جولائی ۲۰۲۱ میں جب ان کے گھر میں سیلاب کا پانی داخل ہو گیا تھا، تب شبھانگی کامبلے کو اپنا سامان چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا۔ حالانکہ، بھاگنے سے پہلے انہوں نے وہاں سے دو نوٹ بک اٹھا لیے تھے۔

کچھ ہفتوں اور مہینوں بعد، انہی دو نوٹ بک (ہر ایک میں ۱۷۲ صفحات) کی مدد سے وہ کئی لوگوں کی زندگیاں بچانے میں کامیاب رہیں۔

یہ وہ وقت تھا، جب مہاراشٹر کے کولہاپور ضلع میں واقع ان کا گاؤں ارجن واڑ پہلے سے ہی کورونا وبائی مرض جیسی ایک ایک آفت سے مقابلہ کر رہا تھا۔ اور، شبھانگی کی نوٹ بک میں گاؤں میں کورونا وائرس سے جڑی تمام اطلاعات – جیسے متاثرہ لوگوں کے موبائل نمبر، انکا پتہ، فیملی کے دیگر ممبران کی تفصیل، ان کی میڈیکل ہسٹری، ہیلتھ ریکارڈ وغیرہ کو بڑی صفائی کے ساتھ درج کیا گیا تھا۔

یہ ۳۳ سالہ آشا کارکن، جو ہندوستان کے قومی دیہی صحت مشن، ۲۰۰۵ کے تحت لاکھوں خواتین طبی ملازمین میں سے ایک ہیں، کہتی ہیں، ’’[گاؤں میں کیے گئے آر ٹی پی سی آر ٹیسٹ کی] رپورٹ سب سے پہلے میرے پاس آتی تھی۔‘‘ اپنی نوٹ بک کی مدد سے انہوں نے گاؤں میں ایک ایسے کورونا سے متاثرہ شخص کا پتہ لگایا جسے شیرول تعلقہ میں ایک سیلاب راحت کیمپ میں لے جایا گیا تھا، جس سے کم از کم ۵۰۰۰ دیگر لوگوں کے وائرس کی چپیٹ میں آنے کا خطرہ منڈلانے لگا تھا۔

وہ کہتی ہیں، ’’سیلاب کے سبب، کئی لوگوں کے فون بند ہو گئے تھے یا نیٹ ورک ایریا سے باہر ہو گئے تھے۔‘‘ شبھانگی، جو وہاں سے ۱۵ کلومیٹر دور تیرواڑ میں اپنے میکے میں تھیں، انہوں نے اپنی نوٹ بک سے کھنگال کر کیمپ میں کچھ دیگر لوگوں کے فون نمبر تلاش کیے۔ ’’میں کسی طرح مریض سے رابطہ کرنے میں کامیاب رہی۔‘‘

A house in Arjunwad village that was destroyed by the floods in 2019
PHOTO • Sanket Jain

تصویر: ارجن واڑ گاؤں کا ایک گھر، جو ۲۰۱۹ میں آئے سیلاب سے تباہ ہو گیا تھا

An ASHA worker examining the damage in the public health sub-centre in Kolhapur's Bhendavade village, which was ravaged by the floods in 2021
PHOTO • Sanket Jain
Medical supplies destroyed in the deluge
PHOTO • Sanket Jain

بائیں: کولہاپور کے بھونڈاوڈے گاؤں کے پبلک ہیلتھ سب سینٹر میں ہوئے نقصان کی جانچ کرتی ہوئی ایک آشا کارکن۔ یہ سینٹر ۲۰۲۱ میں سیلاب سے تباہ ہو گیا تھا۔ دائیں: سیلاب میں برباد ہوئے طبی آلات

انہوں نے قریب کے آگر گاؤں کے ایک کووڈ مرکز میں ایک بستر کا بھی انتظام کیا اور مریض کو جلد ہی وہاں داخل کر دیا گیا۔ وہ کہتی ہیں، ’’اگر میں نے اپنی نوٹ بک نہیں لی ہوتی، تو ہزاروں لوگوں کو انفیکشن ہو جاتا۔‘‘

یہ پہلی بار نہیں تھا، جب شبھانگی نے اپنے گاؤں کو ایک بڑے بحران سے بچایا تھا یا خود سے پہلے اپنے کام کو ترجیح دی تھی۔ اگست ۲۰۱۹ میں آئے سیلاب کے دوران اپنے مٹی کے گھر کے خستہ حال ہو جانے کے باوجود انہوں نے اس سے زیادہ اپنے کام پر توجہ دینا ضروری سمجھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں گرام پنچایت کی ہدایت کے مطابق پورے گاؤں کے نقصان کا سروے کرنے میں مصروف تھی۔‘‘

اس کے بعد، تین مہینے سے بھی زیادہ وقت تک وہ سیلاب میں زندہ بچے لوگوں سے بات کرنے اور ہر جگہ تباہی کا جائزہ لینے گاؤں بھر میں گھومتی رہی۔ انہوں نے جو دیکھا اور سنا اس سے وہ بہت پریشان ہوئیں۔ انہوں نے اپنے سروے میں ۱۱۰۰ سے زیادہ گھروں میں ہوئے نقصان کے بارے میں لکھا اور اس دوران وہ فکرمندی اور تناؤ محسوس کرنے لگی تھیں۔

وہ کہتی ہیں، ’’میں اپنی دماغی صحت کو نظرانداز کر رہی تھی۔ لیکن میرے پاس دوسرا راستہ ہی کہاں تھا؟‘‘

جب تک وہ سیلاب کے سبب پیدا ہوئے ذہنی تناؤ سے باہر نکلتیں، تب تک وہ ۲۰۲۰ میں کورونا راحت کیمپ میں کام کرنے لگی تھیں۔ اور جب وبائی مرض اپنے عروج پر تھا، تب بھی وہ جولائی ۲۰۲۱ میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کرنے کے لیے واپس آ گئی تھیں۔ شبھانگی کہتی ہیں، ’’ایک ہی وقت میں سیلاب اور کورونا وبائی مرض کو جھیلنا ایک ایسی آفت تھی جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔‘‘

حالانکہ، خود کی دماغی صحت کو لگاتار نظر انداز کرنے کا اثر کئی الگ شکلوں میں نظر آنے لگا۔

اپریل ۲۰۲۲ میں، انہیں اپنے نمونیا اور انیمیا (درمیانی سطح) میں مبتلا ہونے کا پتہ چلا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں آٹھ دنوں سے بخار جیسا محسوس کر رہی تھی، لیکن کام کی وجہ سے میں ان پریشانیوں کو نظر انداز کرتی رہی۔‘‘ ان کا ہیموگلوبن ۹ء۷ تک گر گیا، جو خواتین کے لیے نارمل سطح (۱۶-۱۲ گرام فی ڈیسی لیٹر خون) سے کافی نیچے تھا، اور انہیں اسپتال میں داخل کرانا پڑا۔

ASHA worker Shubhangi Kamble’s X-ray report. In April 2022, she was diagnosed with pneumonia and also moderate anaemia
PHOTO • Sanket Jain
Shubhangi walking to a remote part of Arjunwad village to conduct health care surveys. ASHAs like her deal with rains, heat waves and floods without any aids
PHOTO • Sanket Jain

بائیں: آشا کارکن شبھانگی کامبلے کی ایکس رے رپورٹ۔ اپریل ۲۰۲۲ میں انہیں اپنے نمونیا اور درمیانی سطح کے انیمیا سے متاثر ہونے کا پتہ چلا۔ دائیں: شبھانگی طبی دیکھ بھال کے سروے کے لیے ارجن واڑ گاؤں کے ایک دور دراز کے حصے میں جا رہی ہیں۔ ان کی جیسی آشا کارکنوں کو بغیر کسی مدد کے بارش، لو (گرم ہوا) اور سیلاب جیسے مسائل سے نمٹنا پڑتا ہے

دو مہینے بعد، جب وہ ٹھیک ہو رہی تھیں، ان کے گاؤں میں بھاری بارش ہوئی، اور شبھانگی نے ایک بار پھر سے پانی کی سطح کو تیزی سے بڑھتے ہوئے دیکھ کر تناؤ محسوس کرنا شروع کر دیا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’کبھی ہم بارش کا بے صبری سے انتظار کرتے تھے، لیکن اب ہر بارش کے ساتھ ہمیں ایک اور سیلاب کا ڈر ستاتا ہے۔ اس سال اگست میں پانی کی سطح اتنی تیزی سے بڑھ گئی تھی کہ میں کئی دنوں تک سو نہیں پائی۔‘‘ [یہ بھی پڑھیں: کولہاپور: موسمیاتی تبدیلی سے پریشان خواتین کھلاڑی ]

لگاتار علاج کے باوجود شبھانگی کا ہیموگلوبن لیول کم ہی رہتا ہے، انہیں چکر آنے اور تھکان کی بھی شکایت رہتی ہے۔ لیکن ان کے ٹھیک ہونے یا آرام کرنے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ایک آشا کارکن کے طور پر ہم سے یہ امید کی جاتی ہے کہ ہم لوگوں کی مدد کریں، لیکن ہم خود ہی پوری طرح تباہ ہو جاتے ہیں۔‘‘

*****

شیرول کے گنیش واڑی گاؤں کی ۳۸ سالہ آشا کارکن چھایا کامبلے ۲۰۲۱ کے سیلاب کو یاد کرتے ہوئے تفصیل سے ہمیں بتاتی ہیں، ’’بچاؤ کے کام میں لگی کشتی ہمارے گھر کے اوپر چل رہی تھی۔‘‘

شبھانگی کی طرح چھایا بھی پانی کی سطح کے کم ہوتے ہی کام پر لوٹ آئی تھیں۔ اپنے گھر کی ذمہ داریوں کو انہوں نے بعد کے لیے چھوڑ دیا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’ہم سبھی [گنیش واڑی کی چھ آشا کارکن] سب سے پہلے ذیلی مرکز گئے۔ چونکہ سیلاب نے عمارت کو نقصان پہنچایا تھا، اس لیے انہوں نے ایک گاؤں والے کے گھر میں ایک عارضی ذیلی مرکز بنایا۔

’’روزانہ لوگ نمونیا، ہیضہ، ٹائیفائڈ، جلد کے مرض، بخار وغیرہ جیسی بیماریوں کے ساتھ [ذیلی مرکز میں] آتے تھے۔‘‘ وہ پورے ایک مہینہ تک اپنا کام کرتی رہیں، اور وہ بھی تب جب انہیں ایک دن کی بھی چھٹی نہیں تھی۔

Chhaya Kamble (right) conducting a health survey in Ganeshwadi village
PHOTO • Sanket Jain

چھایا کامبلے (دائیں) گنیش واڑی گاؤں میں طبی سروے کر رہی ہیں

Chhaya says the changes in climate and the recurring floods have affected her mental health
PHOTO • Sanket Jain
PHOTO • Sanket Jain

بائیں: چھایا کہتی ہیں کہ موسمیات میں تبدیلی اور بار بار آنے والے سیلاب نے ان کی دماغی صحت کو متاثر کیا ہے۔ دائیں: یہاں وہ سروے کے ریکارڈ کو جمع کر رہی ہیں

چھایا کہتی ہیں، ’’سب کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر آپ کے اوپر بھی فرق پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے، ہمارے لیے کوئی دماغی صحت کی دیکھ بھال کی سہولت نہیں ہے۔ تو، ہم کیسے ٹھیک رہیں گے؟‘‘ جیسا کہ بعد میں پتہ چلا کہ ان کی صحت پر برا اثر پڑا تھا۔

ان کے تناؤ کی سطح لگاتار بڑھتی جا رہی تھی اور جلد ہی انہیں سانس لینے میں دقت ہونے لگی۔ ’’میں یہ سوچ کر نظر انداز کر رہی تھی، کیوں کہ مجھے لگا یہ کام کے زیادہ بوجھ کا نتیجہ ہے۔‘‘ کچھ ہی مہینوں میں پتہ چلا کہ چھایا دمہ کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ بہت زیادہ تناؤ کے سبب مجھے یہ ہوا ہے۔‘‘ ایسی بہت سی تحقیق دستیاب ہے، جن سے تناؤ اور دمہ کے آپسی رشتے کی تصدیق ہوتی ہے۔

حالانکہ دواؤں سے چھایا کو کچھ راحت ملی ہے، لیکن موسمیات میں تیزی سے ہو رہی تبدیلیوں کے بارے میں ان کی تشویش ختم نہیں ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر، اس سال مارچ-اپریل مہینے میں گرمی کی لہر کے دوران، انہیں چکر آنے لگے اور سانس لینے میں تکلیف ہو رہی تھی۔

وہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’یہ کام پر جانے کا سب سے مشکل وقت ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میری جلد جل رہی ہو۔‘‘ تحقیق میں پایا گیا ہے کہ اعلیٰ درجہ حرارت کاگنیٹو فنکشننگ یعنی آدمی کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتی ہے، یہاں تک کہ اس کی وجہ سے خودکشی کی شرح ، تشدد اور جارحیت جیسے معاملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

کئی دیگر آشا کارکن بھی چھایا جیسے مسائل کا سامنا کر رہی ہیں۔ کولہاپور واقع معالجاتی ماہر نفسیات شالملی رنمالے-کاکڑے کہتی ہیں، ’’یہ سب عجیب نہیں ہے۔ یہ سیزنل افیکٹو ڈس آرڈر [ایس اے ڈی] کی علامتیں ہیں۔‘‘

سیزنل افیکٹو ڈس آرڈر (ایس اے ڈی) ڈپریشن کی ایک قسم ہے، جو موسم میں تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ حالانکہ، ان علامتوں کو زیادہ تر اعلیٰ خط العرض پر واقع ممالک میں سردیوں کے دوران لوگوں میں دیکھا جاتا ہے، لیکن ہندوستان جیسے منطقہ حارہ ممالک میں اس ڈس آرڈر سے متاثرہ لوگوں کے بارے میں بیداری بڑھ رہی ہے۔

Shubhangi Kamble weighing a 22-day-old newborn in Kolhapur’s Arjunwad village
PHOTO • Sanket Jain

کولہاپور کے ارجن واڑ گاؤں میں شبھانگی کامبلے ۲۲ دن کے ایک نوزائیدہ بچے کا وزن کر رہی ہیں

Stranded villagers being taken to safety after the floods
PHOTO • Sanket Jain
Floodwater in Shirol taluka in July 2021
PHOTO • Sanket Jain

بائیں: سیلاب میں پھنسے گاؤں والوں کو بحفاظت نکالا جا رہا ہے۔ دائیں: جولائی ۲۰۲۱ میں شیرول تعلقہ میں سیلاب کا پانی

شبھانگی کہتی ہیں، ’’جیسے ہی موسم بدلتا ہے، مجھے تشویش ہونے لگتی ہے۔ مجھے چکر آنے لگتے ہیں۔ اتا مالا آجیبات سہن ہوئینا جھالے [میں اسے اب اور نہیں برداشت کر سکتی]۔ سیلاب سے متاثر تقریباً سبھی آشا کارکن کسی نہ کسی قسم کے تناؤ کا سامنا کر رہی ہیں، جس کے نتیجہ میں وہ طویل مدتی بیماریوں کا شکار ہو رہی ہیں۔ پھر بھی، اتنے لوگوں کو بچانے کے باوجود سرکار ہماری مدد نہیں کر رہی۔‘‘

ایسا نہیں ہے کہ طبی عہدیدار مسئلہ کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں۔ سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ کیا اس مسئلہ کے خلاف ان کا ردعمل کافی یا صحیح ہے؟

ڈاکٹر پرساد داتار، جو سیلاب متاثرہ ہات کنگلے تعلقہ کے تعلقہ ہیلتھ آفیسر ہیں، کہتے ہیں کہ سیلاب اور کورونا وبائی مرض کے بعد سے اس علاقے کے حفظان صحت سے متعلق ملازمین ’’کام کے بہت زیادہ بوجھ سے دبے ہوئے اور تناؤ میں مبتلا‘‘ ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’ان تشویشوں کو دور کرنے کے لیے ہم ہر سال آشا کارکنوں کے لیے ایک ثقافتی پروگرام منعقد کرتے ہیں۔‘‘

حالانکہ، کولہاپور کے شیرول تعلقہ میں رہنے والی آشا یونین لیڈر نیتر دیپا پاٹل کا ماننا ہے کہ یہ پروگرام ان کی کوئی مدد نہیں کر پا رہے ہیں۔ وہ آگے بتاتی ہیں، ’’جب میں نے عہدیداروں کو ہماری دماغی صحت سے متعلق تشویشوں کے بارے میں بتایا، تو انہوں نے اسے یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ ہمیں ایسے حالات سے نمٹنا سیکھنا ہوگا۔‘‘

رنمالے کاکڑے کہتی ہیں کہ آشا کارکنوں کو تھیراپی اور کاؤنسلنگ کی ضرورت ہے، تاکہ وہ تناؤ جیسے حالات کا سامنا کرنے کے قابل ہو سکیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’مدد کرنے والوں کو بھی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے، ہمارے معاشرہ میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ، وہ آگے کہتی ہیں کہ زمینی سطح پر کام کرنے والے کئی طبی ملازم ’دوسروں کی مدد‘ کرنے میں اتنے زیادہ مصروف ہوتے ہیں کہ وہ اکثر اپنی خود کی تھکان، افسردگی اور جذباتی بوجھ کی پہچان نہیں کر پاتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ بار بار تناؤ پیدا کرنے والے حالات (جیسے کہ مقامی ماحولیاتی پیٹرن میں تیزی سے ہو رہی تبدیلی) سے نمٹنے کے لیے شدید طبی مداخلت کی بار بار ضرورت پڑتی ہے۔

*****

بدلتے ماحولیاتی پیٹرن نے صرف ایک نہیں کئی الگ الگ شکلوں میں کولہاپور کی آشا کارکنوں کی دماغی صحت کو نقصان پہنچائی ہے۔

ASHA worker Netradipa Patil administering oral vaccine to a child at the Rural Hospital, Shirol
PHOTO • Sanket Jain
Netradipa hugs a woman battling suicidal thoughts
PHOTO • Sanket Jain

بائیں: شیرول کے دہلی اسپتال میں ایک بچہ کو اورل ویکسین دیتی ہوئی آشا کارکن نیتر دیپا پاٹل۔ دائیں: نیتر دیپا خودکشی کے خیالات میں مبتلا ایک عورت کو گلے لگا رہی ہیں

Rani Kohli (left) was out to work in Bhendavade even after floods destroyed her house in 2021
PHOTO • Sanket Jain
An ASHA checking temperature at the height of Covid-19
PHOTO • Sanket Jain

بائیں: سال ۲۰۲۱ کے سیلاب میں رانی کوہلی (بائیں) کا گھر تباہ ہو گیا تھا، اس کے بعد بھی وہ بھونڈاوڈے میں باہر جا کر کام کر رہی تھیں۔ دائیں: کورونا وبائی مرض کے عروج پر، ایک آشا کارکن درجہ حرارت کی جانچ کر رہی ہے

کام کے بہت زیادہ بوجھ کے باوجود، ہر ایک آشا کارکن ایک گاؤں میں ۱۰۰۰ لوگوں کے لیے ۷۰ سے زیادہ صحت کی دیکھ بھال کے کاموں کو سنبھالتی ہے، جس میں محفوظ طریقے سے حمل اور ہمہ گیر ٹیکہ کاری کو یقینی بنانا بھی شامل ہے۔ اتنے سارے اہم کاموں کو سنبھالنے کے بعد بھی ان طبی ملازمین کو بہت کم تنخواہ ملتی ہے اور ان کا استحصال ہوتا ہے۔

نیتر دیپا بتاتی ہیں کہ مہاراشٹر میں آشا کارکنوں کو ہر ماہ ۳۵۰۰ سے ۵۰۰۰ روپے کی معمولی تنخواہ دی جاتی ہے، اور وہ بھی کم از کم تین مہینے کی تاخیر سے ملتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’آج بھی ہمیں رضاکار سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ہم کم از کم اجرت اور دیگر سہولیات سے محروم رہ جاتے ہیں۔‘‘ آشا کارکنوں کو ملنے والے اعزازیہ کو حکومت ’کارکردگی پر مبنی ترغیب‘ کہتی ہے، جس کا معنی ہے کہ انہیں اپنی برادری میں کچھ مخصوص کاموں کو پورا کرنے پر ہی اجرت ادا کی جاتی ہے۔ کوئی متعینہ اجرت ہوتی نہیں ہے اور تنخواہ ایک ریاست سے دوسری ریاست میں الگ ہوتی ہے۔

اس وجہ سے، زیادہ تر آشا کارکن صحت عامہ کی دیکھ بھال سے متعلق اپنے کام کی آمدنی سے گزارہ نہیں کر سکتیں۔ مثال کے طور پر، شبھانگی اپنا گزارہ چلانے کے لیے زرعی مزدور کے طور پر بھی کام کرتی تھیں۔

وہ بتاتی ہیں، ’’۲۰۱۹ اور ۲۰۲۱ کے سیلاب کے بعد مجھے تین مہینے تک کوئی کام نہیں ملا، کیوں کہ سارے کھیت برباد ہو گئے تھے۔ بدلتے موسم کے ساتھ، بارش کی ترتیب بدل کر غیر متوقع ہو گئی ہے۔ حالات تو ایسے ہیں کہ اگر تھوڑے وقت کے لیے بارش ہوتی بھی ہے، تو سب کچھ برباد کر دیتی ہے۔ یہاں تک کہ زرعی مزدوری کا کام پانے کی ہماری امید بھی۔‘‘ جولائی ۲۰۲۱ میں، زبردست بارش اور سیلاب کے سبب کولہاپور سمیت مہاراشٹر کے ۲۴ ضلعوں میں ۴۳ء۴ لاکھ ہیکٹیئر فصلی رقبہ کو نقصان ہوا۔

سال ۲۰۱۹ کے بعد سے، لگاتار آنے والے سیلاب سے جائیداد کے برباد ہونے اور زرعی کام کے نقصان کی وجہ سے شبھانگی ساہوکاروں سے اعلیٰ شرح سود پر چھوٹے قرض لینے کو مجبور ہوئی ہیں۔ ابھی ان پر کل ایک لاکھ روپے کا قرض ہے۔ انہیں اپنا سونا بھی گروی رکھنا پڑا، اور وہ اب ۱۰ بائی ۱۵ فٹ کی ٹن کی جھونپڑی میں رہ رہی ہیں، کیوں کہ وہ پرانے گھر کی مرمت کا خرچ نہیں اٹھا سکتی تھیں۔

ان کے شوہر، ۳۷ سالہ سنجے بتاتے ہیں، ’’۲۰۱۹ اور ۲۰۲۱، دونوں سال ۳۰ گھنٹے سے بھی کم وقت میں ان کا گھر سیلاب کے پانی میں ڈوب گیا۔ ہم اپنا کچھ بھی نہیں بچا سکے۔‘‘ سنجے نے اب راج مستری کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا ہے، کیوں کہ زرعی مزدور کے طور پر زیادہ کام نہیں مل رہا ہے۔

After the floodwater had receded, Shubhangi Kamble was tasked with disinfecting water (left) and making a list (right) of the losses incurred by villagers
PHOTO • Sanket Jain
After the floodwater had receded, Shubhangi Kamble was tasked with disinfecting water (left) and making a list (right) of the losses incurred by villagers
PHOTO • Sanket Jain

سیلاب کے پانی کی سطح گرنے پر، شبھانگی کامبلے کو پانی جراثیم سے پاک کرنے (بائیں) اور گاؤں والوں کو ہوئے نقصان کی فہرست (دائیں) بنانے کا کام سونپا گیا تھا

اپنے خود کے نقصان اور تکلیف کے باوجود، شبھانگی زیادہ تر وقت آشا کارکن کے طور پر اپنے کام سے وابستہ بڑی بڑی ذمہ داریوں کو پورا کرتی رہیں۔

سیلاب سے ہوئے نقصان کا سروے کرنے کے ساتھ ساتھ، آشا کارکنوں کو پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے پینے کے پانی کے ذرائع کو جراثیم سے پاک کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ ان کے بہت سے کاموں کے لیے انہیں کوئی اجرت نہیں دی گئی۔ نیتر دیپا کہتی ہیں، ’’سیلاب کے بعد ہم نے جتنے بھی راحت پہنچانے والے کام کیے اور جس کی وجہ سے ہمیں بہت ساری ذہنی پریشانیاں ہوئیں، اس کے بدلے ہمیں کوئی اجرت نہیں دی گئی۔ یہ سب مفت کا کام (بیگار) ہے۔‘‘

شبھانگی کہتی ہیں، ’’ہمیں گھر گھر جا کر یہ پتہ لگانا تھا کہ کسی انسان میں پانی کی وجہ سے یا جراثیم کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں کی علامتیں تو نہیں ہیں۔ آشا کارکنوں نے بر وقت علاج کو یقینی بنا کر کئی لوگوں کی جان بچائی۔‘‘

اس کے باوجود، جب وہ خود اس سال اپریل میں بیمار پڑیں، تو انہیں حکومت سے بہت کم مدد ملی۔ وہ بتاتی ہیں، ’’ایک صحت عامہ کی دیکھ بھال والی کارکن ہونے کے باوجود، مجھے ایک پرائیویٹ اسپتال میں علاج کرانا پڑا اور ۲۲ ہزار روپے خرچ کرنے پڑے، جب کہ مجھے فوراً اسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت تھی۔ حالانکہ، انہیں عوامی ذیلی مرکز سے مفت فولک ایسڈ اور آئرن کی خوراک ملتی ہے، پھر بھی ہر مہینے انہیں اضافی دواؤں پر ۵۰۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔

چھایا، جو آشا کارکن کے طور پر ہر مہینے ۴۰۰۰ روپے کماتی ہیں، اور انہیں اپنی دواؤں پر ۸۰۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں، جنہیں وہ بہت مشکل سے خرید پاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’آخرکار ہم نے یہ مان لیا ہے کہ ہم سماجی کارکن ہیں۔ تبھی شاید ہمیں اتنی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘

سال ۲۰۲۲ میں، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے دور دراز کی برادریوں کو صحت عامہ کے نظام سے جوڑ کر صحت کی دیکھ بھال کو آسان بنانے کے لیے آشا کارکنوں کو گلوبل ہیلتھ لیڈرز ایوارڈ سے سرفراز کیا۔ چھایا کہتی ہیں، ’’ہمیں اس پر فخر ہے۔ لیکن، جب بھی ہم اپنے سینئر عہدیداروں سے اپنی تاخیر سے ملنے والی اور بے حد کم تنخواہ کے بارے میں کوئی سوال پوچھتے ہیں، تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم انسانیت کے لیے بہت بڑا کام کر رہے ہیں۔ وہ ہم سے کہتے ہیں، ’پیمنٹ چانگلا نہیں ملت، پن تمہالا پُنیہ ملتے [بھلے ہی تمہیں پیسہ نہیں ملتا ہے، لیکن لوگوں کی بہت دعائیں ملتی ہیں]‘۔‘‘

‘For recording 70 health parameters of everyone in the village, we are paid merely 1,500 rupees,’ says Shubhangi
PHOTO • Sanket Jain

شبھانگھی کہتی ہیں، ’گاؤں میں ۷۰ صحت کے پیمانوں کی بنیاد پر ہر کسی کا ریکارڈ درج کرنے کے بدلے، ہمیں صرف ۱۵۰۰ روپے ملتے ہیں‘

An ASHA dressed as Durga (left) during a protest outside the Collector’s office (right) in Kolhapur. Across India, ASHA workers have been demanding better working conditions, employee status, monthly salary and timely pay among other things
PHOTO • Sanket Jain
An ASHA dressed as Durga (left) during a protest outside the Collector’s office (right) in Kolhapur. Across India, ASHA workers have been demanding better working conditions, employee status, monthly salary and timely pay among other things
PHOTO • Sanket Jain

کولہاپور میں کلکٹر آفس (دائیں) کے باہر احتجاجی مظاہرہ کے دوران درگا کے لباس میں ایک آشا کارکن (بائیں)۔ ملک بھر میں آشا کارکن کام کرنے کے بہتر حالات، ملازم ہونے کی پہچان، ماہانہ تنخواہ اور وقت پر ادائیگی جیسے کئی دیگر مطالبات کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں

عالمی ادارہ صحت نے اپنے ایک پالیسی بریف کے ذریعے، زمین پر کام کرنے والے طبی ملازمین کی دماغی صحت پر ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے جڑا ایک بیحد اہم ایشو اٹھایا ہے۔ ’’غیر متوقع موسمی حالات کے بعد ڈپریشن، گھبراہٹ اور تناؤ جیسے خاص طرح کے دماغی صحت کے اثرات کو دیکھا گیا ہے۔‘‘

نیتر دیپا کہتی ہیں کہ ماحولیات سے متعلق واقعات، کام کے ناموافق حالات اور ان کی صحت کے تئیں اندیکھی نے مشترکہ طور پر آشا کارکنوں کی جسمانی اور دماغی صحت پر اثر ڈالا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’اس سال گرمی کی لہر جیسے حالات میں جب ہم سروے کرنے گئے، تو ہم میں سے کئی لوگوں نے جلد میں روکھے پن، جلن، اور تھکان کے بارے میں بتایا، لیکن ہمیں کوئی حفاظتی آلات نہیں دیے گئے۔‘‘

پونہ کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹراپیکل میٹیورولوجی (آئی آئی ٹی ایم) میں ماحولیاتی سائنس داں اور ماحولیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے بین حکومتی پینل کے ایک معاون، راکسی کول کا کہنا ہے کہ ہمیں ایک ’کلائمیٹ ایکشن پلان‘ کی ضرورت ہے، جو ایسے دنوں کے بارے میں معلومات فراہم کرے، جب گرمی کی لہر اور غیر متوقع موسمی واقعات اپنے عروج پر ہوں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمارے پاس آئندہ کئی سالوں سے لے کر دہائیوں تک کے تخمینی ماحولیاتی اعداد و شمار ہیں۔ اس لیے، ہمارے لیے ان علاقوں اور دن کے وقت کی پہچان کرنا ممکن ہے، جب مزدوروں کو دھوپ میں نہیں نکلنا چاہیے۔ یہ بہت بڑا کام نہیں ہے۔ ہمارے پاس تمام ضروری اعداد و شمار موجود ہیں۔‘‘

اس سمت میں کسی قسم کی سرکاری کوشش یا پالیسی کی کمی میں، آشا کارکن اس حالت سے نمٹنے کے لیے خود پر ہی منحصر رہنے کے لیے مجبور ہیں۔ اس لیے، شبھانگی اپنے دن کی شروعات موسم کی پیشن گوئی کے حساب سے کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں اپنا کام نہیں چھوڑ سکتی؛ میں کم از کم دن کے موسم کے حساب سے خود کو تیار رکھنے کی کوشش کر سکتی ہوں۔‘‘

یہ اسٹوری انٹرنیوز ارتھ جرنلزم نیٹ ورک کے ذریعے امداد یافتہ سیریز کا ایک حصہ ہے، جس کے تحت رپورٹر کو آزادانہ صحافتی گرانٹ فراہم کیا گیا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Sanket Jain

Sanket Jain is a journalist based in Kolhapur, Maharashtra. He is a 2022 PARI Senior Fellow and a 2019 PARI Fellow.

Other stories by Sanket Jain
Editor : Sangeeta Menon

Sangeeta Menon is a Mumbai-based writer, editor and communications consultant.

Other stories by Sangeeta Menon
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez