کلاوتی سونی کہتی ہیں، ’’بعض اوقات کوئی عورت مجھے فون کرتی ہے یا رات کو میرے گھر کسی مرد رشتہ دار کو کنڈوم کا پیکٹ لانے کے لیے بھیجتی ہے۔‘‘ خواتین کو ضروری اشیاء فراہم کرنے والی ٹیکری گاؤں کی اس ۵۴ سالہ ’ڈپو دیدی‘ کو اپنے یہاں کسی کے دیر رات آنے سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اتر پردیش کے امیٹھی ضلع کے اپنے گاؤں کے چھوٹے سے گھر کے برآمدے میں چارپائی پر بیٹھی وہ مذاق میں کہتی ہیں، ’’میں رات کو بھی کھلی رہتی ہوں۔‘‘ اپنے کام کے بارے میں کلاوتی کہتی ہیں، ’’اِتنی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔‘‘

گاؤں میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم سے ’ڈپو دیدی‘ سے متعلق سننے کے بعد ان سے ملنے کی خواہش نے ہمیں ان کے گھر تک پہنچا دیا۔ کلاوتی اپنے پوتے کو آواز دیتی ہیں، ’’ارے، جاؤ وہ بیگ لے آو۔‘‘ چند ہی لمحوں میں وہ چھوٹا بچہ دو منزلہ پکے گھر کے اندر سے پلاسٹک کی ایک تھیلی ہاتھ میں لیے دوڑتا ہوا آتا ہے، جو پوری طرح سے بھری ہوئی ہے۔ کنڈوم، سینیٹری نیپکن، مانع حمل گولیوں اور گھول کر پینے والے ری ہائیڈریشن کے پیکٹوں کا ایک مرکب بیگ سے باہر گرتا ہے۔ وہ انہیں چارپائی پر ایسے سجاتی ہیں جیسے کوئی نمائش لگائی جاتی ہے۔

وہ اس جملے کو بار بار دوہراتی ہیں، ’’اتنی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔‘‘ وہ ٹیکری کی ’ڈپو دیدی‘ کے کردار میں کیسے آئیں، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’پہلے میں ان گھر کے چھوٹے چھوٹے معاملات پر بات کرتی تھی۔ ہم ان کے گھر کے حالات، ساس کی شکایات، بچوں کے بارے میں تھوڑی بہت بات کرتے۔ میں ان کی باتیں تحمل سے سنتی۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ میں کافی باتونی ہوں۔ ان ملاقاتوں کے ذریعے میں نے آہستہ آہستہ یہ محسوس کرنا شروع کیا کہ تمام خواتین کو ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ پھر ایک دوسرے کی مدد کیوں نہ کی جائے؟ بس اتنا ہی ہے۔‘‘

ڈپو دیدی کی عرفیت ’ڈپو ہولڈر‘ سے آئی ہے۔ یہ اصطلاح صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والی ان خواتین کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو کمیونٹی میں ضروری سامان تقسیم کرتی ہیں اور صحت کے بہتر طور طریقوں کو فروغ دیتی ہیں۔ لیکن کلاوتی آنگن واڑی ورکر یا آشا (تسلیم شدہ سماجی صحت کارکن) نہیں ہیں، جو باضابطہ طور پر گاؤں میں ڈپو ہولڈر کے طور پر کام کرتی ہوں۔ نہ ہی وہ نیم حکیم (بغیر لائسنس یافتہ میڈیکل پریکٹیشنر) ہیں۔ وہ خواتین کی بنیادی تولیدی صحت کی نگہداشت کے لیے ضروری تقریباً ہر چیز کا ذخیرہ رکھتی ہیں۔ وہ خواتین سے ان کے جنسی اور تولیدی خدشات کے بارے میں بھی بات کرتی ہیں۔

Kalavati Soni, wearing the floral printed sari, with ASHA worker Vinita Soni to her right
PHOTO • Anubha Bhonsle
Some of the typical items that an ASHA carries to distribute – condoms, contraceptive pills, ORS sachets, iron supplements – are also found in Kalavati's bag
PHOTO • Anubha Bhonsle

بائیں: پھول دار پرنٹیڈ ساڑی میں ملبوس کلاوتی سونی کی دائیں طرف آشا ورکر ونیتا سونی کھڑی ہیں۔ دائیں: کلاوتی کے بیگ میں ایسے کچھ مخصوص آئٹم بھی مل جاتے ہیں جنہیں آشا ورکر تقسیم کرنے کے لیے لے کر چلتی ہیں – جیسے کہ کنڈوم، مانع حمل گولیاں، او آر ایس کے پاؤچ، آئرن کی گولیاں

کلاوتی کہتی ہیں، ’’[اس کام کے] ان ۱۵ برسوں کے دوران میں نے آشا کارکنوں کو سخت محنت کرتے اور تیزی سے تھکتے ہوئے دیکھا ہے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ جب ایک حاملہ خاتون کو آئرن کی گولیاں دینے آئی ایک آشا کارکن کی اس خاتون سے ملاقات نہ ہو سکی، تو میں نے اس سے کہا کہ وہ گولیاں میرے پاس چھوڑ جائے۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ میں گولیوں کی خوراک اس خاتون کو سمجھا دوں گی۔ یہ سب کچھ اسی طرح شروع ہوا تھا۔‘‘ انہیں صحیح تاریخ یاد نہیں ہے کہ انہوں نے گاؤں میں خواتین کی فعال طور پر کب سے مدد شروع کی۔

نوجوان دلہنوں کے علاوہ خاندان کے بزرگوں کے بیچ کام کرتے ہوئے انہوں نے ہر نسل کا اعتماد حاصل کیا ہے، اور ایک اہم اور خاص خلاء کو پر کیا ہے۔ میرے ذہن میں ایک ساتھ کئی سوالات گونج اٹھتے ہیں: خواتین اپنی خواہشات اور ان کی تکمیل، شریک حیات اور خاندان کے افراد کے ساتھ اپنے تعلقات، حمل، یا مانع حمل ادویات کے بارے میں کیسے بات کرتی ہیں؟ کیا وہ شرماتی اور جھجکتی ہیں، یا کھل کر بات کرتی ہیں؟ یہ بات چیت کہاں ہوتی ہے؟ کلاوتی وہ جگہ کیسے فراہم کرتی ہیں جہاں خواتین دوستی، سکون اور شاید اپنے جسم کے بارے میں معلومات حاصل کرتی ہیں؟

وہ کہتی ہیں، ’’دس سال پہلے ان چیزوں کے بارے میں بات کرنے میں وقت اور محنت لگتی تھی۔ گھر کے بزرگ [خواتین اور مرد] پیدائش میں وقفہ، ضبط تولید یا پوتے پوتیوں کے بارے میں بات چیت میں دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ وہ کہتے تھے ’بگاڑنے آ گئی ہماری بہو کو۔‘ لیکن اب چیزیں بدل گئی ہیں۔ نوجوان دلہنیں زیادہ باشعور اور متجسس ہو گئی ہیں۔ انہیں جب کنڈوم کی ضرورت ہوتی ہے تو مجھ سے مانگ لیتی ہیں۔‘‘ ان کی غیر رسمی گفتگو تولیدی حقوق کے پیغام کو زندہ رکھتی ہے۔ نوجوان دلہنوں کے ساتھ چائے کے کپ پر دوستانہ گفتگو میں کلاوتی چھوٹی موٹی معلومات فراہم کرتی رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں ان سے کہتی ہوں کہ اگر وہ صحت مند زندگی گزارنا چاہتی ہیں تو ان کے بچوں کے درمیان تین سال کا وقفہ ہونا چاہیے۔‘‘

’’ساسوں کی سوچ بھی بہتر ہوئی ہے،‘‘ اپنی ساس کو یاد کرتے ہوئے وہ مسکراتی ہیں۔ فروری ۲۰۲۰ میں ان کی ساس کا انتقال ہو گیا تھا۔ کلاوتی نے جب پہلی دفعہ گھر کے اندر ان چیزوں کا ذخیرہ کرنا شروع کیا تھا، تو وہ کنڈوم اور گولیاں چھپا کر رکھتی تھیں۔ وہ جو کام کر رہی تھیں ان کی ساس کو اچھا نہیں لگتا تھا۔ ان کی ساس کا خیال تھا کہ دوسرے لوگوں کے سونے کے کمروں اور ان کی مستقبل کی منصوبہ بندی میں مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حالانکہ اپنے آخری دنوں میں وہ کلاوتی کی حمایت کرنے لگی تھیں۔

Kalavati fills an important and intimate space working with young brides and elders in Tikari
PHOTO • Labani Jangi

ٹیکری میں نوجوان دلہنوں اور بزرگوں کے بیچ کام کرتے ہوئے کلاوتی نے ایک اہم اور خاص خلاء کو پر کیا ہے

’’انہیں لگتا تھا کہ ایک طرح سے یہ غیر ضروری کام ہے، اچھا کام نہیں ہے۔ جب میری شادی ہوئے زیادہ دن نہیں گزرے تھے، تو میرے یکے بعد دیگرے بچے پیدا ہوئے۔ پہلے جڑواں لڑکے اور پھر ایک لڑکی۔ جلد ہی میں تیسری دفعہ حاملہ ہو گئی تھی۔ اس کی بیچیدگیوں کی وجہ سے کئی دنوں تک مجھے درد رہا تھا۔ میں سوچتی کہ کاش کسی نے کچھ مشورہ دیا ہوتا یا میری رہنمائی کی ہوتی کہ مجھے کیا کرنا چائیے تھا۔ میں خود کو بے بس محسوس کر رہی تھی۔ میں نے تیسرا بچہ کھو دیا، جس کی وجہ سے مجھے بہت غصہ آیا،‘‘ اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کلاوتی واضح کرتی ہیں کہ وہ کیوں بنیادی معاوضے کے بغیر اپنی خدمات پیش کر رہی ہیں۔ وہ خود کہتی ہیں، ’’میں ایسا اس لیے کرتی ہوں کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ ہم سب کو اس کی ضرورت ہے، مثلاً ایک سہیلی کا مشورہ۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ اس کام میں انہیں آشا کارکن جیسا دباؤ یا ہدف نہیں ملتا ہے۔

صحت عامہ کے کارکنوں اور این جی اوز کے ملازمین (جو عام طور پر خالص طبی لحاظ سے تولیدی حقوق کے مسائل سے منسلک ہوتے ہیں) کے مقابلے میں ان کا طریقہ کار غیر رسمی ہے۔ لیکن کلاوتی اپنے لیے تراشے گئے کردار کی حدود کو اچھی طرح سمجھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’جب کسی عورت کو درد ہوتا ہے، یا اگر کوئی ایمرجنسی لاحق ہوتی ہے، تو وہ مجھے فون نہیں کرتی ہے۔‘‘ ایسے وقت میں وہ کسی آشا کارکن کے پاس جاتی ہے یا کسی پبلک ہیلتھ سنٹر میں۔

وہ آج بھی آشا کارکنوں کے ساتھ کام کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کنڈوم، گولیاں اور دیگر ضروری اشیاء کی تقسیم میں وہ ان کی مدد کرتی ہیں۔ ہر پندرہ دن میں ایک بار وہ اپنے گھر سے ۲۵ منٹ کی دوری پر واقع بھیٹوا بلاک کے ہیلتھ سنٹرسے مانع حمل ادویات لا کر اپنے گھر میں ان لوگوں کے لیے اسٹاک کرتی ہیں جنہیں ان کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ یہ اس وقت کام آتی ہیں جب گاؤں کی خواتین کو ہیلتھ سنٹر جانا مشکل ہوجاتا ہے۔ لوگ ان کے پاس کنڈوم اور سہیلی گولی (مانع حمل دوا) کے لیے آتے ہیں۔ کلاوتی کہتی ہیں، ’’میں انہیں ہمیشہ اپنے گھر میں رکھتی ہوں۔ لیکن میں لوگوں کے پاس جاکر بھی دیتی ہوں اور ضرورت پڑنے پر بہانہ بنا کر بھی دیتی ہوں۔‘‘

ہیلتھ سنٹر سے جو گولیاں وہ لیتی ہیں وہ مفت میں ملتی ہیں۔ تاہم، کنڈوم اور سینیٹری نیپکن وہ علاقے میں کام کرنے والے این جی اوز سے حاصل کرتی ہے، یا اپنے پیسوں سے مقامی فارمیسی سے خریدتی ہیں۔

Women of family in Tikari speaking to ‘depot didi’ Kalavati Soni and ASHA worker Vinita Soni
PHOTO • Anubha Bhonsle
During the lockdowns in 2020, Kalavati used to meet women secretly and give them contraceptive pills like Mala-N and Saheli, and condoms as well
PHOTO • Anubha Bhonsle

بائیں: ٹیکری میں ایک فیملی کی عورتیں ’ڈپو دیدی‘ کلاوتی سونی اور آشا کارکن ونیتا سونی کے بارے میں بتا رہی ہیں۔ دائیں: سال ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن کے دوران، کلاوتی خفیہ طریقے سے عورتوں سے ملا کرتی تھیں اور انہیں مالا-این اور سہیلی جیسی مانع حمل گولیوں کے ساتھ ساتھ کنڈوم بھی دیا کرتی تھیں

۲۰۲۰ کے لاک ڈاؤن کے مہینے ان کے لیے بڑے چیلنج بھرے تھے۔ باہر نکلنے پر پابندی کا مطلب یہ تھا کہ کلاوتی کو صرف مانع حمل ادویات کے لیے خواتین کی طرف سے روزانہ پانچ سے زیادہ کالیں آتی تھیں۔ کلاوتی کہتی ہیں، ’’مرد کسی چیز کے لیے باہر نہیں جا رہے تھے۔ کوئی کام نہیں تھا اور خواتین کو ڈر تھا کہ وہ حاملہ ہو جائیں گی۔ کئی حاملہ ہوئیں بھی۔ میں خفیہ طور پر ان سے باہر کھیتوں میں ملتی تھی، اور میرے پاس جب تک سپلائی تھی میں انہیں کنڈوم اور سہیلی گولی دیتی رہی۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ خواتین کی بھی خواہشات ہوتی ہیں اور ’’اس بات کا کوئی مقررہ وقت نہیں ہوتا کہ کب ان کی خواہشات بیدار ہو جائیں گی۔‘‘

’’مجھے راشن بندی کرنی پڑی۔ مانگ بڑھتی جا رہی تھی اور مجھے کچھ نہیں مل رہا تھا۔ میں کیا کرتی؟ گاؤں کی سات خواتین، جنہیں میں جانتی ہوں وہ حاملہ نہیں ہونا چاہتی تھیں، لاک ڈاؤن کے دوران وہ حاملہ ہو گئیں۔ آپ کیا کر سکتے ہیں؟‘‘ وہ دریافت کرتی ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ جب ملک میں لاک ڈاؤن نافذ ہوا تھا، تو حکام نے شاید ہی خواتین کے متعلق سوچا تھا۔ ’’کون سوچتا ہے ان سب چیزوں کے بارے میں کہ یہ بھی ضروری ہیں؟‘‘ کلاوتی کہتی ہیں۔

ان برسوں کے دوران تمام عمر کی خواتین نے اپنی زندگیوں، اہداف اور چیلنجوں کے بارے میں کلاوتی کے سامنے کھل کر بات کی ہے۔ کلاوتی پر ان کا بھروسہ پختہ ہوا ہے۔ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں، ’’میں تمام کہانیوں اور رازوں کی ڈپو ہولڈر بھی ہوں۔‘‘

پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتہ لگایا جا سکے۔

اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم zahra@ruralindiaonline.org کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی namita@ruralindiaonline.org کو بھیج دیں۔

مترجم: شفیق عالم

Anubha Bhonsle is a 2015 PARI fellow, an independent journalist, an ICFJ Knight Fellow, and the author of 'Mother, Where’s My Country?', a book about the troubled history of Manipur and the impact of the Armed Forces Special Powers Act.

Other stories by Anubha Bhonsle
Illustrations : Labani Jangi

Labani Jangi is a 2020 PARI Fellow, and a self-taught painter based in West Bengal's Nadia district. She is working towards a PhD on labour migrations at the Centre for Studies in Social Sciences, Kolkata.

Other stories by Labani Jangi
Translator : Shafique Alam
shafique.aalam@gmail.com

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam