی ہو جاتے ہیں۔ دائیں: بیابان علاقہ ہونے کے سبب ’روڈ سے ہٹ کر‘ چلنے کی اپنی پریشانیاں ہیں۔ اور مویشی پروروں کو زرعی زمین کے کسی بھی ٹکڑے سے بچنا پڑتا ہے اگر ان کا اس کسان کے ساتھ چرائی اور کھاد کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے

دو دہائی قبل، جب ان کنبلوں اور دریوں کی مانگ بہت تھی، تو بنُکر کروبا چرواہوں سے کچا اون ۳۰-۴۰ روپے فی کلوگرام خریدتے تھے۔ اب وہ اسے تقریباً ۸-۱۰ روپے میں حاصل کرتے ہیں۔ تیار کمبل مقامی دکانوں پر ۶۰۰ سے ۸۰۰ روپے میں بیچے جاتے ہیں، جب کہ چھوٹے سائز کی دریاں ۲۰۰ سے ۳۰۰ روپے میں۔ لیکن یہ آمدنی مویشی پروروں کے لیے کافی حد تک الگ الگ ہے۔ ایک فیملی جس کے پاس تقریباً ۱۰۰ جانور ہیں، میری بات چیت سے اندازہ ہے کہ وہ اون، کھاد اور جانوروں کی فروخت سمیت مختلف ذرائع سے پورے ایک سال میں تقریباً ۷۰ سے ۸۰ ہزار روپے کماتی ہوگی۔

اون سے ایک مستقل آمدنی حاصل کرنے کی کوشش میں، دادی بھوی سلاپور اور دیگر گاؤوں کے کئی کنبوں کی عورتوں نے، جو ابھی بھی سوت کاتتی اور بُنائی کرتی ہیں، سیلف ہیلپ گروپ بنایا ہے۔ ان کی برادری کے مرد اب زیادہ تر زرعی کام پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔

اور خود کو مستحکم بنائے رکھنے کے لیے، کروبا بھی اصلاح کر رہے ہیں۔ بیلگاوی کے بیل ہونگل تعلقہ کے سمپ گاؤں بلاک کے میکل مرڈی گاؤں میں، جسمانی طور سے معذور کروبا بُنکر، دستگیر جمدار نے تھیلا اور دری بنانے کے لیے جوٹ، چمڑے اور اون کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ ’’ان مصنوعات کو مقامی بازاروں میں فروخت کیا جا سکتا ہے۔ کبھی کبھی بنگلورو کے خوردہ فروش آتے ہیں اور چھوٹے آرڈر بھی دیتے ہیں، لیکن مانگ غیر یقینی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

کچھ مویشی پرور معاش حاصل کرنے کے لیے اب اپنے جانوروں کو گوشت اور دودھ کے لیے فروخت کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ ریاستی حکومت چونکہ (کرناٹک بھیڑ اور اون ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے توسط سے) دکنی کے علاوہ  دیگر بھیڑوں کی نسلوں کو فروغ دے رہی ہے، جیسے کہ لال نیلور، ییلگو اور مڈگیال، جو اون سے زیادہ گوشت کی پیداوار کر سکتی ہیں، اس لیے کچھ کروبا بھی ان نسلوں کی زیادہ افزائش کرنے لگے ہیں۔ گوشت کی صنعت میں بھیڑ کے نر بچے سے اچھا پیسہ ملتا ہے – کبھی کبھی ۸۰۰۰ روپے تک۔ فروری ۲۰۱۹ میں کروبا مویشی پرور، پی ناگپّا نے تمکور ضلع کے سیرا شہر کے بھیڑ بازار میں تین مہینے کے ایک صحت مند میمنے کو فروخت کرکے ۶۰۰۰ روپے کمائے تھے۔ اور اس علاقے میں بکری کے دودھ کی بڑھتی صنعت سے، کچھ دکنی بھیڑ کے مالک اب دودھ کے لیے بکری کی افزائش پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔

ایک مقامی جانوروں کے ڈاکٹر نے، جو کرناٹک میں دو دہائیوں سے مویشی پرور گروہوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں، مجھے بتایا کہ کچھ کروبا اب یہ یقینی بنانے کے لیے کہ ان کے جانور صحت مند نظر آئیں، انہیں دل کھول کر دوا دیتے ہیں، اکثر جانوروں کے ڈاکٹر سے صلاح لیے بغیر، اور نااہل ڈیلروں سے دوائیں خریدتے ہیں۔

واپس بگل کوٹ-بیلگام روڈ پر، ایس بندیپّا مناسب کھیت کی اپنی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تقریباً ایک دہائی پہلے سے، شمالی کرناٹک کے کئی کسان آرگینک طریقوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور کیمیاوی کھادوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ نتیجتاً، اب بندیپّا اور دیگر چرواہوں کے لیے لید کی کھاد بھی معاش کا مستقل ذریعہ نہیں رہا، جو سال کے باقی دنوں میں اور زیادہ زرعی کام ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اور چونکہ کسانوں اور مویشی پروروں کے درمیان باہمی تال میل میں کمی آتی جا رہی ہے، اس لیے کچھ چرواہے اپنے جھنڈ اور سامان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ دوری کے لیے مہاجرت کر رہے ہیں – دوست کسانوں اور مسطح زمین کی تلاش میں پہلے سے کہیں زیادہ مشکل سفر کے لیے۔

Left: Some families hire vans to fit in their entire world as they migrate – their belongings, children, sheep and goats are all packed in. Bigger animals like horses are taken on foot separately to the new destinations. Right: Some families still journey on bullock carts. This is around Chachadi village in Parasgad block of Belagavi district
PHOTO • Prabir Mitra
Left: Some families hire vans to fit in their entire world as they migrate – their belongings, children, sheep and goats are all packed in. Bigger animals like horses are taken on foot separately to the new destinations. Right: Some families still journey on bullock carts. This is around Chachadi village in Parasgad block of Belagavi district
PHOTO • Prabir Mitra

بائیں: کچھ فیملی تو مہاجرت کرتے وقت اپنی پوری دنیا کو سمیٹنے کے لیے گاڑی کرایے پر لیتے ہیں – جس میں ان کے سامان، بچے، بھیڑ اور بکریاں سبھی آ جائیں۔ گھوڑے جیسے بڑے جانوروں کو الگ سے پیدل نئے ٹھکانوں پر لے جایا جاتا ہے۔ دائیں: کچھ فیملی ابھی بھی بیل گاڑی پر سفر کرتے ہیں۔ یہ بیلگاوی ضلع کے پارس گڑھ بلاک کے چاچڈی گاؤں کے آس پاس ہے

PHOTO • Prabir Mitra

اکثر، دو یا اس سے زیادہ کنبے اپنے ریوڑ کی دیکھ بھال کی ذمہ داریاں آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔ وہ ایک توسیع شدہ فیملی کے طور پر رہتے ہیں اور دیوالی (اکتوبر-نومبر میں) کے بعد ایک ساتھ مہاجرت کرتے ہیں اور موسم بہار (مارچ-اپریل) تک اپنے گاؤوں لوٹتے ہیں

PHOTO • Prabir Mitra

وجے (۵) اور ناگ راجو (۸) کسی جانور کو ایک گروپ میں ہونے پر بھی آسان سے پہچان سکتے ہیں۔ ’یہ میرا سب سے اچھا دوست ہے‘، ناگ راجو مسکراتا ہے

Left: Young Vijay and Nagaraju accompanying their horse (the animals are used for carrying heavier loads), along with their father Neelappa Chachdi. Right: Setting up home in a new settlement after days on the road is an important task. Children chip in too. Vijay is only five, but pitches in readily
PHOTO • Prabir Mitra
Left: Young Vijay and Nagaraju accompanying their horse (the animals are used for carrying heavier loads), along with their father Neelappa Chachdi. Right: Setting up home in a new settlement after days on the road is an important task. Children chip in too. Vijay is only five, but pitches in readily
PHOTO • Prabir Mitra

بائیں: نوجوان وجے اور ناگ راجو اپنے گھوڑے کے ساتھ (ان جانوروں کا استعمال بھاری بوجھ ڈھونے میں کیا جاتا ہے)، ان کے والد نیلپّا چاچڈی بھی ساتھ میں ہیں۔ دائیں: سڑک پر کئی دنوں تک چلنے کے بعد نئی بستی میں گھر بنانا ایک اہم کام ہے۔ بچے بھی ہاتھ بٹاتے ہیں۔ وجے صرف پانچ سال کا ہے، لیکن خوشی سے کام میں لگ جاتا ہے

Often, two or more families divide the responsibilities of looking after their herds. They live as an extended family and migrate together after Diwali (in October-November) and return to their villages by spring (March-April).
PHOTO • Prabir Mitra
On a farm, Gayathri Vimala, a Kuruba pastoralist, is cooking food for her toddler while keeping an eye on her animals as they feed.
PHOTO • Prabir Mitra

بائیں: چرواہے بیلگاوی ضلع میں بلی ہونگل-مُنا ولّی روڈ سے ہٹ کر ایک کھیت پر اپنے ریوڑ کے ساتھ۔ جانوروں کی لید کی شکل میں کھاد خریدنے کا یہ ماحول دوست طریقہ کم ہوتا جا رہا ہے کیوں کہ بہت سے کسان اب کیمیاوی کھادوں کا استعمال کرنے لگے ہیں۔ دائیں: راستے میں ایک کھیت پر قیام کے وقت کروبا مویشی پرور، گایتری وِملا اپنے بچوں کے لیے کھانا پکا رہی ہیں، ساتھ ہی اپنے چارہ کھاتے ہوئے جانوروں پر نظر بھی رکھے ہوئی ہیں۔ رسی کا گھیرا ریوڑ کو ان کے نئے ’گھر‘ میں بند کرکے رکھتا ہے۔ مہاجرت کے راستے پر کہاں رکنا ہے، یہ طے کرتے وقت آبی ذریعہ بھی اہم ہے

PHOTO • Prabir Mitra

جب اگلے پڑاؤ پر جانے کا وقت ہوتا ہے، تو چھوٹے جانوروں کو قابو میں رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے، جیسے کہ بچوں کو سنبھالنا

During the migration walks, great care is taken to safeguard the wounded or ill animals – here, a wounded goat had occupied the front passenger seat of a van.
PHOTO • Prabir Mitra
Left: During the migration walks, great care is taken to safeguard the wounded or ill animals – here, a wounded goat had occupied the front passenger seat of a van. Right: Kurubas revere their animals, especially the horse; in Alakhanur village, a shepherd bows before the animal
PHOTO • Prabir Mitra

بائیں: مہاجرت کے دوران، زخمی یا بیمار جانوروں کی حفاظت کے لیے بہت احتیاط برتا جاتا ہے – یہاں، ایک زخمی بکری نے گاڑی میں سامنے والی سیٹ پر قبضہ جما لیا تھا۔ دائیں: کروبا اپنے جانوروں، خاص طور سے گھوڑے کے تئیں عقیدت رکھتے ہیں؛ الکھنور گاؤں میں، ایک چرواہا جانور کے سامنے جھکتا ہے

PHOTO • Prabir Mitra

کچھ گاؤوں میں، عورتوں نے اجتماعی طور سے دکنی اون سے بہتر آمدنی حاصل کرنے کے لیے ’سیلف ہیلپ گروپ‘ بنائے ہیں۔ دادی بھوی سلاپور میں، شنتوّا بیوور چرخہ پر کات رہی ہیں، ساوِتری اون کو سلجھا رہی ہیں، جب کہ لمّا بیوور کاتنے کی اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں

PHOTO • Prabir Mitra

گڑھے والے کرگھا کا استعمال روایتی طور سے دکنی کمبل کی بُنائی کے لیے کیا جاتا تھا۔ پی ایشورپّا اور ان کے بیٹے بیریندر کرگھے پر، نارائن کے ساتھ، جو تینوں نسلوں میں سب سے چھوٹا ہے

Left: In Mekalmardi village, in an effort to enhance his income, Dastagir Jamdar has been combining jute, leather and wool to improvise bags and other items. Right: Dinesh Seth, shop manager, checks the quality of a blanket. The average price of such blankets in the shops ranges between Rs. 800 and Rs. 1,500, and smaller rugs cost Rs. 400 to Rs. 600. But the demand for Deccani woollens has been steadily falling
PHOTO • Prabir Mitra
Left: In Mekalmardi village, in an effort to enhance his income, Dastagir Jamdar has been combining jute, leather and wool to improvise bags and other items. Right: Dinesh Seth, shop manager, checks the quality of a blanket. The average price of such blankets in the shops ranges between Rs. 800 and Rs. 1,500, and smaller rugs cost Rs. 400 to Rs. 600. But the demand for Deccani woollens has been steadily falling
PHOTO • Prabir Mitra

بائیں: میکل مرڈی گاؤں میں، اپنی آمدنی کو بڑھانے کی کوشش میں، دستگیر جمدار جوٹ، چمڑا اور اون کے ساتھ تھیلا اور دیگر مصنوعات بنانے میں جُٹ گئے ہیں۔ دائیں: دنیش سیٹ، دکان کے منتظم، کمبل کے معیار کی جانچ کرتے ہوئے۔ دکانوں میں ایسے کمبلوں کی اوسط قیمت ۸۰۰ سے ۱۵۰۰ روپے کے درمیان ہوتی ہے، اور چھوٹی دریوں کی قیمت ۴۰۰ سے ۶۰۰ روپے تک۔ لیکن دکنی اونوں کی مانگ لگاتار گھٹ رہی ہے

PHOTO • Prabir Mitra

یہ یقینی بنانے کے لیے کہ جانوروں کے بازار میں ان کے جانور صحت مند نظر آئیں، کچھ کروبا اب انہیں دل کھول کر دوا دیتے ہیں۔ مولارا بندیپّا جیسے مویشی پروروں نے، اکثر جانوروں کے ڈاکٹر سے مناسب صلاح لیے بغیر ہی، اپنے جانوروں کو دوائیں (پیٹ کے کیڑے کی دوا اور اینٹی بایوٹکس) دینی شروع کر دی ہیں

PHOTO • Prabir Mitra

کاکا ناگپّا اپنے ریوڑ کو سیرا کے بازار کی طرف لے جا رہے ہیں، اس امید میں کہ وہاں کچھ جانور فروخت ہو جائیں گے۔ ریاستی حکومت چونکہ دکنی کے علاوہ بھیڑوں کی دیگر نسلوں کو فروغ دے رہی ہے، اس لیے کچھ کروبا بھی ان نسلوں کو اب زیادہ رکھنے لگے ہیں۔ گوشت کی صنعت میں بھیڑ کے نر بچے کی سب سے زیادہ قیمت ملتی ہے

PHOTO • Prabir Mitra

جانوروں کو ایک ٹرک میں لادا جا رہا ہے، جنہیں منگل کو ٹمکور ضلع کے سیرا قصبہ کے بھیڑ بکریوں کے بازار میں لے جایا جائے گا

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Prabir Mitra

Prabir Mitra is a general physician and Fellow of The Royal College of Physicians, London, UK. He is an associate of the Royal Photographic Society and a documentary photographer with an interest in rural Indian cultural heritage.

Other stories by Prabir Mitra
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez