سکھرانی سنگھ کو ایسا کوئی سال یاد نہیں ہے جب انہوں نے جنگل جاکر مہوا کے پھول جمع نہ کیے ہوں۔ ۴۵ سالہ سکھرانی کہتی ہیں، ’’میں چھوٹی عمر سے ہی اپنی ماں کے ساتھ جنگل جایا کرتی تھی۔ اب میں اپنے بچوں کو اپنے ساتھ لے جاتی ہوں۔‘‘ وہ صبح ۵ بجے گھر سے مہوا چُننے کے لیے نکل جاتی ہیں۔ مہوا صبح سویرے ہی درختوں سے ٹپکنے لگتا ہے۔ وہ وہاں دوپہر تک رہتی ہیں اور بڑھتی ہوئی گرمی میں ٹپکتے ہوئے مہوا کو جمع کرتی ہیں۔ گھر پہنچنے کے بعد وہ انہیں دھوپ میں خشک ہونے کے لیے زمین پر پھیلا دیتی ہیں۔

سکھرانی جیسے چھوٹے کسانوں کے لیے، جو مدھیہ پردیش کے اُمریا ضلع میں باندھو گڑھ ٹائیگر ریزرو کے قریب رہتے ہیں، مہوا کے پھول یقینی آمدنی کا ایک ذریعہ ہیں۔ مانپور بلاک میں واقع ان کے گاؤں، پراسی سے ۳۰ کلومیٹر دور، اُمریا بازار میں ایک کلو خشک مہوا فروخت کرنے سے سکھرانی کی ۴۰ روپے کی کمائی ہوتی ہے۔ ایک سیزن میں وہ تقریباً ۲۰۰ کلو تک مہوا جمع کر لیتی ہیں۔ مہوا کا یہ سیزن اپریل کے مہینے میں ۲-۳ ہفتے تک رہتا ہے۔ سکھرانی کہتی ہیں، ’’مہوا کا درخت ہمارے لیے بیش قیمتی ہے۔‘‘ پھولوں کے علاوہ مہوا کا پھل اور اس کی چھال بھی اپنی تغذئی اور ادویاتی خوبیوں کے سبب اہمیت رکھتی ہے۔

مہوا کے سیزن میں سکھرانی دوپہر میں ایک بجے کے آس پاس گھر لوٹتی ہیں اور اپنے شوہر اور پانچ بچوں کو کھانا پکاکر کھلاتی ہیں۔ پھر ۳ بجے کے آس پاس وہ اپنے شوہر کے ساتھ گیہوں کی فصل کاٹنے اور جمع کرنے جاتی ہیں۔ سکھرانی اور ان کے شوہر، جو گونڈ آدیواسی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، کے نام پر چار بیگھہ زمین (تقریباً ایک ایکڑ) ہے، جہاں وہ بارش کے پانی کے سہارے گیہوں کی کھیتی کرتے ہیں۔ عام طور پر یہ اناج فیملی کے کھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

Left: Mahua flowers ready to drop off the trees near Parasi village. Right: Sukhrani Singh near her mahua trees in the buffer zone of Bandhavgarh Tiger Reserve
PHOTO • Courtesy: Pritam Kempe
Left: Mahua flowers ready to drop off the trees near Parasi village. Right: Sukhrani Singh near her mahua trees in the buffer zone of Bandhavgarh Tiger Reserve
PHOTO • Priti David

بائیں: پراسی گاؤں کے پاس درخت سے ٹپکنے کے لیے تیار مہوا۔ دائیں: سکھرانی سنگھ، باندھو گڑھ ٹائیگر ریزرو کے بفر ژون میں مہوا کے اپنے درختوں کے پاس

پراسی گاؤں کے رہنے والے کمہار سُرجن پرجاپتی بھی جنگل میں جاکر مہوا جمع کرتے ہیں۔ کمہار ذات (اُمریا میں او بی سی کیٹیگری میں درج) سے تعلق رکھنے والے، ۶۰ سالہ سُرجن کہتے ہیں، ’’ایک تاجر گاؤں آکر مجھ سے مہوا خرید کر لے جاتا ہے اور کبھی کبھی میں اسے ہاٹ (مقامی بازار) میں فروخت کر آتا ہوں۔ یہ [مہوا] کافی مفید ہے۔ مٹی کے برتن بیچنے سے ملنے والے پیسوں کے سہارے تو زندگی نہیں چل سکتی۔ جب میں [دوپہر کو] گھر لوٹتا ہوں، تو پھر محنت مزدوری کی تلاش میں باہر جاتا ہوں۔ جب ان کے گھر میں نمک یا تیل ختم ہو جاتا ہے، تو اس کمی کو دور کرنے کے لیے وہ دو چار کلو مہوا فروخت کرتے ہیں۔

اُمریا میں مقامی لوگ کہتے ہیں کہ جنگل میں اگر درختوں کو کٹنے کی نوبت آ گئی، تو مہوا کے درخت کی باری سب سے بعد میں آئے گی۔ ضلع کی آدیواسی برادری، جن کے لیے مہوا کا درخت کافی اہمیت رکھتا ہے، کا ماننا ہے کہ اس کے رہتے کوئی بھوکا نہیں مرے گا۔ اس کے پھل اور پھول کھانے لائق ہوتے ہیں اور خشک مہوا کو پیس کر آٹا بنایا جاتا ہے اور اس کا استعمال شراب بنانے میں بھی ہوتا ہے۔

مدھیہ پردیش، اوڈیشہ، چھتیس گڑھ اور آندھرا پردیش میں کثرت سے پائے جانے والے مہوا کے درخت (مدھوکا لانگی فولیا) ان ریاستوں کی چھوٹی جنگلی پیداوار (ایم ایف پی) ہے۔ ٹرائبل کوآپریٹو مارکیٹنگ ڈیولپمنٹ فیڈریشن آف انڈیا (ٹرائیفیڈ) کے مطابق مدھیہ پردیش، اوڈیشہ اور آندھرا پردیش کے ۷۵ فیصد سے زیادہ آدیواسی کنبوں میں مہوا کا پھول جمع کرنے کا کام ہوتا ہے اور اس سے ان کی سالانہ ۵۰۰۰ روپے تک کی کمائی ہوتی ہے۔

باندھو گڑھ کے ارد گرد رہنے والی برادریوں کو مہوا جمع کرنے کے لیے جنگل میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ مہوا کے درختوں سے اپریل کے مہینے میں پھول ٹپکنا شروع ہوتے ہیں

ویڈیو دیکھیں: ’مہوا کے درختوں میں اس بار کم پھول آئے ہیں‘

۱۵۳۷ مربع کلومیٹر کے دائرے میں پھیلے باندھو گڑھ ٹائیگر ریزرو کے ارد گرد رہنے والی برادریوں کو ہولی کے ٹھیک بعد، اپریل مہینہ کی شروعات میں درختوں سے ٹپکتا ہوا مہوا چُننے کے لیے جنگل میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ زیادہ تر بالغ، بچوں کے ساتھ جنگل میں آتے ہیں جو مہوا چُننے اور اسے ٹوکری میں جمع کرنے کے معاملے میں نسبتاً تیز اور پھرتیلے ہوتے ہیں۔

جنگل میں ہر ۱۰۰-۲۰۰ میٹر کی دوری پر درخت دیکھے جا سکتے ہیں۔ پھول آنے کے سیزن میں ہر درخت کی نچلی شاخ سے پرانے کپڑے لٹکا کر نشاندہی کی جاتی ہے۔ سُرجن بتاتے ہیں، ’’گاؤں کی ہر فیملی کو کچھ درخت تقسیم کیے گئے ہیں۔ یہ تقسیم کئی نسلوں قبل کی گئی تھی۔‘‘ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کبھی کبھی جن لوگوں کی درختوں سے اضافی آمدنی ہو جاتی ہے، وہ اس میں سے کچھ پیسے زیادہ ضرورت مند لوگوں کو دے دیتے ہیں۔

سال ۲۰۰۷ میں باندھو گڑھ کو ٹائیگر ریزرو قرار دیا گیا تھا اور نیشنل پارک – جو ابھی بنیادی ژون ہے – میں کسی بھی طرح کی انسانی سرگرمی پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اس کے ارد گرد لوگوں کے داخلہ کو محدود کرتے ہوئے بفر ژون بنایا گیا تھا۔ سُکھرانی کی فیملی اُن آدیواسی کسان کنبوں میں سے ایک ہے، جن کی قابل کاشت زمین نیشنل پارک سے ملحق تھی، بعد میں اسی میں بفر ژون بنایا گیا۔ وہ کہتی ہیں کہ پچھلی دہائی میں اُس زمین کو خالی چھوڑ دیا گیا ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’جنگل میں کوئی فصل نہیں بچتی۔ ہم نے جنگل میں اس لیے کچھ بھی اُگانا بند کر دیا کیوں کہ ہم فصل کی رکھوالی کے لیے وہاں نہیں جا سکتے۔ چنا اور ارہر کی دالوں کو بندر کھا جاتے ہیں۔‘‘

From the left: Durga Singh, Roshni Singh and Surjan Prajapati gathering mahua in the forest next to Parasi in Umaria district
PHOTO • Priti David
From the left: Durga Singh, Roshni Singh and Surjan Prajapati gathering mahua in the forest next to Parasi in Umaria district
PHOTO • Priti David
From the left: Durga Singh, Roshni Singh and Surjan Prajapati gathering mahua in the forest next to Parasi in Umaria district
PHOTO • Priti David

بائیں سے: دُرگا سنگھ، روشنی سنگھ اور سُرجن پرجاپتی اُمریا ضلع کے پراسی گاؤں کے قریب جنگل میں مہوا چُنتے ہوئے

باندھو گڑھ جب صرف نیشنل پارک ہوا کرتا تھا، تب آدیواسی کسان فصلوں کے سیزن میں کھیتوں کے آس پاس عارضی مچان بناکر رہتے تھے تاکہ جانوروں کو کھیتوں میں گھُسنے سے روکا جا سکے، لیکن اب ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اب یہ لوگ صرف مہوا جیسی چھوٹی جنگلی پیداوار جمع کرنے ہی بفر ژون تک جاتے ہیں۔ سُکھرانی بتاتی ہیں، ’’ہم صبح سویرے ہی گھر سے نکل جاتے ہیں۔ ہم تمام لوگ ساتھ چلتے ہیں، کیوں کہ اکیلے میں ہمیں راستے میں شیر مل جانے کا ڈر ستاتا ہے۔‘‘ حالانکہ وہ اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ انہیں کبھی بھی شیر کا سامنا نہیں کرنا پڑا، لیکن انہیں ایسا ہونے کا اندیشہ ہمیشہ رہتا ہے۔

صبح میں ساڑھے پانچ بجے، جب جنگل میں سورج کی روشنی بھی نہیں پہنچی ہوتی ہے، مہوا چُننے والے لوگ خشک پتوں کو جھاڑو لگا کر درختوں کے نیچے جمع کرتے ہوئے کام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ سُکھرانی کی ۱۸ سالہ بیٹی، روشنی سنگھ تفصیل سے بتاتے ہوئے کہتی ہیں، ’’مہوا کے پھولوں کا وزن اس کے پتّوں سے زیادہ ہوتا ہے، اس لیے جب ہم پتّوں کو جھاڑو لگاتے ہوئے ہٹاتے ہیں، تو وہ زمین پر ہی پڑے رہتے ہیں۔‘‘ روشنی نے اسکولی تعلیم ۲۰۲۰ میں مکمل کر لی تھی اور کالج میں داخلہ لینے کی امید لگائے بیٹھی تھیں، لیکن کووڈ۔۱۹ وبائی مرض پھیلنے کی وجہ سے انہیں اپنا پلان ملتوی کرنا پڑا۔ ۱۴۰۰ کی آبادی والے پراسی میں ۲۳ فیصد آبادی آدیواسی برادریوں کی ہے اور ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی شرحِ خواندگی ۵۰ فیصد سے کم ہے۔ لیکن اپنے گھر سے اسکول جانے والی پہلی فرد، روشنی بلند حوصلوں کے ساتھ اپنی فیملی سے پہلی بار کالج کی دہلیز تک پہنچنے کا خواب دیکھ رہی ہیں۔

صبح کی ٹھنڈی ہوا مہوا چُننے والوں کے لیے تھوڑی مشکلیں پیدا کرتی ہے۔ سُکھرانی کے ساتھ آئی ان کی ۱۷ سالہ بھتیجی دُرگا کہتی ہیں، ’’ہمارے ہاتھ جب ٹھنڈے ہوتے ہیں، تو جنگل میں زمین سے مہوا کے چھوٹے پھولوں کو چُننے میں تھوڑی مشکل ہوتی ہے۔ آج اتوار ہے اور اسکول کی چھٹی ہے، اس لیے میں اپنی چچی کی مدد کرنے آ گئی ہوں۔‘‘ پراسی گاؤں سے تقریباً دو کلومیٹر دور واقع سرکاری اسکول میں ۱۱ویں کی طالبہ دُرگا تاریخ، اقتصادیات، ہندی اور آرٹس جیسے مضامین پڑھتی ہیں۔ پچھلے سال لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند پڑا ان کا اسکول اس سال جنوری میں دوبارہ کھلا ہے۔

Left: Mani Singh and Sunita Bai with freshly gathered flowers. Right: Mahua flowers spread out to dry in their home in Mardari village
PHOTO • Priti David
Left: Mani Singh and Sunita Bai with freshly gathered flowers. Right: Mahua flowers spread out to dry in their home in Mardari village
PHOTO • Priti David

بائیں: منی سنگھ اور سُنیتا بائی تازہ اکٹھا کیے گئے مہوا کے پھولوں کے ساتھ۔ دائیں: مرداری گاؤں میں واقع ان کے گھر کے احاطہ میں دھوپ میں خشک ہونے کے لیے زمین پر پھیلائے گئے مہوا کے پھول

مہوا کے اونچے درختوں کی طرف سر اٹھا کر دیکھتی ہوئی سکھرانی اپنا سر ہلاتے ہوئے کہتی ہیں، ’’اس سال ہمیں زیادہ پیداوار نہیں ملے گی، اس کا آدھا بھی نہیں جتنا کہ عام طور پر ہم جمع کر لیتے تھے۔ خوف اور شک کے ملے جلے جذبہ سے لگائے گئے ان کے اندازہ سے اتفاق کرتے ہوئے سُرجن کہتے ہیں، ’’اس سال پھول گر ہی نہیں رہے ہیں۔‘‘ وہ دونوں کم پیداوار کے لیے ۲۰۲۰ میں ہوئی کم بارش کو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ لیکن، سُرجن جو کئی سیزن سے مہوا چُننے کا کام کر رہے ہیں، اسے اتنی بڑی دقت نہ کہتے ہوئے صرف ایک اور برا سال قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’کبھی پیداوار کم ہوتی ہے، تو کبھی زیادہ بھی ہوتی ہے۔ یہ ہمیشہ ایک جیسی تو نہیں ہو سکتی۔‘‘

پراسی سے تقریباً چھ کلومیٹر دور اور ٹائیگر ریزرو کے دوسری طرف واقع مرداری گاؤں میں منی سنگھ کے گھر کے احاطہ میں مہوا کے پھول دھوپ میں سوکھ رہے ہیں۔ ہرے اور سبز رنگ کے پھول دھوپ میں خشک ہوکر ہلکے نارنجی رنگ کے ہو جاتے ہیں۔ منی اور ان کی بیوی سُنیتا دونوں کی عمر پچاس سے زیادہ ہے۔ دونوں نے ہی صبح کا وقت جنگل میں اپنے پانچ درختوں سے ٹپک رہے پھول جمع کرنے میں گزارا ہے۔ ان کے بچے بڑے ہو گئے ہیں اور کہیں اور مصروف ہیں، اس لیے اس کام کے لیے صرف وہی دونوں جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس سال اکٹھا کرنے کے لیے اُتنے پھول ہیں ہی نہیں۔ ہمیں انہیں ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ پچھلے سال ہم نے ۱۰۰ کلو کے آس پاس مہوا جمع کیا تھا، لیکن اس سال مجھے نہیں لگتا کہ اس کا آدھا بھی مل پائے گا۔‘‘

منی، مہوا کے آٹے کو چارے کے ساتھ ملاکر اپنے دونوں بیلوں کو کھلاتے ہیں، جو اُن کی تقریباً ایک ایکڑ زمین کی جُتائی کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’اس سے وہ اور طاقتور ہو جاتے ہیں۔‘‘

مرداری ۱۳۳ گھروں پر مشتمل ایک چھوٹی سی بستی ہے، اور تقریباً ہر گھر میں مہوا سوکھنے کے لیے دھوپ میں پھیلایا گیا ہے جسے بعد میں بورے میں بھر کر رکھ دیا جاتا ہے۔ چندا بائی بیگا دوپہر کے بعد بچوں کے ایک جھنڈ کے ساتھ گھر لوٹتی ہیں، جس میں ان کے اور ان کے رشتہ داروں کے بچے شامل ہیں۔ ہر کسی کے ہاتھ میں مہوا سے بھری ہوئی ٹوکری ہے، جسے چُننے میں انہوں نے مدد کی ہے۔ وہ انہیں دوپہر کے کھانے کے لیے ہاتھ منہ دھونے کے لیے کہتی ہیں اور اس کے بعد بات چیت کرنے کے لیے بیٹھ جاتی ہیں۔

Left: Chandabai Baiga (in the green saree) and her relatives returning from the forest after gathering mahua. Right: Dried flowers in Chandabai's home
PHOTO • Priti David
Left: Chandabai Baiga (in the green saree) and her relatives returning from the forest after gathering mahua. Right: Dried flowers in Chandabai's home
PHOTO • Priti David

بائیں: چندا بائی بیگا (ہری ساڑی میں) اور ان کی رشتہ دار جنگل میں مہوا چُن کر لوٹتے ہوئے۔ دائیں: چندا بائی کے گھر کے احاطہ میں سوکھے ہوئے مہوا کے پھول

چندا بائی اور ان کے شوہر، وشوناتھ بیگا کی عمر چالیس سال سے زیادہ ہے اور وہ بیگا آدیواسی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈھائی ایکڑ کی اپنی زمین پر وہ زیادہ تر چاول اور ارہر اُگاتے ہیں، لیکن انہیں اگر کام ملتا ہے تو وہ منریگا کے تحت ملنے والا کام بھی کرتے ہیں۔

صبح کی محنت سے تھکی ہوئی چندا بائی کہتی ہیں، ’’اس بار ہم زیادہ مہوا جمع نہیں کر پائیں گے۔ ضرورت سے کم بارش ہونے کی وجہ سے اس بار پھول کم آئے ہیں۔‘‘ کم ہوتی پیداوار کی وجہ سے فکرمند ہوتے ہوئے وہ ہرنوں کی بڑھتی آبادی کو بھی قصوروار ٹھہراتی ہیں۔ ’’وہ سب کھا جاتے ہیں، خاص طور پر جو کچھ بھی رات کو درخت سے ٹپکتا ہے، اس لیے ہمیں صبح تھوڑا جلدی جانا پڑتا ہے۔ ایسا صرف میرے ساتھ ہی نہیں ہوتا، بلکہ یہ ہر کسی کی کہانی ہے۔‘‘

تقریباً ایک مہینہ بعد، مئی میں مرداری گاؤں سے فون پر بات کرتے ہوئے چندا بائی اپنی تشویش کے صحیح ثابت ہونے کی تصدیق کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’اس سال ۱۵ دنوں کے اندر ہی مہوا چُننے کا کام ختم ہو گیا۔ ہم اس بار صرف دو کوئنٹل [۲۰۰ کلو] ہی جمع کر پائے، جب کہ پچھلے سال یہ تین کوئنٹل سے زیادہ تھا۔‘‘ لیکن انہیں کم سپلائی کی وجہ سے قیمتوں میں آئی اُچھال سے تھوڑا سکون ملا ہے۔ ایک کلو مہوا کی قیمت ۳۵-۴۰ روپے سے بڑھ کر اس سال ۵۰ روپے ہو گئی ہے۔

سکھرانی اور سُرجن کے اندازہ کے مطابق، پراسی گاؤں میں بھی اس بار پیداوار کم ہی رہی۔ سُرجن نے اس بات کو تھوڑا فلسفیانہ انداز میں کہا تھا، ’’کبھی کبھی انسان کو پیٹ بھر کھانا نصیب ہوتا ہے اور کبھی نصیب نہیں ہوتا ہے۔ ہے نا؟ یہ ایک ہی سکہ کے دو پہلوؤں کی طرح ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔‘‘

مضمون نگار اس اسٹوری کو رپورٹ کرنے میں دلیپ اشوک سے ملنے والے بیش قیمتی تعاون کے لیے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. A journalist and teacher, she also heads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum, and with young people to document the issues of our times.

Other stories by Priti David
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez