اس کی بیٹی نے گدّے کے اوپر رکھی دوسری الماری سے پرانی کتاب نکالی۔ یہ کتاب اسے ایک عورت نے دی تھی، جو اس علاقے میں بچوں کے لیے دن کا اسکول اور رین بسیرا چلاتی ہے۔ اس نے بھانپ لیا تھا کہ بچی کو پڑھنے میں دلچسپی ہے، اس لیے اسے یہ کتاب دی تھی۔ ’’ماں، کیا میں تمہیں کہانی پڑھ کر سنا سکتی ہوں؟‘‘ نو سال کی پنکی ہاتھوں میں پھٹی کتاب پکڑے اپنی ماں کے بغل میں بیٹھ گئی اور ماں کے جواب کا انتظار کیے بغیر اپنی پسندیدہ کہانی، دی پیپر بیگ پرنسز پڑھنے لگی۔

بدبودار، اونچا نیچا گدّا جس پر وہ اپنی ماں کے ساتھ لیٹی تھی، اس چھوٹے سے بکس جیسے کیبن کی پوری جگہ کو گھیر لیتا تھا، جسے پنکی اپنا گھر کہتی تھی۔ اپنے دو بچوں کو اس قسم کا گھر دینے کے لیے سیتا کو ۶ ہزار روپے ماہانہ کرایہ دینا پڑتا تھا۔ اس نے نہ تو تحفظ دیا اور نہ ہی گرمی۔ یہ درحقیقت اس ٹھنڈی سڑک جیسا تھا، جہاں مکان مالکن نے ایچ آئی وی پازیٹو لڑکیوں کو نکال باہر کیا تھا۔ یہاں تک کہ نئی بیماری (کووڈ- ۱۹) کے اس برے دور نے بھی اسے نہیں روکا۔ پچھلے ہفتے سیتا کی قریبی دوست، روشنی کی باری تھی۔ اس نے پچھلی رات روشنی کو سڑک پر سوتے ہوئے تب دیکھا تھا، جب وہ سڑک کے دوسری طرف گاہک – جو اَب شاید ہی ملتے ہیں – کی تلاش میں فٹ پاتھ پر ٹہل رہی تھی۔ اور چٹکی میں وہ حال میں آ گئی۔ پیپر بیگ کی شہزادی، شہزادے کو آزاد کرانے کے لیے اجگر کا پیچھا کر رہی تھی، اور اس کی بیٹی کی آواز اس کے کانوں تک لگاتار پہنچ رہی تھی۔ قابل تنقید شہزادے سے ملاقات ہونے میں ابھی وقت تھا، اس لیے سیتا اپنے خیالوں میں دوبارہ گم ہو گئی۔

وہ اپنے ۱۵ سالہ بیٹے کے بارے میں مایوسی سے سوچتی رہی۔ ماضی میں وہ اس کی فکر میں راتیں گزارتی، یا اس کی تلاش میں پولس تھانوں سے لیکر ریلوے اسٹیشنوں تک کا چکر لگایا کرتی۔ یہ تیسری بار تھا جب وہ بغیر کچھ بتائے گھر سے چلا گیا، اور سب سے لمبے وقت تک گھر سے دور رہا۔ ایک ہفتہ گزر گیا، اس کا کوئی فون بھی نہیں آیا۔ وہ اس کے دل کی بے چینی کو جانتی تھی کہ وہ بھگوان کے منصوبہ کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے، اس کے صبر کا پیمانہ ٹوٹ چکا ہے اور اس تنگ گلی سے نکلنے کے لیے اس کی روح پھڑپھڑا رہی ہے۔ وہ سب کچھ جانتی تھی۔ وہ ۲۰ سال پہلے کا ٹرین ٹکٹ الماری میں پلاسٹک کے ایک تھیلے میں سنبھال کر رکھے ہوئے تھی۔ تھوڑی دیر کے لیے اس کے دل میں درد اٹھا۔ وہ مشکل سے ۱۲ سال کی تھی...

پنکی کی کہانی ختم ہو چکی تھی...

سدھنوا دیش پانڈے کی آواز میں یہ نظم سنیں

Sex workers in Kamathipura have been struggling to give their children a life of dignity. Here is a poem inspired by two stories about the realities faced by these women caught in a pandemic of misery
PHOTO • Aakanksha

کماٹھی پورہ

آسمان آتا ہے سکڑا ہوا
چار بائی چھ کے بکسے میں
ہمیشہ سرمئی
بغیر پروں والے جسم پھڑپھڑاتے ہیں
کھجوراہو کی گندی دیواروں پر
امید کا دم گھٹتا ہے
گندے پلاسٹک کے تھیلوں میں
بے توجہی کی شکار الماریوں سے۔
دھیرے دھیرے
وقت کی بدبودار مہک
جو کہیں پیچھے چھوٹ گئی تھی
گھستی ہے اس کی پسلی میں
وہ پہنتی ہے سوکھے زخم
اپنے جسم پر
خود سے کشیدہ کاری کیے ہوئے سرمئی
جیسے اسٹیل پرکوئلہ
اور کھلے میں انتظار کرتی ہے
چاندنی کو ہاتھ لہراتے ہوئے
آرامدہ چاندی کے لمس کا انتظار کرتی
فاک لینڈ روڈ کے
اندھیرے اور تنہا فٹ پاتھوں پر
جب کہ اس کا بیٹا کرتا ہے پیچھا پتنگوں کا
ہلکی روشنی والی سیاہ سڑکوں پر
اجنبی شہروں میں
اور اس کی بیٹی دیکھتی ہے خواب
گلابی رنگ کے
سیاہ و سفید دنیا میں رہتے ہوئے۔

آڈیو: سدھنوا دیش پانڈے، جن ناٹیہ منچ کے ایک اداکار اور ہدایت کار اور لیفٹ ورڈ بکس کے ایڈیٹر ہیں۔

اس نظم کا سبب بننے والی دونوں اسٹوریز پڑھیں: ’ہر کوئی جانتا ہے کہ یہاں لڑکیوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے‘ اور اتنا لمبا سفر، بار بار ۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Pratishtha Pandya

Pratishtha Pandya is a poet and a translator who works across Gujarati and English. She also writes and translates for PARI.

Other stories by Pratishtha Pandya
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez