یہ پینل تصاویر پر مبنی نمائش – ’کام ہی کام، عورتیں گُمنام‘ کا حصہ ہے، جس کے تحت دیہی خواتین کے ذریعے کیے جانے والے مختلف قسم کے کاموں کو دکھایا گیا ہے۔ یہ تمام تصویریں پی سائی ناتھ کے ذریعے سال ۱۹۹۳ سے ۲۰۰۲ کے درمیان ملک کی ۱۰ ریاستوں کا دورہ کرنے کے دوران کھینچی گئی ہیں۔ یہاں، پاری نے ایک انوکھے انداز سے تصویر پر مبنی اس نمائش کو ڈیجیٹل شکل میں پیش کیا ہے۔ پہلے یہ نمائش کئی سالوں تک ملک کے زیادہ تر حصوں میں طبیعی طور پر لگائی جاتی رہی ہے۔

اینٹ، کوئلہ اور پتھر

وہ صرف ننگے پیر ہی نہیں ہیں – بلکہ ان کے سر پر گرم اینٹیں بھی ہیں۔ ایک قطار میں چلتی یہ اوڈیشہ کی مہاجر عورتیں ہیں، جو یہاں آندھرا پردیش کی ایک اینٹ بھٹی میں کام کر رہی ہیں۔ باہر کا درجہ حرارت اس وقت ۴۹ ڈگری سیلسیس ہے، جو کہ ناقابل برداشت ہے۔ بھٹّی کے آس پاس، جہاں عورتیں زیادہ تر کام کرتی ہیں، وہاں اس سے بھی زیادہ گرمی ہے۔

دن بھر کام کرنے کے بعد ہر ایک عورت کو ۱۰ سے ۱۲ روپے مزدوری ملتی ہے، جو مردوں کی دن بھر کی ۱۵ سے ۲۰ روپے کی معمولی مزدوری سے بھی کم ہے۔ ٹھیکہ دار ’پیشگی‘ رقم دینے کے بعد اس قسم کے مہاجرین کی پوری فیملی کو یہاں لے کر آ جاتے ہیں۔ یہ قرض مہاجرین کو ٹھیکہ داروں سے باندھ دیتے ہیں اور اس طرح وہ اکثر ان کے بندھوا مزدور بن جاتے ہیں۔ یہاں آنے والے ۹۰ فیصد لوگوں کے پاس اپنی زمین نہیں بے یا وہ انتہائی غریب کسان ہیں۔

ویڈیو دیکھیں: پی سائی ناتھ کہتے ہیں، ’میں نے عورتوں کو ۹۰ فیصد وقت کام کرتے دیکھا۔ وہ سخت محنت والے کام کر رہی تھیں، جس کے لیے آپ کی پیٹھ مضبوط ہونی چاہیے‘

کم از کم مزدوری کے قانون کی کھلے عام خلاف ورزی کرنے کے باوجود، ان میں سے کوئی بھی مزدور کہیں فریاد نہیں کر سکتا۔ مہاجر مزدوروں کے لیے بنائے گئے پرانے قوانین انھیں تحفظ فراہم نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر، یہ قوانین آندھرا پردیش کے لیبر ڈپارٹمنٹ کو اڑیہ مزدوروں کی مدد کرنے پر مجبور نہیں کرتے۔ اور اوڈیشہ کے لیبر حکام کو آندھرا پردیش میں کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ اس بندھوا مزدوری کی وجہ سے، اینٹ بھٹوّں میں کام کرنے والی بہت سی عورتیں اور جوان لڑکیاں جنسی استحصال کا بھی شکار ہوتی ہیں۔

یہ اکیلی عورت (نیچے دائیں) مٹی اور کیچڑ والے جس راستے سے ہو کر جا رہی ہے، وہ کچرے کا میدان ہونے کے ساتھ ساتھ گوڈّا، جھارکھنڈ کی کھلی کوئلہ کان بھی ہے۔ اس علاقے کی دیگر کئی عورتوں کی طرح، یہ بھی اس کچرے میں سے فاضل کوئلہ چُنتی ہے، جسے کچھ پیسہ کمانے کے لیے گھریلو ایندھن کے طور پر فروخت کیا جا سکتا ہے۔ اگر ان جیسے لوگوں نے اسے نہیں چُنا، تو یہ کوئلہ بغیر استعمال کے کچرے میں اسی طرح پڑا رہے گا۔ ایسا کرکے وہ ملک کے لیے توانائی بچانے کا کام کر رہی ہیں – لیکن قانون کی نظر میں یہ جرم ہے۔

PHOTO • P. Sainath
PHOTO • P. Sainath

کھپریل بناتی یہ خاتون (نیچے دائیں) چھتیس گڑھ کے سرگوجا میں رہتی ہیں۔ ان کی فیملی نے اپنی چھت اس لیے گنواں دی، کیوں کہ وہ اپنا قرض ادا نہیں کر سکے تھے۔ ان کے پاس صرف اپنی چھت کی کھپریل ہی تھی، جسے بیچ کر وہ کچھ پیسے جمع کرتے اور قرض کی قسط چکا سکتے تھے۔ لہٰذا، انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اور اب یہ نئے کھپریل بنا رہی ہیں، تاکہ چھت سے پرانی کھپریلوں کو ہٹاکر انہیں لگا سکیں۔

تمل ناڈو کے پُڈوکوٹئی کی پتھر توڑنے والی یہ عورت (نیچے بائیں) انوکھی ہے۔ سال ۱۹۹۱ میں، وہاں کی تقریباً ۴ ہزار انتہائی غریب عورتیں پتھر کی اُن کانوں پر قبضہ کرنے پہنچ گئیں، جہاں پہلے کبھی وہ بندھوا مزدوری کرتی تھیں۔ اُس وقت کی مقامی انتظامیہ کے ذریعہ کڑے قدم اٹھانے سے یہ ممکن ہوا۔ نئی خواندہ عورتوں کے ذریعہ کی گئی منظم کارروائی نے اسے حقیقی جامہ پہنایا۔ اور پتھر کی کانوں کی ان عورتوں کی گھریلو زندگی ڈرامائی طور پر بہتر ہو گئی۔ سرکار نے بھی ان محنتی نئی ’مالکنوں‘ سے کافی پیسہ کمایا۔ لیکن یہاں کے ٹھیکہ داروں کو یہ پسند نہیں آیا اور انہوں نے اس پر بڑا دھاوا بول دیا۔ یہ وہی ٹھیکہ دار ہیں، جو اس علاقہ میں غیر قانونی طریقے سے پتھر نکالا کرتے تھے۔ کافی نقصان ہو چکا ہے۔ پھر بھی، بہت سی عورتیں اب بھی بہتر زندگی کے لیے اپنا جدوجہد جاری رکھے ہوئی ہیں۔

PHOTO • P. Sainath
PHOTO • P. Sainath

غروب آفتاب کی مخالف سمت میں ایک قطار میں چلتی یہ عورتیں (نیچے) گوڈّا کی کھلی کوئلہ کانوں سے ملحق کچرے کے میدان سے اپنے گھر کی طرف جا رہی ہیں۔ انہوں نے دن بھر میں جتنا ہو سکتا تھا، اُتنا فاضل کوئلہ چُنا، اور اس سے پہلے کہ مانسون کے بھرے بادل انھیں کیچڑ اور گیلی مٹی میں پھنسا دیں، وہ یہاں سے روانہ ہو رہی ہیں۔ کانوں اور کھدانوں میں کام کرنے والی عورتوں کی تعداد کی سرکاری گنتی بے معنی ہے۔ ایسا اس لیے ہے، کیوں کہ وہ غیر قانونی کانوں اور ان کے ارد گرد خطرناک کام کرنے والی خواتین مزدوروں کو شمار ہی نہیں کرتے۔ جیسے کہ یہ عورتیں، جو کچرے کے میدان سے باہر نکل رہی ہیں۔ اگر وہ خوش قسمت ہوں گی، تو دن ختم ہونے پر انہیں اس کے ۱۰ روپے مل جائیں گے۔

ساتھ ہی، انھیں کانوں میں کیے جانے والے دھماکہ، زہریلی گیسوں، چٹانوں کی غبار اور ہوا سے پیدا ہونے والے دیگر مضر ذرات کی وجہ سے بڑے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ، ۱۲۰ ٹن کے ڈمپر ٹرک کانوں کے کنارے آتے ہیں اور کھودی جا چکی کانوں کے ’اضافی بوجھ‘ یا اوپری مٹی کو یہاں پھینک کر چلے جاتے ہیں۔ اور کچھ غریب عورتیں اس مٹّی سے فاضل کوئلہ چُننے کی جلد بازی میں، ٹنوں مٹی سے دب جانے پر اپنی جان بھی گنواں سکتی ہیں۔

PHOTO • P. Sainath

مترجم: محمد قمر تبریز

P. Sainath
psainath@gmail.com

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez